Daily Ausaf:
2025-09-23@13:11:55 GMT

ڈیجیٹل تعلیم اور کاغذ، قلم، کتاب

اشاعت کی تاریخ: 10th, May 2025 GMT

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دنیا جس تیزی سے ڈیجیٹل انقلاب کی جانب بڑھ رہی ہے، اسی رفتار سے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ٹیکنالوجی نے اپنی جگہ بنائی ہے۔ تعلیم کا میدان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں رہا۔ گزشتہ دہائی میں دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں ڈیجیٹل ذرائع کو اپنانے کا رجحان بڑھا، جس میں لیپ ٹاپس، ٹیبلیٹس، انٹرنیٹ اور ای کتابوں کا استعمال شامل تھا۔ ابتدائی طور پر ڈیجیٹل تعلیم کو علم تک آسان رسائی، جدید مہارتوں کے حصول اور عالمی معیار سے ہم آہنگی کا ذریعہ سمجھا گیا۔ لیکن جب تحقیق کی گئی، تو کئی تشویشناک حقائق سامنے آئے۔ سویڈن، جو ٹیکنالوجی میں ترقی یافتہ ممالک میں شمار ہوتا ہے، تعلیم میں ڈیجیٹل ذرائع کے استعمال میں بھی پیش پیش رہا۔ لیکن حالیہ برسوں میں سویڈن نے ایک غیر متوقع فیصلہ کیا۔ اس نے جدید ڈیجیٹل تعلیم کو خیرباد کہہ کر دوبارہ روایتی طریقۂ تعلیم کو اپنانے کا اعلان کیا ہے، جس میں کاغذ، پنسل، کاپی اور استاد کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ سویڈن کے ماہرین تعلیم اور پالیسی سازوں نے مشاہدہ کیا کہ ڈیجیٹل تعلیم کے زیادہ استعمال سے طلبہ کی بنیادی صلاحیتیں متاثر ہو رہی ہیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ مسلسل اسکرین کے سامنے بیٹھنے اور ڈیجیٹل ٹولز پر انحصار کرنے سے طلبہ کی تحریری مہارت، پڑھنے کی رفتار، توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت اور تجزیاتی سوچ کمزور ہو رہی ہے۔ علاوہ ازیں کم عمر بچوں میں ڈیجیٹل تعلیم کے باعث جسمانی سرگرمیاں کم ہو گئیں اور ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہونے لگے، جیسے کہ نظر کی کمزوری اور ذہنی دباؤ میں اضافہ۔ سویڈن کی حکومت اور تعلیمی اداروں نے ان نتائج کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ بچوں کی تعلیم میں بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے روایتی تدریسی ذرائع یعنی کتاب، کاپی، پنسل اور استاد کے براہِ راست تعلق کو دوبارہ بحال کیا جائے۔ یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا گیا کہ بچپن میں لکھائی کے ذریعے سیکھنے کا عمل دماغ کی بہتر نشوونما کرتا ہے، اور کتاب پڑھنے سے طلبہ کی زبان دانی اور فکری صلاحیتیں نکھرتی ہیں، جو محض اسکرین پر دیکھنے سے حاصل نہیں ہوتیں۔سویڈن کی نیشنل ایجنسی برائے تعلیم (Skolverket) کی رپورٹ کے مطابق کم عمر طلبہ میں اسکرین ٹائم کے بڑھنے سے نہ صرف ان کی پڑھنے اور لکھنے کی مہارت متاثر ہوئی، بلکہ ان میں توجہ مرکوز کرنے اور طویل مطالعہ کرنے کی صلاحیت بھی کمزور ہو گئی۔ ماہرینِ تعلیم نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ڈیجیٹل ٹولز کے باعث طلبہ کے درمیان سماجی رابطے کم ہو گئے اور استاد اور شاگرد کے درمیان فکری اور اخلاقی تربیت کا رشتہ کمزور پڑنے لگا۔ سویڈن کا یہ اقدام دنیا کے لیے ایک سبق ہے۔ جب ایک جدید اور ترقی یافتہ ملک ڈیجیٹل تعلیم کے نقصانات کو تسلیم کر کے واپس روایتی تعلیم کی طرف لوٹ رہا ہے، تو اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں توازن ضروری ہے۔ سویڈن نے یہ نہیں کہا کہ ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے، بلکہ اس کے استعمال کو محدود کر کے تعلیم کے بنیادی اصولوں کو مقدم رکھا جائے۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں ٹیکنالوجی حصول تعلیم کا ایک معاون وسیلہ ہے، نہ کہ تعلیم کا اصل متبادل۔ ترقی پذیر ممالک، خصوصاً وہ جہاں تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کی جدوجہد جاری ہے، ان کے لیے سویڈن کی پالیسی ایک مثال ہے۔ ہمیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اندھا دھند ڈیجیٹل ذرائع کو اپناتے ہوئے اپنی نئی نسل کو بنیادی علمی صلاحیتوں سے محروم تو نہیں کر رہے؟ تعلیم میں استاد کا کردار صرف معلومات پہنچانے تک محدود نہیں بلکہ طالبعلم کی شخصیت سازی اور فکری نشوونما میں بھی اس کا ایک بڑا حصہ ہوتا ہے، اور یہ کام محض ٹیکنالوجی سے ممکن نہیں۔ سویڈن کا کاغذ، پنسل اور استاد کی جانب لوٹنا دراصل ایک دانشمندانہ قدم ہے، جو تعلیم کے اصل مقصد یعنی شعور، فہم اور صلاحیتوں کی ترقی کو نشو و نما دیتا ہے۔ دنیا کو چاہیے کہ وہ سویڈن کے تجربے سے سیکھے اور تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو متوازن اور با مقصد بنائے، تاکہ نئی نسل علمی طور پر بھی مضبوط ہو اور اخلاقی و فکری لحاظ سے بھی مستحکم۔ دنیا نے ترقی کی دوڑ میں اپنے ہاتھ میں موبائل تھام لیا، آنکھوں پر اسکرین کی روشنی سجالی، اور کمرۂ جماعت کو گویا ایک ڈیجیٹل چمن میں بدل دیا۔ تعلیم، جو کبھی استاد کے لبوں کی تاثیر اور کتاب کی خوشبو سے زندہ تھی، اب بٹنوں کے دبانے اور لنکس کے کھولنے کا عمل بن چکی تھی۔ لیکن! عجب بات ہے کہ اس تیزرفتار قافلے میں، سویڈن نے بریک لگا دی۔ جی ہاں، وہی سویڈن جو ٹیکنالوجی میں دنیا کا امام ہے، تعلیم کے میدان میں آج یہ کہہ رہا ہے کہ “واپس چلو، جہاں کتاب ہمارے دل کی دھڑکن تھی، جہاں قلم ہمارے شعور کا چراغ تھا، اور جہاں استاد، محض معلومات دینے والا نہیں، بلکہ رہبرِ کامل تھا”سویڈن کی حکومت نے جب تحقیق کی تو حیران رہ گئی۔ ڈیجیٹل تعلیم نے بچوں کو سہولت تو دی، مگر ان کی تحریر کی روانی چھین لی، ان کی توجہ بکھیر دی، اور ان کے ذہن کی گہرائی کو سطحی بنادیا۔ وہ بچے جو اسکرینوں پر گھنٹوں پڑھتے تھے، کتاب کے صفحات کی خوشبو سے ناآشنا ہو گئے۔ان کی انگلیاں تیز رفتار ٹائپنگ میں تو ماہر بن گئیں، مگر جب قلم اٹھایا تو وہ جملے جو دل سے نکلتے تھے، کہیں گم ہو گئے۔ اسی طرح ناروے کی تحقیق کہتی ہے کہ جب بچہ ہاتھ سے لکھتا ہے، تو اس کے دماغ کا وہ حصہ جاگتا ہے جو سیکھنے، یاد رکھنے اور تخلیق کرنے کی بنیاد ہے۔ اور سویڈن کی وزیرِ تعلیم، لوتھاڈ بیئلکر نے تو کھلے الفاظ میں اعتراف کر لیا: “ہم نے اپنی نسل کو اسکرینوں کے سپرد کر کے استاد اور شاگرد کا مقدس رشتہ کمزور کر دیا ہے۔ اب ہمیں پلٹنا ہوگا۔” ذرا سوچیے، جب سویڈن جیسا ملک، جس کے پاس ہر جدید سہولت ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ کتاب اور قلم کو بچاؤ، تو ہم ترقی پذیر قومیں، کیا اب بھی خوابِ غفلت میں رہیں گی؟ کیا ہم اپنے اسکولوں میں صرف ڈیجیٹل بورڈ لگا کر سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ ہو گئے؟ کیا ہم نے کبھی غور کیا کہ تعلیم صرف معلومات دینے کا نام نہیں، یہ دلوں کو جوڑنے، فکر کو جلا دینے اور شخصیت کو نکھارنے کا عمل ہے؟ اور یہ عمل استاد کے لمس، کتاب کی مہک اور قلم کی روانی کے بغیر ادھورا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ٹیکنالوجی کو رد نہ کریں، مگر اسے اپنا غلام بنائیں، بادشاہ نہ بننے دیں۔استاد کو پھر سے علم کا چراغ سمجھیں، اور کتاب کو بچے کے سینے سے لگا دیں۔ قلم کو صرف امتحان کا ہتھیار نہ بنائیں، بلکہ سوچ اور تخلیق کا ہمنوا بنائیں۔ سویڈن نے ہمیں راستہ دکھا دیا ہے۔ واپسی کا سفر مشکل سہی، مگر منزل وہی ہے، جہاں علم دل سے دل تک سفر کرتا ہے، نہ کہ صرف اسکرین سے آنکھ تک۔ چلیں، آج عہد کریں کہ ہم بھی اپنے بچوں کے ہاتھ میں پھر سے کتاب رکھیں گے، قلم تھمائیں گے، اور استاد کے در پر واپس لوٹیں گے۔کیونکہ اصل ترقی وہی ہے، جو انسان کو انسان رہنے دے، مشین نہ بنائے۔ یورپی یونین کی 2022ء کی ایک تحقیق کے مطابق، سویڈن ان ممالک میں شامل تھا جہاں طلبہ کی خواندگی کی سطح میں نمایاں کمی دیکھی گئی، اور اس کی ایک بڑی وجہ تعلیم میں ڈیجیٹل ذرائع کا غیر متوازن استعمال قرار دی گئی۔ سائنسی دلائل کی روشنی میں بھی ہاتھ سے لکھنا اور دماغی نشوونما کا باعث ہوتا ہے۔عصری نیوروسائنس (Neuroscience) کی تحقیقات نے بھی اس رجحان کی تائید کی ہے ۔ ناروے اور فرانس میں ہونے والی مطالعاتی تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ جب بچے ہاتھ سے لکھتے ہیں تو ان کے دماغ کے وہ حصے متحرک ہوتے ہیں جو سیکھنے، یادداشت اور تخلیقی صلاحیت سے وابستہ ہیں، جب کہ ٹائپنگ یا اسکرین پر سیکھنے کے دوران یہ عمل
کمزور ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر آود اینڈی (Audrey van der Meer)، جو ناروے یونیورسٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کی ماہرِ اعصابی سائنس ہیں، کہتی ہیں “ہاتھ سے لکھنے کا عمل دماغی سرگرمی کو اس سطح تک متحرک کرتا ہے جو سیکھنے کے گہرے اور دیرپا اثرات کے لیے ضروری ہے۔ ڈیجیٹل تعلیم میں استاد کا کردار ایک سہولت کار (facilitator) تک محدود ہو کر رہ گیا ہے، جب کہ روایتی تعلیم میں استاد نہ صرف علم کا منبع ہوتا ہے بلکہ اخلاق، تربیت، اور فکری رہنمائی کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ سویڈن کے وزیر تعلیم، لوتھاڈ بیئلکر (Lotta Edholm)، نے اپنے حالیہ بیان میں کہا “ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے نہ صرف علم حاصل کریں بلکہ وہ اسے سمجھیں، جذب کریں اور اپنی شخصیت کا حصہ بنائیں۔ یہ کام کمرہ جماعت میں استاد کی موجودگی کے بغیر ممکن نہیں۔” عالمی سطح پر سویڈن کے اس فیصلے کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد فن لینڈ، جرمنی اور نیدرلینڈز جیسے ممالک نے بھی اپنے تعلیمی نظام کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔ ترقی پذیر ممالک جہاں ڈیجیٹل تعلیم کو ترقی کی کنجی سمجھا جا رہا ہے، ان کے لیے سویڈن کی مثال ایک چشم کشا حقیقت ہے۔ ڈیجیٹل تعلیم سہولت بخش ہو سکتی ہے، لیکن اس کا اندھا دھند استعمال نئی نسل کی علمی بنیادوں کو کمزور کر سکتا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں بھی لازم ہے کہ ہم کاغذ، کتاب اور استاد کے رشتے کو بنیادی حیثیت دیں، اور ڈیجیٹل ذرائع کو صرف معاون کے طور پر استعمال کریں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ڈیجیٹل ذرائع ڈیجیٹل تعلیم کے استعمال میں ڈیجیٹل تعلیم میں اور استاد میں استاد استاد کے سویڈن کی تعلیم کے تعلیم کو سویڈن کے سویڈن نے میں بھی کرتا ہے طلبہ کی ہوتا ہے ہاتھ سے بھی اس رہا ہے اور اس کیا کہ ہو گئے کا عمل

پڑھیں:

پاکستان کا اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ

بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ پاکستان نے اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سسٹم عرب مانیٹری فنڈ (اے ایم ایف) کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ سرحد پار ادائیگیوں کے نظام کو مربوط کیا جائے گا لیکن یہ صرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے رقوم وصول کرے گا۔ رقوم کی بیرون ملک منتقلی (آؤٹ فلوز) کی اجازت نہیں ہوگی۔ روزنامہ جنگ کیلئے مہتاب حیدر نے لکھا ہے کہ ادھر پاکستان 30 ستمبر 2025ء کو میچور ہونیوالے 50 کروڑ ڈالر کے یورو بانڈ کی ادائیگی کے لیے پوری طرح تیار ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب آئی ایم ایف کا جائزہ مشن اسلام آباد کا دورہ کرے گا تاکہ قرض پروگرام (EFF) کے تحت دوسرا جائزہ مکمل کیا جا سکے۔ دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے مختصر گفتگو میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا تھا کہ ہم نے 30 ستمبر تک 50 کروڑ ڈالر یورو بانڈ کی ادائیگی کا بندوبست کر لیا ہے اور اس ادائیگی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر کوئی دباؤ نہیں پڑے گا۔

مالی سال 2025-26 کے دوران 26 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہونا ہے، جن میں سے 3.5 ارب ڈالر پہلے ہی ادا کیے جا چکے ہیں۔ باقی واجب الادا قرضوں میں سے 9 ارب ڈالر دوست ممالک کی طرف سے دیئے گئے ڈپازٹس ہیں جو وقت آنے پر رول اوور کر دیئے جائیں گے۔ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 7 ارب ڈالر کے EFF معاہدے کے تحت 25 ستمبر سے اکتوبر کے پہلے ہفتے تک جائزہ مذاکرات طے ہیں۔ اعلیٰ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کے اس بیان سے کہ زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ نہیں پڑے گا، اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ یا تو اسلام آباد کو کسی بیرونی آمدنی کی توقع ہے یا مرکزی بینک مارکیٹ سے ڈالر خریدنے کا سلسلہ جاری رکھے گا تاکہ بروقت ادائیگی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کی ادائیگی کے تقاضوں کے پیش نظر پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں دوبارہ داخل ہو کر بانڈز جاری کیے جائیں جن میں چینی مارکیٹ میں پانڈا بانڈز بھی شامل ہیں تاہم یورو بانڈ یا سکوک بانڈ جاری کرنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یہ عالمی مارکیٹ کی طلب اور کم از کم ایک درجہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے بہتری پر منحصر ہے۔ پانڈا بانڈ دسمبر 2025 تک متوقع ہے اور اس کا پہلا لین دین 20 سے 25 کروڑ ڈالر کی حد میں ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • ایک اور شاندار منصوبہ شروع، ”روزگار کارڈ‘‘ کیلئے آن لائن اپلائی کا طریقہ کار
  • کتاب ہدایت
  • پاکستان کا دولت مشترکہ وزرائے خارجہ اجلاس میں امن، ماحولیاتی تعاون، نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور ڈیجیٹل تعاون پر زور
  • 3 سال تک فائبر نیٹ کو 60 فیصد تک لے جائیں گے: شزا فاطمہ
  • معروف ماہرِ تعلیم و سکالر ڈاکٹر جاوید غنی کا پی آئی ٹی بی میں Thriving in the Age of AI کے عنوان سے معلوماتی لیکچر
  • نصاب تعلیم کروڑوں طلباء و طالبات کے مستقبل کا تعین کرتا ہے، علامہ مقصود ڈومکی
  • بُک شیلف
  • نوجوانوں کو کتاب سے دوستی کرنا ہوگی، یہی کامیابی کی کنجی ہے؛ میر سرفراز بگٹی
  • لوک گلوکار استاد عارب فقیر انتقال کرگئے
  • پاکستان کا اپنی ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو عرب دنیا کے ـ’’بونا‘‘ سسٹم کے ساتھ جوڑنے کا فیصلہ