data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
امریکا، وہ خوابوں کی سرزمین، جہاں لاکھوں دل ہر سال اپنی امیدوں کے پر جلاتے ہیں، اب ایک تاریک موڑ پر کھڑا ہے۔ یہ وہی سرزمین ہے جہاں برصغیر کے تارکین وطن نے اپنی محنت کے موتی بکھیرے، اپنی صلاحیتوں سے اس کی گلیوں کو سجایا اور اپنے خوابوں کی قیمت اپنے وطن کی جدائی سے چْکائی۔ مگر امریکی عدالت عظمیٰ کے تازہ فیصلے نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو جزوی طور پر بحال کر دیا جو پیدائشی شہریت کے حق کو چھینتا ہے۔ یہ فیصلہ برصغیر کے تارکین وطن کے لیے ایک زوردار طمانچہ ہے۔ وہ امریکا، جو کبھی ’’ترقی کا خدا‘‘ کہلاتا تھا، اب اپنے چاہنے والوں کے لیے مایوسی کا ایک کڑوا پیغام لے کر آیا ہے۔
جنوری 2025 میں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جو گویا امریکی آئین کی 14 ویں ترمیم کے سینے میں خنجر گھونپتا ہے۔ اس آرڈر کے مطابق، غیر قانونی تارکین وطن یا عارضی ویزوں، جیسے H1B، پر مقیم افراد کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا دروازہ بند کر دیا جائے گا۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ پالیسی غیر قانونی امیگریشن کے سمندر کو روکے گی اور امریکی وسائل پر بوجھ کم کرے گی۔ مگر یہ آرڈر آئینی تنازع کی آگ بھڑکاتا ہے، کیونکہ 14 ویں ترمیم کی آواز واضح ہے: ’’امریکا کی سرزمین پر پیدا ہونے والا ہر بچہ اس کا شہری ہے‘‘۔ یہ تنازع ایک ایسی لڑائی ہے جو قانون کے ایوانوں سے لے کر دلوں کی گہرائیوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ جون 2025 میں، امریکی عدالت عظمیٰ نے 6-3 کے فیصلے سے ٹرمپ کے آرڈر کے خلاف ڈسٹرکٹ عدالتوں کے جاری کردہ ملک گیر حکم امتناع کے استعمال کو محدود کر دیا۔ یہ فیصلہ کوئی حتمی سزا نہیں، بلکہ ایک التوا ہے، جو پیدائشی شہریت کے حق کو 30 دنوں میں جزوی طور پر معطل کر سکتا ہے۔ عدالت نے آرڈر کی آئینی حیثیت پر فیصلہ موخر کر دیا، لیکن یہ کہا کہ ڈسٹرکٹ ججوں کے پاس صدارتی حکم کو ملک گیر سطح پر روکنے کا اختیار محدود ہونا چاہیے۔
یہ فیصلہ ایک تلخ سچائی کو عیاں کرتا ہے کہ امریکی عدالتیں سیاسی رنگوں میں رنگی ہوئی ہیں۔ جن چھے ججوں نے ٹرمپ کے حق میں فیصلہ دیا، وہ ریپبلکن کے نامزد کردہ ہیں اور جن تین نے مخالفت کی، وہ ڈیموکریٹس سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستانی تنقید نگار جو اپنی عدالتوں پر تنقید کرتے ہیں، شاید امریکی عدالتوں کی اس سیاسی وابستگی پر بھی نظر ڈالیں۔ یہاں انصاف کی دیوی کے ہاتھ میں ترازو کم، سیاسی وفاداری کا پرچم زیادہ نظر آتا ہے۔
ڈیموکریٹس اور شہری حقوق کی تنظیمیں، جیسے امریکن سول لبرٹیز یونین (ACLU) نے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عدالتوں میں گھسیٹ لیا۔ ان کا موقف ہے کہ یہ آرڈر 14 ویں ترمیم کے چہرے پر طمانچہ ہے۔ نیویارک، میری لینڈ، میساچوسٹس اور واشنگٹن کی عدالتوں میں مقدمات دائر ہوئے، جنہوں نے اسے غیر آئینی قرار دیا۔ ڈیموکریٹس نے اسے سیاسی میدان میں بھی ٹرمپ کی امیگریشن مخالف پالیسیوں کا حصہ قرار دیا۔ مگر تارکین وطن کے لیے یہ شور ایک سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اوباما نے اپنے دور میں بلند و بانگ دعووں کے باوجود صرف آخری مہینوں میں DACA جیسا کمزور پروگرام دیا، جسے ٹرمپ نے ایک جھٹکے میں اُڑا دیا۔ ڈیموکریٹس تارکین وطن کے چمپئن بنتے ہیں، مگر ان کے وعدے اکثر ہوا کے جھونکوں کی مانند بے اثر ثابت ہوتے ہیں۔
اس ایگزیکٹو آرڈر کے خلاف کم از کم تین مقدمات میری لینڈ، میساچوسٹس، اور واشنگٹن کی ڈسٹرکٹ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ ان عدالتوں نے آرڈر کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے حکم امتناع جاری کیے، جنہیں عدالت عظمیٰ نے جزوی طور پر ہٹایا۔ مگر شہری حقوق کی تنظیمیں ہار ماننے کو تیار نہیں۔ یہ قانونی جنگ ایک ایسی شمع ہے جو ابھی ٹمٹما رہی ہے اور اس کے شعلے شاید تارکین وطن کے خوابوں کو مکمل طور پر راکھ ہونے سے بچا لیں۔
اس فیصلے سے سب سے زیادہ زخم غیر قانونی تارکین وطن اور H1B جیسے عارضی ویزوں پر مقیم افراد کو لگیں گے۔ برصغیر کے وہ لوگ جو اپنے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا خواب لیے سمندر پار کرتے ہیں، اب اس امید کے دروازے بند پائیں گے۔ غیر قانونی طور پر مقیم حاملہ خواتین، گرفتاری کے خوف سے اسپتالوں سے دور رہیں گی۔ گھروں میں پیدائش کا سلسلہ بڑھے گا اور معصوم جانوں کی اموات کا سلسلہ بھی۔ ’’لٹل انڈیا‘‘، ’’لٹل پاکستان‘‘ اور ’’لٹل بنگلا دیش‘‘ جیسے علاقوں کی ثقافتی چمک دھیمی پڑ جائے گی۔ یہ وہ گلیاں ہیں جہاں برصغیر کے ذائقے، رنگ، اور خوشبوئیں امریکی فضا کو معطر کرتی ہیں۔ یہاں کے ریسٹورنٹس، دکانیں، اور ثقافتی کاروبار، جو غیر قانونی تارکین وطن کے سہارے چلتے ہیں، معاشی تنزلی کا شکار ہو جائیں گے۔ نان ایمیگرنٹ ویزوں والوں کے بچوں کا مستقبل H1B جیسے نان ایمیگرنٹ ویزوں پر مقیم افراد کے بچوں کے لیے امریکی شہریت کا دروازہ بند ہو جائے گا۔ ان بچوں کا اسٹیٹس والدین کے ویزوں سے جڑا ہوگا اور شہریت کا حصول ایک لمبا، پیچیدہ، اور مہنگا عمل بن جائے گا۔ برصغیر کے ہنرمند پیشہ ور، جو اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر یہاں آتے ہیں، اب اپنے خاندان کے مستقبل کے بارے میں غیر یقینی کی دلدل میں دھنسیں گے۔
ڈیموکریٹس آج تارکین وطن کے ہمدرد بنے پھرتے ہیں، مگر ان کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ ان کے وعدے اکثر دھوئیں کے بادل ثابت ہوتے ہیں۔ اوباما نے اپنی دوسری مدت کے آخری ایام میں DACA جیسا کمزور پروگرام دیا، جو ٹرمپ کے ایک ہاتھ کے اشارے سے غائب ہو گیا۔ دوسری طرف، ریپبلکنز نے ماضی میں امیگریشن اصلاحات کی حمایت کی، جیسے 1986 کا امیگریشن ریفارم اینڈ کنٹرول ایکٹ، جس نے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو قانونی حیثیت دی۔ مگر آج ٹرمپ کی قیادت میں ریپبلکنز امیگریشن مخالف پالیسیوں کی چوٹی پر کھڑے ہیں۔
اس پالیسی کا ایک چمکتا ہوا پہلو یہ ہے کہ برصغیر سے ہونے والا برین ڈرین شاید رک جائے۔ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز، اور سافٹ ویئر ڈویلپرز، جو امریکی خواب کی چمک میں اپنا وطن چھوڑتے ہیں، اب اپنے دیس کی مٹی سے جڑے رہ سکتے ہیں۔ اس سے پاکستان، بھارت، اور بنگلا دیش کا متوسط طبقہ مضبوط ہوگا۔ اس کے ساتھ ایک تلخ سچائی بھی جڑی ہے۔ پاکستانی اشرافیہ، جو اپنے بچوں کی پیدائش کے لیے امریکا کا رخ کرتی ہے، اپنی وفاداریوں کو امریکی مفادات سے باندھ لیتی ہے۔ ان کا غیر اعلانیہ ’’امریکا فرسٹ‘‘ کا نظریہ قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ یہ پالیسی شاید اس رجحان کو روک دے، اور ہمارے اہل دماغ اپنے وطن کی اصلاح و ترقی کے لیے کام کریں۔
