قائداعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT
ہر سوچنے والے انسان کے ذہن میں یہ سوال ضرورت اٹھتا ہے کہ بانی پاکستان ‘ اپنے تراشے ہوئے ملک کو کیسا بنانا چاہتے تھے؟ کیسا دیکھنا چاہتے تھے؟ یہ سوال حد درجہ سنجیدہ ہے۔ ‘تسلیم کیجیے یا نہ کیجیے۔ نئی نسل اور پرانی نسل کے ان گنت افراد‘ اپنے ملک کی تشکیل کے متعلق ابہام کا شکار ہیں۔
یہ ان کا قصور نہیں۔ سرکاری اور غیر سرکاری سرپرستی میں‘ جناح صاحب پر ہم نے عقیدت کا ایسا غلاف چڑھا دیا ہے ‘ جسے چاک کر کے دلیل پر‘ بنیادی سوالات پوچھنے کی ممانعت سی ہے۔ زمینی حقائق کے مطابق عرض کر رہا ہوں۔ جسے بڑے جہاندیدہ لوگ بھی دبے لفظوں میں بیان کرتے نظر آتے ہیں کہ پاکستان بنا کر مسلمانوں کی قوت کو برصغیر میں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ یہ نظریہ بہت سے لبرل لوگ سر عام زیر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر کوئی پلٹ کر اس عظیم شخص کے فرمودات اور پالیسی تقاریر کی طرف متوجہ نہیں ہوتا جو ان گرہوں کو کھولنے میں مدد کر سکتی ہیں۔
انسانی ذہن کے تمام شبہے تو دور نہیں کیے جا سکتے۔ مگر ڈاکٹر حمید رضا صدیقی نے ان سوالات کا جواب دینے کی کامیاب جدوجہد کی ہے۔ ان کی لکھی ہوئی کتاب میں قائداعظم ہی کی زبانی ‘ یہ سمجھانے کی کاوش کی گئی ہے کہ وہ اس عظیم ملک کو کیسا دیکھنا چاہتے تھے۔
جب برادر علامہ عبدالستار عاصم نے یہ کتاب بھجوائی تو میں مبہوت سا رہ گیا۔ میرے اپنے ذہن میں کئی ایسے معاملے تھے‘ جس کا جواب تلاش کرتے کرتے عمر گزر گئی ہے۔ مگر ڈاکٹر صدیقی اور علامہ صاحب نے قائد کی تقاریر سے جواب کشید کر کے لوگوں کے سامنے رکھے ہیں۔ دیکھا جائے‘تو آسان زبان میں خمار علم سے بالاتر ہوکر‘ لوگوں کی فکری رہنمائی کی ہے کہ معمار پاکستان ملک کو کس سانحے میں ڈھلتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس عظیم شخص کی بتائی ہوئی دانا باتوں پر عمل ہوا یا نہیں۔ 136صفحات پر مبنی اس خوبصورت کتاب کے چنداوراق آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
مسلم ریاست کے خدوخال:1945 کے اپنے پیغام عید میں آپ نے فرمایا: ’’جاہلوں کی بات الگ ہے ورنہ ہر کوئی جانتا ہے کہ قرآن مسلمان کا ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے۔ مذہبی‘ سماجی‘ شہری ‘ کاروباری ‘فوجی ‘ عدالتی‘ تعزیراتی‘ اور قانونی ضابطہ حیات‘ جو مذہبی تقریبات سے لے کر روز مرہ زندگی کے معاملات تک‘ روح کی نجات سے لے کر جسم کی صحت تک‘ تمام افراد سے لے کر ایک فرد کے حقوق تک‘ اخلاق سے لے کر جرم تک اس دنیا میں جزا و سزا سے لے کر اگلے جہاں کی سزا و جزا تک کی حد بندی کرتا ہے‘‘۔
جہاں تک سیاسی نظام کا تعلق ہے انھوں نے 8نومبر 1845کو کہا تھا:’’سیاسی طور پر پاکستان ایک جمہوری ریاست ہو گا۔ یہ ایک مسلمان ریاست ہو گی جس میں کسی بھی فرقہ کے مابین کوئی معاشرتی‘ سماجی دیواریں حائل نہیں ہوں گی۔ ہم مسلمان انسانی مساوات اور برادری کے بنیادی اصولوں پر یقین رکھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں‘‘۔
