Express News:
2025-09-17@22:44:43 GMT

کہیں آپ بھی گوشت کے شوقین تو نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

عموماً ہم کسی بھی عمل سے قبل اس کے نتائج پرغورنہیں کرتے اورجب کوئی عمل بیٹھتے ہیں تو نتائج کو قسمت پرچھوڑ کرخودکو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔عموماً ایسی صورت حال کا سامنا ہمیں عیدقربان پر کرنا پڑتا ہے کیونکہ قربانی کاگوشت گھر میں آتے ہی اس سے دودوہاتھ کرنے کے لیے مختلف ترکیبیںبنائی جاتی ہیں،ہرچھوٹے بڑے کی جانب سے مختلف قسم کی فرمائشیں اور مینیوزبھی سامنے آجاتے ہیں۔

ابھی قربانی ہو ہی رہی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے کلیجی پکائی جاتی ہے ۔اسی لئے دوپہر کے کھانے میں ہرگھر میں آپ کوکلیجی کی ہانڈی پکتی اورتناول کی جاتی نظر آئے گی۔

یہ درست ہے کہ ہر تہوار کی اپنی الگ الگ پہچان ہوتی ہے اورعید قربان تو مختلف لذیذ اورچٹ پٹے پکوانوں کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے، لیکن اکثریت اس موقع پر ساری حدود پارکرلیتی ہے اورلوگ یوں کھانے پرٹوٹ پڑتے ہیں جیسے انھیں زندگی میں پہلی بارگوشت سے بنے پکوان نصیب ہوئے ہو۔ لیکن جب اس کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں تو ہستپالوں کارخ کرتے ہیں ۔اسی لیے تو بسیار خوری کو ماہرین کی جانب سے ایک بیماری قراردیاگیا ہے جو انسانی صحت سے متعلق متعدد بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا اور چھٹکارہ حاصل کرنا صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق زیادہ کھانے کے سبب غذا سے ملنے والی اضافی طاقت یعنی کیلوریزانسانی جسم میں چربی بن کر محفوظ ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کے سبب انسان موٹاپے کاشکار ہوجاتا ہے، زیادہ کھانا اورکھانے کے دوران خود پرکنٹرول نہ رکھ پانا اوورایٹنگ یا بسیار خوری کہلاتاہے ۔ ایٹنگ ڈس آرڈر کے سبب انسان دن بہ دن موٹاہونے کے ساتھ ساتھ کْند ذہن بھی ہونے لگتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بسیار خوری پرکی گئی ایک تحقیق کے مطابق کم کھانے سے دماغ اورجسم متحرک رہتا ہے اور انسانی جسم میں موجود مشین کی مانند کام کرنے والے اعضاء کی کارکردگی بھی بہتر رہتی ہے، جبکہ زیادہ کھانے کی صورت میں جہاں جسم موٹاپے کا شکارہوجاتا ہے وہیں ذہن بھی کام کرنا چھوڑدیتا ہے۔

زیادہ کھانے کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر انسانی جگر،دماغ اوردل ہوتاہے۔ اس کے علاوہ بسیارخوری کے سبب لاحق ہونے والی بیماریوں میں موٹاپا، گیسٹرو، معدے کے امراض، ذیابیطس،کولیسٹرول کی زیادتی، جوڑوں اور پٹھوں کا درد وغیرہ شامل ہیں۔

عموماً دیکھاگیا ہے کہ عید الضحٰی پرقربانی کے بعد ہرگھر کے فرج اورڈیپ فریزرزگوشت سے بھرچکے ہوتے ہیں، کہیں بار بی کیوپارٹیاں منعقد کی جا رہی ہوتی ہیں توکہیں چپلی کباب کی خوشبو بد پرہیزی پر اکسا رہی ہے،یہ سلسلہ نہ صرف اگلے کئی دنوں تک جاری رہتاہے بلکہ کچھ گھرانوں میں توکئی ماہ تک قربانی کامحفوظ شدہ گوشت استعمال ہوتارہتا ہے۔عیدکے موقع پربسیارخوری اور کثرتِ گوشت نوشی سے پہلے ہی ہسپتالوں میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد پہنچ جاتی ہے،اور اس کے حوالے سے معالجین کاکہنا ہے کہ عید کے دنوں میں ہسپتال آنے والے بیشتر مریضوں کی بیماریوں کا تعلق بسیار خوری سے ہوتا ہے۔جو کے اعتدال سے ہٹنے کے سنگین نتائج کو واضح کرتی ہے۔

بالخصوص ایک ہی وقت میں بہت زیادہ گوشت کا استعمال فائدے کی بجائے نقصان کاباعث بنتا ہے۔ بڑی عید کے موقع پرگوشت کے استعمال میں اگر اعتدال سے کام نہ لیاجائے توپیٹ اورمعدے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ہر سال بڑی عید کے موقع پرگوشت زیادہ کھانے کی وجہ سے معدے میں تیزابیت اور بدہضمی ہونے سے ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے ماہرغذائیات شاہدہ جبین کہتی ہیں کہ عید الضحیٰ پر دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ وزن بڑھنے کا بھی شدید خطرہ ہوتا ہے۔ان کے مطابق اوسط جسامت رکھنے والے افرادکوہفتے میں 350 سے 550 گرام گوشت اپنی خوراک میں استعمال کرنا چاہیے لیکن عید الضحیٰ کے موقع پرعموماً ہفتے کی مقدارایک دن میں ہی پوری کر لی جاتی ہے، عید الضحیٰ کے موقع پرصبح، دوپہر اورشام گوشت سے بنے پکوان اپنی خوراک کاحصہ بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں پروٹین کی مقدارتو زیادہ ہوجاتی ہے لیکن ضرورت سے زیادہ مقدارمیں کھانا تناول کرنے سے نظام ہاضمہ میں پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ماہرین کی رائے ہے کہ گوشت کے شیدائی افراد معتدل کھانے کے لیے دیگراشیا بالخصوص سبزیوں، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ضروری کیا کریں ۔

شاہدہ جبین کہتی ہیں کہ عیدقربان پر کھانے میں بے اعتدالی سے بچنے کے لیے چربی سے پاک تیل اورگھی کے بغیر بننے پکوانوں کواپنی خوراک کاحصہ بناناچاہیے تاکہ فیٹس کم سے کم مقدار میں خوراک کا حصہ بنیں،ان کے خیال میں ذیابیطس کے مریضوں کو لال گوشت کے استعمال سے پرہیزکرناچاہیئے۔

طبی ماہرین ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کوبھی کم سے کم گوشت اورمصالحہ دار پکوانوں کے استعمال کامشورہ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گوشت کے پکوانوں کے ساتھ سافٹ ڈرنکس کا استعمال نظام انہضام کوبہترکرنے کی بجائے پیچیدہ بناتا ہے اوران میں موجودکاربوہائیڈریٹس انسانی جسم کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ کھانے کے بعد سافٹ ڈرنکس کا استعمال زندگی کے لئے بھی خطرناک ہوسکتاہے ، کھاناکھانے کے بیس منٹ تک پانی پینے سے بھی گریزکرنا چاہیے۔

 احتیاطی تدابیر

ماہرین غذائیات گوشت کی زیادہ مقدار کے استعمال کے بعد ورزش کوانتہائی ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وزن کوکنٹرول میں رکھنے کے لیے آدھے گھنٹے تک چہل قدمی انتہائی ضروری ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر گوشت کا استعمال انتہائی ضروری ہو تواس کوبار بی کیو بنا کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگربار بی کیو میں مصالحہ جات کا استعمال کم سے کم کیاجائے تواسے ایک صحت مندغذا کہا جاسکتا ہے لیکن زیادہ مصالحے لگانے سے باربی کیو اوردیگر ڈشز میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔

بسیارخوری کے بجائے صحتمندکھانے کی عادت اپنائیں، چکنائی سے بھرپورکھانوں سے پرہیز کریں اور صحت مند کھانا پکانا اورکھانا شروع کریں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیادہ کھانے بسیار خوری کا استعمال کے استعمال کے مطابق کھانے کے کھانے کی گوشت کے جاتی ہے کے موقع کے سبب ہے اور کے لیے کہ عید

پڑھیں:

ہونیاں اور انہونیاں

پاکستان میں نظام انصاف میں معاشرے سے زیادہ تقسیم نظر آرہی ہے۔ اب صرف باہمی اختلاف نہیں بلکہ عدم برداشت والا تاثر ابھر رہا ہے۔ اسے ملکی نظام انصاف کی کوئی خوشنما شکل قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اس سے لوگوں کا نظام انصاف پر اعتماد جو پہلے ہی ڈگمگاہٹ کا شکار ہے، مزید ڈگمگانے کے خدشات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتاہے۔

پاکستان کے لوگ پہلے ہی سیاستدانوں کی لڑائیوں سے تنگ ہیں۔ اگر نظام انصاف کے بارے میں وہ یہی تاثر لیتے ہیں، تو یہ کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں تو جو کچھ چل رہا ہے، یہ سب کچھ چونکا دینے والا ہے۔ حال میں جو تین واقعات ہوئے ہیں، ان پر ججز پر بحث و مباحثہ شروع ہے جو اچھی روایت نہیں ہے۔ ہمارے لیے تو عدلیہ کا احترام لازم ہے۔ ججز کے لیے ایسا ہی ہے۔ عوام میں یہ تاثر نہیں پیدا ہونا چاہیے کہ ججز اور وکلا تو کچھ بھی کرسکتے ہیں لیکن عوام ایسا نہیں کرسکتے۔

سب سے پہلے ایمان مزاری اور اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کا معاملہ دیکھ لیں۔ کھلی عدالت میں ایک معاملہ ہوا۔ ججز صاحب نے اگلے دن معذرت مانگ لی۔ یہ معاملہ غصہ میں ہوئی گفتگو سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔

میری رائے ہے کہ ایمان مزاری کو معذرت قبول کرلینی چاہیے تھی۔ محترم جج صاحب نے انھیں بیٹی بھی کہا۔ لیکن ایمان مزاری نے اس واقعہ پر سیاست کرنی شروع کر دی جو زیادہ افسوسناک بات ہے۔

ایمان مزاری نے اسلام آباد ہا ئی کورٹ میں جج ثمن رفعت کو چیف جسٹس صاحب کے خلاف ہراسگی کی درخواست دے دی، اس درخواست پر فورا ً تین جج صاحبان پر مشتمل کمیٹی بنا دی۔ یوں صورتحال کس رخ پر جارہی ہے، وہ ہم سب کے سامنے ہے۔

اس سے پہلے اسلام ا ٓباد ہائی کورٹ کے رولز بنانے پر بھی قانونی لڑائی سب کے سامنے تھی۔ سپریم کورٹ میں بھی صورتحال سب کے سامنے ہے۔

 اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک ڈبل بنچ نے جسٹس طارق جہانگیری کو کام کرنے سے روک دیا ہے۔ ان کی ڈگری کا معاملہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جج کی ڈگری ایک حساس معاملہ ہوتی ہے۔

حال ہی میں ایک رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کی ڈگری جعلی نکلی ہے تو الیکشن کمیشن نے اسے ڈس کوالیفائی کر دیا ہے۔ یہ قانونی پہلو بھی درست ہے کہ کسی بھی جج کے خلاف کاروائی کرنے کا واحد فورم سپریم جیوڈیشل کونسل ہے۔

بہرحال قانونی نکات اور تشریحات کے معاملات قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں اور ججز ہی ان پر فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔

 پاکستان میں خط میں تو ساتھی ججز کوچارج شیٹ کرنے کا طریقہ تو عام ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے میڈیا میں خبریں بھی آتی رہی ہیں۔ بہر حال رٹ پٹیشن میں کسی جج صاحب کو کام کرنے سے روکنے کا اپنی نوعیت کا یہ پہلا معاملہ ہے۔

لیکن میرا خیال ہے کہ آئین وقانون میں جعلی ڈگری کے ایشو پر کسی جج کوکام سے روکنے کی کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ آئین اس کی اجازت دیتا ہے۔ اس لیے مجھے فیصلہ میں کوئی قانونی رکاوٹ نظر نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ایک پنڈورا بکس کھول دے گا۔

پاکستان میں سیاسی تقسیم بہت گہری ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس تقسیم میں نفرت ‘عدم برداشت اس قدر بڑھی ہے کہ معاملہ دشمنی کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ خصوصاً پی ٹی آئی نے جس انداز میں مہم جوئیانہ سیاست کا آغاز کیا ‘اس کا اثر پاکستان کے تمام مکتبہ ہائے فکر پر پڑا ہے۔

پاکستان میں نظام انصاف کے حوالے سے باتیں ہوتی رہتی ہیں تاہم یہ باتیں زیادہ تر سیاسی و عوامی حلقے کرتے تھے ‘زیادہ سے زیادہ وکلا حضرات ذرا کھل کر بات کرتے تھے لیکن نظام انصاف کے اندر اختلافات اور تقسیم کی باتیں باہر کم ہی آتی تھیں لیکن حالیہ کچھ عرصے سے جہاں بہت سی چیزوں میں بدلاؤ آیا ہے ‘یہاں بھی صورت حال میں تبدیلی آئی ہے۔

اب پاکستان کے عام شہری کو بھی بہت سے معاملات سے آگاہی مل رہی ہے کیونکہ بحث و مباحثہ مین اسٹریم میڈیا میںہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا تک پہنچ چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے بارے میں تو آپ کو پتہ ہے کہ چھوٹی سی بات بھی کتنی بڑی بن جاتی ہے اور گلی محلوں تک پھیل جاتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین میں حلال گوشت کی طلب، نیا آرڈر مل گیا
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • لوگوں چیٹ جی پی ٹی پر کیاکیا سرچ کرتے ہیں؟ کمپنی نے تفصیلات جاری کر دیں
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • پھل کھائیں یا جوس پئیں؟ ماہرین نے فائدے اور نقصانات بتا دیے
  • قوانین میں کہیں بھی ہاتھ ملانے کی شرط درج نہیں،بھارتی کرکٹ بورڈ
  • کراچی میں آج ہلکی بارش کا امکان
  • بلوچستان میں زہریلی مچھلی کھانے سے متعدد جانور ہلاک