ویب ڈیسک: فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں آپریشن  ’’بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ ‘‘ کی کامیابی پر یوم تشکر ملی جوش و جذبے سے منایا گیا۔

 حکومت پاکستان،حکومت پنجاب اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ہدایات پر آج پورے ملک کی طرح فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی  لاہور میں بھی یوم تشکر ملی جوش و جذبےسے منایا گیا جس میں  سیکیورٹی فورسز اور عوام کو "آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ "اور معرکہ حق میں کامیابی پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی زون 169 کا پاک افواج کے حق میں مظاہرہ

 اس موقع پر فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی میں وائس چانسلر پروفیسر خالد مسعود گوندل کی سربراہی میں ڈینز، تمام ڈیپارٹمنٹس کے سربراہان اور پروفیسرز کا اجلاس منعقد ہوا۔ وائس چانسلرپروفیسرخالدمسعودگوندل کا اس موقع پر کہناتھا کہ ہم آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ  اور معرکہ حق کی شاندار  کامیابی پر افواج پاکستان اور پوری قوم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، پوری دنیا پاکستان کی کامیابی کو تسلیم کر رہی ہے،پاکستانی قوم نے پوری دنیا کو یہ پیغام دےدیا کہ پاکستان بحیثیت مسلم اُمہ متحد ہے اور ہر قسم کے حالات میں اپنی افواج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ انہوں نے معرکہ حق کے شہداء کو خراج عقیدت، ملک کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے اہل خانہ کو خراج تحسین پیش کیا ۔ 

نریکنگ نیوز: پٹرولیم کی قیمت میں بھاری کمی

 فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں وائس چانسلر پروفیسر خالد مسعود گوندل کی سربراہی میں ولولہ انگیز تقریب کا انعقاد  بھی ہوا جس میں  ڈینز ، فیکلٹی ممبران اور طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی،شرکاء نے سیکیورٹی فورسز کو والہانہ خراجِ عقیدت  پیش کیا اوراس عزم کا اظہار کیا کہ آئندہ اگر دشمن کی جانب سے کوئی بزدلانہ کارروائی کی گئی تو قوم اپنی افواج کےساتھ مل کر بھرپور جواب دے گی۔

امریکی صدر نے ایک بار پھر ’ٹرمپ ڈانس‘ کرکے دکھا دیا

  یونیورسٹی کی طالبات نے یوم تشکر  کی مناسبت سے ملی نغمہ بھی  پیش کیا،تقریب کے شرکاء نے طالبات کے ہمراہ"پاکستان ہمیشہ زندہ باد ،پاک فوج زندہ باد، آپریشن بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ  زندہ باد"کے فلک شگاف نعرے لگائے،اس موقع پر پرچم کشائی کی تقریب بھی منعقد ہوئی اورملک و قوم کی سلامتی ،سیکیورٹی فورسز کی کامیابی اورشہداء کی مغفرت کے لیے خصوصی دعا بھی کی گئی، بعد ازاں فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد شکرانے کے نوافل ادا کیے گئے اور افواج پاکستان اور ملک و قوم کی سلامتی کے لیے دعا کی گئی بالخصوص شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ درجات کی بلندی کی بھی دعا کی گئی۔

دشمن ملک کے گانے پر ڈانس کرنے پر مقدمہ درج ہو گا

.

ذریعہ: City 42

کلیدی لفظ: فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی یوم تشکر پیش کیا کی گئی

پڑھیں:

ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-7

 

جاوید احمد خان

ڈھاکا یونیورسٹی میں اسلامی چھاترو شبر (اسلامی جمعیت طلبہ) کی جیت دراصل اسلامی انقلاب کی نوید ہے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں دو قومی نظریہ جس کو اندرا گاندھی نے خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا وہ مچھلی کے پیٹ سے نکل کر ترو تازہ ہو کر دنیا کے سامنے آگیا اور ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈھاکا یونیورسٹی میں نظریہ پاکستان کی جیت ہوئی ہے۔ بعض تصاویر ایسی ہوتی ہیں جنہیں آپ دیکھتے ہیں توآپ کے ذہن میں اس کا نقش ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتا ہے۔ میں دو تصویروں کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا پہلی تو وہ کہ جب ملک شام سے بڑے پیمانے پر لوگ دوسرے ممالک میں پناہ حاصل کرنے کے لیے ہجرت کررہے تھے تو ان میں بہت سے لوگوں کی کشتیاں سمندر میں ڈوب جاتیں تو ایک چارپانچ سالہ بچے کی لاش ساحل سمندر پر پڑی تھی اور قریب ہی ایک فوجی موجود تھا اس معصوم کی تصویر نے دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اس مردہ بچے کی تصویر نے پوری دنیا کو اپنے ملک شام جہاں وہ پیدا ہوا تھا کی ہولناک صورتحال سے آگاہ کیا اور اس معصوم کی تصویر نے شام کے مستقبل کی بھی پیشگوئی کردی۔ دوسری تصویر غزہ میں ملبے تلے دبے ہوئے ایک دو سالہ بچے کی تھی جس کا صرف چہرہ نظر آرہا تھا اور ایک ہاتھ ملبے سے باہر نکلا ہوا تھا جو وہ مسکراتے ہوئے ہلا رہا تھا اس ایک زندہ بچے نے غزہ کی ہولناکی کی پوری داستان دنیا کو اپنی مسکراہٹوں سے سنادی اور مستقبل کے بارے میں بھی بتادیا کہ اگر ہم یہاں نہیں رہ سکے تو کوئی بھی نہیں رہ سکے گا۔ یہ تو میں نے دو تصویروں کی مثالیں دی ہیں۔ میرے ذہن میں کچھ تصاویر اور بھی ہیں جو ایسی پیوست ہوکر رہ گئیں ہیں کہ ہم ان کو کھرچنا بھی چاہیں تو نہیں کھرچ سکتے۔

ایک تصویر 1970 کی متحدہ پاکستان کے دور کی ہے کہ ڈھاکا یونیورسٹی کا ایک گرائونڈ ہے اور اسلامی جمعیت طلبہ مشرقی پاکستان کا ایک مجاہد زمین پر گرا پڑا ہے اور اس کے چاروں طرف اینٹی پاکستان اینٹی اسلام اور قومیت کے تعصب کے شکار آٹھ دس نوجوان اسے زنجیروں سے مار رہے ہیں اور اتنا مارا کہ وہ نوجوان مجاہد اسی وقت وہیں شہادت کے رتبے پر فائز ہوگیا یہ نوجوان عبدالمالک شہید ہیں اس نوجوان کا قصور یہ تھا نوجوانوں کے ایک اجتماع میں اسلامی نظام اور اسلامی انقلاب کے حق میں اتنی زور دار اور ٹھوس دلائل سے بھرپور تقریر کی سامعین پر ایک سحر طاری ہوگیا اور بے اختیار دیر تک حاضرین تالیاں بجاتے رہے۔ اسی پروگرام سے واپسی پر اسے شہید کردیا گیا۔ مارنے والوں نے سوچا ہوگا کہ اگر یہ آواز گونجتی رہی تو ان کی قوم پرستی کا مشن ناکام ہوجائے گا لہٰذا اس آواز کو ختم کردیا جائے، آج مارنے والوں کا پتا نہیں کہاں ہوں گے زندہ ہوں گے یا مرچکے، لیکن ان کے دوست احباب دیکھ لیں کہ آج ڈھاکا یونیورسٹی میں عبدالمالک شہید ہی کی آواز گونج رہی ہے۔ عبدالمالک کی شہادت پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا یہ بیان شائع ہوا تھا کہ یہ مشرقی پاکستان میں اس راستے کی پہلی قربانی تو ہو سکتی ہے آخری نہیں ہوسکتی اس لیے کہ مولانا اپنی بصیرت کی نگاہوں سے مشرقی پاکستان کا ایک خوفناک مستقبل دیکھ رہے تھے اور تھوڑے ہی دن پہلے ان کا ایک بیان ملک کے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ یہ جو ملک کے دو صوبوں میں دو جماعتیں ابھر کر سامنے آرہی ہیں یہ اگر خدا نہ خواستہ کامیاب ہو گئیں تو یہ ملک ایک نہیں رہ سکے گا۔ ان کا بیان مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی کی پیپلز پارٹی اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کی انتخابی مہم کے حوالے سے تھی۔ اس انتخاب میں بھٹو نے مشرقی پاکستان سے اپنا کوئی نمائندہ نہیں کھڑا کیا تھا اور نہ شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے اپنا کوئی نمائدہ انتخابی میدان میں اُتارا۔ اس انتخابی مہم میں جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو تھا اس لیے ان کے دو نعرے بہت مقبول ہوئے ایک تو یہ کہ ’’ووٹ دو میزان کو بچالو پاکستان کو‘‘ اور دوسرا نعرہ۔۔ ’’پاکستان کے دو بازو۔۔ ایک ترازو ایک ترازو‘‘ مجھے یاد ہے اس زمانے میں عبدالمالک شہید کے سلسلے میں ایک احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سید منور حسن نے کہا تھا کہ عبدالمالک شہید کے قاتلوں کے چہرے صاف نظر آرہے ہیں اب یہ حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ان قاتلوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دے۔

دوسری کچھ اور تصاویر جو ذہن میں نقش ہیں وہ ٹوٹے ہوئے پاکستان یعنی بنگلا دیش کی ہے کہ ڈھاکا کے ایک میدان میں الشمس یا البدر کا ایک کارکن زمین پر چت گرا ہوا ہے اور مکتی باہنی کے دو کارکن اس کے سینے اور پیٹ پر بندوق کی سنگین پوری قوت سے گھونپ رہے ہیں اور چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے جن کے چہروں سے عیاں ہے کہ ان کی ہمدردیاں قاتلوں کے ساتھ ہیں ایک اور تصویر میں ایک پاکستان کا حامی بھاگ رہا ہے اور اس کے پیچھے مکتی باہنی کے لوگ بندوق لیے اسے پکڑنے کے لیے بھاگ رہے ہیں، ظاہر ہے کسی جگہ اسے مار دیا ہوگا ایک اور خوفناک تصویر میں چاروں طرف لوگوں کا مجمع ہے اور درمیان ایک مکتی باہنی کا کارکن ایک پاکستانی کی کٹی ہوئی گردن اٹھائے کھڑا ہے۔ اس طرح کے سیکڑوں دلخراش واقعات ہیں جو سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے ان محب وطن پاکستانیوں کے ہیں جنہوں نے پاکستان کی محبت میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

بنگلا دیش بننے کے بعد جماعت اسلامی مختلف پابندیوں اور آزمائشوں کا شکار رہی کئی برسوں تک پروفیسر غلام اعظم کو بنگلا دیش کی شہریت نہیں دی گئی پھر دھیرے دھیرے یہ پابندیاں ختم ہوتی گئیں پھر جماعت نے وہاں انتخابات میں بھی حصہ لیا ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ عوامی لیگ کی حسینہ واجد نے جماعت اسلامی کے ساتھ اپوزیشن کا ایک اتحاد اس وقت کی حکومت کے خلاف مہم چلانے کے لیے بنایا۔ پندر ہ سال قبل جب حسینہ واجد انتخاب میں کامیاب ہو کر آئیں تو ان کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے ان کے دل میں جو نفرت کی چنگاریاں سلگ رہی تھیں وہ شعلہ جوالہ بن کر سامنے آگئیں اور ایک نام نہاد بین الاقوامی عدالتی کمیشن بنا کر 71ء کے ان سیاسی کارکنوں کو جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کی خاطر فوج کا ساتھ دیا تھا ان کے خلاف جھوٹی اور مصنوعی عدالتی کارروائی کے ذریعے انہیں موت کی سزائیں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس ٹریبونل پر بڑی تنقید کی گئی، لیکن حسینہ واجد اپنی ضد پر قائم رہیں اور جماعت اسلامی کے بزرگوں کو جھوٹے الزام میں یکطرفہ طور پر جھوٹا مقدمہ چلا کر سزائیں دی گئیں۔ پروفیسر غلام اعظم نوے سال سے زائد عمر میں جیل میں ہی وفات پاگئے، اسی طرح عبدالقادر ملا اور جماعت کی دیگر قیادتوں کو حسینہ واجد کے جذبہ انتقام کا نشانہ بناکر پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔

بنگلا دیش کی جماعت اسلامی نے ایک طویل آزمائش کا دور گزارا ہے پھانسیوں کے علاوہ ہزاروں کارکنوں کو ناحق جیلوں میں ٹھونسا گیا انہیں بغیر مقدمہ چلائے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ ایک دفعہ تو حسینہ واجد نے انتخابات میں حقیقی کامیابی حاصل کی تھی لیکن بعد کے جتنے انتخابات ہوئے اس میں اپنی سرکاری مشینری کو استعمال کرکے بڑے پیمانے پر دھاندلی کرکے ہر انتخاب میں کامیاب ہوتی رہیں ان کی عوامی حمایت ختم ہوچکی تھی۔ ملک میں کوٹا سسٹم کے مسئلے پر تعلیم یافتہ نوجوان آگے آئے اور انہوں نے ایسی تحریک برپا کی کہ اس عوامی سیلاب کے آگے حسینہ واجد کا تختہ اقتدار بہہ گیا بہرحال ایک طویل اور گہری سیاہ رات کے بعد جماعت اسلامی بنگلا دیش کے لیے امید سحر طلوع ہونے والی ہے۔ ڈھاکا یونورسٹی کے طلبہ انتخابات نے پوری دنیا کو بتادیا ہے کہ آئندہ سال فروری کے انتخابات کے نتیجے میں کون سا انقلاب نمودار ہونے والا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نریندر مودی کی 75ویں سالگرہ پر ٹرمپ کی مبارکباد، مودی کا اظہار تشکر
  • ڈھاکا یونیورسٹی میں انقلاب کی نوید
  • مرکزی رہنما پی پی پی کا پنجاب میں سیلاب متاثرین کی مدد پر مریم نواز سےاظہار تشکر
  • پاکستان کا جنوبی افریقہ کے خلاف پہلے بیٹنگ کا فیصلہ، پراعتماد بلے بازی جاری
  • سپارکو ڈے پر یادگاری ڈاک ٹکٹوں کا اجرا، پاکستان کے خلائی پروگرام کو خراجِ تحسین
  • پاک بھارت میچ کرکٹ کے جذبے کے مطابق نہیں کھیلا گیا: اشیش رائے
  •  اوزون کی تہہ کے تحفظ کا عالمی دن آج منایا جا رہا ہے
  • پاکستانی خواتین کی ورلڈ کرکٹ کپ پر نظریں: منگل سے شروع ہونے والی جنوبی افریقہ سیریز کی تیاری اہم موقع ہے، کپتان فاطمہ ثنا
  • عرب جذبے کے انتظار میں
  • فلائی جناح نے دبئی اور لاہور کے درمیان براہ راست پروازوں کا آغاز کر دیا