Jasarat News:
2025-11-12@23:27:46 GMT

یوکرین : روسی ڈرون کا شکار کرنے کیلیے مچھلی کا جال متعارف

اشاعت کی تاریخ: 13th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کیف (انٹرنیشنل ڈیسک) یوکرین نے روس کے تباہ کن ڈرون کا مچھلیوں کی طرح شکار کرنے کے لیے فرانس سے حیرت انگیز ٹیکنالوجی منگوا لی۔ فرانس کے عام ماہی گیری کے جال اب یوکرین کے آسمانوں میں روسی ڈرونز کا شکار کریں گے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق برطانوی خیراتی ادارے کرنک سولیڈیریٹیز نے فرانس سے ایسے جالوں کی 2 بڑی کھیپیں یوکرین بھیجی ہیں، جن کی مجموعی لمبائی 280 کلومیٹر ہے۔ برطانوی اخبار گارڈین کے مطابق یہ جال اب محاذِ جنگ پر فوجیوں اور شہریوں کو ڈرون حملوں سے بچانے کے لیے ایک غیر متوقع مگر مؤثر دفاعی آلہ بن چکے ہیں۔ روس کی جانب سے استعمال کیے جانے والے چھوٹے اور کم قیمت ڈرونز عام طور پر دھماکا خیز مواد سے بھرے ہوتے ہیں، جو دور سے 25 کلومیٹر تک مار کر سکتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں یوکرینی افواج ان جالوں سے سرنگ نما حفاظتی ڈھانچے تیار کر رہی ہیں، جن میں ڈرون کے پر الجھ کر نظامِ پرواز ناکام ہو جاتا ہے۔ ادارے کے لاجسٹکس سربراہ کرسچین ابازیو کے مطابق یہ جال دراصل گھوڑوں کے بال سے بنے ہوتے ہیں اور گہرے سمندر میں مچھلیاں پکڑنے کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن اب یہ جنگی میدان میں ڈرون کے حملے کی طاقت برداشت کرنے کے قابل ثابت ہو رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر ان جالوں کا استعمال طبی کیمپوں کی حفاظت کے لیے کیا گیا، تاہم اب انہیں سڑکوں، پلوں اور اسپتالوں کے داخلی راستوں پر بھی نصب کیا جا رہا ہے۔ یوکرین کی 93 ویں بریگیڈ کی رابطہ افسر ایرینا ریباکووا کے مطابق دونیتسک کے علاقے میں اب ہر جگہ ایسے جالی دار سرنگی نظام بنائے جا رہے ہیں،انہوں نے تسلیم کیا کہ روسی ڈرون آپریٹرز ان جالوں سے بچنے کی نئی ترکیبیں آزما رہے ہیں، تاہم ان کے بقول یہ کوئی جادوئی حل نہیں، لیکن ہماری حفاظت کے لیے ایک نہایت مؤثر رکاوٹ ضرور ہیں۔ دوسری جانب سوئیڈن اور ڈنمارک کے ماہی گیر بھی سیکڑوں ٹن پرانے جال یوکرین کو عطیہ کر رہے ہیں ۔

انٹرنیشنل ڈیسک گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے مطابق رہے ہیں کے لیے

پڑھیں:

یورپی علمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں اضافہ، اسرائیلی محققین دباؤ کا شکار

الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔  اسلام ٹائمز۔ امریکی روزنامہ نیویارک ٹائمز نے صحافی الیزابت بومیہ کی رپورٹ شائع کی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تئیس (23) اسرائیلی محققین کو ایک یورپی سائنسی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی، تاہم بعد میں اُن سے کہا گیا کہ وہ اپنی پیشہ ورانہ شناخت ظاہر نہ کریں۔ رپورٹ کے مطابق اس اقدام نے گی دی استیبل جو اسرائیلی آثارِ قدیمہ کونسل کے سربراہ ہیں، انہیں سخت برہم کر دیا۔ انہوں نے اس طرزِ عمل کو یورپی ضمیر کی تطہیر (European moral whitewashing) قرار دیا۔ اگرچہ کانفرنس کی منتظم انجمن نے بعد میں اپنے فیصلے سے پسپائی اختیار کر لی۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے مطابق یہ واقعہ اس بات کی علامت ہے کہ گزشتہ دو برسوں میں غزہ جنگ کے بعد یورپی یونیورسٹیوں کے رویّے میں اسرائیل کے بارے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ الیزابت بومیہ کی رپورٹ کے مطابق، بیلجیم، نیدرلینڈز، اسپین اور اٹلی کی جامعات اسرائیلی علمی اداروں کے بائیکاٹ کی مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان اداروں نے باضابطہ طور پر اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیے ہیں اور مؤقف اختیار کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی اقدامات پر خاموشی اب ناقابلِ قبول ہے۔ 

اس کے باوجود بعض یورپی جامعات اب بھی آزاد اسرائیلی محققین سے محدود سطح پر روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی محققین ان پابندیوں کو اسرائیل کی علمی حیثیت کو غیر معتبر بنانے کا حربہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹیاں حکومت سے آزاد ہیں، اور ان کے بہت سے اساتذہ نے غزہ میں نتن یاہو کی فوجی پالیسیوں پر کھل کر تنقید بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اب تک تقریباً پچاس (50) یورپی یونیورسٹیوں نے اسرائیلی اداروں کے ساتھ اپنے تعلقات مکمل یا جزوی طور پر منقطع کر دیے ہیں، جبکہ اسرائیلی حکومت کے اعدادوشمار کے مطابق ایک ہزار سے زائد علمی پابندیوں جن میں تبادلۂ پروگراموں کی منسوخی اور وظائف کی معطلی شامل ہے، ان کا اندراج کیا جا چکا ہے۔ امریکہ میں، یورپ کے برعکس، ابھی تک ایسے ادارہ جاتی بائیکاٹ نہیں دیکھے گئے۔ تاہم 2024 میں وہاں غزہ جنگ کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاجات دیکھنے میں آئے۔ دوسری جانب، ٹرمپ انتظامیہ کے تحت یہود مخالف رویّے کے الزامات کے خلاف سخت پالیسیوں نے کئی امریکی یونیورسٹیوں کو اسرائیل پر براہِ راست تنقید سے اجتناب پر مجبور کیا۔ اسرائیلی یونیورسٹی بن گوریون کے صدر نے ان اقدامات کو دردناک اور اجتماعی سزا کی ایک شکل قرار دیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی صارفین کیلئے ٹک ٹاک کے 3 نئے فیچرز متعارف
  • پیوٹن کا ’سوجا اور زخمی‘ ہاتھ، روسی صدر کس بیماری کا شکار ہوگئے؟
  • قصور، پولیس نے منشیات سپلائی کرنے والے بڑے نیٹ ورک کو پکڑ لیا، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
  • جنگی طیارہ چوری کرنے کا برطانوی منصوبہ ناکام بنادیا‘ روس
  • سعودی حکومت کا حج کے دوران جدید ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ
  • ٹک ٹاک نے کری ایٹرز کو بااختیار بنانے کے لیے نئے فیچرز متعارف کرا دیے
  • سعودی حکومت کا حج کے دوران جدید ڈرون ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا فیصلہ 
  • برطانوی ماہرین ڈرون کا مقابلہ کرنے کے لیے بلجیم پہنچ گئے
  • یورپی علمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ میں اضافہ، اسرائیلی محققین دباؤ کا شکار