Daily Mumtaz:
2025-11-06@17:19:06 GMT

افغانستان کی دہشت گردی کے حوالے سے دوغلی پالیسی بے نقاب

اشاعت کی تاریخ: 22nd, September 2025 GMT

افغانستان کی دہشت گردی کے حوالے سے دوغلی پالیسی بے نقاب

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)افغان حکومت نے ایک طرف امریکا سے دوحہ معاہدے کی داد رسی کی درخواست کی جبکہ دوسری جانب افغان حکومت اپنی سرزمین پر پاکستان مخالف دہشتگردوں کو تحفظ دینے میں مصروف ہے۔

افغانستان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے مطالبے پر امریکا سے دوحہ معاہدے کی پیروی کا مطالبہ کیا ہے، افغان حکومت نے امریکا کو یاد دہانی کروائی کہ دوحہ معاہدے کے تحت اسے افغانستان کی علاقائی سالمیت اور آزادی کا احترام اور مداخلت سے گریز کرنا ہے۔

دوحہ امن معاہدے میں افغانستان نے اپنی سرزمین دہشتگردی اور پڑوسی ممالک میں دراندازی کے لیے استعمال نہ ہونے کی ضمانت دی تھی لیکن افغان حکومت کی دوحہ معاہدے کی پاسداری کی درخواست محض ڈھونگ ہے۔

شواہد سے ثابت ہے کہ افغانستان، پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیوں کی سرپرستی جاری رکھنے میں مصروف ہے۔

پاکستان نے متعدد بار افغانستان کی فتنہ الخوارج کی دہشتگردی میں سہولت کاری کے شواہد عالمی برادری کے سامنے رکھے اور ان شواہد میں افغان سرزمین پر پناہ گزین فتنہ الخوارج کے سرغنہ خارجی نور ولی محسود کی فون کال بھی شامل ہے، خارجی نور ولی، خارجی غٹ حاجی کو فون کال کی ریکارڈ ٹیپ میں دہشتگردی کی ہدایات دے رہا ہے۔

مارچ 2025 میں بلوچستان کے ٹوبہ کاکڑی میں گرفتار دہشت گرد اسام الدین نے اعتراف کیا تھا کہ افغانستان سے سرحدی باڑ عبور کر کے پاکستان آیا۔

اسی طرح 7 اور 8 اگست کے درمیان سکیورٹی فورسز نے سمبازا، بلوچستان میں افغان بارڈر سے داخل ہونے کی کوشش کرنے والے فتنہ الخوارج کی بڑی تشکیل کے 47 دہشت گرد جہنم واصل کیے۔

ستمبر 2025 میں پاک فوج کے کامیاب آپریشن حیدر میں حافظ گل بہادر گروپ کے خارجی عبدالصمد عرف صمد نے سرنڈر کرتے ہوئے افغانستان میں دہشتگردانہ تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

دوحہ معاہدے کی یاد دہانی کروانے والا افغانستان پہلے اپنے داخلی معاملات درست کرے اور دہشتگردوں کی سہولت کاری بند کرے، دوغلی پالیسی اپنانے اور ڈھونگ رچانے کے بجائے افغانستان کو خطے میں امن کی راہ ہموار کرنے میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: دوحہ معاہدے کی افغان حکومت

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251105-03-8
قاسم جمال
پاکستان اور افغانستان نے ترکیہ میں ہونے والے مذاکرات میں جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کرلیا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں مذاکرات کے بعد جاری مشترکہ اعلامیے میں بتایا گیا کہ افغانستان، پاکستان، ترکیہ، قطر کے نمائندوں نے 25 سے 30 اکتوبر 2025 تک استنبول میں جنگ بندی کے لیے اجلاس منعقد کیے جن کا مقصد اس جنگ بندی کو مضبوط بنانا تھا جو کہ 18 اور 19 اکتوبرکو دوحا میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان طے پائی تھی۔ اس اعلامیے کے مطابق فریقین نے جنگ بندی کے تسلسل پر اتفاق کیا ہے اور عمل درآمد کے مزید طریقہ کار پر غور و خوض اور فیصلہ استنبول میں 6 نومبر 2025 کو اعلیٰ سطح کے اجلاس میں کیا جائے گا۔ اس طرح ایک مانیٹرنگ اور تصدیقی نظام قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے جو امن کے تسلسل کو یقینی بنائے گا اور معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے فریق پر سزا عائدکرے گا اور دونوں فریق بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کی جانب بڑھ سکیں گے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کا محور وہی بنیادی مطالبہ تھا کہ افغانستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور موثر کارروائی کرے۔ پاکستان نے ایک بار پھر زور دیا ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے۔

