پاکستان کی غیر متوازن خوشحالی
اشاعت کی تاریخ: 20th, May 2025 GMT
کسی بھی ملک کے ترقی یافتہ ہونے کے معنی کیا ہیں؟ زیادہ سے زیادہ کارخانے، زیادہ سے زیادہ صنعتیں، بڑی بڑی شاہراہیں اور بلند خام ملکی پیداوار (جی ڈی پی) لیکن سچ پوچھیے تو صحیح معنوں میں ترقی کا پیمانہ اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام ہیں۔ ترقی کے اصل معنی عوام کی زندگی کو بہتر بنانا ہے بالخصوص وہ لوگ جو پسماندہ ہیں۔
آمدنی میں عدم مساوات پاکستان کا دائمی مسئلہ ہے جو معاشی ترقی، سماجی استحکام اور غربت میں کمی پر اثر انداز ہوتا ہے۔پاکستان کو معاشی عدم توازن اور پالیسیوں کے نفاذ کی وجہ سے کافی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ شہری اور دیہی آبادی میں عدم مساوات کی وجہ سے بہت سے مسائل جنم لے رہے ہیں اور یہ خلیج رفتہ رفتہ وسیع سے وسیع تر ہو رہی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان تفاوت بڑھتا جارہا ہے۔
عدم مساوات کا بنیادی سبب تعلیم اور ہنر مندی تک رسائی نہ ہونا ہے۔ ہمارا نظامِ تعلیم انتہائی فرسودہ ہے جو عصرِ حاضر کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتا اور کم آمدنی والے طبقات اس کی پہنچ سے باہر ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے روزگار کے مواقعے بہت ہی محدود ہوجاتے ہیں۔
علاوہ ازیں معیشت میں ساختی مسائل عدم مساوات کی ایک بہت بڑی وجہ ہیں۔ آبادی کا ایک بہت اہم حصہ غیر رسمی شعبے میں ملازمت پیشہ ہے لیکن اس سے وابستہ ملازمین کے سر پر تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ نہ جانے اسے کب نوکری سے نکال دیا جائے۔ ان بیچاروں کو ان کی محنت کا معقول صلہ بھی نہیں ملتا۔ صنعتی اور سروس سیکٹر سرمایہ دارانہ پیداوار کے لیے موافق ہیں جس کی وجہ سے کم ہنرمند افراد کے لیے روزگار کے مواقعے محدود ہوجاتے ہیں۔
معاشرہ انتہائی عدم مساوات کا شکار ہے جس میں امیر اور غریب طبقہ کے درمیان تقسیم علاقہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں گروہی اور مذہبی شناخت بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ علاقائی تفاوت کا بھی ایک اہم کردار ہے۔ صوبوں کے درمیان معاشی ترقی بھی غیر متوازن ہے جس میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے بڑے شہری مراکز دیہی علاقوں کی بہ نسبت فائدہ اٹھا رہے ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں زراعت آمدنی کا غالب ذریعہ ہے جو جدت اور سرمایہ کاری سے محروم ہے۔
پاکستان کی پہلی نیشنل ہیومن ڈیولپمنٹ رپورٹ 2003 میں شایع ہوئی تھی جس میں پہلی بار چاروں صوبوں کے درمیان عدم مساوات کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پاکستان کی تیسری این ایچ ڈی آر رپورٹ 2021 میں شایع ہوئی جس میں پاکستان کو درپیش عدم مساوات پر مزید تجزیہ کیا گیا ہے۔پاکستان کو مدتِ دراز سے غیر مساوی معاشی ترقی کا مسئلہ درپیش ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ بعض صوبوں اور اضلاع میں صورتحال ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ کہیں ترقی زیادہ ہے اور کہیں پسماندگی۔این ایچ ڈی آر 2020 کے مطابق پاکستان میں بلوچستان کے علاوہ تمام صوبوں میں فی کس مجموعی علاقائی پیداوار بڑھ رہی ہے۔
سی پیک پر عمل درآمد کے باوجود بلوچستان ابھی تک پسماندگی کا شکار ہے۔ بلوچستان اور سندھ میں غربت زیادہ ہے۔ انسانی ترقی کے اشاریہ کے لحاظ سے سندھ پہلے جب کہ پنجاب دوسرے اور کے پی کے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس فہرست میں بھی بلوچستان کا نمبر آخری ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی عدم مساوات اور ناہمواریاں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر جنوبی پنجاب میں آمدنی اور انسانی ترقی کی صورتحال باقی صوبہ کی بہ نسبت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔
شہری اور دیہی علاقوں میں ناہمواریوں کی تصویر مختلف ہے۔ این ایچ ڈی آر کے محققین کے مطابق تمام صوبوں کے شہری علاقوں میں فی کس خام ملکی پیداوار زیادہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی شہری علاقوں میں آمدنی میں عدم مساوات بھی زیادہ ہے۔ صنفی تفاوت مسئلہ کو مزید بڑھاتا ہے۔ عمومی طور پر مردوں کے مقابلہ میں خواتین زیادہ غربت کا شکار ہیں۔
آمدنی میں عدم مساوات سے نبرد آزما ہونے کے لیے مشاورتی پالیسیوں پر عمل درآمد ضروری ہے۔ عمدہ تعلیم تک رسائی اور پیشہ ورانہ تربیتی پروگرام کی توسیع کی بدولت ملازمت کے ذرایع اور کم آمدنی والے طبقوں کی آمدن میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میں عدم مساوات علاقوں میں کے درمیان کی وجہ سے زیادہ ہے کے لیے
پڑھیں:
سیویل کانفرنس: قرضوں میں ڈوبے ممالک کی بپتا سننے کے فورم کا قیام
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 جولائی 2025ء) مالیات برائے ترقی کے موضوع پر اقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس میں قرضوں کے بوجھ تلے دبے ممالک کو عالمی مالیاتی نظام میں مربوط اقدامات اور اپنی آواز موثر طریقے سے دوسروں تک پہنچانے کا نیا طریقہ کار متعارف کرایا گیا ہے۔
سپین کے شہر سیویل میں جاری کانفرنس کے تیسرے روز متعارف کرائے گئے 'مقروض ممالک کے فورم' کو قرضوں کے عالمی نظام میں اصلاحات لانے کی ایک اہم کوشش قرار دیا گیا ہے جسے اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہے اور یہ کانفرنس کے اختتام پر اس کے نتائج سے متعلق جاری کی جانے والی حتمی دستاویز کا اہم حصہ ہو گا۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مصر کی وزیر مںصوبہ بندی و معاشی ترقی ڈاکٹر رانیا المشاط نے کہا کہ یہ محض بات چیت نہیں بلکہ عملی اقدام ہے۔
(جاری ہے)
مقروض ممالک کا فورم ایک حقیقی منصوبہ ہے جو بہت سے ممالک نے قرضوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے مشترکہ آواز اور حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے بنایا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ تجارت و ترقی (انکٹاڈ) کی سیکرٹری جنرل ریبیکا گرینسپین نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک قرضوں کے حصول کے لیے عام طور پر اکیلے بات چیت کرتے ہیں جبکہ انہیں قرض دہندہ ممالک کے متحدہ بلاک کا سامنا ہوتا ہے۔
آج 3.4 ارب لوگ ایسے ممالک میں رہتے ہیں جنہیں اپنے ہاں صحت و تعلیم سے کہیں زیادہ وسائل قرضوں کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔فورم کے نمایاں مقاصدکانفرنس میں اس فورم کی اتفاق رائے سے منظوری دی گئی جبکہ حکومتی قرضوں کے حوالے سے اصلاحات لانے کے وعدے بھی کیے گئے۔ اس میں قرض کی فراہمی اور وصولی کے عمل میں مزید شفافیت لانے، قرض دہندہ ممالک میں ارتباط کو بہتر بنانے اور قرضوں کی ادائیگی میں مزید سہولت کی فراہمی کے لیے کثیرفریقی قانونی طریقہ کار وضع کرنے کی بات بھی شامل ہے۔
فورم کے تحت قرضوں کی پائیداری سے متعلق حکمت عملی متعلقہ ممالک خود وضع کریں گے اور موسمیاتی خطرات سے دوچار ممالک کے لیے قرض کی ادائیگی ملتوی کرنے کی سہولت حاصل کی جائے گی۔ اس میں قدرتی ماحول یا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق نمایاں اقدامات پر قرضوں میں رعایت دینے کے حوالے سے بڑے پیمانے پر مدد کی توثیق بھی کی گئی ہے۔
