نئے مالی سال کا بجٹ 2جون کو پیش کیے جانے کا امکان، حکومت کی تیاریاں عروج پر، اہم اجلاس طلب
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
نئے مالی سال کا بجٹ 2جون کو پیش کیے جانے کا امکان، حکومت کی تیاریاں عروج پر، اہم اجلاس طلب WhatsAppFacebookTwitter 0 16 May, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(سب نیوز)وفاقی حکومت نے بجٹ 26-2025 کی تیاریاں تیز کرتے ہوئے اہم اجلاس طلب کرلیے ہیں اور بجٹ 2 جون کو پیش کیے جانے کا امکان ہے۔
تفصیلات کو ذرائع نے بتایا کہ نئے مالی سال کے بجٹ کے لیے حکومت نے نیشنل اکاونٹس کمیٹی کا اجلاس 20 مئی کو طلب کر لیا ہے اور نئے مالی سال کا بجٹ 2 جون کو پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ذرائع نے بتایا کہ سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس 26 مئی کو ہوگا اور نئے مالی سال کے ترقیاتی بجٹ کو حتمی شکل دی جائے گی۔
بجٹ کے حوالے سے ذرائع انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال میں ترقیاتی منصوبوں پر 921 ارب خرچ کرنے کی تجویز ہے جبکہ وزارت ترقی و منصوبہ بندی نے 2900 ارب روپے کا بجٹ مانگا تھا۔ذرائع نے بتایا کہ اے پی سی سی میں سالانہ اکنامک پلان کی بھی منظوری دی جائیگی، اجلاس میں نئے مالی سال کی معاشی شرح نمو، مہنگائی، زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں کے اہداف بھی مقرر کیے جائیں گے۔اے پی سی سی کے فیصلوں کی حتمی منظوری قومی اقتصادی کونسل دے گی اور قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس مئی کے آخر میں بلائے جانے کا امکان ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبربھارتی بحریہ نے روہنگیا مہاجرین کو سمندر میں دھکیل دیا؟ اقوام متحدہ کا چونکا دینے والا انکشاف بھارتی بحریہ نے روہنگیا مہاجرین کو سمندر میں دھکیل دیا؟ اقوام متحدہ کا چونکا دینے والا انکشاف غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جلد امریکا سب ٹھیک کردیگا، ٹرمپ کا دعوی ایس ای سی پی نے تمام کمپنیوں کیلئے ایڈوائزری جاری کردی پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور طالبان کے درمیان پسِ پردہ رابطے سامنے آ گئے عافیہ صدیقی کیس تحریک بن چکا، پٹیشن ختم کرنے سے مسئلہ ختم نہیں ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ 26ویں آئینی ترمیم کے فیصلے تک موخر کرنے کی استدعا، سپریم کورٹ میں 3متفرق درخواستیں دائرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: پیش کیے جانے کا امکان نئے مالی سال کا بجٹ
پڑھیں:
بھارت میں مسلم دشمنی عروج پر
ریاض احمدچودھری
بھارت میں مسلمانوں سے تعصب اور دشمنی کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ایک کالج سے 23 کشمیری طلبا کو نکال دیا گیا ہے۔ کشمیری طلبا کواس بنا پرکالج چھوڑدینے کی ہدایت کی ہے کیونکہ انسانی وسائل و ترقی کی بھارتی وزارت نے وزیراعظم اسکالر شپ اسکیم کے تحت ان کی فیس ادا نہیں کی۔ نکالے گئے طلبا کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو وزیر اعظم اسکالر شپ کی بنیاد پرامبالہ کے کالج میں داخلہ دیا گیا تھا اور داخلے کے وقت طلبا کواس بات کی مکمل یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ان کے تمام اخراجات بھارتی حکومت برداشت کر لے گی۔ اسی طرح بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع لدھیانہ کے ایک پرائیویٹ کالج میں زیر تعلیم کم از کم 40کشمیری طالب علم دو طلباگروپوں میں جھڑپوں کے بعد مجبورا اپنی تعلیم ترک کر کے کشمیر واپس روانہ ہوگئے ہیں۔ کالج میں زیر تعلیم باقی کشمیر ی طلباء انتظامیہ کی یقین دہانی کے باوجود خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔ انہوں نے کٹھ پتلی انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ انہیں سیکورٹی فراہم کرے تاکہ وہ بھی اپنے گھروں کو واپس آسکیں کیونکہ صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔ طالب علموں کاکہناتھا کہ انہیں بری طرح سے ہراساں کیا جارہا ہے۔بھارتی ریاست راجستھان کے شہرچتورگڑھ میں میوریونیورسٹی میں زیرتعلیم کشمیری طلبہ پر ہندو انتہا پسندوں نے گائے کا گوشت کھانے کاالزام لگاکرحملہ کردیا۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں سے وابستہ کچھ طلبا نے ہاسٹل میں ان کے کمروں اورسامان کی توڑپھوڑکی اوران پرپتھراؤکیا۔ اس کے بعد مقامی پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے4 کشمیری طلبا کو گرفتار کرلیا۔ یونیورسٹی کے انچارج طارق صوفی نے کہاکہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب مقامی لوگوں کے ایک گروپ کوپتہ چلاکہ کشمیری طلبانے گائے گا گوشت کھایاہے۔ کشمیری طلبہ کا کہنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو خطرہ ہے اور ان پرحملہ ہوسکتا ہے کیونکہ بھارت کے دیگر علاقوںمیں بھی گائے کا گوشت کھانے والوںکونشانہ بنایاجارہاہے۔ یہ ہندو کا تعصب ہے جس کی بنیاد پر بھارت کے اندر بھی مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں ہو پا رہا۔
