امریکہ کی اسٹنفورڈ یونیورسٹی کے متعدد طلبہ نے فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کی ہے اور اس علاقے میں جاری انسانی بحران کی طرف توجہ دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکہ کی اسٹنفورڈ یونیورسٹی کے متعدد طلبہ نے فلسطینی عوام کی حمایت میں آواز بلند کی ہے اور اس علاقے میں جاری انسانی بحران کی طرف توجہ دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ فارس نیوز کے مطابق، کیلیفورنیا کی اسٹنفورڈ یونیورسٹی میں 20 سے زائد طلبہ گزشتہ گیارہ دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں اور وہ یونیورسٹی انتظامیہ سے اپنے مطالبات پورے کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ جو نوارِ غزہ میں جاری انسانی بحران پر احتجاج کر رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی ان کمپنیوں سے تعلق ختم کرے جو غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کی مالی حمایت کرتی ہیں۔ یہ بھوک ہڑتال جو اب تک جاری ہے، یونیورسٹی میں آزادی اظہارِ رائے کو برقرار رکھتے ہوئے، پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے یونیورسٹی انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کی ایک پرامن کوشش ہے۔

شرکاء میں سے ایک طالبعلم نے، جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، آج (جمعہ) خبر رساں ایجنسی اناطولیہ کو بتایا کہ ہم چاہتے ہیں کہ یونیورسٹی اپنے ان اصولوں پر قائم رہے جن پر ہمیشہ یقین رکھتی آئی ہے، اور تاریخ کے درست جانب کھڑی ہو۔ اس نے مزید کہا کہ ہم یہاں اس لیے ہیں کہ یونیورسٹی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ فلسطین میں نسل کشی کے لیے مالی امداد کو ختم کرے، اور ان سرمایہ کاریوں کو بند کرے جو اسرائیل کو ہزاروں بچوں کے قتل، ان کو جان بوجھ کر بھوکا رکھنے، اور 14 ہزار بچوں کے محاصرے کو جاری رکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔ ایک اور ہڑتالی طالبعلم نے تاکید کی کہ وہ امید رکھتا ہے کہ یونیورسٹی ان کمپنیوں سے اپنے روابط ختم کرے گی اور ساتھ ہی ان طلبہ کے خلاف قانونی کارروائی سے باز آ جائے گی جو گزشتہ سال احتجاجات کی وجہ سے نشانہ بنائے گئے تھے۔

اسٹنفرڈ یونیورسٹی کے طلبہ نے گزشتہ سال امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں فلسطینیوں کی حمایت میں شروع ہونے والی بھوک ہڑتال میں شرکت کی تھی؛ غزہ وہ علاقہ ہے جو محاصرے کے باعث قحط کے دہانے پر ہے۔ اپریل 2024 میں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کا آغاز امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے ہوا تھا، جو بعد میں ملک کی 50 سے زائد یونیورسٹیوں تک پھیل گیا۔ گزشتہ سال امریکی پولیس نے ان مظاہروں کے دوران 3100 سے زائد افراد کو گرفتار کیا، جن میں زیادہ تر طلبہ اور اساتذہ شامل تھے۔ امریکہ کی حمایت سے اسرائیل نے 7 اکتوبر 2023 سے غزہ میں نسل کشی کا آغاز کیا ہے۔ اب تک اس جنگ میں 53 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں اور ہزاروں دیگر زخمی ہوئے ہیں۔ فلسطینی اداروں کی طرف سے جاری کردہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، شہداء کی اکثریت خواتین اور بچے ہیں، جبکہ 11 ہزار سے زائد افراد تاحال لاپتہ ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسٹنفورڈ یونیورسٹی یونیورسٹی کے کہ یونیورسٹی یونیورسٹی ان کی حمایت میں بھوک ہڑتال امریکہ کی

پڑھیں:

