Express News:
2025-06-13@00:23:08 GMT

کہیں آپ بھی گوشت کے شوقین تو نہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

عموماً ہم کسی بھی عمل سے قبل اس کے نتائج پرغورنہیں کرتے اورجب کوئی عمل بیٹھتے ہیں تو نتائج کو قسمت پرچھوڑ کرخودکو بری الذمہ قرار دیتے ہیں۔عموماً ایسی صورت حال کا سامنا ہمیں عیدقربان پر کرنا پڑتا ہے کیونکہ قربانی کاگوشت گھر میں آتے ہی اس سے دودوہاتھ کرنے کے لیے مختلف ترکیبیںبنائی جاتی ہیں،ہرچھوٹے بڑے کی جانب سے مختلف قسم کی فرمائشیں اور مینیوزبھی سامنے آجاتے ہیں۔

ابھی قربانی ہو ہی رہی ہوتی ہے کہ سب سے پہلے کلیجی پکائی جاتی ہے ۔اسی لئے دوپہر کے کھانے میں ہرگھر میں آپ کوکلیجی کی ہانڈی پکتی اورتناول کی جاتی نظر آئے گی۔

یہ درست ہے کہ ہر تہوار کی اپنی الگ الگ پہچان ہوتی ہے اورعید قربان تو مختلف لذیذ اورچٹ پٹے پکوانوں کی وجہ سے اپنی مثال آپ ہے، لیکن اکثریت اس موقع پر ساری حدود پارکرلیتی ہے اورلوگ یوں کھانے پرٹوٹ پڑتے ہیں جیسے انھیں زندگی میں پہلی بارگوشت سے بنے پکوان نصیب ہوئے ہو۔ لیکن جب اس کے منفی اثرات سامنے آتے ہیں تو ہستپالوں کارخ کرتے ہیں ۔اسی لیے تو بسیار خوری کو ماہرین کی جانب سے ایک بیماری قراردیاگیا ہے جو انسانی صحت سے متعلق متعدد بیماریوں کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا اس سے بچنا اور چھٹکارہ حاصل کرنا صحت مند زندگی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

غذائی ماہرین کے مطابق زیادہ کھانے کے سبب غذا سے ملنے والی اضافی طاقت یعنی کیلوریزانسانی جسم میں چربی بن کر محفوظ ہونا شروع ہوجاتی ہیں جس کے سبب انسان موٹاپے کاشکار ہوجاتا ہے، زیادہ کھانا اورکھانے کے دوران خود پرکنٹرول نہ رکھ پانا اوورایٹنگ یا بسیار خوری کہلاتاہے ۔ ایٹنگ ڈس آرڈر کے سبب انسان دن بہ دن موٹاہونے کے ساتھ ساتھ کْند ذہن بھی ہونے لگتا ہے۔

ماہرین کے مطابق بسیار خوری پرکی گئی ایک تحقیق کے مطابق کم کھانے سے دماغ اورجسم متحرک رہتا ہے اور انسانی جسم میں موجود مشین کی مانند کام کرنے والے اعضاء کی کارکردگی بھی بہتر رہتی ہے، جبکہ زیادہ کھانے کی صورت میں جہاں جسم موٹاپے کا شکارہوجاتا ہے وہیں ذہن بھی کام کرنا چھوڑدیتا ہے۔

زیادہ کھانے کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر انسانی جگر،دماغ اوردل ہوتاہے۔ اس کے علاوہ بسیارخوری کے سبب لاحق ہونے والی بیماریوں میں موٹاپا، گیسٹرو، معدے کے امراض، ذیابیطس،کولیسٹرول کی زیادتی، جوڑوں اور پٹھوں کا درد وغیرہ شامل ہیں۔

