پاکستان کی آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں بھارت کے خلاف شاہین میزائل کے استعمال کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
پاکستان نے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں بھارت کے خلاف شاہین میزائل کے استعمال کی تردید کردی۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھارتی میڈیا میں گردش کرنے والی ان افواہوں کی سختی سے تردید کرتا ہے جن میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ میں شاہین میزائل کا استعمال کیا۔
ترجمان نے کہاکہ بھارتی فوج نے اپنے ایکس ہینڈل سے شاہین میزائل کے استعمال پر ایک ویڈیو جاری کی لیکن بعد میں مذکورہ ویڈیو کے غیر مصدقہ ہونے پر ویڈیو ہٹا دی گئی۔
انہوں نے کہاکہ جب تک ویڈیو ڈیلیٹ کی گئی بھارتی میڈیا اس خبر کو اُٹھا چکا تھا اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارتی میڈیا اب بھی اس خبر کو پھیلا رہا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بھارتی فوج کا آفیشل ایکس ہینڈل اس ویڈیو کے بارے میں ابھی تک خاموش ہے نہ اُنہوں نے اس خبر کی تصحیح کی ہے اور نہ ہی وضاحت کی۔
ترجمان نے کہاکہ تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ غلط معلومات بھارت کی اُس مہم کا مقصد ہے جس کے تحت وہ آپریشن سندور میں اپنی ناکامی کو چھپانا چاہتا ہے جو روایتی جنگ میں پاکستانی فوج کے سخت جواب کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہاکہ پاکستان کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی دھمکی اور شاہین میزائل کے استعمال جیسی غلط خبریں پھیلا کر نئی دہلی جنگ بندی کے بارے میں ایک غلط بیانیہ بنانا چاہتا ہے۔
ترجمان شفقت علی خان نے کہاکہ پاکستان نے بھارت کے خلاف جو ہتھیار استعمال کیے اُن کی تفصیل آئی ایس پی آر کی جانب سے 12 مئی کو جاری ہونے والی پریس ریلیز میں دی گئی ہے۔
ترجمان نے بتایا کہ پاکستان نے اس لڑائی میں لانگ رینج فتح میزائل ایف ون ایف ٹو، لانگ رینج لوئٹرنگ ڈرونز اور اپنے ہدف کو درست انداز میں نشانے بنانے والے توپ خانے کا استعمال کیا۔
انہوں نے کہاکہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ 12 مئی کی پریس ریلیز میں جن بھارتی اہداف کو نشانہ بنایا گیا اُن کی بھی تفصیل موجود ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews آپریشن بنیان مرصوص بھارتی میڈیا پاکستان بھارت جنگ ترجمان دفتر خارجہ تردید شاہین میزائل وضاحت وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: آپریشن بنیان مرصوص بھارتی میڈیا پاکستان بھارت جنگ ترجمان دفتر خارجہ شاہین میزائل وی نیوز شاہین میزائل کے استعمال ترجمان دفتر خارجہ بھارتی میڈیا بنیان مرصوص استعمال کی پاکستان نے کہ پاکستان کی جانب سے نے کہاکہ
پڑھیں:
آپریشن بنیان مرصوص ; میدان جنگ کی کامیابی کو سیاسی فتح میں بدلنا بڑا چیلنج ہوگا
سابق سربراہ ،شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن اسٹڈیز، اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور
22 اپریل کو پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد بھارت کی طرف سے فوراً پاکستانی حکومت کے ملوث ہونے کا الزام لگا دیا گیا۔ جس کے جواب میں پاکستانی حکومت کی تردید اور اس واقعے کی کسی غیر جانب دار فورم پر تحقیقات کرانے کی پیشکش کو بھارت نے مسترد کردیا ۔
تصدیق کی زحمت کئے بغیر، سرکاری سطح پر بھارتی میڈیا کے ذریعہ جنگی جنون کی کیفیت پیدا کردی گئی۔ پاکستان کی جانب سے تناؤ کو کم کرنے اور متوقع جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی سطح پر کوششیں جاری رہیں، لیکن بھارت کی طرف سے 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب بہاول پور ، مریدکے ، کوٹلی اور مظفر آباد کی مساجد میں میزائلوں سے حملہ کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں خواتین اور بچوں سمیت معصوم جانوں کا نقصان ہوا۔ پاکستان نے جواب میں بھارتی ملٹری تنصیبات اور چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد بھارت نے ایک بار پھر جارحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی مختلف ائیر بیسز کو نشانہ بنایا اس کے جواب میں پاکستان کی جانب سے آپریشن ’بنیان المرصوص شروع کیا گیا جس میں بھارت کے مختلف شہروں میں بھرپور حملہ کرکے ائیر بیسز اور دیگر ملٹری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔
بھارت نے دو ایٹمی ممالک کے درمیان یہ جنگ شروع کرکے جنوبی ایشیا اور عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا۔ اس موقع پر اس کا احساس عالمی سطح پر بھی کیا گیا اور امریکا اور سعودی عرب سمیت مختلف ممالک مصالحت کار کے طور پر سامنے آئے۔ ان سفارتی کوششوں اور دوسری طرف پاکستان کے آپریشن بنیان المرصوص کے نتیجے میں بھارت کو پہنچنے والے شدید نقصان نے بھی بھارت کو سیز فائر اور مذاکرات کی ٹیبل پر آنے پر مجبور کردیا۔ امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 10 مئی کی شام کو کیے جانے والے ٹوئیٹ میں پاک بھارت کے مابین سیز فائر کا اعلان کرکے اس کا کریڈٹ حاصل کیا۔ اس کا باقاعدہ اعلان بھارتی سیکرٹری خارجہ کی طرف سے بھی کردیا گیا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان سیز فائر یقیناً ایک خوش آئند اور امید افزا اقدام ہے۔ پوری قوم اس وقت پاکستان آرمی کی شاندار کارکردگی کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے خوشی و اطمینان کا اظہار کر رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارت میں میڈیا ’آپریشن سندور‘ کے ابھی جاری رہنے کا ڈھنڈورا پیٹ رہا ہے، جبکہ عوام ، اپوزیشن اور صحافیوں کی جانب سے بھارتی حکومت پر جنگی نقصانات اور سیز فائر کے حوالے سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
اب اس سیز فائر کو برقرار رکھنا دونوں ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے، کیونکہ لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر سیز فائر کے حوالے سے انڈیا کا ماضی کا ریکارڈ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہا اور موجودہ سیز فائر کے بعد سیز فائر کی خلاف ورزی کی خبریں آرہی ہیں۔ اسی لئے پاکستان اس دوران دشمن کی جانب سے کسی ممکنہ نئی مہم جوئی کا بروقت اور مؤثر جواب دینے کے لیے اس کی فوجی نقل و حرکت پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب مذاکزات کی ٹیبل پر پاکستان کی حکومت کے لیے یہ جنگ سے بڑا امتحان ہے۔ اسے چاہیے کہ سیز فائر کے بعد بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مفید نتائج حاصل کرنے کے لیے سفارتی میدان میں بھرپور مہارت اور تدبر کا مظاہرہ کرے کیوں کہ بھارت اگرچہ بظاہر سیز فائر پر آمادہ ہو چکا ہے، لیکن مذاکرات کی میز پر آنا اس کے لیے اتنا آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔ اگر وہ مذاکرات کے لیے تیار بھی ہوگیا تو شرائط رکھ کر آئے گا اور ان شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہوگی کہ کشمیر پر کوئی بات نہیں کی جائے گی اور بقول اس کے پاکستان کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کو سر فہرست رکھا جائے، تیسری ممکنہ شرط یہ ہوگی کہ یہ مذاکرات شملہ معاہدہ کے تحت ہوں گے اور اس میں کسی تیسرے فریق کو شامل نہیں کیا جائے گا۔
جب کہ پاکستان کو چاہیے کہ امریکی صدر کو اس سیز فائر کا کریڈٹ دیتے ہوئے وہ امریکہ کو اس معاملے میں مؤثر اور فعال کردار ادا کرنے پر آمادہ کرے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ کے مطابق مسلہ کشمیر ، سندھ طاس معاہدہ اور بھارت کی جانب سے بلوچستان و خیبر پختون خواہ میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہونے کو مذاکرات کے ایجنڈے میں شامل کروا کر ان کا حل نکالنے کی کوشش کرے۔ یہ پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر ایک کڑا امتحان ہوگا۔
پہلگام واقع کے تناظر میں لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ جنوبی ایشیا اور دنیا کے منظر نامہ میں ممکنہ طور پر کچھ اہم تبدیلیاں لاسکتی ہے۔ تاہم اس کیلئے یہ دیکھنا ہوگا کہ آنے والے دنوں میں ڈپلومیسی کے میدان میں امریکا ، برطانیہ ، یورپی یونین ، یو این او اور دیگر اہم ممالک کیا کردار ادا کرتے ہیں۔اور بھارت مذاکرات کے حوالے سے دنیا کے ممکنہ دباؤ کا کسں طرح سامنا کرتا ہے۔اس وقت یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکی صدر بوجوہ پاک بھارت تنازع میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ ممکنہ تبدیلیوں کے خد وخال کچھ اس طرح کے ہو سکتے ہیں۔
٭یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ پاک بھارت جنگ کے بعد ہونے والی بین الاقوامی پیش رفت سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے بھارت کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانا یقیناً ڈپلومیسی کے میدان میں پاکستان کا بڑا امتحان ہوگا۔
تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ 12 مئی کو پاکستان اور بھارت کے ڈی جی ایم اوز کی میٹنگ میں فائر بندی کو برقرار رکھنے، دونوں ملکوں کی افواج کا ایک دوسرے پر فائر نہ کرنے اور سرحدوں پر افواج کو کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لیکن دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر اپنے سابقہ موقف کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ "اگر بات ہوگی تو پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور بقول ان کے پاکستان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی پر .. یہ نہیں ہوسکتا کہ ٹریڈ بھی جاری رہے اور ٹیررزازم بھی۔۔۔ پانی بھی بہتا رہے اور خون بھی۔" یقیناً وزیراعظم نریندر مودی کی طرف سے اپنے عوام، اپوزیشن اور ہندو توا کے دباؤ کو کم کرنے کیلئے اس طرح کا بیان مذاکرات کے حوالے سے مثبت پیش رفت نہیں ہے۔
لیکن توقع کی جا سکتی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جنگ بندی کا فیصلہ کرانے کی طرح دباؤ کے ذریعے دونوں ممالک کو مذاکرات کی ٹیبل پر بٹھا کر تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کریں گے اور ایک اور کامیابی کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہیں گے۔یہ امر واضح ہے کہ اگر امریکہ اور دیگر مصالحت کاروں کا بھرپور اور مسلسل دباؤ نہ ہوا تو انڈیا کوئی بہانہ یا ایڈونچر کرکے مذاکرات سے انکار کرسکتا ہے، یا اس سلسلے میں پاکستان کیلئے ناقابل قبول پیشگی شرائط عائد کرسکتا ہے۔
٭یہ جنگ انڈیا کو جنوبی ایشیا اور بین الاقوامی منظر نامے میں کسی حد تک پیچھے لے گئی ہے۔ ان کی جنوبی ایشیا پر بالا دستی اور اکھنڈ بھارت کے خواب کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ٭مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر ابھر کر سامنے آگیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ "مسئلہ کشمیر کو حل ہونا چاہیے اور یہ کہ میں دیکھتا ہوں کے اس مسئلے کے حل کیلئے میں کیا کرسکتا ہوں"۔ ٹرمپ کے اس ٹویٹ کے بعد اب یہ پاکستانی حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے ڈپلومیسی کے میدان میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ ٭بھارت اور پاکستان کے لئے ایک دوسرے کے علاقوں پر قابض ہونا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے اور اس حوالے سے ماضی کے مقابلے میں اب پاکستان کسی حد تک بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ ٭پاکستان انڈیا میں روایتی جنگ کے عدم توازن کا تصور ختم ہوکر کسی حد تک پاکستان کے حق میں آگیا ہے۔
٭اس جنگ نے دنیا میں چینی ٹیکنالوجی کی برتری ثابت کردی ہے۔اور اب امریکہ کے اکسانے پر بھارت، تائیوان سمیت کوئی ملک چین کے خلاف جنگ کرنے کا نہیں سوچے گا۔ ٭دنیا یونی پولر سے بائی پولر ہونے کی طرف پیش رفت ہوئی ہے اور اس وجہ سے اب دنیا امریکہ کے ساتھ ساتھ چین کے بیانیے کو بھی اہمیت دے گی، کیونکہ چین اس جنگ کے نتیجے میں ٹیکنالوجی کے میدان میں کافی حد تک امریکہ اور یورپ کے ہم پلہ ہو گیا ہے۔ ٭پاکستان چین کی دوستی نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور اب امریکہ اور یورپ چین اور پاکستان کی علاقائی اہمیت کو آسانی سے نظر انداز نہیں کرسکیں گے۔ ٭جنوبی ایشیا کے ممالک بنگلہ دیش ، سری لنکا ، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ اب پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات کو پہلے سے زیادہ اہمیت دیں گے اور بھارت کی علاقائی بالا دستی کو پہلے کی نسبت بہتر پوزیشن میں چیلنج کر سکیں گے۔
٭امریکہ جو کہ جنوبی ایشیا میں بھارت کو چین کے خلاف پروموٹ کر رہا تھا اس پالیسی کے بارے میں نظر ثانی کے بارے میں سوچے گا اور چین اور روس سے تعلقات کو بہتر کرنے کی طرف جائے گا۔ ٭پاکستان نے دفاعی محاذ پر جو زبردست کامیابی حاصل کی ہے اس کو سفارتی کامیابیوں میں بدلنے کیلئے پاکستان کو بہت کامیاب حکمت عملی اور جنگی بنیادوں پر سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی کیونکہ انڈیا جنگی محاذ پر منہ کی کھانے کے بعد اب سفارتی محاذ پر پاکستان کو شکست دینے کی بھر پور کوشش کرے گا۔
٭امریکہ ایران پر حملے کی پالیسی پر ممکنہ طور پر نظر ثانی کرے گا اور اسرائیل کو بھی اس حوالے سے کوئی بڑا جارحانہ قدم اٹھانے سے روکے گا۔ ٭اس جنگ نے پاکستان کی ایٹمی ڈیٹرنیس کی ضرورت، اہمیت اور صلاحیت کو ثابت کردیا ہے لہذا اس صلاحیت میں وقت کے ساتھ اضافے کو جاری رکھنا ضروری ہے۔ ٭اس جنگ نے جنوبی ایشیا میں پاکستان کی اہمیت کو ایک بار پھر اجاگر کیا ہے اس کو برقرار رکھنے اس میں اضافہ کرنے اور اس اہمیت سے بھرپور سفارتی اور معاشی فائدے اٹھانا پاکستانی حکومت کا جنگ سے بڑا امتحان ہوگا۔
ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ دونوں ممالک کی قیادت اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دانشمندی، بصیرت اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ممالک میں امن و ترقی کے فروغ کا ذریعہ بنیں گے۔ اس ضمن میں امریکہ، اقوامِ متحدہ اور دنیا کی دیگر عالمی طاقتوں کو پاکستان اور بھارت کے مابین مسلہ کشمیر ، سندھ طاس معاہدہ اور دہشت گردی کے معاملے کے پائیدار حل کے لیے ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کا قیام ممکن ہو سکے اور جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی طاقتیں مستقبل میں جنگ کے ذریعے عالمی امن کو خطرے میں ڈالنے کا باعث نہ بنیں۔