Express News:
2025-07-04@17:26:29 GMT

کٹھن وقت گزر جاتا ہے

اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT

کبھی کبھی آپ اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی چیزوں کا بھی گہرائی سے مشاہدہ کرتے ہیں، جیسے گذشتہ دنوں میں نے کیا۔ یہ ہمارے محلے کا ایک درخت ہے، جو کہ کافی عرصے سے میری توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا، دیکھنے میں تو یہ کوئی عام سا درخت ہی لگے گا، لیکن اگر غور کیجیے، تو اللہ کی بنائی ہوی ہر مخلوق ہمارے لیے خیر کا سبق میں اندر سموئے ہوئے ہوتی ہے، جب ہی تو اللہ قرآن میں ہمیں بار بار غور و فکر اور تدبر کی دعوت دیتے رہتے ہیں۔

سے پہلے، میں اس درخت کی بیرونی حالت کی منظر کشی کروں گی۔ ساتھ ہی گزشتہ دنوں یہ کیسا تھا، اس کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ ذرا غور سے اگر اس درخت کے نچلے حصے کو دیکھیں، تو آپ کو نظر آئے گا کہ اس کا نچلا حصہ کچھ حد تک جلا ہوا ہے۔

تو ہوا کچھ یوں کہ سردیوں کے دنوں میں ہم انسانوں کی طرف سے پھیلائے گئے کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو اُسے جلا دیا گیا، یہ غیر ذمہ دارانہ عمل اس بیپروائی سے انجام دیا گیا کہ جس کی وجہ سے درخت کے نچلے حصے کو نقصان پہنچا۔ گذشتہ سردی سے پہلے اس درخت کے پتے جھڑ چکے تھے اور وہ ایک بنجر درخت کی سی صورت پیش کر رہا تھا، جیسا کہ سردیوں میں اکثر درخت اس عمل سے گزرتے ہیں، یہ ان کے لیے موسم کی سختی کو جھیلنے کا ایک مرحلہ ہوتا ہے، اس دوران ان کے سارے پتے جھڑ جاتے ہیں اور ان کی نشوونما بھی رک جاتی ہے۔

ایسے میں، میں منتظر تھی کہ کب یہ درخت دوبارہ زندگی کی رونق سے بھرے گا، اور کب اس کے پتے اور پھول محلے میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے لگیں گے۔ پھر فروری اور مارچ کا مہینا بھی ایسے ہی گزر گیا، مگر درخت کی خوب صورتی بحال نہ ہو سکی۔ ایسے میں میرے دل میں اس حوالے سے ایک ناامیدی جنم لینے لگی کہ شاید یہ درخت اپنا وقت پورا کر چکا ہو، لیکن اپریل کے مہینے میں اچانک اس میں چند ہرے پتے نمودار ہوئے، اور ساتھ ہی ساتھ سرخ پھول بھی کھلنے لگے، جیسے درخت اپنی رونق بحال کرنے کے لیے جاگ اٹھا ہو۔

اس کی صورت حال ایسی ہے کہ اگر ہم اس کی موجودہ ظاہری شکل دیکھیں، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ درخت قدرے جھکا ہوا کھڑا ہے، شاید اس کی جڑوں کو جو نقصان پہنچا تھا، وہ اسے پوری طرح سیدھا کھڑا ہونے کی صلاحیت ختم ہو گئی، مگر جب اس کے اوپری حصے کی طرف نظر جاتی، تو حیرت ہوتی کہ درخت کی شاخوں پر چند ہی پتے ہیں، لیکن پھول بھی ایک خاص شوخی کے ساتھ اس پر کِھل رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے پھول آس پاس کے دوسرے درختوں کی شاخوں تک پھیل رہے ہیں، جیسے وہ انھیں بھی خوب صورتی بخشنے کی کوشش کر رہے ہوں۔

اس پورے منظرنامے سے جو تعلق میں نے انسانی زندگی سے قائم کیا ہے، وہ میرے لیے نہایت اہم اور دل چسپ ہے۔ البتہ، یہ میرا ذاتی نظریہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ دیکھنے والے اُسے کسی اور زاویے سے دیکھیں، اور اس منظر سے کوئی اور سبق یا خیر کی بات اخذ کریں۔ میرا اس ساری منظر نگاری پر تجزیہ کچھ یوں ہے کہ جس طرح ایک درخت اپنے مشکل وقت میں خاموشی اور ساکت حالت  میں چلا جاتا ہے، اسی طرح ہم بھی اکثر زندگی کی تلخیوں، آزمائشوں اور درد بھرے لمحوں کے ہاتھوں کمزور ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں وقت کا جبر، مشکلات اور دکھ انسان کو توڑ دیتے ہیں، اس کی رفتار کو روک دیتے ہیں، اور وہ خود بھی ٹھیر جاتا ہے، حتیٰ کہ دوسروں کے لیے خیر اور بھلائی پھیلانے سے بھی رک جاتا ہے۔

