Express News:
2025-08-12@10:28:45 GMT

فتح مبین

اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT

سلام ہے پاک افواج کے ان افسروں اور جوانوں کو، جن کی وجہ سے قوم کا کھویا ہوا وقار بحال ہوا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل پاکستان کی فتحِ مبین پر مسرّت وافتخار سے سرشار ہوئے ہیں۔ 1998میں جب پاکستان ایٹمی قوّت بنا تو عرب شیوخ چالیس چالیس فٹ لمبی کاروں سے اتر کر پاکستانی مزدوروں سے گلے ملتے رہے۔

اب بھی وہی صورتِ حال ہوگی۔ امریکا ہو، یورپ ہو یا عرب ممالک۔ پاکستانیوں کو دیکھ کر سب کی نظریں پہلے حیرت سے اٹھیں گی اور پھر عزّت اور احترام میں جھک جائیں گی۔ ہندوستان کے خلاف تین دنوں کی جنگ میں جو کچھ ہوا وہ ایک معجزہ ہے، ٹیکنالوجی کے درجنوں ماہرین سے بات ہوچکی ہے سب کا کہنا ہے کہ یہ صرف ٹیکنالوجی کا کمال نہیں ہے یہ ایک معجزہ ہے اور معجزے خالقِ کائنات کی intervention سے ہی برپا ہوتے ہیں۔

کئی سالوں سے پاکستان کے بارے میں مودی کا رویّہ انتہائی حقارت آمیز تھا۔ دنیا کی چوتھی بڑی اکانومی ہونے کے باعث اس کا غرور اور تکبّر آسمانوں کو چھورہا تھا۔ کچھ غلط پالیسیوں، کمزور معیشت اور سیاسی عدمِ استحکام کے باعث دنیا میں پاکستان کا مقام اور احترام بہت نچلی سطح تک آچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی ’’ملک کی کمزوری‘‘ کے بیانئے کو بڑھایا گیا۔

ماضی کے کچھ سول اور عسکری لیڈروں کا انداز مدافعانہ اور میڈیا کا کردار فدویانہ سا رہا، کسی بھی سطح پر کوئی اینکر یا تجزیہ کار اس سوال کو ہی سنجیدگی سے لینے پر تیار نہیں ہوتا تھا کہ اب کسی ممکنہ جنگ میں پاکستان، بھارت کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ تمام تر مغربی مبصرین کا بھی یہی خیال تھا اور خود بھارتی حکمرانوں کو یہی توقع تھی کہ پاکستان بھارتی حملے کی تاب نہیں لاسکے گا اور ہماری شرائط پر صلح کی التجا کرے گا۔

مگر کائناتوں کے خالق اور مالک کے منصوبے کچھ اور تھے، اسے اپنے نام پر قائم ہونے والے ملک کی رسوائی گوارا نہ تھی۔ اس نے احساسِ کمتری کی ماری ہوئی پاکستانی قوم کو زندہ کرنے اور ایک اور موقع دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔ پاکستان کو ختم کرنے کا ارادہ لے کر نکلنے والوں کے پاس رافیل جیسے دنیا کے بہترین طیّارے اور بہترین ٹیکنالوجی تھی اور وہ صدیوں پہلے بدر کی جانب بڑھنے والے مشرکینِ مکّہ کی طرح پراعتماد تھے کہ لڑکھڑاتی ہوئی معیشت والا پاکستان چند گھنٹے کی مار ہے۔

مگر ربِّ کائنات نے ہر ہتھیار اور ہر ٹیکنالوجی کے توڑ کا بندوبست کرلیا تھا۔ دشمنوں کے رافیل کے مقابلے میں شاہینوں کے J10cp فضاؤں میں بلند ہوئے، جن سے (ریڈار پر نظر نہ آنے والے BVR) PL15E میزائل موت بن کر نکلے اور پہلے تین گھنٹوں میں ہی رافیل سمیت دشمن کے پانچ جہازوں کو تباہ کر ڈالا۔ شاہینوں نے پہلے دن ہی بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ دشمن کو اپنے اربوں ڈالر کے روسی ائیرڈیفنس سسٹم AS400 پر بڑا ناز تھا۔ پاک آرمی کے فتح میزائل اور پاک فضائیہ کے PL15 میزائلوں نے AS400 کو تہس نہس کر ڈالا اور دشمن پر ایسی دھاک بٹھادی کہ پھر دشمن کے جہاز فضاء میں بلند ہونے کی ہی ہمّت نہ کرسکے۔ آخری 24 گھنٹوں میں مقبوضہ کشمیر کی فضاؤں پر صرف پاکستان کے طیارے گھوم رہے تھے اور مقابلے پر کوئی بھارتی طیارہ زمین سے اڑنے کی بھی جرات نہ کرسکا۔

پہلگام کے سانحے کی حکومتِ پاکستان نے فوری طور پر مذمت کی اور غیرجانبدارانہ انکوائری کا مطالبہ کردیا۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ بلکہ تمام تر شواہد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ سمجھوتہ ایکسپریس کی طرح پہلگام میں بھی بے گناہ سیاحوں کو مودی حکومت نے خود مروایا ہے۔ مگر اس کے بعد بلاوجہ پاکستان پر الزام لگاکر مودی کھلی جارحیّت پر اتر آیا۔ بھارتی جارحیّت کے نتیجے میں بہاولپور اور مرید کے میں معصوم بچوں اور عورتوں سمیت 35 بیگناہ شہری شہید اور ساٹھ سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

کیا ان شہیدوں کے خون کا بدلہ لیا جائے گا؟ یہ سوال ہر شخص کی زبان پر یا ذہن میں تھا اور ہر محفل میں یہی بات زیرِ بحث آتی تھی۔ کچھ وزیروں نے جو جنگ سے گریز چاہتے تھے، اس طرح کے بیان دیے کہ پاکستانی فوج نے بھارت کے پانچ جہاز گرا کر جارحیّت کا بدلہ لے لیا ہے مزید کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس پر راقم نے کھل کر جنگ سے فرار کی کسی بھی خواہش پر تنقید کی۔ حکیم الامّت علامہ اقبال نے confrontation کی برکات سے بار بار مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے، راقم نے فکرِ اقبال کی روشنی میں قوم کو سوشل میڈیا کے ذریعے جنگ کے فوائد کے بارے میں sensitise کرنے کا فریضہ سنبھال لیا۔ راقم مسلسل لکھتا رہا کہ ’’مسلم دنیا کا سب سے بڑا شاعر اور مفکر مسلمانوں کو سو سال پہلے آگاہ کرتا رہا کہ جب تک مسلمانوں کی تلواریں ان کے ہاتھوں میں رہیں وہ دنیا کی سپرپاور ہے۔ جب تلواریں میانوں میں چلی گئیں تو مسلم ملت زوال کا شکار ہوگئی۔

اسی کشاکشِ پیہم سے زندہ ہیں اقوام

یہی ہے رازِ تب و تابِ ملتِ عربی

راقم نے لکھا کہ ’’جنگ سے فرار حاصل کرکے ہمارے چند ارب تو بچ جائیں گے مگر قوم نہیں بچ پائے گی۔ جو بچے گی وہ ایک خوفزدہ، سہمی ہوئی، شکست خوردہ اور مرعوبیّت کی ماری ہوئی مردہ قوم ہوگی ایسی قوم جو مستقل طور پر دشمن کے لیے ایک لقمۂ تر ہوگی۔ جیسے اسرائیل کے لیے لبنان ہے۔ عصانہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد‘‘ کچھ عرصے سے ملک کے اندر اور باہر یہ تاثر پھیلایا گیا تھا کہ پاکستان بہت پیچھے چلا گیا ہے اور ہندوستان بہت آگے نکل گیا ہے۔

بھارتی حکمران اپنی تقریروں میں پاکستان کا مذاق اڑاتے تھے کہ وہ تو زندہ رہنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ ایک سابق آرمی چیف نے بھی انتہائی گھٹیا بیان دیا تھا کہ ہمارے پاس ٹینکوں میں تیل ڈالنے کے لیے پیسے نہیں ہم نے کیا جنگ لڑنی ہے۔ اس سے کنفیوژن، مایوسی اور بددلی میں اضافہ ہوتا گیا۔ مگر پاکستان کا موجودہ سپہ سالار یکسو اور پرعزم تھا۔ اس کے سینے میں کلامِ الٰہی محفوظ ہے اور وہ جنگ میں اسی کتابِ حق سے راہنمائی لیتا رہا۔ وہ اس کی ننگی جارحیّت کے بعد بھارت کو سبق سکھانے کا تہیّہ کرچکا تھا، اس کے لیے اس نے کلامِ الٰہی سے ہی راہنمائی لیتے ہوئے آپریشن کا نام بنیانِ مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار) رکھا اور سنتِ مصطفیﷺ پر عمل کرتے ہوئے نمازِ فجر کے ساتھ ہی مقدّس مشن کا آغاز کیا۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ دس مئی کو تہجّد اور فجر کے وقت بے شمار لوگوں نے گڑگڑا کر ربِّ کائنات سے مدد کی التجائیں کی تھیں۔

پاکیزہ کردار مسلمانوں کی دعائیں اور التجائیں قبول ہوئیں اور پھر چند گھنٹوں میں ہی ایس پی ڈی کے فتح میزائلوں اور پاک فضائیہ کے شاہینوں نے ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ وہ چھبیّس مقامات پر عقاب کی طرح جھپٹے اور اہداف کو تباہ کرکے بحفاظت واپس پہنچ گئے۔ اس آپریشن نے مودی اور ہندو توا کے پیروکاروں پر لرزہ طاری کردیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت کا تکبّر خاک میں مل گیا۔ پاکستان نے دنیا کے جدید ترین رافیل طیاروں کو ناکارہ بنا کر بھارت کی برتری کے دعووں کو مٹی میں ملادیا۔ پاکستان نے بھارت اور اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا myth بھی توڑ کر رکھ دیا۔ پاکستان ائیرفورس کو پورے ساؤتھ ایشیا میں فضائی برتری حاصل ہوگئی اور یورپی میڈیا پاکستان کی بے مثال فضائیہ کو ’’آسمانوں کا بادشاہ‘‘ کہنے پر مجبور ہوگیا۔

پاکستان کی اس فتحِ مبین سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کا امیج اور مقام زمین سے آسمان تک پہنچ گیا ہے بلکہ اس سے دنیا بھر کے مایوس اور غمزدہ مسلمانوں کو نئی امیّد اور حوصلہ ملا ہے۔ اس عظیم کامیابی کی خبر سن کر فلسطین، لبنان اور عرب مسلمانوں کے دکھی دلوں کو کئی دھائیوں کے بعد اطمینان اور خوشی نصیب ہوئی ہے۔ بھارت کی ہزیمت اور پاکستان کی فتح نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے زخموں پر بھی مرہم رکھا ہے اور اس فتحِ مبین سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمان سر اونچا کرکے چلنے کے قابل ہوئے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے کی جانے والی میزائلوں کی بارش نے بھارت کو بے بس کردیا تو مودی نے مدد کے لیے ٹرمپ کو پکارا کہ ہمیں بچاؤ اور ہماری جان چھڑاؤ۔ چین ہمارا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے جس نے ہمیں جدید ترین ٹیکنالوجی فراہم کی۔

ترکی نتائج سے بے پرواہ ہوکر سگے بھائیوں کی طرح ہمارے ساتھ کھڑا ہوا، ہم چین اور ترکی کے بے حد مشکور ہیں۔ آذربائیجان اور بنگلہ دیش کے عوام نے بھی کھل کر پاکستان کی حمایت کی ہم ان کے بھی شکر گذار ہیں۔ آزمائش کا وقت آیا تو پوری قوم متحد ہوکر فوج کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔ عمران خان کے پیروکاروں میں سے ایم این ایز نے تو ذمے داری کا ثبوت دیا مگر بہت سے پیروکار دشمن کے حامی اور ہمنوا بن کر بھارتی میڈیا کا جھوٹا اور غلیظ پراپیگنڈا پھیلانے کی کوشش کرتے رہے اس طرزِ عمل کی جتنی بھی مذمّت کی جائے کم ہے۔ بھارت کے ساتھ جب بھی بات چیت شروع ہو، اس کے ایجنڈے میں کشمیر، بھارت کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرپرستی اور دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے ایشو سرِفہرست ہونے چاہیئیں۔

کل مودی کا خطاب ایک شکست خوردہ انسان کی آخری ہچکی ہے اس کے تکبّر کے ساتھ ہی اس کا اقتدار بھی دفن ہونے والا ہے۔ مگر دشمن بدنیّت، مکّار اور ناقابلِ بھروسہ ہے اس لیے اس کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیّت کا امکان نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اسے روکنے کا وہی طریقہ ہے جس نے مودی کو جنگ بندی پر مجبور کیا، اور وہ یہ ہے کہ ہماری تینوں افواج ہردم تیار رہیں اور آنکھیں جھپک کر دشمن کو پہلے وار کرنے کا موقع ہرگز نہ دیں۔ قدرت نے ہمیںایک تاریخی موقع دیا ہے، اسے ضایع کردیا گیا تو یہ بہت بڑی بدقسمتی ہوگی۔ اس پر آیندہ لکھوں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: میں پاکستان پاکستان کی پاکستان کا کہ پاکستان دنیا بھر دشمن کے کے ساتھ کی طرح ہے اور کے لیے

پڑھیں:

دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست

اسلام ٹائمز: سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔ تحریر: عرض محمد سنجرانی

دنیا کی تاریخ میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو صرف ماضی کا حصہ نہیں بنتے بلکہ آنے والے ہر دور میں ضمیر کو جھنجھوڑتے رہتے ہیں۔ بوسنیا کی نسل کشی اور آج کا غزہ۔ یہ دونوں سانحات وقت اور جغرافیہ کے فاصلے کے باوجود ایک دوسرے کے آئینے ہیں۔ دونوں میں بے بس مظلوم، طاقت کے نشے میں چور جارح، اقوامِ متحدہ کی بے عملی، مغربی دنیا کی منافقت، اور مسلم دنیا کی خوابیدہ خاموشی ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ صہیونی ریاست اسرائیل، جس کی بنیاد ہی فلسطینی زمین پر غاصبانہ قبضے پر رکھی گئی، گزشتہ پونے دو سال سے غزہ کے محصور عوام کو نہ صرف بمباری، بھوک اور بیماری کا نشانہ بنا رہی ہے بلکہ اب کھلے عام اس کی بقاء اور آزادی کو مکمل طور پر مٹانے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے۔

اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے وزیرِاعظم نیتن یاہو کے اُس منصوبے کو منظور کیا ہے جس کے مطابق غزہ شہر کا مکمل عسکری کنٹرول اسرائیل کے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ محض "سلامتی" کا ڈھونگ نہیں بلکہ قبضے کو دائمی شکل دینے کا اعلان ہے۔ نیتن یاہو کا یہ کہنا کہ یہ قبضہ نہیں بلکہ عسکری کنٹرول ہے، ایک ایسا لغوی فریب ہے جو حقیقت کی لاش کو الفاظ کے کفن میں لپیٹنے کے مترادف ہے۔ مغربی دنیا کے اخلاقی معیار کی دوغلی حقیقت اس وقت ننگی ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ساحل پر بھٹکی ہوئی وہیل یا کسی سرکس میں ہاتھی پر ظلم پوری دنیا میں احتجاج اور آنسوؤں کا سیلاب لے آتا ہے، مگر جب غزہ میں معصوم بچوں کے جسم بارود سے بکھر جاتے ہیں، مائیں اپنے لختِ جگر کے کٹے پھٹے اعضا گود میں اٹھائے بین کرتی ہیں، اور پورے شہر ملبے میں دفن ہو جاتے ہیں، تو یہ نام نہاد مہذب معاشرے اور انسانی حقوق کے علمبردار اچانک گونگے بہرے ہو جاتے ہیں۔

یہ چنیدہ ہمدردی اب کسی فرد کا ذاتی نقص نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکی ہے۔ بوسنیا کی سرزمین پر 1992ء سے 1995ء تک برپا ہونے والا قیامت خیز دور آج بھی یورپ کے ماتھے پر سیاہ داغ ہے۔ سریبرینیتسا میں 8,000 سے زائد مسلمان مرد اور لڑکے اُس وقت ذبح کر دیے گئے جب وہ اقوامِ متحدہ کی ’’تحفظ یافتہ‘‘ پناہ گاہ میں موجود تھے۔ پچاس ہزار سے زائد خواتین کو ریپ اور جنسی غلامی کا نشانہ بنایا گیا۔ عالمی طاقتیں بیان بازی تک محدود رہیں، قراردادیں محض کاغذی ثابت ہوئیں، اور بالآخر ایک ایسا امن معاہدہ مسلط کیا گیا جس نے قاتل کو انعام اور مقتول کو مستقل زخم دے دیا۔ اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی بمباری نے اب تک 38,000 سے زیادہ فلسطینی جانیں نگل لی ہیں، جن میں 70 فیصد عورتیں اور بچے ہیں۔

اسپتالوں کو ملبے کا ڈھیر بنایا گیا، اسکول اور مساجد خاکستر ہوئیں، رفح کراسنگ پر امدادی قافلے روک دیے گئے یا بمباری میں تباہ کر دیئے گئے۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو نے اسرائیلی جارحیت کو لوہے کی ڈھال فراہم کی ہوئی ہے۔ پچاس سے زائد مسلم ممالک، جن کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر، طاقتور افواج اور سیاسی اثر و رسوخ ہے، ایک متفقہ عملی لائحہ عمل بنانے میں ناکام ہیں۔ کچھ نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر کر لیے، کچھ نے مغربی طاقتوں کے دباؤ اور تجارتی مفادات کے بدلے خاموشی اختیار کرلی۔ او آئی سی اجلاس بلاتی ہے، قراردادیں پاس کرتی ہے، لیکن نہ کوئی معاشی دباؤ، نہ سفارتی مزاحمت۔ یہ خاموشی کمزوری نہیں بلکہ مفاد پرستی کا اعلان ہے۔

بوسنیا میں قاتلوں کو ’’نسلی تطہیر‘‘ کے نام پر وقتی امن کا تحفہ دیا گیا۔ غزہ میں بھی خطرہ یہی ہے کہ تعمیرِ نو کے نام پر اربوں ڈالر آئیں گے مگر اس کے بدلے میں فلسطینی عوام کی سیاسی آواز کا گلا گھونٹ دیا جائے گا۔ دنیا اپنے راستے پر چل دے گی، یتیم بچے کھنڈرات میں کھیلیں گے، اور قاتل کسی خفیہ معاہدے کے سائے میں محفوظ رہیں گے۔ یہ المیے صرف تاریخ کی کتابوں کا حصہ نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی جیتی جاگتی مہر ہیں۔ اصل سوال یہ نہیں کہ اسرائیل کب رکے گا، بلکہ یہ ہے کہ مسلم دنیا کب جاگے گی؟ جب آنے والی نسلیں یہ پڑھیں گی کہ بوسنیا اور غزہ میں انسانیت کو ذبح کیا گیا اور ہم خاموش تماشائی تھے، تو کیا ہم اس شرمندگی اور تاریخی ندامت کا بوجھ اٹھا سکیں گے؟

متعلقہ مضامین

  • بھارتی مصنوعات پر بھاری محصولات‘ امریکی برانڈز کے بائیکاٹ اور مقامی مصنوعات کو فروغ دینے کی مہم زور پکڑ گئی
  • نیوکلیئر تھریٹ کی بات پر بھارت جھوٹ بول رہا ہے، خواجہ آصف
  • بھارت یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطل نہیں کرسکتا؛ بلاول بھٹو
  • عوام میں اتنی طاقت ہے کہ بھارت سے اپنے تمام 6 دریا واپس چھین سکیں، بلاول بھٹو زرداری
  • بھارت نے رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے جنگ چھیڑی اور پھر پاکستان نے اسے مکمل کیا، بلاول بھٹو
  • دو المیے ایک حقیقت، بوسنیا سے غزہ تک انسانیت کی شکست
  • مسلمانوں نے قائداعظم کی آواز پر لبیک کہا اور آزادی کے اصل مقصد کو سمجھا، بلال سلیم قادری
  • بی جے پی اور آر ایس ایس دہشت گردی کروا کر الزام مسلمانوں پر لگاتے ہیں، دھماکا خیز انکشاف
  • دھرتی جنگ نہیں امن چاہتی ہے
  • پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات