سینیٹر علی ظفر نے کہا ہے کہ بھارت نے ہم پر واٹر بم پھینکا ہے جس کو ڈی فیوز کرنا بہت ضروری ہے۔ بھارت نے دریائے ستلج بند کر کے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کیا۔ بھارت پاکستان کو آبی طور پر اپنے زیر اثر رکھنا چاہتا ہے۔ بھارت پر ہم بالکل اعتماد نہیں کر سکتے۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ میں پانی کے محافظ کے طور پر بات کر رہا ہوں، پاکستان کا شمار پانی کی کمی والے ممالک میں ہوتا ہے، بھارت نے ہم پر واٹر بم پھینکا ہے جس کو ڈی فیوز کرنا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے کہا کہ پانی کے حوالے سے بھارت اوپراور پاکستان زیریں حصے میں آتا ہے، بھارت پاکستان کو آبی طورپراپنے زیراثررکھنا چاہتا ہے، بھارت نے دریائے ستلج بند کر کے پانی کو بطورہتھیاراستعمال کیا۔

سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے تک پہنچنے میں پاکستان اوربھارت کوبارہ سال لگے، معاہدے کے تحت راوی، بیاس، ستلج مکمل کو بھارت کو دیئے گئے، سندھ ، جہلم، چناب مکمل طور پر پاکستان کو دیئے گئے۔ انھوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت بھارت پاکستانی حصے کے دریاؤں کو موڑ نہیں سکتا، بھارت صرف دریا کے بہاؤ پر ڈیم بنا سکتا ہے، سندھ طاس معاہدہ حتمی ہے جو ختم نہیں کیا جا سکتا، بھارت نے اپنے حصے کے دریاؤں پر ڈیم اور بیراج بنا دیئے۔ ان کا کہنا تھا کہ معاہدہ چلتارہا لیکن بھارت کی لالچی نظریں ہمارے حصے کے پانی پر ہیں، بھارت پر ہم بالکل اعتماد نہیں کرسکتے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سینیٹر علی نے کہا کہ بھارت نے

پڑھیں:

پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟

پاکستان کی ترقی اور اہم آئینی و انتظامی امور میں بہتری کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کا نفاذ ایک ناگزیر قومی ضرورت بنتا جا رہا ہے۔ مختلف حقائق کی روشنی میں درج ذیل نکات اس ترمیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔

18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو تو اختیارات مل گئے، مگر بلدیاتی حکومتیں 90 فیصد اضلاع میں یا تو ختم کر دی گئیں یا انہیں بااختیار نہیں ہونے دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 140-اے کے باوجود صوبوں نے گزشتہ 15 برسوں میں عوام کو مستقل مقامی حکومتیں فراہم نہیں کیں۔ 27ویں ترمیم اس خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔

عالمی ماڈلز جیسے جرمنی، ترکی، بھارت اور اٹلی میں آئینی عدالتیں الگ سے موجود ہیں جو پارلیمان کے قانون، فوجی فیصلوں اور سیاسی تنازعات میں صرف آئینی تشریح کرتی ہیں، حکومت نہیں چلاتیں۔

مزید پڑھیں: 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبوں کے کون سے اختیارات وفاق کو مل سکتے ہیں؟ فیصل واؤڈا نے بتا دیا

پاکستان میں زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 24 لاکھ سے زائد ہے اور ایک سول کیس کا اوسط فیصلہ 8 سے 10 سال میں آتا ہے۔ ایسے میں ایک آئینی عدالت کے قیام اور ججوں کے تبادلوں کے شفاف طریقۂ کار سے عدلیہ پر بوجھ کم ہو سکے گا، آئینی تنازعات کے فوری حل کی راہ ہموار ہوگی اور سپریم کورٹ کا بوجھ قریباً 25 فیصد کم ہو سکتا ہے۔

ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے خاتمے کے بعد عدالتوں کا بوجھ 300 فیصد تک بڑھ گیا، جبکہ 70 فیصد مقدمات ایسے ہیں جو موقع پر مجسٹریل اختیارات سے حل ہو سکتے تھے۔

امن و امان، تجاوزات اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف کارروائی میں صوبائی و انتظامی نظام بے اختیار نظر آتا ہے۔ اس لیے ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے نظام کی بحالی ایک مؤثر قدم ہوگا۔

پاکستان میں آبادی کی شرحِ اضافہ 2.55 فیصد سالانہ ہے، جبکہ ایران میں 1.1 فیصد، بھارت میں 0.9 فیصد اور چین میں صرف 0.03 فیصد ہے۔ اگر آبادی کی منصوبہ بندی وفاقی سطح پر مربوط پالیسی کے تحت نہ کی گئی تو 2040 تک پاکستان کی آبادی 34 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، جس سے وسائل پر شدید دباؤ بڑھے گا۔