امریکا کی ترقی کا راز اس کے کھلے دروازوں میں ہے، جہاں دنیا بھر کے باصلاحیت دماغ یکجا ہوتے ہیں۔ اگر پیدائشی شہریت کا حق چھین لیا گیا تو یہ دروازے بند ہو جائیں گے۔ بین الاقوامی طلبہ یونیورسٹیوں سے غائب ہو جائیں گے، اور معاشی، سائنسی، ٹیکنالوجی، اور طبی شعبوں میں امریکا اپنی برتری کھو دے گا۔ یہ پالیسی گویا اس سرزمین سے اس کے خواب چھین رہی ہے۔
امریکا میں بڑی بڑی اسلامی کانفرنسوں میں شریک ہونے والوں کو لگتا ہے کہ یہاں آکر وہ اپنے ایمان کو مضبوط کریں گے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی چمک میں اکثر ہماری شناخت تحلیل ہو جاتی ہے۔ برصغیر کے تارکین وطن کی نسلیں مغربی تہذیب کے رنگ میں ڈوب کر اپنا نام و نشان کھو دیتی ہیں۔ یہ پالیسی شاید ہمیں اپنی جڑوں کی طرف لوٹنے پر مجبور کرے۔ امریکا کا یہ فیصلہ ایک واضح پیغام ہے: ’’امریکا مت آئیو‘‘۔
برصغیر کے تارکین وطن کے لیے یہ وقت سوچنے کا ہے۔ شاید اب وقت ہے کہ ہم اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن کی مٹی سے جوڑیں، اپنے گھر کو سنواریں، اور اپنے خوابوں کو اپنی سرزمین پر سچ کریں۔ اور شکم کی ہجرت سے توبہ کریں۔ افتخار عارف کا شعر ہے:
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین وطن برصغیر کے تارکین وطن ایگزیکٹو ا رڈر تارکین وطن کے امریکی عدالت یہ پالیسی شہریت کا یہ فیصلہ ٹرمپ کے کر دیا کے لیے وطن کی
پڑھیں:
امریکا یوکرین کو روسی شہروں پر حملوںکی معلومات فراہم کریگا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ واشنگٹن یوکرین کو خفیہ معلومات فراہم کرے گا تاکہ وہ روس کی توانائی سے متعلق تنصیبات پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل حملے کر سکے۔ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق واشنگٹن اس امکان پر بھی غور کر رہا ہے کہ آیا کیف حکومت کو مزید ایسے ہتھیار فراہم کیے جائیں جو اسے زیادہ اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل بنا سکیں۔ امریکا طویل عرصے سے یوکرین کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ کرتا آ رہا ہے، لیکن اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ نیا اقدام یوکرین کے لیے روس کی تیل صاف کرنے والی تنصیبات، پائپ لائنوں، بجلی گھروں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا آسان بنا دے گا۔ اس کا مقصد ماسکو کو تیل اور آمدنی سے محروم کرنا ہے۔ اخبار نے یہ بھی بتایا کہ امریکی حکام ناٹو کے رکن ممالک سے اسی نوعیت کے تعاون کی درخواست کر رہے ہیں۔حکام نے واضح کیا کہ اضافی انٹیلی جنس فراہم کرنے کی منظوری اس وقت دی گئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ یوکرین روس کے زیر قبضہ اپنے تمام علاقے واپس حاصل کر سکتا ہے۔ یہ بات ان کی جانب سے کیف کے حق میں لہجے میں ایک نمایاں تبدیلی سمجھی جا رہی ہے۔ٹرمپ حالیہ ہفتوں میں کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ انھوں نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں جو توقعات رکھی تھیں وہ پوری نہیں ہوئیں۔ امریکی صدر دراصل یہ امید کر رہے تھے کہ روس یوکرین جنگ جلد ختم ہو جائے گی۔ خاص طور پر جب اگست کے وسط میں الاسکا میں پیوٹن سے ہونے والی سربراہی ملاقات کو انہوں نے بہت شان دار قرار دیا تھا۔ ٹرمپ نے کہا تھا کہ جلد ہی پیوٹن اور یوکرینی صدر زیلنسکی کی ملاقات متوقع ہے، تاہم ایسا نہیں ہو سکا تھا۔