عموماً دیکھاگیا ہے کہ عید الضحٰی پرقربانی کے بعد ہرگھر کے فرج اورڈیپ فریزرزگوشت سے بھرچکے ہوتے ہیں، کہیں بار بی کیوپارٹیاں منعقد کی جا رہی ہوتی ہیں توکہیں چپلی کباب کی خوشبو بد پرہیزی پر اکسا رہی ہے،یہ سلسلہ نہ صرف اگلے کئی دنوں تک جاری رہتاہے بلکہ کچھ گھرانوں میں توکئی ماہ تک قربانی کامحفوظ شدہ گوشت استعمال ہوتارہتا ہے۔عیدکے موقع پربسیارخوری اور کثرتِ گوشت نوشی سے پہلے ہی ہسپتالوں میں مریضوں کی ایک بڑی تعداد پہنچ جاتی ہے،اور اس کے حوالے سے معالجین کاکہنا ہے کہ عید کے دنوں میں ہسپتال آنے والے بیشتر مریضوں کی بیماریوں کا تعلق بسیار خوری سے ہوتا ہے۔جو کے اعتدال سے ہٹنے کے سنگین نتائج کو واضح کرتی ہے۔

بالخصوص ایک ہی وقت میں بہت زیادہ گوشت کا استعمال فائدے کی بجائے نقصان کاباعث بنتا ہے۔ بڑی عید کے موقع پرگوشت کے استعمال میں اگر اعتدال سے کام نہ لیاجائے توپیٹ اورمعدے کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ہر سال بڑی عید کے موقع پرگوشت زیادہ کھانے کی وجہ سے معدے میں تیزابیت اور بدہضمی ہونے سے ایمرجنسی وارڈ میں مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے ماہرغذائیات شاہدہ جبین کہتی ہیں کہ عید الضحیٰ پر دیگر بیماریوں کے ساتھ ساتھ وزن بڑھنے کا بھی شدید خطرہ ہوتا ہے۔ان کے مطابق اوسط جسامت رکھنے والے افرادکوہفتے میں 350 سے 550 گرام گوشت اپنی خوراک میں استعمال کرنا چاہیے لیکن عید الضحیٰ کے موقع پرعموماً ہفتے کی مقدارایک دن میں ہی پوری کر لی جاتی ہے، عید الضحیٰ کے موقع پرصبح، دوپہر اورشام گوشت سے بنے پکوان اپنی خوراک کاحصہ بنائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں پروٹین کی مقدارتو زیادہ ہوجاتی ہے لیکن ضرورت سے زیادہ مقدارمیں کھانا تناول کرنے سے نظام ہاضمہ میں پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ماہرین کی رائے ہے کہ گوشت کے شیدائی افراد معتدل کھانے کے لیے دیگراشیا بالخصوص سبزیوں، پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال ضروری کیا کریں ۔

شاہدہ جبین کہتی ہیں کہ عیدقربان پر کھانے میں بے اعتدالی سے بچنے کے لیے چربی سے پاک تیل اورگھی کے بغیر بننے پکوانوں کواپنی خوراک کاحصہ بناناچاہیے تاکہ فیٹس کم سے کم مقدار میں خوراک کا حصہ بنیں،ان کے خیال میں ذیابیطس کے مریضوں کو لال گوشت کے استعمال سے پرہیزکرناچاہیئے۔

طبی ماہرین ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کوبھی کم سے کم گوشت اورمصالحہ دار پکوانوں کے استعمال کامشورہ دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق گوشت کے پکوانوں کے ساتھ سافٹ ڈرنکس کا استعمال نظام انہضام کوبہترکرنے کی بجائے پیچیدہ بناتا ہے اوران میں موجودکاربوہائیڈریٹس انسانی جسم کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں۔ کھانے کے بعد سافٹ ڈرنکس کا استعمال زندگی کے لئے بھی خطرناک ہوسکتاہے ، کھاناکھانے کے بیس منٹ تک پانی پینے سے بھی گریزکرنا چاہیے۔

 احتیاطی تدابیر

ماہرین غذائیات گوشت کی زیادہ مقدار کے استعمال کے بعد ورزش کوانتہائی ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق وزن کوکنٹرول میں رکھنے کے لیے آدھے گھنٹے تک چہل قدمی انتہائی ضروری ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر گوشت کا استعمال انتہائی ضروری ہو تواس کوبار بی کیو بنا کر استعمال کرنا چاہیے۔ اگربار بی کیو میں مصالحہ جات کا استعمال کم سے کم کیاجائے تواسے ایک صحت مندغذا کہا جاسکتا ہے لیکن زیادہ مصالحے لگانے سے باربی کیو اوردیگر ڈشز میں کوئی خاص فرق نہیں رہ جاتا۔

