بھارتی دفاعی ماہر سشانت سنگھ کی مودی سرکار اور گودی میڈیا پر سخت تنقید
اشاعت کی تاریخ: 14th, May 2025 GMT
نئی دہلی: بھارت کے ممتاز دفاعی تجزیہ کار سشانت سنگھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حالیہ پالیسیوں، جنگی حکمت عملی اور میڈیا کے کردار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی روایتی پالیسی کو پسِ پشت ڈال کر مودی نے نہ صرف امریکہ کے دباؤ میں آکر کمزوری دکھائی بلکہ بھارتی خارجہ پالیسی کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
سشانت سنگھ کے مطابق: "نریندر مودی کا ٹرمپ کے دباؤ میں آنا انتہائی شرمناک ہے۔ بھارت کی ہمیشہ سے حکمت عملی رہی کہ پاکستان کے ساتھ کوئی بھی بحران عالمی فورمز پر نہ لے جایا جائے، لیکن مودی نے خود اس پالیسی کو دفن کر دیا۔"
انہوں نے مزید کہا: "مودی نے یہ تاثر دیا کہ بھارت کی اصل جنگ چین سے ہے اور پاکستان کوئی حیثیت نہیں رکھتا، لیکن آج وہی پاکستان پانچ بھارتی جنگی طیارے، جن میں تین رافیل بھی شامل ہیں، مار گرانے کا دعویٰ کر رہا ہے — اور بھارت اس کی تردید بھی نہیں کر سکا۔"
سشانت سنگھ نے کہا کہ گودی میڈیا نے سچ چھپایا، جھوٹ پھیلایا اور جو ادارے سچ لائے جیسے The Wire اور The Hindu، ان پر پابندیاں لگا دی گئیں۔
انہوں نے کہا "بین الاقوامی میڈیا نے سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے بھارتی طیاروں کی تباہی کی تصدیق کی، لیکن بھارت میں جھوٹ بولنے والوں کو ہیرو بنا دیا گیا۔"
ان کا کہنا تھا "پاکستانی میڈیا نے پیشہ ورانہ انداز میں حقائق پر مبنی رپورٹنگ کی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر توجہ حاصل کی۔ رافیل طیاروں کا چین کی مدد سے گرایا جانا جیو اسٹریٹیجک نقطۂ نظر سے انتہائی اہم ہے۔"
سشانت نے بھارتی سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ اور صحافیوں کی بدکرداری پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سشانت سنگھ
پڑھیں:
لداخ میں مودی سرکار کی ریاستی دہشت گردی؛ مزید 4 ہلاکتیں، احتجاجی رہنما بھی گرفتار
مقبوضہ کشمیر کے علاقے لداخ میں علیحدہ ریاستی حیثیت اور خصوصی حقوق کے حق میں جاری احتجاجی تحریک پر مودی سرکار کے طاقت کے بے دریغ استعمال کے باوجود پورے زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مودی سرکار کی ایما پر کٹھ پتلی کشمیری انتظامیہ نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
تازہ واقعے میں پولیس کی فائرنگ سے مزید 4 افراد مارے گئے جب کہ احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے والے ماحولیاتی رہنما سونم وانگچک کو بھی حراست میں لے لیا گیا۔
رواں ماہ کی ابتدا سے جاری ان احتجاجی مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 20 سے زائد ہوگئی جب کہ 50 سے زائد زخمی ہیں۔
ایک سینئیر پولیس افسر نے تصدیق کی کہ بھوک ہڑتال پر بیٹھے رہنما سونم وانگچک کو پریس کانفرنس کرنے سے پہلے ہی گرفتار کرلیا گیا۔
بھارتی وزارت داخلہ نے الزام عائد کیا ہے کہ سونم وانگچک اشتعال انگیز تقاریر کے ذریعے عوام کو تشدد پر اکسا رہے تھے۔
مودی سرکار نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ سونم وانگچک کیتنظیم اسٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل موومنٹ آف لداخ کا لائسنس بھی منسوخ کر دیا۔
یاد رہے کہ 2019 میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے براہِ راست وفاق کے زیر انتظام کر دیا تھا۔
متعصب مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بھی ختم کردیا تھا۔
جس کے بعد سے لداخ کے عوام ریاستی درجہ بحال کرنے، ملازمتوں میں کوٹہ اور قبائلی علاقوں کے تحفظ کے لیے مسلسل سراپا احتجاج ہیں لیکن کہیں سنوائی نہیں ہو رہی ہے۔
جس کے بعد مقامی رہنما اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے۔ کیمپ میں عوام بھی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے اور احتجاج کا سلسلہ بڑھتا چلا گیا۔
ادھر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ لداخ کے نمائندوں سے مذاکرات کا سسلہ 2023 سے جاری ہے جس کا اگلا دور 6 اکتوبر کو متوقع ہے۔