’انتخاب نہ کریں تو بھی جہنم میں جائیں گے‘، جاوید اختر کے بیان پر پاکستانی اداکار پھٹ پڑے
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
معروف گیت نگار جاوید اختر اکثر پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ متعدد پاکستانی فنکار ان کے دوغلے رویے پر تنقید کر چکے ہیں۔ صارفین کا کہنا ہے کہ جاوید اختر پاکستان میں مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن بھارت واپس جا کر پاکستان کے خلاف بیانات دیتے ہیں۔
حال ہی میں جاوید اختر ایک بار پھر اپنے پاکستان مخالف بیان کی وجہ سے خبروں میں آ گئے ہیں۔ انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ بھارت اور پاکستان کے لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں۔ اگر ان دونوں فریقوں میں سے اگر کوئی بھی مجھے گالی دینا بند کر دے تو میں پریشان ہونے لگوں گا کہ میں نے کیا غلطی کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جاویر اختر جہنم میں کیوں جانا چاہتے ہیں؟ وجہ بتا دی
انہوں چُبھتے ہوئے لہجے میں کہا ایک فریق مجھے کافر کہہ کر جہنم کی نوید سناتا ہے تو دوسرا فریق مجھ پر ’جہادی‘ ہونے کی بھپتی کستا اور مجھے پاکستان جانے کا مشورہ دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میرے پاس پاکستان یا جہنم میں سے کسی ایک میں جانے کا اختیار ہو تو میں جہنم میں جانا پسند کروں گا۔
جاوید اختر کے اس بیان پر پاکستان میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ پاکستانی مشہور شخصیات جیسے مشی خان، عمران عباس، ژالے سرحدی اور شرمیلا فاروقی نے بھی اداکار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
مشی خان کا کہنا تھا کہ جاوید اختر نے اپنے لیے بالکل ٹھیک جگہ کا انتکاب کیا ہے وہ ان کے لیے بہترین ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دوبارہ پاکستان آنے کی کوشش مت کریے گا نہ ہی آپ کو کوئی بلائے گا اور ان لوگوں کو اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائیے گا جو آپ کے قدموں میں بیٹھ کر آپ کے قصیدے پڑھ رہے تھے۔
View this post on Instagram
A post shared by Mishi Khan MK (@mishikhanofficial2)
اداکار عمران عباس نے کہا کہ چاہے وہ جہنم کا انتخاب کریں یا نہ کریں، جانا تو انہیں وہیں ہے، فرق صرف یہ ہوگا کہ وہ شاید اکانومی کلاس کی سب سے نچلی سیٹ پر ہوں گے۔ ہم نے انہیں بزنس یا فرسٹ کلاس کا پروٹوکول دیا تھا، ورنہ وہ کسی اور درجے کے حقدار بھی نہیں تھے۔
بلال قریشی لکھتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے لیے ہی کہا گیا ہے کہ جہنم میں جائیں وہ بھی رافیل میں بیٹھ کر۔
سینئر اداکارہ حنا خواجہ بیات نے جاوید اختر کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جہاں جانا ہو وہاں کی تیاری تو کرنی پڑتی ہے نا۔
پاکستان شوبز انڈسٹری کے اداکار عاصم محمود نے جاوید اختر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری دعا ہے آپ کی یہ دلی مراد جلد پوری ہو اور انشاء اللہ آپ وہیں جائیں گے۔
واضح رہے کہ جاوید اختر ماضی میں متعدد بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور ’فیض فیسٹیول‘ جیسے ادبی پروگراموں میں بھی شرکت کر چکے ہیں۔ لیکن پاک بھارت کشیدگی کے بعد وہ کھل کے پاکستان کے خلاف سامنے آئے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاک بھارت کشیدگی جاوید اختر حنا بیات رافیل عمران عباس مشی خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک بھارت کشیدگی جاوید اختر حنا بیات رافیل پاکستان کے جاوید اختر کہا کہ
پڑھیں:
صیہونی مخالف اتحاد، انتخاب یا ضرورت!
اسلام ٹائمز: امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کیخلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کیلئے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کیخلاف اسلامی ممالک کیطرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دیکر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اسوقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔ تحریر: یداللہ جوانی جونی
ایک طرف "گریٹر اسرائیل" کے نقشے کی تصویر کشی اور کئی اسلامی ممالک کے خلاف فوجی حملے کی دھمکی اور دوسری طرف صیہونی حکومت کی طرف سے قطر کے خلاف حملے کو عملی جامہ پہنانے نے مغربی ایشیا کے خطے کو نئی اور ہنگامی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔ اب نہ صرف مظلوم فلسطینیوں کو اپنی مقبوضہ سرزمین کو قابضین سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد جاری رکھنی چاہیئے، بلکہ بہت سے دوسرے اسلامی اور عرب ممالک کو بھی صیہونی حکومت کے ہاتھوں اپنے وجود، علاقائی سالمیت، آزادی اور سلامتی کو شدید خطرے کے پیش نظر تیاری کرنا ہوگی۔ گذشتہ دو برسوں میں علاقے میں ہونے والی پیش رفت کے پیش نظر صیہونی حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان کے لیے نئی زمینوں پر قبضہ کرنے اور دریائے نیل سے فرات تک حکومت کی تشکیل کے نظریئے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حالات پیدا ہوگئے ہیں۔
نیتن یاہو، اپنی بھیڑیا صفت درندگی کے ساتھ، اب ہر چیز پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، تاکہ بقول اس کے مقدس یروشلم کی قابض حکومت کے خلاف وجودی خطرات کو ختم کیا جا سکے۔ اس بھیڑیئے کے رویئے اور بے رحم وحشیانہ رویوں کی حمایت کرنے والا مغرب ہے، جو خود کو انسان دوست، انسانی حقوق کا علمبردار اور امن و سلامتی کا محافظ کہتا ہے۔ قطر کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ٹرمپ کی اجازت سے صیہونی حکومت کے فوجی حملے نے بہت سے عرب اور اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو ایک مبہم اسٹریٹجک صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ صیہونی حکومت کی طرف سے ترکی کو قطر کی طرح فوجی کارروائی کی دھمکی اور مصر میں حماس کے رہنماوں کو ختم کرنے کے لیے جو دہشت گردانہ دھمکیاں دی جارہی ہیں، وہ سب اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ قدس پر قابض حکومت کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ دو وجوہات کی بناء پر اسلامی ممالک کے خلاف جارحیت انتہائی آسان، سستی اور ضروری ہے۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ صیہونی حکومت کو ان جارحیتوں کو انجام دینے میں بااثر مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ہدف والے ممالک میں ان حکومتوں جیسے قطر، مصر، ترکی، امارات، سعودی عرب، اردن وغیرہ کا دفاع اور سلامتی کے حوالے سے مغرب پر انحصار ہے۔ یہ انحصار کسی بھی سنگین ردعمل کے لیے صیہونی حکومت کے ردعمل کو کم کرتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اسلامی اور عرب ممالک کے قائدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اپنے ملکوں اور اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ اور سلامتی کے بارے میں حقیقت پسندانہ سوچ اپنائیں۔ اس سے پہلے کہ حکمت عملی کے فیصلے کرنے کے مواقع ختم ہو جائیں۔ ان حکومتوں، کو چاہیئے کہ اپنے عوام کے مستقبل کے بارے میں دانشمندانہ فیصلوں کی طرف قدم بڑھائیں۔ ایک ایسی حکومت جس نے اپنے ناجائز اور قابض وجود کو برقرار رکھنے کے لیے تمام انسانی اور اخلاقی اصولوں کو پامال کیا اور غزہ میں نسل کشی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ صیہونی حکومت اپنے مقاصد اور مفادات کو آگے بڑھانے اور محفوظ کرنے کے لیے مغربی ایشیاء میں مغرب کی پراکسی ہے۔ صیہونی حکومت کے خطرات اور دھمکیوں کے مقابلے میں ان ممالک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عرب اور اسلامی ممالک کو فیصلہ کن اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان حکومتوں کے ساتھ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی دوستی اور اتحاد کے نتائج تمام شواہد کے ساتھ سامنے آچکے ہیں۔ بہرحال عرب اور اسلامی ممالک کے قائدین کی جانب سے مذکورہ بالا حقائق پر مبنی اسٹریٹجک فیصلوں کی روشنی میں نہ صرف ان ممالک کے خلاف صیہونی حکومت کی دھمکیوں کو بے اثر کیا جا سکتا ہے، بلکہ صیہونی حکومت کے خاتمے، القدس کی آزادی اور فلسطین کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی کی تحریک کو نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ یہ اسٹریٹجک فیصلہ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی اور عرب ممالک کے حقیقی اور عملی اتحاد کی تشکیل کے سوا کچھ نہیں۔
موجودہ حالات میں ایسے اتحاد کی تشکیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بلکہ امت مسلمہ اور تمام اسلامی و عرب ممالک کے لیے ایک تاریخی ہنگامی صورتحال ہے، جس سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بعض اسلامی ممالک کے رہنماؤں کو معلوم ہونا چاہیئے کہ صیہونی حکومت نے ان کے وجود کو نشانہ بنایا ہے اور وہ تباہی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ پیر 14 ستمبر کو دوحہ میں منعقد ہونے والی غیر معمولی عرب اسلامی سربراہی کانفرنس اس اتحاد کو بنانے اور "مشترکہ صیہونی مخالف آپریشنز ہیڈ کوارٹر" بنانے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ امام خمینی (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی نے ماضی اور حال میں مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے خلاف بیت المقدس کی غاصب حکومت کے خطرے کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا ہے اور اس خطرے کو ناکام بنانے کے لیے امت اسلامیہ کے اتحاد کو واحد حکمت عملی قرار دیا ہے۔ صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی ممالک کی طرف سے حقیقی اتحاد تشکیل دے کر امت اسلامیہ کے اتحاد کو مضبوط کرنے کا اس وقت بہترین موقع ہے۔ اگر یہ اتحاد حقیقت کا روپ اختیار کر لیتا ہے تو یہ امت اسلامیہ کے مفادات کو پورا کرسکتا ہے، صیہونی حکومت کے خطرات کے مقابلے میں اسلامی ممالک کے وجود کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور بالآخر مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر بیت المقدس کو قابضین کے چنگل سے آزاد کرانے کا سبب بن سکتا ہے۔
1۔ غاصب صیہونی حکومت اس وقت دنیا اور اقوام عالم کی رائے عامہ کی نگاہ میں سب سے زیادہ نفرت انگیز حکومت کے طور پر جانی جاتی ہے۔
2۔ فلسطین کی آزادی کا نعرہ اب عالمی بحث بنتا جا رہا ہے۔
3۔ خطے کے بہت سے ممالک میں بالخصوص یمن، لبنان، عراق اور خود غزہ جیسے مقبوضہ علاقوں میں مزاحمت مقبول ہوچکی ہے اور صیہونی حکومت کے خلاف موثر جدوجہد کے لیے اعلیٰ سطح پر ہم آہنگی اور نظم موجود ہے۔
4۔ صیہونی حکومت اندر سے کھوکھلی ہو رہی ہے اور اس کے تمام معاون ڈھانچے بوسیدہ اور متزلزل ہوچکے ہیں۔ اس حکومت کی فضائیہ کی طاقت کا دوسرے ممالک پر انحصار ہے (مغربی طیاروں پر) جو ایک مضبوط اور مستحکم ملک کی علامت نہیں سمجھا جاتا۔
5۔ امریکہ اور صیہونی حکومت کی طرف سے مسلط کردہ 12 روزہ جنگ کے خلاف ایرانی قوم کے طاقتور دفاع نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ بیت المقدس کے غاصبوں کو شدید ضربیں لگائی جاسکتی ہیں، جس کو برداشت کرنے سے وہ قاصر ہیں۔
6۔ صیہونی حکومت کی اہم اور تجارتی شریانیں اسلامی ممالک کے ہاتھ میں ہیں۔ اس اتحاد کا پہلا قدم ان تمام اہم تجارتی اور اقتصادی شریانوں کو منقطع کرنے کا فیصلہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہوسکتا ہے۔