مزید پڑھیں: مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ کے لیے 27ویں آئینی ترمیم کی ضرورت ہو تو فوراً کی جائے، اسپیکر پنجاب اسمبلی

صوبہ سندھ اور بلوچستان میں آبادی بڑھنے کی رفتار 2.7 فیصد جبکہ شرح خواندگی 55 فیصد سے کم ہے۔ پنجاب میں خواندگی نسبتاً بہتر (66 فیصد) ہے مگر آبادی کے دباؤ کے باعث صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ اس لیے قومی نصابِ تعلیم اور آبادی کنٹرول کی پالیسیاں وفاقی سطح پر نافذ ہونا ناگزیر ہیں۔

پاکستان میں سالانہ قریباً 19 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہو رہے ہیں۔ صوبائی کارکردگی میں نمایاں فرق ہے: پنجاب 33 فیصد، سندھ 23 فیصد، خیبر پختونخوا 21 فیصد اور بلوچستان 36 فیصد۔ یہ فرق 18ویں ترمیم کے بعد کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا ہے، اس لیے تعلیم کو دوبارہ وفاقی دھارے میں لانا ضروری سمجھا جا رہا ہے۔

ملک میں سرکاری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ 86 ہزار سے زائد ہے، مگر ان میں سے نصف سے زیادہ میں بنیادی سہولیات جیسے صاف پانی، بجلی، باتھ روم اور چار دیواری موجود نہیں۔

صوبائی حکومتوں نے تعلیمی بجٹ عمارتوں پر صرف کیا مگر معیارِ تعلیم، اساتذہ کی تربیت اور ٹیکنالوجی کو نظر انداز کیا۔ اس صورتِحال میں وفاقی معیار اور نگرانی ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں: توجہ ترقی پر مرکوز ہے، 27ویں آئینی ترمیم کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں، اسحاق ڈار

دنیا کے 57 مسلم ممالک میں سے 42 میں دفاع، آبادی، تعلیم، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کے بنیادی اختیارات وفاق کے پاس ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جہاں آبادی اور تعلیم مکمل طور پر صوبوں کے حوالے کر دی گئی، جس سے قومی بیانیے، سلامتی اور شناخت میں تضادات پیدا ہوئے۔

این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم گزشتہ 15 برس میں 10 گنا بڑھ گئی، مگر صوبائی ٹیکس وصولی میں صرف 70 تا 80 فیصد اضافہ ہوا۔ خرچ بڑھنے کے باوجود آمدن میں بہتری نہ آنے سے وفاقی مالیاتی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔

دفاعی بجٹ پر اکثر تنقید کی جاتی ہے، حالانکہ پاکستان اپنے جی ڈی پی کا صرف 1.7 فیصد دفاع پر خرچ کرتا ہے، جبکہ سول اخراجات سود، پنشن، سبسڈیز اور گورننس، مجموعی بجٹ کا 52 فیصد تک لے جاتے ہیں۔ اصل اصلاح انہی شعبوں میں ناگزیر ہے، دفاع میں نہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت 27ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس قائم کرنے والی ہے؟

بلوچستان کے بجٹ کا 83 فیصد حصہ تنخواہوں، پنشن اور انتظامی اخراجات پر صرف ہوتا ہے، جبکہ ترقیاتی اخراجات بمشکل 17 فیصد رہ جاتے ہیں۔ صوبہ وفاق سے زیادہ فنڈز کا مطالبہ تو کرتا ہے، مگر ٹیکس اصلاحات، ریونیو بڑھانے اور مقامی حکومتوں کے قیام پر توجہ نہیں دیتا۔

یہی عدم توازن دیگر صوبوں میں بھی موجود ہے اور یہی وہ ادارہ جاتی و مالیاتی خلا ہے جسے 27ویں آئینی ترمیم پُر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

27ویں آئینی ترمیم آبادی، دفاع پاکستان صحت، تعلیم صوبے، وفاق ناگزیر آئینی مرحلہ

متعلقہ مضامین

  • بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری
  • سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی جیسے ہتھکنڈے کامیاب نہیں ہونگے، صدرزرداری
  • پاکستان کے لیے ناگزیر آئینی مرحلہ، 27ویں آئینی ترمیم کیوں ضروری ہے؟
  • آئینی ترامیم سے پہلے اس پر بات کرنا مناسب نہیں، احسن اقبال
  • حماس جنگ بندی پر قائم رہنے کے لئے پرعزم ہے: ترک صدر
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے…افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  •  پاکستان کے خلاف کسی کی بھی ہرزہ سرائی اور سازش برداشت اور قابل قبول نہیں، سینیٹر عبدالکریم 
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف