ٹرمپ انتظامیہ پاک بھارت جنگ بندی کیلئے کیوں متحرک ہوئی؟
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )امریکی صحافی نے پاکستان اوربھارت کے درمیان جنگ بندی کے پس منظر میں ہونے والی امریکی کوششوں کی تفصیل بیان کردی ۔
نجی ٹی وی جیو نیوز نے امریکی صحافی ایلینا ٹرینے کے حوالے سے بتایا کہ امریکی نائب صدر نے جنگ بندی مذاکرات کے لئے وزیراعظم مودی کو فون کیا، نائب صدر جے ڈی وانس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور وائٹ ہاوس چیف آف سٹاف پاک بھارت تنازع کو مانیٹر کر رہے تھے۔صحافی کے مطابق جمعے کی صبح امریکہ کو ایک تشویشناک انٹیلی جنس اطلاع موصول ہوئی، امریکی عہدے داروں نے حساس ہونے کی وجہ سے اس انٹیلی جنس کی نوعیت نہیں بتائی۔
امریکی صحافی کے مطابق اس حساس انٹیلی جنس کی وجہ سے امریکہ نے پاک بھارت کشیدگی میں اپنی مداخلت بڑھائی۔نائب امریکی صدر جے ڈی وانس نے بھارتی وزیراعظم مودی کو فون کیا اور انہیں بتایا کہ کشیدگی جاری رہی تو ہفتے کے اختتام پر اس میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔امریکی نائب صدر نے مودی پر پاکستان سے براہ راست رابطہ کرنے کے لئے زور ڈالا، وانس نے مودی پر زور ڈالا کہ کشیدگی کم کرنے کے متبادل راستوں پر غور کیا جائے۔
امریکی صحافی کے مطابق وانس نے مودی کو ممکنہ متبادل راستے کی ایسی تجویز دی جو پاکستان کے لئے بھی قابل قبول ہوسکتی تھی، اس کے بعد امریکی وزیرخارجہ اور محکمہ خارجہ کے اہلکار رات بھر بھارت اور پاکستان کے حکام سے رابطے میں رہے۔صحافی کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدے کا مسودہ تیار کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، ٹرمپ انتظامیہ نے دونوں فریقین کو بات چیت پر آمادہ کیا، امریکہ سمجھتا ہے کہ نائب صدر وانس کا مودی کو فون کرنا اس سارے معاملے میں اہم موڑ تھا۔
پاک بھارت جنگ بندی، امریکی صدر کے صاحبزادے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کا پیغام بھی آگیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: صحافی کے مطابق امریکی صحافی پاک بھارت مودی کو
پڑھیں:
صدر ٹرمپ نے عرب رہنماؤں کو غزہ جنگ بندی کیلیے 21 نکاتی امن فارمولا پیش کردیا
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔
اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔
امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔
منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔
عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں جن میں شامل ہیں؛
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی
یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا
غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی
غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ
اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل
علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید" قرار دیا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔
یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔
یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماؤں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کردی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔
جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔
اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔
قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔
اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے" کے مترادف ہوگا۔