بلاشبہ اس مذاکراتی عمل اور یہ اعلامیہ خطے میں امن، استحکام کے فروغ کی سمت ایک اہم پیش رفت ہے اور خطے میں امن کے لیے یہ بہترین کوشش ہے۔ اس اعلامیہ کا بنیادی نقطہ افغان سرزمین کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔ ان مذاکرات کے دوران پاکستان نے قابل عمل اور ٹھوس شواہد رکھے جو افغان فریق اور میزبان ممالک نے تسلیم کیے۔ البتہ افغان وفد نے بنیادی نکتہ سے ہٹ کر بحث کو موڑنے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ سے مذاکرات متوقع نتیجہ تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ پاکستان نے استنبول میں چار روزہ مذاکرات کے دوران افغانستان کے نمائندہ وفد پر اپنی امیدوں اور احتیاطی حکمت عملی دونوں کے ساتھ اپنی پالیسی واضح کی۔ حکومت پاکستان نے واضح کیا کہ ان مذاکرات کا مقصد افغان عوام کی بہبود اور دونوں ملکوں کی سلامتی ہے اور خطے میں دیرپا امن ہماری اولین ترجیحی ہے۔ جس کے لیے سفارتی راستے اختیار کیے گئے ہیں۔ پاکستان کا اصولی موقف ہے کہ بھارت کے کہنے پر افغانستان کی جانب سے دہشت گردی یا ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ہوگی تو پھر پاکستان اپنی عوام کے تحفظ اور وطن عزیز کی سلامتی کے لیے تمام ممکنہ کارروائیاں کرنے کا پابند ہے۔ تاکہ دہشت گردوں، ان کے ٹھکانوں اور حامیوں کو ختم کیا جاسکے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ دوست ممالک کے کہنے اور ان کی مداخلت پر کابل کے روئیے میں تبدیلی آئی ہے۔ افغانستان اگر اس امر کی ضمانت دیتا ہے کہ مستقبل میں دہشت گردوں کی مزید پشت پناہی نہیں کرے گا تو یہ ایک اہم پیش رفت ہوگی۔ تمام شرائط کی بنیاد امن ہے اور اگر امن نہیں ہوگا تو آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔ بھارت کی جانب سے دہشت گردوں کی پشت پناہی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اسی طرح سے افغان طالبان کی دھوکا دہی پر پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہم افغان طالبان کی دھوکا دہی مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اگر وہ لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا سب کچھ دیکھے گی۔ ہم طالبان کو دوبارہ غاروں میں دھکیلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہم نے برادر ملکوں کی درخواست پر افغانستان سے امن کے لیے مذاکرات کیے ہیں۔ لیکن افغان حکام کے زہریلے بیانات طالبان کی بدنیت سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔ افسوس طالبان حکومت نے افغانستان کو دوبارہ تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے۔ افغانستان کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں پوری طاقت استعمال کرنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی اگر ہم چاہیں تو تورا بورا کی شکست کے مناظر ایک بار پھر دہرائیں گے۔

افغان طالبان صرف اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ افغان طالبان کی جنگی معیشت صرف تباہی اور خونریزی پر قائم ہے۔ افغان طالبان اپنی کمزوری اچھی طرح جانتے ہیں مگر وہ جنگی نعرے لگا رہے ہیں جس سے تباہی اور بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ طالبان سے افغانستان اور اس کے عوام کو مزید تباہ وبرباد کرنا چاہتی ہے۔ افغانستان ماضی میں سلطنتوں کے کھیل کا میدان رہا ہے اور افغان عوام کی تباہی کا مرکز افغان حکومت اگر ایسا پھر چاہتی ہے تو ایسا ہی ہوجائے۔ افغان طالبان کے جنگ پسند عناصر نے ہماری محبت کو غلط سمجھا ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اگر افغان طالبان جنگ چاہتے ہیں اور لڑنا چاہتے ہیں تو دنیا اب سب کچھ دیکھے گی ہماری دھمکیاں صرف تماشا نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

خطے میں کشیدگی کم کرنے اور کسی بھی تنازع سے بچنے کی ضرورت ہے۔ فتنہ الخوارج کی قیادت افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی اور دراندازی کی کوشش کررہی ہے۔ جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ افغان سرزمین دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ حکومت پاکستان نے افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکا جائے۔ پاکستان میں بھارتی سرپرستی میں سرگرم باقی خوارج کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔ جبکہ سیکورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے عزم استحکام مہم، کے تحت انسداد دہشت گردی کی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں اور یہ مہم نیشنل ایکشن پلان کی وفاقی اپیکس کمیٹی کے منظور شدہ وژن کے مطابق ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے جاری ہے۔ بلاشبہ جنگ کسی بھی صورت میں پاکستان یا افغانستان کے مفاد میں نہیں ہے اور اس جنگ میں دونوں طرف سے مارے جانے والے کلمہ گو مسلمان ہی ہوں گے۔ پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی پر اتفاق اور مذاکرات کی بحالی خوش آئند بات ہے۔ کابل کو بھی چاہیے کہ وہ اس بات کی ضمانت دے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ پاکستان نے چالیس سال تک اپنے افغان بھائیوں کی میزبانی کی ہے اور بھارت کے ایماء پر اپنے بردار اسلامی ملک کے ساتھ اس قسم کا رویہ ایک المیہ ہے۔ ان شاء اللہ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل ہوں گے۔ بھارت پاکستان اور افغانستان دونوں ملکوں کا دشمن ہے بھارت کو دوست ملک قرار دینا افغانستان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی ہے اور افغانستان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور افغان عوام خود جلد ایسی نااہل حکومت کو اقتدار سے اُتار پھینکے گی۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • افغان طالبان سے مذاکرات کا تیسرا دورشروع،پاکستان کا دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ برقرار
  • افغان طالبان سے مذاکرات کا تیسرا دور،پاکستان کا افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کا مطالبہ برقرار
  • دہشت گردی کی روک تھام: پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات کا اگلا دور آج ہوگا
  • استنبول :دہشت گردی کا خاتمہ‘ پاکستان اور افغان طالبان میں مذاکرات آج ہونگے
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی اورافغانستان
  • پاک افغان جنگ بندی پر اتفاق؟
  • افغانستان سے خیبر پختونخواہ میں منشیات کی بڑی اسمگلنگ کا نیٹ ورک بے نقاب
  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • افغانستان سے دراندازی ناکام‘ فورسز کی کارروائی میں 3 خوارج ہلاک
  • افغان دراندازی ناکام، 3 فتنہ الخوارج دہشگرد ہلاک،ترجمان پاک فوج