Express News:
2025-05-20@06:18:55 GMT

کٹھن وقت گزر جاتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

کبھی کبھی آپ اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں، جیسے گذشتہ دنوں میں نے کیا۔ یہ ہمارے محلے کا ایک درخت ہے، جو کہ کافی عرصے سے میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، دیکھنے میں تو یہ کوئی عام سا درخت ہی لگے گا، لیکن اگر غور کیجیے، تو اللہ کی بنائی ہوی ہر مخلوق ہمارے لیے خیر کا سبق میں اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، جب ہی تو اللہ قرآن میں ہمیں بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

سے پہلے، میں اس درخت کی بیرونی حالت کی منظر کشی کروں گی۔ ساتھ ہی گزشتہ دنوں یہ کیسا تھا، اس کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ ذرا غور سے اگر اس درخت کے نچلے حصے کو دیکھیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس کا نچلا حصہ کچھ حد تک جلا ہوا ہے۔

تو ہوا کچھ یوں کہ سردیوں کے دنوں میں ہم انسانوں کی طرف سے پھیلائے گئے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اُسے جلا دیا گیا، یہ غیر ذمہ دارانہ عمل اس بیپروائی سے انجام دیا گیا کہ جس کی وجہ سے درخت کے نچلے حصے کو نقصان پہنچا۔ گذشتہ سردی سے پہلے اس درخت کے پتے جھڑ چکے تھے اور وہ ایک بنجر درخت کی سی صورت پیش کر رہا تھا، جیسا کہ سردیوں میں اکثر درخت اس عمل سے گزرتے ہیں، یہ ان کے لیے موسم کی سختی کو جھیلنے کا ایک مرحلہ ہوتا ہے، اس دوران ان کے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں اور ان کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔

ایسے میں، میں منتظر تھی کہ کب یہ درخت دوبارہ زندگی کی رونق سے بھرے گا، اور کب اس کے پتے اور پھول محلے میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے لگیں گے۔ پھر فروری اور مارچ کا مہینا بھی ایسے ہی گزر گیا، مگر درخت کی خوب صورتی بحال نہ ہو سکی۔ ایسے میں میرے دل میں اس حوالے سے ایک ناامیدی جنم لینے لگی کہ شاید یہ درخت اپنا وقت پورا کر چکا ہو، لیکن اپریل کے مہینے میں اچانک اس میں چند ہرے پتے نمودار ہوئے، اور ساتھ ہی ساتھ سرخ پھول بھی کھلنے لگے، جیسے درخت اپنی رونق بحال کرنے کے لیے جاگ اٹھا ہو۔

اس کی صورت حال ایسی ہے کہ اگر ہم اس کی موجودہ ظاہری شکل دیکھیں، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت قدرے جھکا ہوا کھڑا ہے، شاید اس کی جڑوں کو جو نقصان پہنچا تھا، وہ اسے پوری طرح سیدھا کھڑا ہونے کی صلاحیت ختم ہو گئی، مگر جب اس کے اوپری حصے کی طرف نظر جاتی، تو حیرت ہوتی کہ درخت کی شاخوں پر چند ہی پتے ہیں، لیکن پھول بھی ایک خاص شوخی کے ساتھ اس پر کِھل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے پھول آس پاس کے دوسرے درختوں کی شاخوں تک پھیل رہے ہیں، جیسے وہ انھیں بھی خوب صورتی بخشنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اس پورے منظرنامے سے جو تعلق میں نے انسانی زندگی سے قائم کیا ہے، وہ میرے لیے نہایت اہم اور دل چسپ ہے۔ البتہ، یہ میرا ذاتی نظریہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والے اُسے کسی اور زاویے سے دیکھیں، اور اس منظر سے کوئی اور سبق یا خیر کی بات اخذ کریں۔ میرا اس ساری منظر نگاری پر تجزیہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح ایک درخت اپنے مشکل وقت میں خاموشی اور ساکت حالت  میں چلا جاتا ہے، اسی طرح ہم بھی اکثر زندگی کی تلخیوں، آزمائشوں اور درد بھرے لمحوں کے ہاتھوں کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وقت کا جبر، مشکلات اور دکھ انسان کو توڑ دیتے ہیں، اس کی رفتار کو روک دیتے ہیں، اور وہ خود بھی ٹھیر جاتا ہے، حتیٰ کہ دوسروں کے لیے خیر اور بھلائی پھیلانے سے بھی رک جاتا ہے۔

یہ کٹھن وقت بعض اوقات اُسے اردگرد کے ماحول سے بیزار اور دور کر دیتا ہے۔ خواتین بالخصوص اس مرحلے سے کافی زیادہ گزرتی ہیں، لیکن اگر وہ فطرتِ سلیم پر ہوں، تو اس مشکل اور تغیر سے بھرپور لمحے میں بھی اپنی ذات سے اپنے اردگرد کے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا۔

وہ بس کچھ وقت لیتا ہے۔۔۔کبھی کم اور کبھی زیادہ۔۔۔ پھر تھم جاتا ہے، تاکہ اپنے اندر کی گہرائیوں کو سمجھ سکے، اپنے بکھرے ہوئے احساسات اور جذبات کو سمیٹ سکے، علمِ نافع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مشکلات کو پرکھ سکے، اور اپنے آپ کو دوبارہ خیر کے قابل بنا سکے، لیکن پھر جب وہ وقت کام یابی سے گزار لیتی ہیں، تو اسی درخت کی مانند ہوتی ہیں، جس کے تنے پر ’زخموں‘ کے نشان نمایاں تو ضرور ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، ان کی ذات پر بھی کچھ نشانات باقی رہ جاتے ہیں، مگر وہ ان نشانات سے بے نیاز، اور اپنی ذات سے بلند ہو کر، اپنے اردگرد خوشیاں، خوب صورتی اور خیر بانٹنے کے لیے پُرعزم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ تکالیف اور آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کر، نکھر کر، اور نیا حوصلہ لے کر واپس آتی ہیں۔۔۔ زیادہ مضبوط، زیادہ باشعور، اور زیادہ بہتر صورت۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے درخت کی کے لیے اپنے ا

پڑھیں:

بھارت تقسیم کے دہانے پر

ایک زمانہ تھا جب بھارت اپنے آپ کو سیکولر ملک کہلاتا تھا، پھر ایک وقت تھا جب بھارت اپنے آپ کو سب سے بڑی جمہوریت بتاتا تھا، کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے کہ بھارت اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت گردانتا تھا، ایک دور تھا جب انڈیا اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپیئن کہلواتا تھا، کچھ عرصہ پہلے بھارت ہم پر طالبان کی معاونت کا الزام لگاتا تھا، ابھی حال ہی کا واقعہ ہے کہ بھارت سمجھتا تھا کہ وہ ایسی قوت ہے جس کے سامنے نہ پاکستان کی کوئی حیثیت ہے نہ چین اس کے مخالف ہونے کی جرات کر سکتا ہے، اور نہ ہی امریکا بھارت سے مخالفت مول لے سکتا ہے، یقین مانیے! ان سب باتوں کے پروپیگنڈے کو زیادہ عرصہ نہیں ہوا، لیکن حالیہ پاک بھارت جنگ کے بعد جس طرح بھارت نے پاکستان کی عسکری طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اس سے بھارت کے بہت سے دعوؤں کی قلعی کھل گئی۔ اس شکست فاش کے بعد بھارت اپنے حق میں نعرہ لگانے کے قابل نہیں رہا، اب دنیا پر واشگاف ہو چکا ہے کہ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت میں تقسیم کا عمل کس شدت سے جاری ہے۔

بھارت میں مسلمان اقلیت کے ساتھ جو ناروا سلوک کیا گیا وہ ایک زمانے تک دنیا سے مخفی رہا، بھارت اپنے جرائم پر پردہ ڈالتا رہا، مسلمان اقلیتوں کے ساتھ بدترین غیر انسانی سلوک کی ہزاروں داستانیں ہیں، ایسا بھی ہوا کہ گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گاؤں کے گاؤں نذر آتش کردیے گئے، انسانوں کو زندہ جلا دیا گیا، سرعام مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی، مساجد کو آگ لگا دی گئی، مسلمانوں کے ساتھ ملازمتوں میں بھی بدتر سلوک کیا گیا، اتنی بڑی اقلیت کے سماجی، اخلاقی، جمہوری اور سیاسی حقوق ضبط کیے گئے۔ مودی حکومت کے آنے سے اس مسلم کش مہم میں شدت آ گئی، سیکولر ازم کا بھانڈا چوک میں پھوٹ گیا، ہندوتوا کا زہر سارے بھارت میں پھیل گیا۔ مسلمانوں کے انسانی حقوق بری طرح پامال کیے گئے، مسلم نفرت کو ریاستی سطح پر شعار بنایا گیا، مسلمانوں کے مقدس مقامات کی ریاستی سطح پر پامالی کی گئی اور مذہب کی بنیاد پر ان کو نچلے درجے کے شہری کا درجہ دیا گیا، جبر کی یہ کیفیت زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی تھی، ایک وقت آنا تھا جب صبر کا پیمانہ لبریز ہو جانا تھا۔

بھارت میں سکھوں کی علیحدگی پسند تحریک کو مدت سے کچلا جا رہا تھا، اندرا گاندھی کے زمانے میں جس طرح سکھوں کا قتل عام کیا گیا اس کی بہیمانہ مثال تاریخ میں نہیں ملتی، مودی حکومت نے آکر اس مہم میں مزید نفرت کا رنگ بھرا، سکھوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالا گیا، ان کو ماورائے عدالت قتل کروایا گیا، یہاں تک کہ بیرون ملک اجرتی قاتلوں کے ذریعے ان کے قتل کا بندوبست ریاستی سطح پر کیا گیا۔ کینیڈا کے وزیراعظم کا بیان اس مد میں بہت اہم ہے۔ جسٹں ٹروڈو نے واضح طور پر نہ صرف کینیڈا میں سکھ رہنما کے قتل کا الزام بھارتی حکومت پر عائد کیا بلکہ بھارت کو بین الاقوامی دہشتگرد بھی قرار دیا۔ اس سے بڑی ہزیمت کسی قوم کے لیے اور کیا ہوگی کہ دنیا ان کو بین الاقوامی دہشتگرد کے طور پر یاد رکھتی ہو، لیکن بھارت نے اپنے ان جرائم پر ہمیشہ پردہ ڈالا، دنیا کو ایک سیکولر بھارت کا چہرہ دکھایا اور ہمیشہ نام نہاد جمہوریت اور انسانی حقوق کے پیچھے چھپ کر جمہوریت اور انسانی حقوق پر وار کیا، لیکن جھوٹ کا یہ کاروبار زیادہ دیر نہیں چل سکتا تھا۔

بھارت جو اپنے آپ کو انسانی حقوق کا چیمپیئن کہلاتا تھا اس کی قلعی تو مقبوضہ کشمیر میں ہی کھل گئی، بھارت نے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کرکے ایک پوری وادی کو مبحوس کرلیا، آپ کسی مقبوضہ کشمیر کے شہری سے پوچھیں تو پتہ چلے گا کہ انسانوں پر ظلم کی داستان کیسے لکھی جا رہی ہے، پوری وادی کے لاکھوں لوگ مدت سے کرفیو کی حالت میں زندہ ہیں، جگہ جگہ تلاشی اور تذلیل کے لیے بھارتی فوج کھڑی ہے، دنیا سے رابطہ ختم ہو چکا ہے، انٹرنیٹ، فون، ڈاک سب بند، رابطے کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ اشیائے خورونوش کی خریداری کے لیے بھی تھانے سے اجازت کی ضرورت ہے، آئے روز کشمیری خواتین کی عصمتوں کو پامال کیا جا رہا ہے، نوجوانوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تعلیم، ترقی سب کے دروازے بند ہیں، ہر طرف بھارتی ٖفوج کا جبر ہے، خوف ہے، استبداد ہے۔ بھارت ایک مدت تک اپنے ان جرائم پر پردہ ڈالتا رہا، لیکن دنیا کو یہ فریب زیادہ دیر نہیں دیا جا سکتا تھا، ایک وقت آنا تھا جب بھارت کے شدت پسند، جنونی اور مکرہ چہرے نے بے نقاب ہونا تھا۔

حالیہ پاک بھارت جنگ تھی تو چند دن کی مگر اس میں بہت سی باتوں کا ثبوت مل گیا، ایک تو یہ بات واضح ہو گئی کہ بھارت اس خطے کی سب سے بڑی عسکری طاقت نہیں ہے، پاکستانی فوج اس سے زیادہ طاقتور اور باہنر ہے۔ بھارت کا یہ دعویٰ بھی باطل ہوگیا کہ وہ سب سے بڑی جمہوریت ہے، اب دنیا کی اچانک آنکھ کھل گئی ہے اور یہ منکشف ہو چکا ہے کہ وہاں تو گجرات کا دہشتگرد مودی حکمران ہے، وہاں تو اقلیتوں کا قتل ہو رہا ہے، یہ خیال بھی باطل ثابت ہوا کہ دنیا بھارت کے ساتھ کھڑی ہے، بھارت اپنے جبر وستم کی وجہ سے دنیا میں تنہا کھڑا ہے اور دنیا کی سب طاقتیں چین سے لے کر امریکا تک پاکستان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑی ہیں۔

بھارت اس وقت تقسیم کے دہانے پر کھڑا ہے، اس وقت 123 علیحدگی کی تحریکیں بھارت میں چل رہی ہیں، سکھ اپنے علیحدہ ملک کا مطالبہ کررہے ہیں، سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کا جینا دوبھر ہے اور ذات پات کے چکر میں نچلی ذات کے ہندو نفرت کے اس بازار سے تنگ آ چکے ہیں، یہ واقعہ کل ہوتا ہے یا آج لیکن بات واضح ہے بھارت کی تقسیم اب نوشتہ دیوار ہے اور بھارت کا گودی میڈیا بھی تقسیم کے اس منظر پر پردہ ڈالنے سے قاصر رہے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عمار مسعود

عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔

wenews امریکا بڑی جمہوریت بھارت پاکستان بھارت جنگ پاکستانی فوج تقسیم دنیا سکھ عسکری طاقت علیحدگی کی تحریکیں مسلمان مودی سرکار وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بھارت تقسیم کے دہانے پر
  • پشاور: آندھی کے باعث درخت گرنے سے 2 افراد جاں بحق، 3 زخمی
  • پشاور میں آندھی نے تباہی مچادی، بچے سمیت 3 افراد جاں بحق
  • مری: گرج چمک کیساتھ بارش، بجلی معطل، درخت اور چھتیں گر گئیں
  •      مری میں شدید آندھی و طوفان، درخت اور بجلی کی تاریں گرنے سے نظام زندگی متاثر
  • جب تک مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاتا، جنوبی ایشیاء میں جنگ کے بادل منڈھلاتے رہینگے؛ صدر آزاد کشمیر
  • ادب کا مطالعہ ضروری کیوں؟
  • ایک نیا عہد
  • قدرتی ماحول کی بحالی کیلئے صوبے بھر میں پھل دار اور دیسی درخت لگانے کا فیصلہ: بیرسٹر سیف