سلام ہے پاک افواج کے ان افسروں اور جوانوں کو، جن کی وجہ سے قوم کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل پاکستان کی فتحِ مبین پر مسرّت وافتخار سے سرشار ہوئے ہیں۔ 1998میں جب پاکستان ایٹمی قوّت بنا تو عرب شیوخ چالیس چالیس فٹ لمبی کاروں سے اتر کر پاکستانی مزدوروں سے گلے ملتے رہے۔
اب بھی وہی صورتِ حال ہوگی۔ امریکا ہو، یورپ ہو یا عرب ممالک۔ پاکستانیوں کو دیکھ کر سب کی نظریں پہلے حیرت سے اٹھیں گی اور پھر عزّت اور احترام میں جھک جائیں گی۔ ہندوستان کے خلاف تین دنوں کی جنگ میں جو کچھ ہوا وہ ایک معجزہ ہے، ٹیکنالوجی کے درجنوں ماہرین سے بات ہوچکی ہے سب کا کہنا ہے کہ یہ صرف ٹیکنالوجی کا کمال نہیں ہے یہ ایک معجزہ ہے اور معجزے خالقِ کائنات کی intervention سے ہی برپا ہوتے ہیں۔
کئی سالوں سے پاکستان کے بارے میں مودی کا رویّہ انتہائی حقارت آمیز تھا۔ دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہونے کے باعث اس کا غرور اور تکبّر آسمانوں کو چھورہا تھا۔ کچھ غلط پالیسیوں، کمزور معیشت اور سیاسی عدمِ استحکام کے باعث دنیا میں پاکستان کا مقام اور احترام بہت نچلی سطح تک آچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی ’’ملک کی کمزوری‘‘ کے بیانئے کو بڑھایا گیا۔
ماضی کے کچھ سول اور عسکری لیڈروں کا انداز مدافعانہ اور میڈیا کا کردار فدویانہ سا رہا، کسی بھی سطح پر کوئی اینکر یا تجزیہ کار اس سوال کو ہی سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہوتا تھا کہ اب کسی ممکنہ جنگ میں پاکستان، بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ تمام تر مغربی مبصرین کا بھی یہی خیال تھا اور خود بھارتی حکمرانوں کو یہی توقع تھی کہ پاکستان بھارتی حملے کی تاب نہیں لاسکے گا اور ہماری شرائط پر صلح کی التجا کرے گا۔
مگر کائناتوں کے خالق اور مالک کے منصوبے کچھ اور تھے، اسے اپنے نام پر قائم ہونے والے ملک کی رسوائی گوارا نہ تھی۔ اس نے احساسِ کمتری کی ماری ہوئی پاکستانی قوم کو زندہ کرنے اور ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ پاکستان کو ختم کرنے کا ارادہ لے کر نکلنے والوں کے پاس رافیل جیسے دنیا کے بہترین طیّارے اور بہترین ٹیکنالوجی تھی اور وہ صدیوں پہلے بدر کی جانب بڑھنے والے مشرکینِ مکّہ کی طرح پراعتماد تھے کہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت والا پاکستان چند گھنٹے کی مار ہے۔
مگر ربِّ کائنات نے ہر ہتھیار اور ہر ٹیکنالوجی کے توڑ کا بندوبست کرلیا تھا۔ دشمنوں کے رافیل کے مقابلے میں شاہینوں کے J10cp فضاؤں میں بلند ہوئے، جن سے (ریڈار پر نظر نہ آنے والے BVR) PL15E میزائل موت بن کر نکلے اور پہلے تین گھنٹوں میں ہی رافیل سمیت دشمن کے پانچ جہازوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہینوں نے پہلے دن ہی بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ دشمن کو اپنے اربوں ڈالر کے روسی ائیرڈیفنس سسٹم AS400 پر بڑا ناز تھا۔ پاک آرمی کے فتح میزائل اور پاک فضائیہ کے PL15 میزائلوں نے AS400 کو تہس نہس کر ڈالا اور دشمن پر ایسی دھاک بٹھادی کہ پھر دشمن کے جہاز فضاء میں بلند ہونے کی ہی ہمّت نہ کرسکے۔ آخری 24 گھنٹوں میں مقبوضہ کشمیر کی فضاؤں پر صرف پاکستان کے طیارے گھوم رہے تھے اور مقابلے پر کوئی بھارتی طیارہ زمین سے اڑنے کی بھی جرات نہ کرسکا۔
