ملک بھر میں رہائشی مسائل انتہائی گمبھیر صورتحال اختیار کر چکے ہیں مگر کنالوں اور ایکڑوں زمین پر بنے سرکاری پرتعیش بنگلوں، عالی شان کوٹھیوں اور وسیع و عریض ہاؤسوں میں رہنے والوں کو کیا فکر اور وہ فکر بھی کریں کیوں انھیں عارضی اور مستقل رہائش گاہیں میسر اور خدمت کے لیے سرکاری مراعات ملی ہوئی ہیں۔
عارضی سرکاری اورکنالوں میں پھیلے ایوان صدر، وزیر اعظم ہاؤس، بڑے بڑے گورنر ہاؤسز، وزرائے اعلیٰ اور وزیروں کو اقتدار میں آنے کے بعد وہ تمام رہائشی سہولیات سرکاری طور پر مل جاتی ہیں جن کا عام آدمی تو کیا متوسط طبقہ بھی تصور نہیں کر سکتا۔ ایسی جگہوں کے تو قریب سے گزرنے کا ملک کی اکثریتی آبادی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
وقت ضرورت اپنے کاموں کے لیے حکمرانوں کے دفاتر اور بڑے محکموں کے سرکاری دفاتر میں آنے کے لیے بھی انھیں مشکل سے شناختی کارڈ گروی رکھنے کے بعد داخلے کی اجازت ملتی ہے اور سیکیورٹی اداروں کے دفاتر پولیس ہیڈ آفسز اور اعلیٰ پولیس افسران، سیکریٹریوں، کمشنرز و ڈپٹی کمشنرز کی رہائش گاہوں سے تو غریب کیا متوسط طبقے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا مگر اعلیٰ سرکاری افسروں کے دفاتر کے باہر ہی انھیں سیکیورٹی والوں کے پاس شناخت کرا کر اور اپنے کام کی تفصیل جان کر ہی داخلے کی اجازت ملتی ہے، اتنی سختی کی وجوہات دہشت گردی قرار دی جاتی ہے مگر جو اصل دہشت گرد ہوتے ہیں انھیں جو ٹاسک سونپا جاتا ہے اس کی تکمیل کے لیے گمراہ ہو کر اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر وہ کسی نہ کسی طرح اندر داخل ہو کر دہشت گردی کر جاتے ہیں اور ان کی راہ میں سیکیورٹی اہلکار تو کیا وہاں لگے آہنی گیٹ اور مضبوط دیواریں بھی رکاوٹ نہیں بنتیں وہ سب کو پھلانگ کر داخل ہو کر کام دکھا جاتے ہیں جس کو سرکاری سیکیورٹی فیلیئر قرار دیا جاتا ہے۔
ملک بھر میں انگریز حکمرانوں نے اپنی حفاظت اور رہائش کے لیے وسیع و عریض رہائش گاہیں بنائی تھیں جو ان کے جانے کے بعد گورنر ہاؤس بنا دیے گئے اور جو دیگر افسروں کی جگہیں تھیں وہ کمشنر ہاؤس، ڈی سی ہاؤس اور اعلیٰ بیورو کریٹس اور اعلیٰ پولیس افسران کی سرکاری رہائش گاہوں میں تبدیل کر دی گئیں جو ان کی مستقل اور ایسی جگہیں ہیں جو بعد میں آنے والوں کو ملتی رہتی ہیں اور ہر سال ان کی مرمت و تزئین و آرائش پر سرکاری رقوم خرچ کی جاتی ہیں جس سے وہاں آنے جانے والوں کی جیبوں پر خرچہ نہیں آتا اور انھیں ساری سہولتیں سرکاری طور ملتی ہیں۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین نے اقتدار میں آنے سے قبل عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے خوشنما دعوے کیے تھے کہ بڑے بڑے گورنر ہاؤس محدود کر کے انھیں عوام کے لیے کھول دیں گے اور وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی اور گورنر ہاؤسز میں نئے تعلیمی ادارے قائم کریں گے مگر پونے چار سالوں میں کچھ بھی کیا نہ گورنر ہاؤس محدود ہوئے نہ وہ عوام کے لیے کھلے۔ معمولی تبدیلی یہ آئی کہ مضبوط دیواروں پر لوہے کے جنگلے لگ گئے تاکہ عوام باہر سے ہی گورنر ہاؤس دیکھ کر خوش ہو جائیں کیونکہ غریب عوام کے لیے یہی خوشی باقی رہ گئی ہے کہ ان کے سیاسی حکمران کیسے شاندار محلات میں رہتے ہیں اور عوام سے دور رہ کر سرکاری پروٹوکول انجوائے کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دعویدار وزیر اعظم نے ملک میں غریبوں کے لیے پچاس لاکھ گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا تھا مگر اقتدار میں آ کر بھول گئے اور انھوں نے اپنے سیاسی انتقام کو ضروری سمجھا اور چن چن کر اپنے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرا کر تسکین حاصل کی اور بعد میں انھیں 50 لاکھ گھروں کی تعمیر کا خیال آیا مگر اس سے قبل انھوں نے اپنی یونیورسٹی بنائی اور مفت زمین حاصل کی اور بعد میں انھیں کچھ فرصت ملی تو پچاس لاکھ گھر یاد آئے مگر ان کے سیاسی مخالفین نے ہٹا دیا اور پچاس لاکھ گھروں کا خواب ادھورا رہ گیا۔
پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے بعد پی ڈی ایم کے وزیر اعظم نے گھر بنا کر دینے کا عوام سے وعدہ ہی نہیں کیا تھا نہ ملک کے سنگین رہائشی مسائل ان کا مسئلہ تھے اس لیے وہ اس طرف کیوں توجہ دیتے ان کی ترجیحات میں غریبوں کے لیے گھر بنانا شامل ہی نہیں تھا۔ پنجاب کے عوام کی خوش نصیبی کہ انھیں خادم اعلیٰ کے بعد مریم نواز کی صورت میں ایک متحرک وزیر اعلیٰ نصیب ہوئی جنھوں نے ایک سال بعد پنجاب میں رہائشی مسائل کا ادراک کیا اور پہلے مرحلے میں پنجاب کے ایک لاکھ شہریوں کو اپنی چھت اپنا گھر پروگرام کے تحت15 لاکھ روپے تک کی بڑی رقم بلا سود قرضوں کی فراہمی ہی شروع نہیں کرائی بلکہ اس پر فوری عمل درآمد بھی کرایا جس سے پلاٹوں کے مالکان نے اپنے گھروں کی تعمیر شروع کرا رکھی ہے اور وہ اپنی وزیر اعلیٰ کو دعائیں دے رہے ہیں اور بے گھروں کو گھر بنانے کا موقعہ مل گیا ہے۔
اپنی چھت اپنا گھر پروگرام میں لوگوں کے لیے اپنا پلاٹ ہونے کی شرط تھی اور پلاٹ نہ رکھنے والوں کے لیے یہ سہولت نہیں تھی جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب نے اپنی زمین اپنا گھر پروگرام بھی شروع کر دیا ہے جس کے تحت پنجاب کے 19 اضلاع کی 23 اسکیموں کے تحت کم آمدنی والے دو ہزار افراد کو مفت میں تین مرلے کے پلاٹ قرعہ اندازی میں دیے جائیں گے۔
پنجاب میں تو رہائشی مسائل پر توجہ دی گئی مگر 16 سالوں سے برسر اقتدار سندھ کی حکومت سوئی رہی اور صرف سیلاب و بارش متاثرین کو مفت گھر دینا شروع کر دیے ہیں مگر کراچی میں تیسر ٹاؤن کے بعد قسطوں پر بھی پلاٹ دینے کا خیال سندھ حکومت کو نہیں آیا اور کراچی میں پلاٹ کا حصول خواب بن چکا اور کرائے بڑھنے سے لاکھوں لوگ پریشان اور باقی سڑکوں، فٹ پاتھوں، پارکوں اور پلوں کے نیچے وقت گزار رہے ہیں۔ پی پی کے وزیر اعلیٰ بلوچستان کا بھی صوبے میں رہائشی مسئلہ نہیں جب کہ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو صرف اپنے بانی کی فکر ہے کہ وہ رہا ہوں اور اسی سیاست میں ان کا اقتدار برقرار رہے۔ پنجاب کی تقلید میں باقی وزرائے اعلیٰ کو اپنے صوبوں میں اہم رہائشی مسائل کی فکر ہے نہ بے گھروں کی تکالیف کا احساس، انھیں بھی اس طرف توجہ دینی چاہیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہائشی مسائل گورنر ہاؤس وزیر اعلی لاکھ گھر ہیں اور کے وزیر کے بعد کے لیے