یہ کٹھن وقت بعض اوقات اُسے اردگرد کے ماحول سے بیزار اور دور کر دیتا ہے۔ خواتین بالخصوص اس مرحلے سے کافی زیادہ گزرتی ہیں، لیکن اگر وہ فطرتِ سلیم پر ہوں، تو اس مشکل اور تغیر سے بھرپور لمحے میں بھی اپنی ذات سے اپنے اردگرد کے ماحول کو نقصان نہیں پہنچتا۔

وہ بس کچھ وقت لیتا ہے۔۔۔کبھی کم اور کبھی زیادہ۔۔۔ پھر تھم جاتا ہے، تاکہ اپنے اندر کی گہرائیوں کو سمجھ سکے، اپنے بکھرے ہوئے احساسات اور جذبات کو سمیٹ سکے، علمِ نافع کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی مشکلات کو پرکھ سکے، اور اپنے آپ کو دوبارہ خیر کے قابل بنا سکے، لیکن پھر جب وہ وقت کام یابی سے گزار لیتی ہیں، تو اسی درخت کی مانند ہوتی ہیں، جس کے تنے پر ’زخموں‘ کے نشان نمایاں تو ضرور ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح، ان کی ذات پر بھی کچھ نشانات باقی رہ جاتے ہیں، مگر وہ ان نشانات سے بے نیاز، اور اپنی ذات سے بلند ہو کر، اپنے اردگرد خوشیاں، خوب صورتی اور خیر بانٹنے کے لیے پُرعزم ہو جاتی ہیں۔ اس طرح وہ تکالیف اور آزمائشوں کی بھٹی میں تپ کر، نکھر کر، اور نیا حوصلہ لے کر واپس آتی ہیں۔۔۔ زیادہ مضبوط، زیادہ باشعور، اور زیادہ بہتر صورت۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتا ہے درخت کی کے لیے اپنے ا

پڑھیں:

امریکا مت آئیو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا، وہ خوابوں کی سرزمین، جہاں لاکھوں دل ہر سال اپنی امیدوں کے پر جلاتے ہیں، اب ایک تاریک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں برصغیر کے تارکین وطن نے اپنی محنت کے موتی بکھیرے، اپنی صلاحیتوں سے اس کی گلیوں کو سجایا اور اپنے خوابوں کی قیمت اپنے وطن کی جدائی سے چْکائی۔ مگر امریکی عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو جزوی طور پر بحال کر دیا جو پیدائشی شہریت کے حق کو چھینتا ہے۔ یہ فیصلہ برصغیر کے تارکین وطن کے لیے ایک زوردار طمانچہ ہے۔ وہ امریکا، جو کبھی ’’ترقی کا خدا‘‘ کہلاتا تھا، اب اپنے چاہنے والوں کے لیے مایوسی کا ایک کڑوا پیغام لے کر آیا ہے۔

جنوری 2025 میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جو گویا امریکی آئین کی 14 ویں ترمیم کے سینے میں خنجر گھونپتا ہے۔ اس آرڈر کے مطابق، غیر قانونی تارکین وطن یا عارضی ویزوں، جیسے H1B، پر مقیم افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسی غیر قانونی امیگریشن کے سمندر کو روکے گی اور امریکی وسائل پر بوجھ کم کرے گی۔ مگر یہ آرڈر آئینی تنازع کی آگ بھڑکاتا ہے، کیونکہ 14 ویں ترمیم کی آواز واضح ہے: ’’امریکا کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ اس کا شہری ہے‘‘۔ یہ تنازع ایک ایسی لڑائی ہے جو قانون کے ایوانوں سے لے کر دلوں کی گہرائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ جون 2025 میں، امریکی عدالت عظمیٰ نے 6-3 کے فیصلے سے ٹرمپ کے آرڈر کے خلاف ڈسٹرکٹ عدالتوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناع کے استعمال کو محدود کر دیا۔ یہ فیصلہ کوئی حتمی سزا نہیں، بلکہ ایک التوا ہے، جو پیدائشی شہریت کے حق کو 30 دنوں میں جزوی طور پر معطل کر سکتا ہے۔ عدالت نے آرڈر کی آئینی حیثیت پر فیصلہ موخر کر دیا، لیکن یہ کہا کہ ڈسٹرکٹ ججوں کے پاس صدارتی حکم کو ملک گیر سطح پر روکنے کا اختیار محدود ہونا چاہیے۔

یہ فیصلہ ایک تلخ سچائی کو عیاں کرتا ہے کہ امریکی عدالتیں سیاسی رنگوں میں رنگی ہوئی ہیں۔ جن چھے ججوں نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیا، وہ ریپبلکن کے نامزد کردہ ہیں اور جن تین نے مخالفت کی، وہ ڈیموکریٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستانی تنقید نگار جو اپنی عدالتوں پر تنقید کرتے ہیں، شاید امریکی عدالتوں کی اس سیاسی وابستگی پر بھی نظر ڈالیں۔ یہاں انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں ترازو کم، سیاسی وفاداری کا پرچم زیادہ نظر آتا ہے۔

ڈیموکریٹس اور شہری حقوق کی تنظیمیں، جیسے امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عدالتوں میں گھسیٹ لیا۔ ان کا موقف ہے کہ یہ آرڈر 14 ویں ترمیم کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نیویارک، میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن کی عدالتوں میں مقدمات دائر ہوئے، جنہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ ڈیموکریٹس نے اسے سیاسی میدان میں بھی ٹرمپ کی امیگریشن مخالف پالیسیوں کا حصہ قرار دیا۔ مگر تارکین وطن کے لیے یہ شور ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اوباما نے اپنے دور میں بلند و بانگ دعووں کے باوجود صرف آخری مہینوں میں DACA جیسا کمزور پروگرام دیا، جسے ٹرمپ نے ایک جھٹکے میں اُڑا دیا۔ ڈیموکریٹس تارکین وطن کے چمپئن بنتے ہیں، مگر ان کے وعدے اکثر ہوا کے جھونکوں کی مانند بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔

اس ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف کم از کم تین مقدمات میری لینڈ، میساچوسٹس، اور واشنگٹن کی ڈسٹرکٹ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان عدالتوں نے آرڈر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکم امتناع جاری کیے، جنہیں عدالت عظمیٰ نے جزوی طور پر ہٹایا۔ مگر شہری حقوق کی تنظیمیں ہار ماننے کو تیار نہیں۔ یہ قانونی جنگ ایک ایسی شمع ہے جو ابھی ٹمٹما رہی ہے اور اس کے شعلے شاید تارکین وطن کے خوابوں کو مکمل طور پر راکھ ہونے سے بچا لیں۔

اس فیصلے سے سب سے زیادہ زخم غیر قانونی تارکین وطن اور H1B جیسے عارضی ویزوں پر مقیم افراد کو لگیں گے۔ برصغیر کے وہ لوگ جو اپنے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا خواب لیے سمندر پار کرتے ہیں، اب اس امید کے دروازے بند پائیں گے۔ غیر قانونی طور پر مقیم حاملہ خواتین، گرفتاری کے خوف سے اسپتالوں سے دور رہیں گی۔ گھروں میں پیدائش کا سلسلہ بڑھے گا اور معصوم جانوں کی اموات کا سلسلہ بھی۔ ’’لٹل انڈیا‘‘، ’’لٹل پاکستان‘‘ اور ’’لٹل بنگلا دیش‘‘ جیسے علاقوں کی ثقافتی چمک دھیمی پڑ جائے گی۔ یہ وہ گلیاں ہیں جہاں برصغیر کے ذائقے، رنگ، اور خوشبوئیں امریکی فضا کو معطر کرتی ہیں۔ یہاں کے ریسٹورنٹس، دکانیں، اور ثقافتی کاروبار، جو غیر قانونی تارکین وطن کے سہارے چلتے ہیں، معاشی تنزلی کا شکار ہو جائیں گے۔ نان ایمیگرنٹ ویزوں والوں کے بچوں کا مستقبل H1B جیسے نان ایمیگرنٹ ویزوں پر مقیم افراد کے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ ان بچوں کا اسٹیٹس والدین کے ویزوں سے جڑا ہوگا اور شہریت کا حصول ایک لمبا، پیچیدہ، اور مہنگا عمل بن جائے گا۔ برصغیر کے ہنرمند پیشہ ور، جو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہاں آتے ہیں، اب اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی دلدل میں دھنسیں گے۔