یہ فورم قرضوں کے مسئلے پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے قائم کردہ ماہرین کے گروپ کی جانب سے پیش کردہ 11 سفارشات میں سے ایک ہے۔ اس سے رکن ممالک کو اپنے تجربات کے تبادلے، تکنیکی و قانونی مشاورت کے حصول، قرض کی فراہمی اور حصول کے ضابطوں کو ذمہ دارانہ بنانے اور اس ضمن میں گفت و شنید کی اجتماعی قوت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
ترقی پذیر ممالک (گلوبل ساؤتھ) طویل عرصہ سے مطالبہ کرتے آئے تھے کہ قرضوں کے نظام میں فیصلہ سازی کو مزید مشمولہ ہونا چاہیے جہاں فی الوقت قرض دہندہ ممالک کا غلبہ ہے۔
خاموش اور سنگین بحرانکانفرنس کے موقع پر افریقی ملک زیمبیا کے وزیر خارجہ مولامبو ہیمبے نے صحافیوں کو بتایا کہ اس اقدام کی بدولت طویل مدتی شراکتوں اور باہمی احترام و مشترکہ ذمہ داری کو فروغ دینے میں مدد ملے گی جبکہ ان کا ملک اس حوالے سے ابتدائی اجلاس کی میزبان کے لیے تیار ہے۔
سپین کے وزیر خزانہ کارلوس کوئرپو نے کہا کہ دنیا کو قرضوں کے خاموش مگر سنگین بحران کا سامنا ہے جو ہنگامی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ مقروض ممالک کے فورم کا قیام 70 سال قبل قرض دہندہ ممالک کے پیرس کلب کے قیام سے مماثل ہے۔
2030 تک پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے لیے مالی وسائل کی فراہمی پر اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے محمود محی الدین نے کہا کہ یہ فورم ایک ایسے نظام کا براہ راست جواب ہے جس نے مقروض ممالک کو طویل عرصہ سے لگ تھلگ کر رکھا تھا۔
یہ فورم ان ممالک کی مضبوط آواز ہو گا، قرضوں کے نظام میں شفافیت لائے گا اور اس کی بدولت قرض کے کسی بحران کو شروع ہونے سے پہلے ہی روکا جا سکے گا۔کانفرنس کے نتائج پر تنقیدآج سول سوسائٹی کے نمائندوں نے سیویل کانفرنس کے نتائج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قرضوں کے عالمگیر نظام میں بامعنی اصلاحالات کا موقع گنوا دیا گیا ہے۔
افریقن فورم اور نیٹ ورک برائے قرض و ترقی کے نمائندے جیسن بریگانزا نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کانفرنس کے پہلے روز اس کی جس حتمی دستاویز کو منظور کیا گیا وہ توقعات پر پورا نہیں اترتی۔ یہ کمزور دستاویز ہے جس میں عزائم کی کمی ہے۔ براعظم افریقہ کے تقریباً نصف ممالک کو قرضوں کے بحران کا سامنا ہے جو صحت، تعلیم اور صاف پانی پر سرمایہ کاری کے بجائے قرض دہندگان کو ادائیگیاں کرنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے موسمیاتی و ماحولیاتی اقدامات کے بدلے قرضوں کو کم کرنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے غریب ممالک کو فوائد نہیں ملیں گے۔
قرض و ترقی پر یورپی نیٹ ورک کی نمائندہ ٹووی ریڈنگ نے جیسن بریگانزا کے خدشات کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ بتایا گیا ہے غربت یا موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی وسائل نہیں ہیں جبکہ حقیقت اس سے برعکس ہے۔ مسئلہ صرف معاشی ناانصافی کا ہے اور اس کانفرنس میں اس پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے نئے ٹیکس کنونشن پر پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ پرعزم ممالک حقیقی تبدیلی لا سکتے ہیں۔
صحت عامہ میں بہتری کا اقدامآج سپین نے کانفرنس میں عالمگیر طبی اقدام متعارف کروایا جس کا مقصد دنیا بھر میں صحت کے نظام کو بہتر بنانا ہے۔ اس کی بدولت سرکاری سطح پر طبی خدمات تک رسائی اور پالیسیوں کے حوالے سے خامیوں کو دور کرنے میں مدد ملے گی اور طبی مقاصد کے لیے مہیا کیے جانے والے مالی وسائل میں کمی کے مسئلے پر قابو پایا جا سکے گا جس کے باعث ہزاروں زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔
اس اقدام کے ذریعے 2027 تک عالمگیر طبی نظام میں 315 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی جس کے لیے کثیرفریقی طبی ادارے اور 10 سے زیادہ ممالک مدد فراہم کریں گے۔