سلام ہے پاک افواج کے ان افسروں اور جوانوں کو، جن کی وجہ سے قوم کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل پاکستان کی فتحِ مبین پر مسرّت وافتخار سے سرشار ہوئے ہیں۔ 1998میں جب پاکستان ایٹمی قوّت بنا تو عرب شیوخ چالیس چالیس فٹ لمبی کاروں سے اتر کر پاکستانی مزدوروں سے گلے ملتے رہے۔
اب بھی وہی صورتِ حال ہوگی۔ امریکا ہو، یورپ ہو یا عرب ممالک۔ پاکستانیوں کو دیکھ کر سب کی نظریں پہلے حیرت سے اٹھیں گی اور پھر عزّت اور احترام میں جھک جائیں گی۔ ہندوستان کے خلاف تین دنوں کی جنگ میں جو کچھ ہوا وہ ایک معجزہ ہے، ٹیکنالوجی کے درجنوں ماہرین سے بات ہوچکی ہے سب کا کہنا ہے کہ یہ صرف ٹیکنالوجی کا کمال نہیں ہے یہ ایک معجزہ ہے اور معجزے خالقِ کائنات کی intervention سے ہی برپا ہوتے ہیں۔
کئی سالوں سے پاکستان کے بارے میں مودی کا رویّہ انتہائی حقارت آمیز تھا۔ دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہونے کے باعث اس کا غرور اور تکبّر آسمانوں کو چھورہا تھا۔ کچھ غلط پالیسیوں، کمزور معیشت اور سیاسی عدمِ استحکام کے باعث دنیا میں پاکستان کا مقام اور احترام بہت نچلی سطح تک آچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی ’’ملک کی کمزوری‘‘ کے بیانئے کو بڑھایا گیا۔
ماضی کے کچھ سول اور عسکری لیڈروں کا انداز مدافعانہ اور میڈیا کا کردار فدویانہ سا رہا، کسی بھی سطح پر کوئی اینکر یا تجزیہ کار اس سوال کو ہی سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہوتا تھا کہ اب کسی ممکنہ جنگ میں پاکستان، بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ تمام تر مغربی مبصرین کا بھی یہی خیال تھا اور خود بھارتی حکمرانوں کو یہی توقع تھی کہ پاکستان بھارتی حملے کی تاب نہیں لاسکے گا اور ہماری شرائط پر صلح کی التجا کرے گا۔
مگر کائناتوں کے خالق اور مالک کے منصوبے کچھ اور تھے، اسے اپنے نام پر قائم ہونے والے ملک کی رسوائی گوارا نہ تھی۔ اس نے احساسِ کمتری کی ماری ہوئی پاکستانی قوم کو زندہ کرنے اور ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ پاکستان کو ختم کرنے کا ارادہ لے کر نکلنے والوں کے پاس رافیل جیسے دنیا کے بہترین طیّارے اور بہترین ٹیکنالوجی تھی اور وہ صدیوں پہلے بدر کی جانب بڑھنے والے مشرکینِ مکّہ کی طرح پراعتماد تھے کہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت والا پاکستان چند گھنٹے کی مار ہے۔
مگر ربِّ کائنات نے ہر ہتھیار اور ہر ٹیکنالوجی کے توڑ کا بندوبست کرلیا تھا۔ دشمنوں کے رافیل کے مقابلے میں شاہینوں کے J10cp فضاؤں میں بلند ہوئے، جن سے (ریڈار پر نظر نہ آنے والے BVR) PL15E میزائل موت بن کر نکلے اور پہلے تین گھنٹوں میں ہی رافیل سمیت دشمن کے پانچ جہازوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہینوں نے پہلے دن ہی بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ دشمن کو اپنے اربوں ڈالر کے روسی ائیرڈیفنس سسٹم AS400 پر بڑا ناز تھا۔ پاک آرمی کے فتح میزائل اور پاک فضائیہ کے PL15 میزائلوں نے AS400 کو تہس نہس کر ڈالا اور دشمن پر ایسی دھاک بٹھادی کہ پھر دشمن کے جہاز فضاء میں بلند ہونے کی ہی ہمّت نہ کرسکے۔ آخری 24 گھنٹوں میں مقبوضہ کشمیر کی فضاؤں پر صرف پاکستان کے طیارے گھوم رہے تھے اور مقابلے پر کوئی بھارتی طیارہ زمین سے اڑنے کی بھی جرات نہ کرسکا۔
پہلگام کے سانحے کی حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر مذمت کی اور غیرجانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کردیا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ تمام تر شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح پہلگام میں بھی بے گناہ سیاحوں کو مودی حکومت نے خود مروایا ہے۔ مگر اس کے بعد بلاوجہ پاکستان پر الزام لگاکر مودی کھلی جارحیّت پر اتر آیا۔ بھارتی جارحیّت کے نتیجے میں بہاولپور اور مرید کے میں معصوم بچوں اور عورتوں سمیت 35 بیگناہ شہری شہید اور ساٹھ سے زیادہ زخمی ہوگئے۔
کیا ان شہیدوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا؟ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر یا ذہن میں تھا اور ہر محفل میں یہی بات زیرِ بحث آتی تھی۔ کچھ وزیروں نے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے، اس طرح کے بیان دیے کہ پاکستانی فوج نے بھارت کے پانچ جہاز گرا کر جارحیّت کا بدلہ لے لیا ہے مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس پر راقم نے کھل کر جنگ سے فرار کی کسی بھی خواہش پر تنقید کی۔ حکیم الامّت علامہ اقبال نے confrontation کی برکات سے بار بار مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے، راقم نے فکرِ اقبال کی روشنی میں قوم کو سوشل میڈیا کے ذریعے جنگ کے فوائد کے بارے میں sensitise کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ راقم مسلسل لکھتا رہا کہ ’’مسلم دنیا کا سب سے بڑا شاعر اور مفکر مسلمانوں کو سو سال پہلے آگاہ کرتا رہا کہ جب تک مسلمانوں کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں رہیں وہ دنیا کی سپرپاور ہے۔ جب تلواریں میانوں میں چلی گئیں تو مسلم ملت زوال کا شکار ہوگئی۔
اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام
یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی
راقم نے لکھا کہ ’’جنگ سے فرار حاصل کرکے ہمارے چند ارب تو بچ جائیں گے مگر قوم نہیں بچ پائے گی۔ جو بچے گی وہ ایک خوفزدہ، سہمی ہوئی، شکست خوردہ اور مرعوبیّت کی ماری ہوئی مردہ قوم ہوگی ایسی قوم جو مستقل طور پر دشمن کے لیے ایک لقمۂ تر ہوگی۔ جیسے اسرائیل کے لیے لبنان ہے۔ عصانہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ کچھ عرصے سے ملک کے اندر اور باہر یہ تاثر پھیلایا گیا تھا کہ پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے اور ہندوستان بہت آگے نکل گیا ہے۔
بھارتی حکمران اپنی تقریروں میں پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے کہ وہ تو زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ ایک سابق آرمی چیف نے بھی انتہائی گھٹیا بیان دیا تھا کہ ہمارے پاس ٹینکوں میں تیل ڈالنے کے لیے پیسے نہیں ہم نے کیا جنگ لڑنی ہے۔ اس سے کنفیوژن، مایوسی اور بددلی میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر پاکستان کا موجودہ سپہ سالار یکسو اور پرعزم تھا۔ اس کے سینے میں کلامِ الٰہی محفوظ ہے اور وہ جنگ میں اسی کتابِ حق سے راہنمائی لیتا رہا۔ وہ اس کی ننگی جارحیّت کے بعد بھارت کو سبق سکھانے کا تہیّہ کرچکا تھا، اس کے لیے اس نے کلامِ الٰہی سے ہی راہنمائی لیتے ہوئے آپریشن کا نام بنیانِ مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) رکھا اور سنتِ مصطفیﷺ پر عمل کرتے ہوئے نمازِ فجر کے ساتھ ہی مقدّس مشن کا آغاز کیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دس مئی کو تہجّد اور فجر کے وقت بے شمار لوگوں نے گڑگڑا کر ربِّ کائنات سے مدد کی التجائیں کی تھیں۔