ڈیموکریٹس آج تارکین وطن کے ہمدرد بنے پھرتے ہیں، مگر ان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان کے وعدے اکثر دھوئیں کے بادل ثابت ہوتے ہیں۔ اوباما نے اپنی دوسری مدت کے آخری ایام میں DACA جیسا کمزور پروگرام دیا، جو ٹرمپ کے ایک ہاتھ کے اشارے سے غائب ہو گیا۔ دوسری طرف، ریپبلکنز نے ماضی میں امیگریشن اصلاحات کی حمایت کی، جیسے 1986 کا امیگریشن ریفارم اینڈ کنٹرول ایکٹ، جس نے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی۔ مگر آج ٹرمپ کی قیادت میں ریپبلکنز امیگریشن مخالف پالیسیوں کی چوٹی پر کھڑے ہیں۔

اس پالیسی کا ایک چمکتا ہوا پہلو یہ ہے کہ برصغیر سے ہونے والا برین ڈرین شاید رک جائے۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، اور سافٹ ویئر ڈویلپرز، جو امریکی خواب کی چمک میں اپنا وطن چھوڑتے ہیں، اب اپنے دیس کی مٹی سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان، بھارت، اور بنگلا دیش کا متوسط طبقہ مضبوط ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک تلخ سچائی بھی جڑی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ، جو اپنے بچوں کی پیدائش کے لیے امریکا کا رخ کرتی ہے، اپنی وفاداریوں کو امریکی مفادات سے باندھ لیتی ہے۔ ان کا غیر اعلانیہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نظریہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ یہ پالیسی شاید اس رجحان کو روک دے، اور ہمارے اہل دماغ اپنے وطن کی اصلاح و ترقی کے لیے کام کریں۔

امریکا کی ترقی کا راز اس کے کھلے دروازوں میں ہے، جہاں دنیا بھر کے باصلاحیت دماغ یکجا ہوتے ہیں۔ اگر پیدائشی شہریت کا حق چھین لیا گیا تو یہ دروازے بند ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی طلبہ یونیورسٹیوں سے غائب ہو جائیں گے، اور معاشی، سائنسی، ٹیکنالوجی، اور طبی شعبوں میں امریکا اپنی برتری کھو دے گا۔ یہ پالیسی گویا اس سرزمین سے اس کے خواب چھین رہی ہے۔

امریکا میں بڑی بڑی اسلامی کانفرنسوں میں شریک ہونے والوں کو لگتا ہے کہ یہاں آکر وہ اپنے ایمان کو مضبوط کریں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی چمک میں اکثر ہماری شناخت تحلیل ہو جاتی ہے۔ برصغیر کے تارکین وطن کی نسلیں مغربی تہذیب کے رنگ میں ڈوب کر اپنا نام و نشان کھو دیتی ہیں۔ یہ پالیسی شاید ہمیں اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے پر مجبور کرے۔ امریکا کا یہ فیصلہ ایک واضح پیغام ہے: ’’امریکا مت آئیو‘‘۔

برصغیر کے تارکین وطن کے لیے یہ وقت سوچنے کا ہے۔ شاید اب وقت ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن کی مٹی سے جوڑیں، اپنے گھر کو سنواریں، اور اپنے خوابوں کو اپنی سرزمین پر سچ کریں۔ اور شکم کی ہجرت سے توبہ کریں۔ افتخار عارف کا شعر ہے:

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

متعلقہ مضامین

  • لاہور ہائیکورٹ کا بلند عمارتوں کی چھتوں پر سبزہ لگانے کا حکم
  • نوازشریف کے تو کھانے گھر سے آتے تھے، سو سو بندہ ملنے جاتا تھا، بانی پی ٹی آئی کی تمام جیل سہولیات ختم کردی گئیں ،علیمہ خان
  • نوبیل امن انعام اکثر ایسے افراد کو دیا جاتا ہے جنہیں عوام جانتے بھی نہیں، صدر ٹرمپ
  • فوجداری نظام انصاف طاقتور افراد کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہو جاتا ہے: سپریم کورٹ
  • کوٹری صنعتی زون کا فضلہ ملے پانی کی کراچی سپلائی کا انکشاف
  • امریکا مت آئیو
  • چین کا بلیک آؤٹ بم‘ بجلی گھر ناکارہ بنانے کی صلاحیت سے لیس
  • آئینی طریقے سے کے پی حکومت کو گرا دیا جاتا ہے تو سیاست چھوڑ دوں گا، علی امین گنڈاپور کا چیلنج
  • چین کا ’بلیک آؤٹ بم‘: دشمن کے پاور پلانٹس کو ناکارہ بنانے والا نیا ہتھیار سامنے آگیا
  • حیدرآباد: متوقع طوفانی بارشوں کے پیش نظر ایس بی سی اے ایمرجنسی سیل قائم