قابض حکام کے خلاف وادی کشمیر کی فروٹ منڈیوں میں مکمل ہڑتال

ذرائع کے مطابق ہڑتال کے باعث سوپور، ہندواڑہ، شوپیاں، کولگام اور اسلام آباد سمیت تمام منڈیوں میں کاروبار مفلوج ہو کر رہ گیا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں سرینگر جموں ہائی وے پر پھلوں سے لدے ٹرکوں کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے میں قابض حکام کی ناکامی کے خلاف وادی کشمیر کی تمام فروٹ منڈیوں میں آج مکمل ہڑتال کی گئی۔ ذرائع کے مطابق ہڑتال کے باعث سوپور، ہندواڑہ، شوپیاں، کولگام اور اسلام آباد سمیت تمام منڈیوں میں کاروبار مفلوج ہو کر رہ گیا۔سوپور فروٹ منڈی میں جو ایشیا کی دوسری سب سے بڑی فروٹ منڈی ہے، جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے جہاں کاشتکار رو پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے پھل ہائی وے پر پھنسے ٹرکوں میں خراب ہو رہے ہیں جو ان کی سال بھر کی محنت ہے اور قابض انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی وے پر لوہے اور دیگر اجناس لے جانے والے ٹرکوں کو نقل و حرکت کی اجازت ہے اور پھلوں سے لدے ٹرکوں کو جان بوجھ کر روکا جا رہا ہے۔ صرف ضلع رام بن میں سیبوں سے لدے 500 سے زائد ٹرک پھنسے ہوئے ہیں جس سے کاشتکاروں کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔

کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کاشتکاروں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں کشمیر کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ کئی دنوں سے پھنسے ٹرکوں میں پھل خراب ہو رہے ہیں اور انہیں نقل و حرکت کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکام کی بے حسی شرمناک ہے۔ ضلع اسلام آباد کے علاقے خندورہ میں بھارتی فوج کی جانب سے بچھائی ہوئی بارودی سرنگ کے دھماکے میں شدید زخمی ہونے والا ایک نوجوان سرینگر کے ایک ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ زخمی نوجوان شاہد احمد اتوار سے موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھا۔

دریں اثناء لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی زیر قیادت قابض انتظامیہ نے ڈوڈہ، کشتواڑ اور رام بن اضلاع میں 300 سے زائد سوشل میڈیا اکائونٹس کو بلاک کر دیا ہے۔ ان اکائونٹس سے رکن اسمبلی معراج ملک کی گرفتاری کے بعد پولیس کی بربریت کو اجاگر اور زمینی حقائق کو بے نقاب کیا جا رہا تھا۔ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ متعدد سوشل میڈیا اکائونٹس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ بھارتی ایجنسیوں نے ان اکائونٹس کو مستقل طور پر بلاک کرنے کے لیے سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطہ کیا ہے۔

ادھر جموں کے سب سے قدیم دیہات میں سے ایک کھیری میں بڑے پیمانے پر زمین دھنسنے سے درجنوں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے متنازعہ رنگ روڈ منصوبے کو پہاڑی ڈھلوانوں کو غیر مستحکم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ علاقے میں کم از کم 19 مکانات منہدم ہو گئے ہیں جبکہ سینکڑوں کنال اراضی دھنس گئی ہے۔ علاقے کے لوگوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو 750 افراد پر مشتمل پوری بستی صفحہ ہستی سے مٹنے کا خدشہ ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایم ڈی کیٹ 2025ء: 1 لاکھ 40 ہزار سے زائد امیدواروں کی رجسٹریشن
  • جسٹس طارق کیس، ریکارڈنگ کے حصول کی درخواست دائر، اسلام آباد بار کی جزوی ہڑتال
  • جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی کام سے روکنے کے بعد نیا روسٹر جاری، وکلا کی جزوی ہڑتال
  • سوست پورٹ ہڑتال، شرپسند عناصر کی ذاتی مفاد پرستی، اصل حقائق بے نقاب
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • سی ڈی اے کے ممبر ایڈمن امریکہ چلے گے ، ممکنہ طور پر ممبر ایڈمن اور ممبر اسٹیٹ کون ہوسکتے ہیں ،تفصیلات سب نیوز پر
  • غزہ: اسرائیلی عسکری کارروائی میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری، یو این کی مذمت
  • پاکستان مقبوضہ کشمیر کے عوام کی حمایت جاری رکھے گا، عطاء اللہ تارڑ
  • قابض حکام کے خلاف وادی کشمیر کی فروٹ منڈیوں میں مکمل ہڑتال
  • بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا گھٹیا حرکت، اسرائیل کا محاسبہ ناگزیر ہوگیا ہے، محمود عباس