پہلگام کے سانحے کی حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر مذمت کی اور غیرجانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کردیا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ تمام تر شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح پہلگام میں بھی بے گناہ سیاحوں کو مودی حکومت نے خود مروایا ہے۔ مگر اس کے بعد بلاوجہ پاکستان پر الزام لگاکر مودی کھلی جارحیّت پر اتر آیا۔ بھارتی جارحیّت کے نتیجے میں بہاولپور اور مرید کے میں معصوم بچوں اور عورتوں سمیت 35 بیگناہ شہری شہید اور ساٹھ سے زیادہ زخمی ہوگئے۔
کیا ان شہیدوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا؟ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر یا ذہن میں تھا اور ہر محفل میں یہی بات زیرِ بحث آتی تھی۔ کچھ وزیروں نے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے، اس طرح کے بیان دیے کہ پاکستانی فوج نے بھارت کے پانچ جہاز گرا کر جارحیّت کا بدلہ لے لیا ہے مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس پر راقم نے کھل کر جنگ سے فرار کی کسی بھی خواہش پر تنقید کی۔ حکیم الامّت علامہ اقبال نے confrontation کی برکات سے بار بار مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے، راقم نے فکرِ اقبال کی روشنی میں قوم کو سوشل میڈیا کے ذریعے جنگ کے فوائد کے بارے میں sensitise کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ راقم مسلسل لکھتا رہا کہ ’’مسلم دنیا کا سب سے بڑا شاعر اور مفکر مسلمانوں کو سو سال پہلے آگاہ کرتا رہا کہ جب تک مسلمانوں کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں رہیں وہ دنیا کی سپرپاور ہے۔ جب تلواریں میانوں میں چلی گئیں تو مسلم ملت زوال کا شکار ہوگئی۔
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی
راقم نے لکھا کہ ’’جنگ سے فرار حاصل کرکے ہمارے چند ارب تو بچ جائیں گے مگر قوم نہیں بچ پائے گی۔ جو بچے گی وہ ایک خوفزدہ، سہمی ہوئی، شکست خوردہ اور مرعوبیّت کی ماری ہوئی مردہ قوم ہوگی ایسی قوم جو مستقل طور پر دشمن کے لیے ایک لقمۂ تر ہوگی۔ جیسے اسرائیل کے لیے لبنان ہے۔ عصانہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ کچھ عرصے سے ملک کے اندر اور باہر یہ تاثر پھیلایا گیا تھا کہ پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے اور ہندوستان بہت آگے نکل گیا ہے۔
بھارتی حکمران اپنی تقریروں میں پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے کہ وہ تو زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ ایک سابق آرمی چیف نے بھی انتہائی گھٹیا بیان دیا تھا کہ ہمارے پاس ٹینکوں میں تیل ڈالنے کے لیے پیسے نہیں ہم نے کیا جنگ لڑنی ہے۔ اس سے کنفیوژن، مایوسی اور بددلی میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر پاکستان کا موجودہ سپہ سالار یکسو اور پرعزم تھا۔ اس کے سینے میں کلامِ الٰہی محفوظ ہے اور وہ جنگ میں اسی کتابِ حق سے راہنمائی لیتا رہا۔ وہ اس کی ننگی جارحیّت کے بعد بھارت کو سبق سکھانے کا تہیّہ کرچکا تھا، اس کے لیے اس نے کلامِ الٰہی سے ہی راہنمائی لیتے ہوئے آپریشن کا نام بنیانِ مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) رکھا اور سنتِ مصطفیﷺ پر عمل کرتے ہوئے نمازِ فجر کے ساتھ ہی مقدّس مشن کا آغاز کیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دس مئی کو تہجّد اور فجر کے وقت بے شمار لوگوں نے گڑگڑا کر ربِّ کائنات سے مدد کی التجائیں کی تھیں۔
پاکیزہ کردار مسلمانوں کی دعائیں اور التجائیں قبول ہوئیں اور پھر چند گھنٹوں میں ہی ایس پی ڈی کے فتح میزائلوں اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ وہ چھبیّس مقامات پر عقاب کی طرح جھپٹے اور اہداف کو تباہ کرکے بحفاظت واپس پہنچ گئے۔ اس آپریشن نے مودی اور ہندو توا کے پیروکاروں پر لرزہ طاری کردیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کا تکبّر خاک میں مل گیا۔ پاکستان نے دنیا کے جدید ترین رافیل طیاروں کو ناکارہ بنا کر بھارت کی برتری کے دعووں کو مٹی میں ملادیا۔ پاکستان نے بھارت اور اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا myth بھی توڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان ائیرفورس کو پورے ساؤتھ ایشیا میں فضائی برتری حاصل ہوگئی اور یورپی میڈیا پاکستان کی بے مثال فضائیہ کو ’’آسمانوں کا بادشاہ‘‘ کہنے پر مجبور ہوگیا۔
پاکستان کی اس فتحِ مبین سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا امیج اور مقام زمین سے آسمان تک پہنچ گیا ہے بلکہ اس سے دنیا بھر کے مایوس اور غمزدہ مسلمانوں کو نئی امیّد اور حوصلہ ملا ہے۔ اس عظیم کامیابی کی خبر سن کر فلسطین، لبنان اور عرب مسلمانوں کے دکھی دلوں کو کئی دھائیوں کے بعد اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی ہے۔ بھارت کی ہزیمت اور پاکستان کی فتح نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھا ہے اور اس فتحِ مبین سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان سر اونچا کرکے چلنے کے قابل ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی میزائلوں کی بارش نے بھارت کو بے بس کردیا تو مودی نے مدد کے لیے ٹرمپ کو پکارا کہ ہمیں بچاؤ اور ہماری جان چھڑاؤ۔ چین ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جس نے ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی۔
ترکی نتائج سے بے پرواہ ہوکر سگے بھائیوں کی طرح ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، ہم چین اور ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔ آذربائیجان اور بنگلہ دیش کے عوام نے بھی کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہم ان کے بھی شکر گذار ہیں۔ آزمائش کا وقت آیا تو پوری قوم متحد ہوکر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عمران خان کے پیروکاروں میں سے ایم این ایز نے تو ذمے داری کا ثبوت دیا مگر بہت سے پیروکار دشمن کے حامی اور ہمنوا بن کر بھارتی میڈیا کا جھوٹا اور غلیظ پراپیگنڈا پھیلانے کی کوشش کرتے رہے اس طرزِ عمل کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے۔ بھارت کے ساتھ جب بھی بات چیت شروع ہو، اس کے ایجنڈے میں کشمیر، بھارت کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے ایشو سرِفہرست ہونے چاہیئیں۔
کل مودی کا خطاب ایک شکست خوردہ انسان کی آخری ہچکی ہے اس کے تکبّر کے ساتھ ہی اس کا اقتدار بھی دفن ہونے والا ہے۔ مگر دشمن بدنیّت، مکّار اور ناقابلِ بھروسہ ہے اس لیے اس کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیّت کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسے روکنے کا وہی طریقہ ہے جس نے مودی کو جنگ بندی پر مجبور کیا، اور وہ یہ ہے کہ ہماری تینوں افواج ہردم تیار رہیں اور آنکھیں جھپک کر دشمن کو پہلے وار کرنے کا موقع ہرگز نہ دیں۔ قدرت نے ہمیںایک تاریخی موقع دیا ہے، اسے ضایع کردیا گیا تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس پر آیندہ لکھوں گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کا کہ پاکستان دنیا بھر دشمن کے کے ساتھ کی طرح ہے اور کے لیے
پڑھیں:
صمود فلوٹیلا: ظلم کے اندھیروں میں روشنی کا چراغ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250926-03-5
عبید مغل
جب ظلم حد سے گزر جائے اور مظلوموں کی آہیں عرش کو چھو لیں تو قدرت کے چراغ جل اٹھتے ہیں، اور ایسے مناظر دکھائی دیتے ہیں جو عقل کو محال لگتے ہوں۔ کبھی ابابیل پتھروں سے لشکر ِ فیل کو روند دیتے ہیں، کبھی عصائے کلیم سمندر کو راستہ بنا دیتا ہے اور کبھی بدر کے تین سو تیرہ جانباز ہزاروں کے غرور کو خاک میں ملا دیتے ہیں۔ یہ سب نشانیاں پکارتی ہیں کہ ربّ کی تدبیر و نصرت کے سامنے محلات و سلطنتیں ریت کے گھروندوں سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ آج بھی ایک ایسا ہی منظر دنیا کے سامنے ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل اپنے سارے لاؤ لشکر، تکبر، غرور اور وقت کے جدید ترین اسلحے کے ساتھ نہتے اور معصوم انسانوں پر حملہ آور ہے اور دوسری جانب بڑے بڑے اسلامی ممالک معصوم بچوں کے قتل اور ان کی نسل کْشی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ایسے میں دنیا بھر کے مختلف ممالک سے ایک قافلہ ایسے لوگوں کا اْٹھا جن کی زبانیں جدا، اْن کے عقائد و افکار کے دھارے مختلف، اْن کے رنگ اور نسل الگ الگ ہیں، مگر اْن سب کا مشن ایک ہے کہ غزہ کی مظلوم انسانیت کو غاصب، ظالم و ناجائز ریاست کے محاصرے سے نجات دلانا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں حقیقت خواب سے ہم کلام ہوتی ہے، جہاں کمزور ہاتھ مگر مضبوط دل دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اصل طاقت توپ اور تفنگ میں نہیں بلکہ حوصلے، غیرت اور عزم میں ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ انسانیت کا مان رکھنے والے سمندر کے ان مسافروں کے پاس نہ اسلحہ ہے نہ
بارود، نہ ہی اْنہیں کسی بحری فوج کا تحفظ میسر ہے اور نہ ہی فضائی طاقت کا سہارا۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر طوفان اٹھے تو اْن کے پاس سمندر کی بے رحم موجوں سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں۔ پھر بھی اْن کے دلوں کے حوصلے سمندروں سے زیادہ گہرے ہیں، اْن کے ارادے چٹانوں سے زیادہ سخت ہیں، اْن کے عزائم پہاڑوں سے زیادہ بلند ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر اْن کی غیرت و جرأت دنیا بھر کے ستاون اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی خوابیدہ غیرت سے کئی گنا زیادہ جاگتی ہوئی ہے۔ ’’دنیا کو ہے پھر معرکۂ رْوح و بدن پیش‘‘ گویا کہ آج دنیا کو ایک بار پھر معرکۂ حق و باطل درپیش ہے۔ آج کا فرعون پھر انبیاء کی سرزمین پر معصوم بچوں کو ذبح کر رہا ہے، آج کا شدّاد پھر خدائی کے زعم میں انسانیت کے لیے ناسور بن چکا ہے۔ ظلم و جبر کی اس سیاہ رات میں گلوبل صمود فلوٹیلا روشنی کا چراغ اور امید کی کرن بن کر اْبھرا ہے۔ یہ محض چند کشتیوں کا قافلہ نہیں بلکہ انسانیت کی لاج کا پرچم بردار ہے؛ ایک ایسا قافلہ جس میں دنیا کے چوالیس ممالک سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد ڈاکٹرز، صحافی، فنکار، سماجی کارکن، پارلیمانی نمائندے اور عام شہری شریک ہیں۔
صمود فلوٹیلا دراصل کفارہ ہے اْس جرم کا جو دنیا نے غزہ کے بدترین محاصرے پر خاموش رہ کر کیا۔ یہ دم توڑتی انسانیت کے سینے میں اُترتی تازہ سانس ہے، ظلم کے اندھیروں میں جلتا ہوا چراغ ہے، اور غزہ کے مظلوم شہریوں کے لیے پیغامِ اْمید اور پیغامِ حیات ہے۔ یہ قافلہ دنیا بھر کے اْن مردہ ضمیروں کے لیے بھی ایک تازیانہ ہے جو اقتدار کی مسندوں پر بیٹھے ہیں مگر بچوں کی چیخیں، عورتوں کی سسکیاں اور بوڑھوں کی آہیں بھی ان کی مجرمانہ خاموشی کو توڑنے میں ناکام رہیں۔ یہ دراصل وہ دستک ہے جو تاریخ کے اوراق پر ثبت ہو رہی ہے، تاکہ کل کا مورخ جب غزہ میں ڈھائے گئے انسانیت سوز مظالم رقم کرے تو کم از کم یہ نہ لکھ سکے کہ دنیا پوری کی پوری اجتماعی مردہ ضمیر مخلوق بن چکی تھی۔ دنیا کے کونے کونے سے اٹھی ہوئی محبت بھری دھڑکنوں اور انسانیت سے لبریز دلوں کا یہ حسین کارواں، اٹلی کے ساحلِ سسِلی سے سمندر کی لہروں کے سنگ عزم و حوصلے کے ترانے، فلسطین کو آزاد اور غزہ کا محاصرہ توڑنے کے پر عزم نعرے لگاتا ہوا نکل پڑا ہے اور مظلوموں کی پکار کا جواب بن کر غزہ کی سمت بڑھ رہا ہے، تاکہ محاصرے کے سیاہ حصار کو توڑ ڈالے اور ظلم کی زنجیروں کو بہادری کی ضرب سے ریزہ ریزہ کر دے۔
پاکستان کی نمائندگی بھی اس میں شامل ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد خان، آزاد کشمیر سے مولانا عبداللہ شاہ شاکر سمیت کئی سماجی اور صحافتی شخصیات شریک ہیں۔ یورپ و افریقا کی بڑی سیاسی و سماجی ہستیاں اس قافلے کا حصہ بنی ہیں۔ سابق میئر بارسلونا ادا کولاو، ماحولیات کی عالمی کارکن گریٹا تھنبرگ، جنوبی افریقا کے رہنما اور نیلسن مینڈیلا کے پوتے مندلا مینڈیلا، پرتگال کی سیاست دان مارِیانا مورٹاگوا، برطانیہ کی صحافی یو آن رڈلے، فرانس، آئرلینڈ، ترکی اور لاطینی امریکا کے نمائندے۔ یہ سب مختلف زبانوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں لیکن ایک ہی پیغام پر متحد ہیں۔ انسانیت کو بچانا ہے، ظلم کو توڑنا ہے۔
اس فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کا اندیشہ منڈلا رہا ہے اگر اسرائیل کی جانب سے کوئی شیطانی وار ہوا تو یہ محض چند کشتیوں کا واقعہ نہیں رہے گا بلکہ بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق اور عالمی ضمیر کی اجتماعی موت ہو گی۔ اسرائیل کی شیطانی فطرت سے آگاہ لوگ پہلے ہی منصوبہ بندی کرچکے ہیں جس میں سرفہرست بائیکاٹ کی وارننگ ہے۔ ان میں یورپ بھر کی بندرگاہوں کی مزدور یونینیں نمایاں ہیں۔ مزدور راہنما واشگاف الفاظ میں اعلان کرچکے ہیں کہ اگر کارواں کو خطرہ پہنچا تو اسرائیلی کارگو اور تجارتی راستے بند ہو جائیں گے، دنیا کے تجارتی نقشے لرز اٹھیں گے۔ پھر سوال خود بول اٹھتا ہے: جب دنیا کی محنت کش قومیں انصاف کی زبان بول رہی ہیں، تو وہ کون سی طاقت ہے جو اب بھی خاموش رہ سکتی ہے؟ اب فلسطین صرف مسئلہ نہیں بلکہ یہ پورے عالمِ اسلام اور انسانیت کا امتحان ہے۔ عرب اقوام، اسلامی ریاستیں اور خصوصاً وہ ملک جو حالیہ دفاعی معاہدوں میں جڑے ہیں، کیا وہ اس موقع پر صرف زبانی احتجاج تک محدود رہیں گے؟ یا پھر اتنا حوصلہ دکھائیں گے کہ ظلم کے خلاف عملی اور موثر قدم اٹھائیں؟
مسلم عوام کے دل سے یہ فریاد اُٹھ رہی ہے کہ اگر دنیا کے چوالیس ملکوں کے نہتے مسافر، بغیر اسلحے کے، چھوٹی کشتیوں پر طوفانی سمندروں کا سینہ چیرنے نکل سکتے ہیں، تو پھر ستاون اسلامی سلطنتوں کے فولادی بحری بیڑے آخر کیوں ساحلوں سے بندھے سوئے پڑے ہیں؟ کیا یہ خاموشی بزدلی کی نہیں؟ کیا یہ تماش بینی تاریخ کے ماتھے پر وہ داغ نہیں جو کبھی مٹ نہ سکے گا؟ کیا یہ بے حسی وہ غلاظت نہیں جو صدیوں تک آئندہ نسلوں کو تعفن زدہ کرتی رہے گی؟
اگر صمود فلوٹیلا کے اْن باہمت اور پرعزم انسانوں پر خدانخواستہ کوئی آفت ٹوٹ پڑی تو پھر مسلم ممالک کے عوام کا ردعمل کیا ہوگا؟ وہ عوام جن کے دل پہلے ہی غم و غصے کے شعلوں سے دہک رہے ہیں اور جن کی آنکھیں اپنے حکمرانوں کی بے حسی پر خون کے آنسو رو رہی ہیں۔
صمود فلوٹیلا کی جرأت سے ثابت ہو چکا ہے کہ جب دل میں ہمت اور نیت میں اخلاص ہو تو محاصرے کی آہنی دیواریں بھی مٹی کا ڈھیر بن جاتی ہیں۔ یہ قافلہ ظلم کی گھنی رات میں جگمگاتے چراغ کی مانند ہے، اہلِ غزہ کے زخموں پر مرہم اور دنیا کے ہر مظلوم کے لیے اْمید و حیات کا پیغام ہے۔