بھارت مقبوضہ جموںوکشمیر میں طلبا ء کو تعلیم کے حق سے محروم کررہا ہے۔حال ہی میںجاری کی گئی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق 7 دہائیوں سے زائد عرصے تک بھارت کے زیر قبضہ جموںوکشمیر میںنظام تعلیم مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔5 اگست 2019 کوبھارت کی طرف سے مسلط کردہ غیر انسانی فوجی محاصرے سے تعلیمی بحران مزید گہرا ہوگیا ہے۔ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ پہلے اسکول غیر معمولی فوجی محاصرے کی وجہ سے کئی مہینوں تک بند رہے اور پھر والدین اپنے بچوں کو اس خوف سے کہ بھارتی فورسز انہیں اٹھاکر نہ لے جائیں، اسکول بھیجنے سے کتراتے رہے جس سے مقبوضہ علاقے کے طلبہ کی تعلیم متاثر ہورہی ہے۔رپورٹ میں سوال اٹھایا گیاہے کہ جب کشمیری طلبا روزانہ کی بنیاد پربھارتی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے پیاروںکو قتل ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں تو وہ تعلیم پر کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔ علاقے میں بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی موجودگی نے طلباء کو نفسیاتی طور پر متاثر کیاہے جبکہ متعدد طلباء بھارتی فوج کی وحشیانہ کارروائیوںکے دوران شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔ قابض حکام کی طرف سے انٹرنیٹ کی باربار معطلی سے بھی مقبوضہ علاقے میں تعلیم کا بڑی حد تک حرج ہوا ہے۔
بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں ہندو انتہا پسندوں نے ایک کشمیری طالب علم آفتاب حسین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور ہندو جاگرن منچ کے دہشت گردوں نے نوراتری گربہ کی تقریب میں داخل ہونے پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع پونچھ سے تعلق رکھنے والے اور ڈاکٹر ہری سنگھ گور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم آفتاب حسین کو بے رحمی سے مارا پیٹا اور گھسیٹ کر باہر نکالا۔عینی شاہدین اور میڈیا رپورٹس نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ آفتاب کو شدید تشدد کا نشانہ بنایاگیا اور سرعام اس کی تذلیل کی گئی۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے کشمیری طالب علم آفتاب حسین پرہندوتوا دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں کشمیری طلباء پر حملوں سے واضح ہوتاہے کہ بھارت ایک فرقہ پرست ریاست ہے جہاں کوئی کشمیری محفوظ نہیں ہے۔ حریت کانفرنس نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ جموں وکشمیر سے اپنی قابض افواج اور بی جے پی کے بیوروکریٹس کو فوراً نکالے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو اپنے سیاسی مستقبل کا فیصلہ خود کرنے دے۔
صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ بھارت کے مختلف تعلیمی اداروں میں کشمیری طلباء کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کیلئے ہم چند واقعات کو مدنظر رکھتے ہیں۔ بھارتی ریاست اتراکھنڈ کے سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم کشمیری طلبا پر بھارتی انتہا پسند ہندووں نے حملہ کر کے کئی طلبا کو زخمی کر دیا ۔ ڈیرہ دھون اترا کھنڈ علاقے میں قائم سی آئی ایم ایس میڈیکل کالج میں زیر تعلیم طلبا کے بقول انہیں کالج میں گھس کر غنڈوں نے مارا پیٹا جس کی وجہ سے کالج میں کئی ایک طلبا زخمی ہو گئے ہیں۔ کشمیری طالب علموں کی ایک غیر کشمیری طالب علم کے ساتھ کسی بات پر توں توں میں میں ہوئی جس کو بعد میں کالج میں زیر تعلیم طلبا نے آپس میں مل بیٹھ کر معاملہ حل کیا۔ کشمیری طلبا کا کہنا تھا غنڈوںکی ایک جماعت کالج میں داخل ہو کر کشمیری طلبا کو چن چن کر مارنے لگی جس کے ساتھ ہی اکثر طلبا نے کمروں کے دروازے بند کر دئیے جبکہ کئی اساتذہ جو کشمیری طلبا کو بچانے کی کوشش کررہے تھے، کو بھی نہیں بخشا گیا۔ پولیس نے تمام طالب علموں کو کالج سے نکال کر انکی عارضی رہائش گاہوں تک پہنچایا۔
٭٭٭