اسی موضوع پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے قائداعظم نے پاکستان بننے کے بعد 26 مارچ 1948کو چاندگام میں ایک عام استقبالیے میں تقریر کرتے ہوئے کہا:’’جب آپ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تعمیر سماجی انصاف اور اسلامی اشتراکیت کی مضبوط بنیادوں پر ہونی چاہے‘ جن میں اخوت و مساوات پر زور دیا گیا ہے تو آپ میرے اور لاکھوں مسلمانوں ہی کے جذبے کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اسی طرح جب آپ سب کے لیے مساوی مواقع مانگتے اور ان کی تمنا کرتے ہیں تو آپ میرے ہی خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ترقی کے ان مقاصد کے بارے میں ہمارے ہاں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ ہم نے پاکستان کا مطالبہ اسی لیے کیا تھا۔ اس کی خاطر جدوجہد کی تھی اور اسے حاصل بھی کیا تھا کہ اپنے معاملات کو اپنی روایات اور اپنے د ل و دماغ کے مطابق انجام دینے میں جسمانی اور روحانی طور پر آزاد ہوں۔ ‘‘۔
14جولائی 1947 کو ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا:’’جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہ ہوتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا۔ ہم نے جمہوریت تیرہ سو سال پہلے سیکھ لی تھی‘‘۔
جمہوریت: پاکستان کے مرکزی نظام کے بارے میں انھوں نے 1946 میں رائٹر کے نمایندے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا’’پاکستان کا طرز حکومت جمہوری ہو گا۔ اس کی پارلیمنٹ اور اس کی وزارت دونوں ہی رائے دہندگان اور عوام کے سامنے جواب دہ ہوں گی‘ جس میں کسی ذات ‘ نسل یا فرقے کی تفریق نہیں کی جائے گی اور عوام ہی اپنی حکومت کی پالیسی اور پروگرام کے متعلق آخری فیصلہ کریں گے‘‘۔
جمہوریت اور سیاسی مساوات کا جو تصور قائداعظم کے ذہن میں تھا‘ اس کا اندازہ دو واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ سرمحمد یامین خان لکھتے ہیں: ’’دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا جلسہ ہو رہا تھا۔ ایک خوشامدی نے نعرہ لگایا شاہ پاکستان زندہ باد۔ قائداعظم خوش ہونے کے بجائے فوراً بولے: دیکھیے آپ کو اس قسم کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں۔ پاکستان میں کوئی بادشاہ نہیں ہو گا۔ وہ مسلمانوں کی ری پبلک ہو گی‘ جہاں سب مسلمان برابر ہوں گے‘ ایک کو دوسرے پر فوقیت نہیں ہو گی‘‘۔
دوسرے واقعہ کا تعلق بمبئی سے ہے۔ 25دسمبر 1945 کو مسلمانان بمبئی نے قائداعظم کی انہترویں سالگرہ دھوم دھام سے منائی۔ اس موقع پر مسلم اکثریتی علاقے خوب سجائے گئے‘ سڑکوں‘ گلیوں‘ اور محلوں میں محرابیں بنائی گئیں‘ جگہ جگہ قائداعظم کی قد آدم تصویریں لگائی گئی تھیں۔ جے جے اسپتال کے قریب ایک آرائشی محراب پر قائداعظم کی ایک بہت بڑی تصویر لگی ہوئی تھی جس کے نیچے لکھا تھا: ’’شہنشاہ پاکستان زندہ باد‘‘۔ قائداعظم اپنی بہن فاطمہ جناح کے ہمراہ یہاں سے گزرے۔ اس تصویر پر نظر پڑی تو فوراً ڈرائیور کو حکم دیا گاڑی روکو۔ کار رکی تو پل بھر میں ہزاروں مسلمان ان کے گرد جمع ہو گئے۔ قائداعظم نے ان سے پوچھا یہ تصویر کس نے لگائی ہے۔
