مملکت نے 16ممالک پر برتری حاصل کی،100گورنمنٹ سروسز کا جائزہ لیا گیا،رپورٹ

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ سعودی عرب ای گورنمنٹ سروسزسیکٹر میں مشرقی وسطی کے ممالک میں سرفہرست ہے ۔

عرب ٹی وی کے مطابق نے اقوام متحدہ کے اکنامک اینڈ سوشل کمیشن برائے مغربی ایشیا کی 2024 بارے رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ سعودی عرب مسلسل تیسری مرتبہ انڈیکس میں پہلے نمبر پر ہے ،

2020 میں سعودیہ نے انڈیکس میں چوتھی پوزیشن حاصل کی، 2021 میں دوسرا نمبر پر رہا جبکہ سال 2022 اور 2023 میں انڈیکس میں سرفہرست رہا۔اس دوران تعلیم اور ڈیجیٹل ہیلتھ سیکٹرمیں ایپلی کیشنز کے ذریعے اپائنٹمنٹ اور ڈیجیٹل ڈاکٹری نسخوں کے اجرا کے حوالے سے نمایاں بہتری ریکارڈ کی گئی جبکہ آن لائن ایجوکیشن میں بھی بہتری سامنے آئی۔

انڈیکس کے مطابق مملکت نے 16 ممالک پر برتری حاصل کی جس کے تحت 100 گورنمنٹ سروسز کے بارے میں جائزہ لیا گیا۔گورنمنٹ سروسز کے حوالے سے سروے میں صارفین کی رضامندی اور بروقت جواب پر 99 فیصد نے مثبت رائے کا اظہار کیا۔ سدایا کے گورنر احمد السواحہ نے اس کامیابی کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ سرکاری اداروں میں تعاون، ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت کے استعمال اور سرکاری خدمات کی فراہمی کے لیے ڈیجیٹل سروسز کانتیجہ ہے ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: گورنمنٹ سروسز

پڑھیں:

مشرقِ وسطیٰ میں نئی اسٹرٹیجک صف بندی: اگلا ہدف کون؟

دنیا کی نظریں یوکرین، غزہ، اور دیگر بحرانوں پر مرکوز ہیں، لیکن مشرقِ وسطیٰ میں جو تبدیلیاں خاموشی سے رونما ہورہی ہیں، وہ ایک بڑے اسٹرٹیجک طوفان کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں، خاص طور پر ایران اور پاکستان کےلیے۔

اگر ہم خطے کا جغرافیہ دیکھیں، تو اسرائیل کی سرحد اردن سے ملتی ہے، اردن کی شام سے، شام کی عراق سے، اور عراق کی ایران سے۔ اس تسلسل میں ایران وہ آخری ملک ہے جو اب بھی اسرائیلی اسٹرٹیجک دائرہ اثر سے باہر کھڑا ہے۔ پاکستان، جو ایران کا ہمسایہ ہے، ایک فطری اگلا پڑاؤ بن جاتا ہے، اگر ایران بھی اس منصوبے کا شکار ہوگیا جس نے شام اور عراق کو مفلوج کردیا۔

اردن کا اسرائیل سے امن معاہدہ (کنگ حسین کے دور میں) اسرائیلی اثر کو اردن سے آگے شام تک لے آیا۔ شام میں موساد کی موجودگی کے بعد، خانہ جنگی کی ایک طویل اور پیچیدہ لہر پیدا کی گئی جس میں اسد حکومت کمزور ہوئی، ملکی فوج اور فضائیہ تباہ ہوئی، اور شامی ریاست عملی طور پر بیرونی طاقتوں کے رحم و کرم پر آگئی۔ آج شام کی فضا میں اسرائیلی جنگی طیارے بغیر کسی مزاحمت کے پرواز کرتے ہیں۔

ایران - عراق جنگ کے دوران 8 سال تک دونوں ممالک کو ایک دوسرے سے لڑایا گیا، جس کا سب سے بڑا فائدہ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اٹھایا۔ اس جنگ کے بعد عراق پر مسلسل دباؤ، کویت پر حملے کے بعد عالمی یلغار، اور آخرکار 2003 میں وسیع پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے الزام میں امریکی حملے نے عراق کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ صدام حسین کو انجام تک پہنچا دیا گیا اور عراق آج بھی داخلی انتشار سے دوچار ہے۔

یہ سب اقدامات اسرائیل کے اس ’’دفاعی‘‘ بیانیے کے تحت کیے گئے جس میں ہر مسلم ملک جو عسکری یا ایٹمی خودمختاری حاصل کرے، ’’علاقائی خطرہ‘‘ بن جاتا ہے۔

12 جون 2025 کو اسرائیل نے بغیر کسی پیشگی انتباہ کے ایران کے ایٹمی مراکز پر حملے کیے۔ ایرانی جرنیل اور سائنس دانوں کو نشانہ بنایا گیا، اور کھلے عام اعلان کیا گیا کہ یہ کارروائیاں اُس وقت تک جاری رہیں گی جب تک ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم نہیں ہوجاتا۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے یہاں تک کہا کہ اگر ایران نے دفاعی ردعمل دکھایا، تو تہران کو راکھ بنا دیا جائے گا۔

اس وقت اسرائیل اردن، شام، اور عراق کی فضائی حدود استعمال کر رہا ہے، بغیر کسی مزاحمت کے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ ایران کی اسٹرٹیجک تنہائی مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اگر ایران بھی ان ہی منظم مراحل سے گزرتا ہے جن سے شام اور عراق گزرے، تو پاکستان جغرافیائی طور پر اسرائیل کے براہِ راست دائرہ عمل میں آجائے گا۔ اس کے بعد جنگی طیاروں کی پرواز، عسکری تنصیبات پر حملے، اور تذلیل آمیز بین الاقوامی دباؤ، سب کچھ ممکن ہوجائے گا۔

حالیہ دنوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ بھارت نے اسرائیلی ساختہ ڈرونز، میزائل سسٹمز اور جدید جنگی ٹیکنالوجی کا کھلے عام استعمال کیا۔ بھارت اسرائیل کا آزمودہ اسٹرٹیجک اتحادی ہے، اور اس اتحاد کا مقصد صرف دفاعی تعاون نہیں بلکہ ایک خاص نظریاتی اور علاقائی بیانیہ کو آگے بڑھانا بھی ہے، جو جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ وقت جذباتی نعروں یا وقتی ردعمل کا نہیں، بلکہ ایک جامع، اسٹرٹیجک اور سفارتی صف بندی کا ہے۔ یہ صرف ایران یا فلسطین کی جنگ نہیں، یہ ایک بڑی بساط ہے، جس پر مہرے باری باری گرائے جا رہے ہیں۔ اب فیصلہ اس بات کا ہے کہ کیا ہم اگلا مہرہ بننے کےلیے تیار ہیں؟ یا صف بندی بدلنے کےلیے متحد ہوں گے؟

سعودی عرب، پاکستان، ایران، قطر اور متحدہ عرب امارات جیسے خطے کے مؤثر ممالک کو اب ذاتی، مسلکی، یا معاشی مفادات سے بالاتر ہوکر مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ کیونکہ یہ واضح ہوچکا ہے کہ دشمن کا ایجنڈا کسی ایک قوم یا ایک مسلک کے خلاف نہیں، بلکہ خطے کے تمام خودمختار اور طاقتور اسلامی ممالک کے خلاف ہے، صرف ترتیب مختلف ہے۔

اگر ہم نے آج اتحاد، خودشناسی، اور یکجہتی کا راستہ نہ اپنایا تو وہ وقت دور نہیں جب: ’’نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری… اور نہ ہوگی ہماری داستان، داستانوں میں‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • مشرق وسطیٰ میں بڑھتی کشیدگی پر تشویش، ایران کو دفاع کا حق حاصل ہے، اسحاق ڈار
  • مشرق وسطیٰ میں امریکا کے جنگی اثاثے کیا ہیں اور کہاں کہاں موجود ہیں؟
  • سعودی عرب اور روس کے درمیان براہ راست پروازوں کا آغاز
  • امریکا کا مشرق وسطیٰ میں بحریہ اور فضائیہ کے اثاثے منتقلی کا عمل جاری
  • اسرائیلی حملوں کا جواب اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق دے رہے ہیں: ایرانی وزیر خارجہ
  • مشرق وسطی کی صورتحال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس،ایران اسرائیل فوری جنگ بندی کا مطالبہ
  • اسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹرکے مطابق جواب دے رہے ہیں، ایرانی وزیر خارجہ کا انسانی حقوق کونسل میں خطاب
  • مشرقِ وسطیٰ میں نئی اسٹرٹیجک صف بندی: اگلا ہدف کون؟
  • مشرق وسطیٰ میں کشیدگی: چینی صدر نے اہم تجاویز پیش کر دیں
  • مشرق وسطیٰ کشیدگی: امریکا اور ایران کے درمیان خفیہ مذاکرات کا انکشاف