غزہ جنگ بندی کیلئے 21 نکاتی امن فارمولا پیش ، صدر ٹرمپ کا عرب رہنماؤں کو خصوصی پیغام
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی،یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا۔غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی۔غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ۔اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل،تجاویز میں شامل
منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے،عرب رہنماؤں کے ساتھ ملاقات نتیجہ خیز رہی، امریکی خصوصی ایلچی
امریکا کے خصوصی ایلچی برائے امن مشنز اسٹیو وٹکوف نے بتایا کہ عرب ممالک کے سربراہان کے ساتھ غزہ امن اجلاس نہایت کامیاب اور نتیجہ خیز رہا ہے۔امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے دعویٰ کیا ہے کہ اس اجلاس میں امریکی نمائندوں نے عرب رہنماؤں کو صدر ٹرمپ کا خصوصی پیغام بھی پہنچایا۔اسٹیو وٹکوف نے نیویارک میں کانکورڈیا سمٹ سے خطاب میں بتایا کہ ہم نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 21 نکاتی امن منصوبہ عرب رہنماؤں کو پیش کیا۔امریکی خصوصی ایلچی کے بقول یہ امن منصوبہ اسرائیل اور خطے کے دیگر ممالک کے خدشات کو بھی مدنظر رکھتا ہے اور ہمیں امید ہے کہ آئندہ دنوں میں کوئی پیش رفت سامنے آئے گی۔منصوبے میں حماس کے قبضے کے بغیر غزہ میں حکمرانی کا فریم ورک، تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل جنگ بندی اور اسرائیل کی بتدریج غزہ سے واپسی شامل ہے۔عرب رہنماؤں نے بڑی حد تک منصوبے کی حمایت کی، تاہم اپنی تجاویز بھی پیش کیں جن میں شامل ہیں؛مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم نہ کرنے کی یقین دہانی۔یروشلم میں موجودہ اسٹیٹس کو قائم رکھنا۔غزہ جنگ کا خاتمہ اور یرغمالیوں کی رہائی۔ غزہ کے لیے انسانی امداد میں اضافہ۔اسرائیلی غیر قانونی بستیوں کے مسئلے کا حل۔علاقائی رہنماؤں نے اس ملاقات کو "انتہائی مفید” قرار دیا جب کہ ٹرمپ انتظامیہ اور عرب رہنماؤں نے ایسی مزید ملاقاتوں پر بھی اتفاق کیا ہے۔یورپی ممالک کو بھی اس امریکی امن منصوبے کا خلاصہ فراہم کیا گیا تھا جسے دو یورپی سفارتکاروں نے میڈیا سے گفتگو میں ایک سنجیدہ کوشش قرار دیا۔یورپی سفارتکاروں کا کہنا تھا کہ یہ امن منصوبہ اسرائیل کو مغربی کنارے کے مزید انضمام سے روک سکتا ہے اور اس سے ابراہام معاہدوں کے دائرہ کار کو بڑھانے کی راہ بھی ہموار ہو سکتی ہے۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیل نے دوحہ میں حماس رہنماو?ں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سے قطر نے ثالثی کی کوششیں معطل کردی تھی۔ جس کی وجہ سے امن مذاکرات رک گئے تھے۔جس پر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیل اور قطر کے ایک اہم دورے میں کہا تھا کہ وقت تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ غزہ میں امن کے لیے ایک معاہدہ جلد ضروری ہے۔اس دورے کے بعد قطر نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ ثالثی کا کردار ادا کرتا رہے گا بشرطیکہ آئندہ اسرائیل ان کی سرزمین پر کوئی حملہ نہ کرے۔قبل ازیں سعودیہ اور فرانس نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس منعقد کی تھی جس کے بعد متعدد یورپی ممالک نے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا ہے۔اس کانفرنس کا امریکا نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا "حماس کو انعام دینے” کے مترادف ہوگا۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
اب بہت ہو چکا، اسرائیل کو مغربی کنارے کے انضمام کی اجازت نہیں دوں گا، صدر ٹرمپ
واشنگٹن:امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کسی بھی قسم کے انضمام کی اجازت نہیں دیں گے۔
اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب بہت ہو چکا، یہ سلسلہ رکنا چاہیے۔ اسرائیل کو مغربی کنارے کو ضم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔
ٹرمپ نے بتایا کہ انہوں نے اس معاملے پر اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سے بھی براہ راست بات کی ہے اور اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر عرب رہنماؤں کو بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ اسرائیل کے انضمامی منصوبوں کے مخالف ہیں۔
رپورٹس کے مطابق حالیہ دنوں میں اسرائیلی حکام نے عندیہ دیا تھا کہ حکومت مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر قبضے کی سمت بڑھ سکتی ہے۔
تاہم صدر ٹرمپ نے دوٹوک مؤقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایسا کسی صورت نہیں ہونے دیں گے کیونکہ یہ علاقائی استحکام کے لیے خطرناک ہوگا۔
امریکی خصوصی ایلچی برائے مشرقِ وسطیٰ اسٹیو وٹکوف نے بھی تصدیق کی کہ صدر ٹرمپ کی عرب رہنماؤں سے ملاقاتیں مثبت رہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ خطے میں کشیدگی کے خاتمے اور خاص طور پر غزہ میں جاری جنگ کو روکنے کے لیے سرگرم کوششیں کر رہے ہیں۔