مجمع میں سے یہ آواز آئی کہ ہم نے۔ قائداعظم کے لہجے میں اگرچہ قدرے برہمی تھی لیکن مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تصویر آپ فوراً اتار دیں۔اگر آپ یہ تصویر نہ ہٹانا چاہیں تو یہ عبارت مٹا دیں جو اس کے نیچے لکھی ہے۔ بس پاکستان زندہ باد کافی ہے۔ انھوںنے اپنے شیدائیوں کو سمجھاتے ہوئے کہا:’’پاکستان ایک جمہوری ملک ہو گا۔ ہم جس پاکستان کے لیے لڑ رہے ہیں اس میں کسی بادشاہ اور شہنشاہ کی کوئی گنجائش نہیں ہو گی‘‘۔
اقتصادی پالیسی: 27اپریل 1948 کو کراچی چیمبرز آف کامرس سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا تھا: ’’میں آپ کی توجہ حکومت پاکستان کی اس خواہش پر مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ ملک کو صنعتی بنانے کے ہر مرحلے پر نجی سرمایہ کاری کو شریک عمل ضرور رکھا جائے ۔ حکومت نے اپنے انتظام و انصرام میں جن صنعتوں کو لے رکھا ہے‘ ان میں جنگی نومیت کا اسلحہ‘ برقابی طاقت کی افزائش‘ ریلوے کے ڈبے بنانا‘ ٹیلی فون تار اور بے تار برقی کے آلات بنانا شامل ہیں۔ دوسری تمام صنعتی سرگرمیاں نجی سرمائے کے لیے کھلی رکھی گئی ہیں‘ جیسے وہ ہر سہولت دی جائے گی جو ایک حکومت صنعت کے قیام اور ترقی کے لیے دے سکتی ہے۔ ‘‘
21مارچ 1948کو اپنی ایک تقریر میں پاکستان کے اس عظیم قائد نے کہا کہ ’’میری آرزو ہے کہ پاکستان صحیح معنوں میں ایک ایسی مملکت بن جائے کہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے فاروق اعظم کے سنہری دور کی تصویر عملی طور پر کھنچ جائے۔ خدا میری اس آرزو کو پورا کرے‘‘۔ اپنی اسی تقریر میں آگے چل کر وہ کہتے ہیں:’’پاکستان غریبوں کا ملک ہے۔ اس پر غریبوں ہی کو حکومت کا حق حاصل ہے۔ پاکستان میں ہر شخص کا معیار زندگی اتنا بلند کر دیا جائے گا کہ غریب و امیرمیں کوئی فرق باقی نہ رہے گا۔ پاکستان کا اقتصادی نظام اسلام کے غیر فانی اصولوں پر ترتیب دیاجائے گا یعنی ان اصولوں پر جنھوں نے غلاموں کو تخت و تاج کا مالک بنا دیا‘‘۔
قائداعظم اس بات کے شدت سے خواہش مند تھے کہ پاکستان کا اقتصادی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان مملکت کے لیے ایک ایسا ٹھوس اقتصادی نظام تیار کرے گا جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو گا‘‘۔
اس اعلیٰ کتاب میں درج فرمودات کو پڑھ کر غمگین ہو گیا ہوں۔ کیونکہ آج کا پاکستان تو قائداعظم کی فکر سے کافی دور نظر آتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میری غلط سوچ ہو؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قائداعظم کی کہ پاکستان پاکستان کا چاہتے تھے کرتے ہوئے کرتے ہیں ہوئے کہا کے مطابق سے لے کر نہیں ہو کے لیے ملک کو
پڑھیں:
قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین کتنی، سی ڈی اے نے بالآخر تصدیق کردی
قائد اعظم یونیورسٹی کی انتظامیہ وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے سے تحریری طور پر ملکیتی رقبے کی تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سرور خواجہ قائد اعظم یونیورسٹی کے بزنس ایڈمنسٹریشن میں پریکٹس کے ممتاز پروفیسر مقرر
اسلام آباد کے انتظام کے ذمہ دار ادارے سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی زیر ملکیت زمین 1700 اعشاریہ 8 ایکڑ تسلیم کرلی ہے۔
کیو ایس رینکنگ کے مطابق اعلیٰ تعلیمی شعبے میں پاکستان کی صف اول کی جامعہ کی زمین کے حوالے سے معاملات طویل عرصے سے متنازع رہے ہیں۔
یونیورسٹی کی زمین ملکیتی زمین کے حوالے سے گزشتہ سالوں میں دونوں اداروں کے درمیان متعدد بات رابطہ کاری ہوئی جو ناکام ہوئی۔
اس حوالے سے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر نے وی نیوز کو بتایا ہے کہ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی خبر ہے کہ سی ڈی اے نے یونیورسٹی کا اصلی زمینی ملکیتی رقبہ تسلیم کر لیا ہے۔
ڈاکٹر نیاز اختر نے کہا کہ ہم نے اس کے لیے مسلسل کوششیں کیں اور یونیورسٹی کو اس حوالے سے تنازعات کا سامنا کرنا پڑ مگر بالآخر ہمیں کامیابی ملی۔
وائس چانسلر کے مطابق قائد اعظم یونیورسٹی پاکستان کی نمبر ون جامعہ ہے جس کا تعلیمی نظام مسلسل پھیل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سال بھی ہم نے متعدد پروگرامز نئے شروع کیے ہیں جس کے لیے انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔
ڈاکٹر نیاز نے کہا کہ ہم آج نہیں بلکہ آج سے کئی سال آگے کی ضروریات دیکھ رہے ہیں اس لیے وسیع زمین کی دستیابی یقینی بنانا ضروری تھا۔
مزید پڑھیے: عید سے چند روز قبل قائداعظم یونیورسٹی میں ’ہولی‘ کیوں منائی گئی؟
ان کا کہنا تھا کہ ہماری کوشش ہے کہ سی ڈی اے یونیورسٹی کے زیر قبضہ زمین کی ’ڈی مارکیشن‘ کر کے ہمیں اس حوالے سے بھی آگاہ کرے۔
انہوں نے کہا کہ یہ چیز ریکارڈ پر ہونی چاہیے کہ یونیورسٹی کے پاس اس زمین کا کتنا قبضہ موجود ہے جو سی ڈی اے نے نوٹیفکیشن کے ذریعے یونیورسٹی کی ملکیت تسلیم کی ہے۔
مزید پڑھیں: سی ڈی اے کا غیر قانونی تعمیرات اور پلاٹس پر ایکشن، اب تک کہاں کہاں کارروائی ہوچکی ہے؟
ڈاکٹر نیاز نے تسلیم کیا کہ یونیورسٹی کی زمین پر اب بھی قبضہ موجود ہے مگر جامعہ براہ راست اس مسئلے میں شامل نہیں ہونا چاہتی اور اس کی کوشش ہے کہ متعلقہ ادارے اس حوالے سے اقدامات کریں اور کل ملکیتی زمین پر قبضہ ممکن بنانے میں کردار ادا کریں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی قائداعظم یونیورسٹی اور سی ڈی اے قائداعظم یونیورسٹی کی ملکیتی زمین وائس چانسلر قائد اعظم یونیورسٹی ڈاکٹر نیاز اختر