اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ججز تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط ہے،خط کے بعد تمام ججز ہی نشانے پر آگئے،ایک جج کی ڈگری کا مسئلہ نکل آیا، دوسرے کا بیرون ملک رہائش کا ریکارڈ مل گیا،اصل مسئلہ جسٹس عامرفاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کا تھا۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ ججز تبادلے کی حکومتی وجہ مضحکہ خیز ہے،قانون میں تبادلے نہیں، صوبوں سے تعیناتی کا  ذکر ہے،جوڈیشل کمیشن نے 5میں سے 2اسامیوں پر تعیناتی کی،حکومت کہتی ہے جوڈیشل کمیشن نے ججز نہیں لگائے تو ہم نے لگا دیئے،ججز تبادلے کی اصل وجہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط ہے،خط کے بعد تمام ججز ہی نشانے پر آگئے،ایک جج کی ڈگری کا مسئلہ نکل آیا، دوسرے کا بیرون ملک رہائش کا ریکارڈ مل گیا،اصل مسئلہ جسٹس عامرفاروق کی سپریم کورٹ تعیناتی کے بعد نئے چیف جسٹس کی تقرری کا تھا۔

رسی جل گئی ،بل نہیں گیا ،بھارت کی ڈھٹائی ، اپنی ضد پر قائم 

مزید :.

ذریعہ: Daily Pakistan

کلیدی لفظ: اسلام ا باد ہائیکورٹ کے ججز تبادلے کی کے بعد

پڑھیں:

اسلام آباد میں ججز تعیناتی کیلئے ایگزیکٹیو کی عدلیہ سے مشاورت لازمی قرار

—فائل فوٹو

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد میں ججز تعیناتی کے لیے ایگزیکٹیو کی عدلیہ سے مشاورت کو لازمی قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے عمار سہری ایڈووکیٹ کی درخواست منظور کرنے کا فیصلہ جاری کر دیا۔

فیصلے کے مطابق ریاست کے تین ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ آزاد ہیں اور کسی کو دوسرے پر بالادستی حاصل نہیں، کوئی بھی قانون یا انتظامی عمل جو عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرے وہ آئین سے متصادم اور باطل ہے۔

جسٹس بابر ستار نے فیصلے میں کہا ہے کہ ماتحت عدلیہ بھی اسی آئینی تحفظ کی حقدار ہے جو اعلیٰ عدلیہ کو حاصل ہے، ججز کی سروس کی شرائط میں آزادانہ، غیرجانبدارانہ اور بیرونی دباؤ سے آزاد ہو کر اختیارات کا استعمال شامل ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز تعیناتی میں وفاقی حکومت اپنے اختیارات اسلام آباد ہائی کورٹ سے مشاورت کے بعد استعمال کرے، اسلام آباد میں دوسرے صوبوں سے ڈیپوٹیشن پر لائے گئے ججز عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں، عدالتی افسران کی تقرری، مدت ملازمت اور برطرفی کے لیے حکومت ترمیم کرے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ترمیم تک کوئی بھی تقرری، ٹرانسفر یا برطرفی سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ساتھ مشاورت سے ہوگی، سپریم کورٹ یا اسلام آباد ہائی کورٹ کی مشاورت کے بغیر تقرری، ٹرانسفر یا برطرفی غیرقانونی تصور ہوگی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون و انصاف اور کابینہ ڈویژن کو فیصلے کی نقول بھجوانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 9 اور 25 کے تحت شہریوں کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ججز کی تعیناتی کے لیے عدلیہ سے مشاورت لازمی قرار، اسلام آباد ہائیکورٹ نے اہم فیصلہ سنا دیا
  • اسلام آباد میں ججز تعیناتی کیلئے ایگزیکٹیو کی عدلیہ سے مشاورت لازمی قرار
  • اسلام آباد میں ججز تعیناتی کیلئے ایگزیکٹو کی عدلیہ سے مشاورت لازمی قرار، فیصلہ جاری 
  • جسٹس منیر سے لے کر گڈ ٹو سی یو تک ججز کا ضمیر نہیں جاگا، ہمیں فرشتے بننے کا کہتے ہیں، خواجہ آصف
  • اسلام آباد ہائیکورٹ: سی ڈی اے تحلیل کرنے کا حکم، ڈویژن بنچ نے معطل کردیا
  • 190 ملین پاؤنڈ کیس کا فیصلہ سنانے والے جج کوکام سے روکنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
  • یوٹیوبر ڈکی بھائی کی ضمانت؛ لاہور ہائیکورٹ کے جج نے کیس سننے سے انکار کردیا
  • ججوں کے تبادلے سے متعلق قانون کیا اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو متاثر کرے گا؟
  • سینیئر وکیل فیصل صدیقی کا چیف جسٹس کو خط، 27ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار
  • 27 ویں ترمیم: ججز کے تبادلے کی ترمیم میں تبدیلی پر غور، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر معاملات طے نہ پاسکے