بسیارخوری کے بجائے صحتمندکھانے کی عادت اپنائیں، چکنائی سے بھرپورکھانوں سے پرہیز کریں اور صحت مند کھانا پکانا اورکھانا شروع کریں۔ 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: زیادہ کھانے بسیار خوری کا استعمال کے استعمال کے مطابق کھانے کے کھانے کی گوشت کے جاتی ہے کے موقع کے سبب ہے اور کے لیے کہ عید

پڑھیں:

بچوں میں جارحانہ رویے اور چیخنے چلانے کی وجہ اسمارٹ فونز کا استعمال، تحقیق

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: اگر آپ کے بچے غصے میں آ کر چیختے چلاتے ہیں یا لاتیں مارنے جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ ان کا اسمارٹ فونز اور دیگر اسکرینز کے ساتھ زیادہ وقت گزارنا ہو سکتا ہے۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق بچوں کا اسکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنا ان کے رویے میں بگاڑ، ذہنی مسائل اور سماجی کمزوریوں کا باعث بن سکتا ہے۔

تحقیق میں 10 سال سے کم عمر 117 بچوں کو شامل کیا گیا اور ان کی اسکرین ٹائم عادات اور رویوں کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا، جو بچے روزانہ دو گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت اسمارٹ فون یا ویڈیو گیمز پر صرف کرتے ہیں، ان میں انزائٹی، ڈپریشن اور جارحانہ رویوں کا امکان کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

مطالعے میں خاص طور پر بتایا گیا کہ2 سال سے کم عمر بچوں کے لیے اسکرین کا ہر لمحہ منفی اثر رکھتا ہے،2 سے 5 سال کی عمر میں اگر بچے روزانہ ایک گھنٹے سے زیادہ اسکرین کے سامنے وقت گزارتے ہیں تو ان میں جذباتی بگاڑ کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

6 سے 10 سال کے بچے اگر روزانہ دو گھنٹے یا اس سے زائد اسمارٹ فون یا ویڈیو گیمز استعمال کرتے ہیں تو نہ صرف ان کے اندر غصہ اور چڑچڑاپن بڑھتا ہے بلکہ وہ جذبات کو سمجھنے اور کنٹرول کرنے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق اسمارٹ فونز پر گیمز کھیلنے والے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، کیونکہ یہ سرگرمی نہ صرف انہیں حقیقت سے دور کرتی ہے بلکہ ان کی سماجی مہارتیں اور ہمدردی جیسے جذبات بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ماہرین والدین کو تجویز کرتے ہیں کہ وہ بچوں کے اسکرین ٹائم کو محدود کریں اور انہیں حقیقی زندگی کی سرگرمیوں میں مشغول کریں تاکہ وہ بہتر جذباتی، ذہنی اور سماجی نشوونما حاصل کر سکیں۔

یہ تحقیق والدین، اساتذہ اور پالیسی سازوں کے لیے ایک اہم پیغام ہے کہ اسمارٹ فونز بچوں کی ذہنی صحت پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں، اور اب وقت آ گیا ہے کہ بچوں کی اسکرین سے دوستی کو متوازن بنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • بجلی کے بلوں  میں کمی کیسے ممکن ہے؟ آزمودہ طریقے جانیے!
  • کسی بھی حملے کا پہلے سے کہیں زیادہ طاقت سے بھرپور جواب دیا جائے گا، کمانڈر حسین سلامی
  • جرمنی میں کہیں کہیں کورونا کا نیا ویریئنٹ، ڈبلیو ایچ او
  • بھارت کے ساتھ مکمل جنگ کا خطرہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے، بلاول بھٹو زرداری
  • قیامت خیز گرمی کے بعد بارش کی امید، موسم بہتر ہونے کی نوید
  • پہلوانوں کی طرح کھانے والی یوٹیوبر ایک ماڈل جیسی دبلی پتلی، آخر ماجرا کیا ہے؟
  • آلو بخارے کھانے سے صحت پر مرتب ہونے والے 9 حیران کن فوائد
  • بچوں میں جارحانہ رویے اور چیخنے چلانے کی وجہ اسمارٹ فونز کا استعمال، تحقیق
  • پاکستانیوں نے ایک سال میں کتنا دودھ پیا اور کتنا گوشت کھایا؟