پاکیزہ کردار مسلمانوں کی دعائیں اور التجائیں قبول ہوئیں اور پھر چند گھنٹوں میں ہی ایس پی ڈی کے فتح میزائلوں اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ وہ چھبیّس مقامات پر عقاب کی طرح جھپٹے اور اہداف کو تباہ کرکے بحفاظت واپس پہنچ گئے۔ اس آپریشن نے مودی اور ہندو توا کے پیروکاروں پر لرزہ طاری کردیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کا تکبّر خاک میں مل گیا۔ پاکستان نے دنیا کے جدید ترین رافیل طیاروں کو ناکارہ بنا کر بھارت کی برتری کے دعووں کو مٹی میں ملادیا۔ پاکستان نے بھارت اور اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا myth بھی توڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان ائیرفورس کو پورے ساؤتھ ایشیا میں فضائی برتری حاصل ہوگئی اور یورپی میڈیا پاکستان کی بے مثال فضائیہ کو ’’آسمانوں کا بادشاہ‘‘ کہنے پر مجبور ہوگیا۔
پاکستان کی اس فتحِ مبین سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا امیج اور مقام زمین سے آسمان تک پہنچ گیا ہے بلکہ اس سے دنیا بھر کے مایوس اور غمزدہ مسلمانوں کو نئی امیّد اور حوصلہ ملا ہے۔ اس عظیم کامیابی کی خبر سن کر فلسطین، لبنان اور عرب مسلمانوں کے دکھی دلوں کو کئی دھائیوں کے بعد اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی ہے۔ بھارت کی ہزیمت اور پاکستان کی فتح نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھا ہے اور اس فتحِ مبین سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان سر اونچا کرکے چلنے کے قابل ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی میزائلوں کی بارش نے بھارت کو بے بس کردیا تو مودی نے مدد کے لیے ٹرمپ کو پکارا کہ ہمیں بچاؤ اور ہماری جان چھڑاؤ۔ چین ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جس نے ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی۔
ترکی نتائج سے بے پرواہ ہوکر سگے بھائیوں کی طرح ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، ہم چین اور ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔ آذربائیجان اور بنگلہ دیش کے عوام نے بھی کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہم ان کے بھی شکر گذار ہیں۔ آزمائش کا وقت آیا تو پوری قوم متحد ہوکر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عمران خان کے پیروکاروں میں سے ایم این ایز نے تو ذمے داری کا ثبوت دیا مگر بہت سے پیروکار دشمن کے حامی اور ہمنوا بن کر بھارتی میڈیا کا جھوٹا اور غلیظ پراپیگنڈا پھیلانے کی کوشش کرتے رہے اس طرزِ عمل کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے۔ بھارت کے ساتھ جب بھی بات چیت شروع ہو، اس کے ایجنڈے میں کشمیر، بھارت کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے ایشو سرِفہرست ہونے چاہیئیں۔
کل مودی کا خطاب ایک شکست خوردہ انسان کی آخری ہچکی ہے اس کے تکبّر کے ساتھ ہی اس کا اقتدار بھی دفن ہونے والا ہے۔ مگر دشمن بدنیّت، مکّار اور ناقابلِ بھروسہ ہے اس لیے اس کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیّت کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسے روکنے کا وہی طریقہ ہے جس نے مودی کو جنگ بندی پر مجبور کیا، اور وہ یہ ہے کہ ہماری تینوں افواج ہردم تیار رہیں اور آنکھیں جھپک کر دشمن کو پہلے وار کرنے کا موقع ہرگز نہ دیں۔ قدرت نے ہمیںایک تاریخی موقع دیا ہے، اسے ضایع کردیا گیا تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس پر آیندہ لکھوں گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کا کہ پاکستان دنیا بھر دشمن کے کے ساتھ کی طرح ہے اور کے لیے
پڑھیں:
بھارت کی پاکستان مخالف سیاسی چال
پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے ماحول کے بعد بھارت بالخصوص نریندر مودی اور ان کے حامیوں میں پاکستان کے خلاف سخت غصہ، تعصب، نفرت اور بدلے کی سیاست کا پہلو نمایاں ہے۔بھارت کے لیے یہ بات ہضم کرنا مشکل ہے کہ اس کو حالیہ مہم جوئی میں پاکستان کے خلاف داخلی یا خارجی محاذ پر سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بھارت میں آج بھی یہ سوچ غالب ہے کہ پاکستان پرکیسے دوبارہ نفسیاتی برتری حاصل کی جائے۔
اس کے لیے بھارت کی حکومت جائز یا ناجائز طریقے سے پاکستان پر سفارتی محاذ پر اپنا دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے لیے مسائل کھڑے کرنے کے لیے بھارت نے پاکستان کی مخالفت میں ایف اے ٹی ایف کے تناظر میں ’’ گرے لسٹ میں پاکستان کی دوبارہ شمولیت ‘‘ پر ایک سیاسی چال چلی جس میں اسے سیاسی اور سفارتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
حالیہ دنوں میں فرانس میں ہونے والے ابتدائی اجلاس میں بھارت نے کوشش کی کہ پاکستان کو ریاستی سطح پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات کی بنیاد پر گرے لسٹ میں شامل کیا جائے مگر یہ ممکن نہیں ہوسکا کیونکہ بھارت کے پاس ایسے کوئی ٹھوس ثبوت یا شواہد موجود نہیں تھے جو اس کے مقدمہ کو مضبوط بناسکتے تھے۔
اصولی طور پر جب پاکستان اپنی سفارتی کوششوں اور دہشت گردی کے خاتمہ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس یعنی وہ ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے باہر نکلا تھا تو اس وقت بھی بھارت کی پاکستان مخالف سفارتی کوششوں کو دھچکا لگا تھا۔ بھارت نے اپنی اس ناکامی کو آسانی سے قبول نہیں کیا تھا اور اس کے بعد اس کی پاکستان کے تناظر میں خارجہ پالیسی میں یہ ہی نقطہ اہم تھا کہ کیسے پاکستان کو دہشت گردی کی سرپرستی والے ملک کے طور پر دنیا میں پیش کیا جائے ۔
اس تناظر میں بھارت نے عالمی سطح کے میڈیا، اپنے داخلی میڈیا، سفارتی پلیٹ فارم اور عالمی سطح پر موجود اپنے حمایتی ممالک اور تھنک ٹینک کو بطور ہتھیار استعمال کیا تاکہ وہ کسی طریقے سے پاکستان کو دفاعی پوزیشن پر لاسکے۔پہلگام کا واقعہ اور اس کے بعد پاکستان پر الزامات کی بارش ، اس کا دہشت گردی میں ملوث ہونے کا بیانیہ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھا۔ مگر بھارت کی یہ چال بھی برے طریقے سے ناکام ہوئی اور تمام سفارتی سطح پر بھارت کوئی بھی پاکستان کے خلاف ٹھوس شواہد پیش نہیں کرسکا ۔
بھارت کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ پاکستان کو عالمی سطح پر سیاسی اور معاشی طور پر تنہا کرسکے اور پاکستان مسلسل عدم استحکام کا شکار رہے۔بھارت نے اپنے اس کھیل میں امریکا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر بھی بہت انحصار کیا ہوا تھا اور بھارت کا خیال تھا کہ ہم کیونکہ بھارت کے اہم اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں تو بھارت پاکستان کے خلاف ہمارے مفادات کو اہمیت دے گا۔لیکن حالیہ دنوں میں جو کشیدگی پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوئی اور جس طرح سے پاکستان نے بھارت پر نفسیاتی برتری حاصل کی اس نے امریکا کو بھی اس امر پر سوچنے پر مجبور کردیا کہ پاکستان اہم ملک ہے اور اسے آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا ۔
امریکی صدر کی جانب سے کشمیر کے مسئلہ کو عالمی حیثیت دینا، دونوں ملکوں کے درمیان اس مسئلہ پر ثالثی کی پیش کش، پاکستان کے دہشت گردی کے خاتمہ میں جرات مندانہ کردار کی اہمیت اور اعتراف کرنا ، پاکستان کو اپنا اہم دفاعی یا سیاسی پارٹنر تسلیم کرنا یقینی طور پر بھارت کو قبول نہیں تھا۔لیکن امریکا اور پاکستان کے درمیان نئی صف بندی، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا اہم دورہ امریکا اور امریکی صدر سے ون ٹو ون براہ راست ملاقات ظاہر کرتی ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں نئی صف بندی ہورہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کرنے کے کوئی امکانات نہیں تھے مگر پاکستان سمجھتا تھا کہ بھارت ہر محاذ پر پاکستان کی مخالفت کا کارڈ کھیلے گا۔
پاکستان یہ بات اچھی طرح سمجھتا تھا کہ ایف اے ٹی ایف میں اصل کردار امریکا کی برتری کا ہے اور اگر امریکا پاکستان تعلقات میں بہتری نہیں ہوگی تو ایف اے ٹی ایف ہمارے خلاف بطور ہتھیار بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے اپنے داخلی محاذ پر جو بھی سنجیدہ کوششیں کیں اس کا اعتراف ایف اے ٹی ایف نے بھی کیا ہے اور اب کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے مستقبل کے تناظر میں اپنی پوزیشن واضح طور پر مضبوط کرلی ہے۔لیکن یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا اور جس انداز سے بھارت پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش ہے ہمیں ایف اے ٹی ایف سمیت دہشت گردی کے حالات میں زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا اور ان پہلوؤں کے خاتمہ میں اپنی پالیسیوں میں زیادہ ذمے داری دکھانی ہوگی ۔پاکستان میں جو بھی ادارے ایف اے ٹی ایف کی بنیاد پر کام کررہے ہیں ان اداروں کی فعالیت اور شفافیت کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ حکومتی سطح پر2023میں ایک قانون کی مدد سے ایف اے ٹی ایف سیکریٹریٹ کو بھی اب ایک اتھارٹی کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔اس لیے اس اتھارٹی کا بہتر اور شفاف استعمال ہی حکومت کے مفاد میں ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو بھی بہتر بنانے میں مدد دے گا۔
ہمیں دنیا میں موجود ان عالمی اداروں کی افادیت کو بھی سمجھنا ہوگا اور خود کو ان ہی کے طے کردہ طور طریقوں کے مطابق ڈھالنا بھی ہوگاکیونکہ پاکستان کو یہ سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کے معاملات میں محض بھارت ہی ہمارے خلاف نہیں بلکہ عالمی دنیا میں بیشتر ممالک، اہم ادارے اور تھنک ٹینک تحفظات رکھتے ہیں۔اس لیے جو بھی ہمارے داخلی مسائل یا خرابیاں ہیں ان کو دور کرنا ہماری ذمے داری ہے۔اسی نقطہ کو بنیاد بنا کر بھارت نے پاکستان سے مذاکرات کا دروازہ بھی بند کیا ہوا ہے اور یہ ہی وہ ڈید لاک ہے جو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو خراب بھی کررہا ہے۔
بھارت اس وقت کافی پریشان بھی ہے اور پاکستان کے تناظر میں غصہ میں بھی ہے اس لیے ہمیں بطور ریاست بھارت کے عزائم سے خبردار اور ہوشیار بھی رہنا ہوگا۔ ہمیں خوش فہمی سے باہر نکلنا ہوگا کہ موجودہ حالات کی بنیاد پر ہم بھارت سے بہتر اور بہت آگے کھڑے ہیں ۔یہ سچ اپنی جگہ مگر ابھی ہمیں بھارت کے ساتھ اپنے معاملات میں بہت کچھ بہتر کرنا ہے۔ بالخصوص ہمارے جو بھی داخلی سطح پر سیاسی،معاشی ،سیکیورٹی اور گورننس کے مسائل ہیں ان پر توجہ دے کر اپنا داخلی مقدمہ زیادہ مضبوط طور پر بنانا ہوگا تاکہ ہم موجودہ چیلنجز سے بہتر طور پر نمٹ سکیں ۔ ہمیں جن مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے بیشتر کا تعلق دہشت گردی سے جڑا ہوا ہے اور اس کے خاتمے میں ہمارا کردار واضح نظر آنا چاہیے کہ ہماری ریاست ان مسائل سے نمٹ رہی ہے۔