پڑھیں:
اڑیسہ کے پوری میں جگن ناتھ رتھ یاترا کے دوران بھگدڑ، 3 ہلاک، 50 زخمی
بھارتی ریاست اڑیسہ کے شہر پوری میں واقع شری گنڈچا مندر کے قریب اتوار کی صبح جگن ناتھ رتھ یاترا کے دوران شدید بھگدڑ کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 50 دیگر زخمی ہو گئے۔
ضلع پوری کے کلکٹر سدھارتھ ایس سوائن کے مطابق، واقعہ صبح تقریباً 4 سے 4:30 بجے کے درمیان اس وقت پیش آیا جب سینکڑوں عقیدت مند شری گنڈچا مندر میں درشن کے لیے جمع تھے, اچانک ہجوم کا دباؤ بڑھ گیا جس کے باعث بھگدڑ جیسی صورتحال پیدا ہو گئی۔
مزید پڑھیں: احمد آباد میں رتھ یاترا کے دوران ہاتھی بے قابو، لوگوں میں خوف و ہراس
ریسکیو ٹیموں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں کو پوری کے ضلعی اسپتال منتقل کیا، جہاں 6 افراد کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
یہ افسوسناک واقعہ مندر کے سامنے واقع ساردھابلی کے مقام پر پیش آیا، جہاں ہندوؤں کے بھگوان جگن ناتھ رتھ پر سوار تھے، درشن کے دوران ہجوم بے قابو ہو گیا، اور افراتفری کے عالم میں کئی افراد زمین پر گر گئے اور کچلے گئے۔
تحقیقات اور اعلیٰ افسران کے تبادلےواقعے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی حکومت نے فوری کارروائی کرتے ہوئے پوری کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ونیت اگروال اور ضلعی مجسٹریٹ سدھارتھ شنکر سوائن کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے۔ پناک مشرا، جو اس وقت ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (کرائم) ہیں، کو نئی ذمہ داری کے طور پر پوری کا ایس پی مقرر کیا گیا ہے، جبکہ چنچل رانا، کلکٹر کھوردہ، کو پوری کا نیا ڈی ایم تعینات کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ دو پولیس افسران ڈی سی پی بشنو پتی اور کمانڈنٹ اجے پادھی کو معطل کر دیا گیا ہے۔
سیاسی ردعمل اور وزیر اعلیٰ کا بیانپوری بھگدڑ کے واقعے پر اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ، راہول گاندھی اور نوین پٹنایک سمیت دیگر سیاسی رہنماؤں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ نے واقعے پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاردھابلی میں مہاپربھو کے درشن کی شدید خواہش کے باعث ہجوم میں دھکم پیل اور بدنظمی پیدا ہوئی، جس سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ ’ذاتی طور پر میں اور میری حکومت تمام جگن ناتھ بھکتوں سے معذرت خواہ ہیں۔‘
وزیر اعلیٰ نے اس واقعے کو ناقابلِ معافی غفلت قرار دیتے ہوئے سیکیورٹی میں غفلت کی فوری تحقیقات اور ذمہ داروں کے خلاف سخت اور عبرتناک کارروائی کا اعلان کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اڑیسہ بھگدڑ پوری جگن ناتھ راہول گاندھی رتھ یاترا نوین پٹنایک