Islam Times:
2025-07-28@19:19:53 GMT

کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟

اسلام ٹائمز: خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں مذاکرات جاری ہیں اور بظاہر بات ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے حق سے مکمل طور پر  دستبردار ہو جائے۔ اسی طرح اب تک جو یورینیم افزودہ کرچکا ہے، وہ بھی کسی تیسرے ملک بھجوا دی جائے۔ ایرانی موقف یہ ہے کہ ہم یورینیم افزودگی کے بین الاقوامی قانون کے تحت حاصل حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ روس نے تجویز دی ہے کہ ایران نے جو یورینیم قانونی حد سے زیادہ افزودہ کر لی ہے، وہ ہم لینے کے لیے تیار ہیں اور اسے انرجی کے سول استعمال کے قابل کرکے ایران کو واپس کر دیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کے غلط خیال کے مطابق اب ایران کمزور ترین پوزیشن پر ہے۔ حزب اللہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور لبنان کی حکومت، فوج اور انتہاء پسند فرقہ پرست اس کے خلاف ہیں، ساتھ اسرائیل کا براہ راست دباو بھی ہے۔

شام میں اسرائیل اور امریکی مشترکہ پروجیکٹ حکومت ہے، جو ہر طرح کی خدمت کے لیے آمادہ و تیار ہے۔ یہاں سے حزب اللہ کی سپلائی لائن بھی کٹ چکی ہے۔اسی طرح عراق میں کردوں اور داعش کا خطرہ دکھا کر عراقی ریاست کو حشد الشعبی کے خلاف کارروائی پر اکسایا جا رہا ہے۔ حشد الشعبی اور ریاست کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عراق کے عوام اور ریاست کی یاداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ یہ بھول جائے کہ جب داعش بغداد سے محض کچھ کلومیٹر دور تھی اور کربلا و نجف خطرے میں چلے گئے تھے، ایسے وقت میں مرجعیت کے فتویٰ کے نتیجے میں یہ حشد الشعبی کے جوان تھے، جنہوں نے عراق کے جغرافیے کو بچایا تھا۔

عرب ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں، انہیں ایٹمی اسرائیل قبول ہے، ایٹمی ایران کسی صورت قبول نہیں ہے۔ یہ فرقہ پرستی اور عرب و عجم کی تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ان لوگوں نے جنگ کے خرچے تک امریکہ و اسرائیل کو آفر کر رکھے ہیں۔ یہاں کا ریاستی بندوبست ہی امریکی مدد سے قائم ہے، آج امریکی حمایت ختم ہو تو یہاں قائم بادشاہتوں کا دھڑم تختہ ہو جائے۔ عرب ممالک اسلام کی بنیاد پر قائم کسی بھی حکومت یا تحریک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں اسلامی جمہوری ایران کا ایٹمی طاقت بن جانا خطے میں آزادی پسندوں کے لیے مستقل مددگار پیدا ہونے جیسا ہے، یہ بات طے ہے کہ امریکہ ہر صورت میں ایران کو بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک  ایسا ایران چاہتا ہے، جس کے پاس کسی قسم کی کوئی دفاعی طاقت نہ ہو، جس کی وجہ سے وہ اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور نہ ہی اہل فلسطین کی کوئی مدد کر سکے۔

موجودہ امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں ہیرو بن جائیں، اس لیے ایران پر حملہ کر دیا جائے۔ ان کے لیے حملہ کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مذاکرات کے دوران دہشت پیدا کرکے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ یہ تو لاس اینجلس میں فسادات شروع ہوگئے، ورنہ آج سارا امریکی میڈیا ایران کے خطرے کو ہی بیان کر رہا ہوتا۔ خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔

ابھی جلد از جلد ایٹمی معاملے پر فیصلہ کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے متعلق جو دستاویزات محفوظ کی ہیں، وہ بہت سے خطرناک رازوں سے پردہ ہٹانے والی ہیں۔ کچھ یورپی ممالک کے نام بھی اس لسٹ میں آرہے ہیں۔ ان دستاویزات کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھ لگنے کی خبروں نے خطے کے ممالک اور بہت سے یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ اس سے جہاں اسرائیل کی سکیورٹی کے فول پروف ہونے کا بیانیہ تہس نہس ہوا ہے، اسی طرح دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی آسکتی کہ کون کون سے ممالک اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے میں ملوث ہیں۔ یورپ اور امریکہ خود تو مشرق وسطی میں اسرائیل کو ایٹمی صلاحیتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہے تھے اور دوسرے ممالک کے لیے اقوام متحدہ کی جائز قانونی حد میں بھی یورینیم کی افزودگی کے قائل نہیں ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے بارے میں کہا کہ اگر توجہ ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہو اور مقصد ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کو یقینی بنانا ہو تو یقیناً معاہدہ نہ صرف قابلِ حصول ہے بلکہ بہت جلد ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے قانونی حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ایک اور نقطہ بھی قابل توجہ ہے، کچھ عرصے سے جنگ کا مرکز یوکرین بن گیا ہے، یورپ کا ارادہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح اسے دوبارہ مسلمان خطوں میں لے جایا جائے۔ اس حوالے سے فی الحال ایران کے لیے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے مقابل میں اتنی تعریفیں سن کا ڈر لگتا ہے، کیونکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہمیں تو اکہتر کا تجربہ بھی ہے، جب ہم بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے اور بنگلہ دیش بن گیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران کے میں اسرائیل افزودگی کے کہا ہے کہ کے لیے

پڑھیں:

امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟

واشنگٹن : امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ اور یورپی یونین نے 15 فیصد شرح محصولات پر معاہدہ کر لیا ہے۔ اس معاہدے کے تحت یورپی یونین پہلے کی نسبت امریکہ میں 600 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گی، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری بڑھائے گی اور 150 ارب ڈالر کی امریکی توانائی مصنوعات خریدے گی۔ یورپی کمیشن کی صدر وان ڈیر لیین نے کہا کہ یورپی یونین اور امریکہ دونوں 15 فیصد یکساں شرح محصولات پر متفق ہو گئے ہیں، جس میں گاڑیوں سمیت دیگر تمام اقسام کی اشیا شامل ہوں گی۔ وان ڈیر لیین نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ یہ تجارتی معاہدہ مارکیٹ میں استحکام لائےگا۔ اسی دن امریکی وزیر تجارت ہاورڈ لٹنک نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ صدر ٹرمپ نے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں سے ایک کا دروازہ کھول دیا ہے، یورپی یونین اپنی 20 ٹریلین ڈالر کی مارکیٹ کو کھولے گی اور پہلی بار مکمل طور پر امریکی گاڑیوں اور صنعتی معیارات کو قبول کرے گی۔تاریخی تناظر میں ، امریکہ اور یورپ کے تجارتی تعلقات ہمیشہ ’’حلیف‘‘اور ’’حریف‘‘کی دوہری شناخت کے گرد ڈولتے رہے ہیں۔ گزشتہ برسوں میں، سٹیل اور ایلومینیم کے محصولاتی تنازعات سے لے کر ڈیجیٹل سروس ٹیکس کی دوڑ تک، بحر اوقیانوس کے پار تجارتی کشمکش کبھی ختم نہیں ہوئی۔ اس دفعہ امریکہ کے لیے 600 ارب ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کا وعدہ اور 150 ارب ڈالر کی توانائی مصنوعات کی خریداری، نہ صرف امریکہ کی گھریلو مینوفیکچرنگ میں روزگار کے دباؤ کو کم کر سکتی ہے بلکہ توانائی کی برآمدی برتری کو بھی مضبوط بنا سکتی ہے، جو ٹرمپ کی ایک حکمت عملی کی فتح سمجھی جا سکتی ہے۔ البتہ یورپی یونین کا حساب کتاب بھی پیچیدہ ہے۔ توانائی کی خودمختاری اور سلامتی خدشات کے دہرے دباؤ کے تحت، امریکی فوجی سازوسامان کی خریداری سے قلیل مدت میں دفاعی خودمختاری کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے، جبکہ یکساں شرح محصولات سے لڑکھڑاتی یورپی گاڑیوں کی صنعت کو استحکام مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جرمن گاڑیوں کی صنعت یورپی یونین کے جی ڈی پی کا 4 فیصد ہے، اور کوئی بھی تجارتی اتھل پتھل یوروزون کی معیشت کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ وان ڈیر لیین کا زور “مارکیٹ استحکام” پر درحقیقت توانائی کے بحران اور معاشی کساد بازاری کے خطرے سے دوچار یورپ کے لیے کچھ سانس لینے کی جگہ حاصل کرنا ہے۔تاہم، اس معاہدے کے منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ 15 فیصد کی یکساں شرح محصولات عارضی طور پر دونوں فریقوں کے درمیان توازن کا نقطہ نظر لگتی ہے، لیکن یہ عالمی تجارتی نظام کے لیے منفی اثرات کا باعث بن سکتی ہے۔ جب امریکہ اور یورپ محصولات پر “متحدہ محاذ” تشکیل دیتے ہیں، تو عالمی سپلائی چینز مخصوص خطوں میں مرتکز ہونے لگتی ہیں، جو ڈبلیو ٹی او کے عدم امتیاز کے اصولوں کی صریح نفی ہے۔ زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ معاہدے میں “امریکی توانائی مصنوعات کی خریداری” کی اصطلاح واضح تجارتی رجحان کی حامل ہے، جو “فرینڈ شورنگ” کے رجحان کو مزید تقویت دے کر عالمی مارکیٹ کی ڈسٹری بیوشن کارکردگی کو کم کر سکتی ہے۔ظاہر ہے ، جب ڈبلیو ٹی او کا تنازعات کے حل کا میکانزم غیر فعال ہے، تو بڑی طاقتوں کے درمیان دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے قواعد و ضوابط طے کرنے کا رجحان مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ یہ “کلب نما” قواعد سازی مخصوص فریقوں کے درمیان کچھ اختلافات کو جلدی حل کر سکتی ہے، لیکن اس سے عالمی تجارتی نظام کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا خطرہ ہے — ترقی یافتہ ممالک اپنی مذاکراتی صلاحیت کے بل پر “اعلیٰ معیار” کے قواعد کا حلقہ بنا لیں گے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کو مختلف قواعد کے نظاموں سے خود کو مشکل سے ہم آہنگ کرنا پڑے گا۔مستقبل میں، اس معاہدے کے استحکام کا انحصار ایک طرف تو امریکہ اور یورپ کے اندرونی سیاسی ماحول کے توازن پر ہے — ٹرمپ کو قدامت پسندوں کے لیے “امریکہ فرسٹ” کے اثرات ثابت کرنے ہوں گے، جبکہ وان ڈیر لیین کو یورپی یونین کے اندر فرانس اور جرمنی جیسے ممالک کے مفادات کے فرق کو سنبھالنا ہوگا۔ دوسری طرف یہ عالمی تجارتی نظام پر منحصر ہے کہ وہ اتھل پتھل میں کسی حد تک متحرک توازن برقرار رکھ سکتا ہے یا نہیں۔ علاقائی معاہدوں کو خصوصی گروہوں میں بدلنے سے کیسے بچایا جائے، یہ پالیسی سازوں کی عقل کا امتحان ہے۔اس غیر یقینی کے دور میں، امریکہ اور یورپ کے درمیان ہونے والا یہ محصولاتی سمجھوتہ درحقیقت عالمی میدان میں طاقت اور مفادات کی کشمکش کا تسلسل ہے۔ جب امریکہ اور یورپ “کلب نما” معاہدوں کے ذریعے ڈبلیو ٹی او کے کثیر جہتی فریم ورک کو کمزور کرتے ہیں، تو ترقی پذیر ممالک کو’’ قواعد قبول کرنے‘‘اور’’پیچھے رہنے‘‘ کے درمیان مشکل انتخاب کرنا پڑتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عالمگیر چیلنجز اور انسانی ہم نصیب معاشرے کے مستقبل کے سامنے ،کسی بھی یکطرفہ حکمت عملی کی سوچ دانش مندی نہیں ہے۔ توازن کی قیود سے ہٹ کر کیے گئے کسی بھی تجارتی انتظام کا اثر آخرکار اس کے استحکام کو ہی نقصان پہنچاتا ہے، اور اس امریکی یورپی محصولاتی معاہدے سے بھی یہی ہوتا نظر آتا ہے ۔بہرحال، مجھے اب بھی یقین ہے کہ گلوبلائزیشن کی کہانی ختم نہیں ہوئی ہے، بلکہ ایک زیادہ پیچیدہ طریقے سے دوبارہ لکھی جا رہی ہے۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • امریکی یورپی ’’ٹیرف یونین‘‘کا دوسرا رخ: عالمگیریت کے زوال کا خمیازہ کون بھرے گا؟
  • انصار اللہ یمن کا اسرائیل سے ڈیل کرنیوالے جہازوں کو نشانہ بنانے کا اعلان
  • امریکہ کا بلوچستان اسٹڈی پروجیکٹ، اسرائیلی مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے، الجزیرہ
  • اسرائیل کا غزہ امداد لے جانے والی کشتی حنظلہ پر حملہ، 21سماجی کارکن، عملہ اغوا
  • ایران سےمتعلق خاموشی سے تعمیری کردار ادا کرنے پر امریکہ نے پاکستان کی تعریف کردی
  • اسرائیل کا غزہ امداد لے جانے والی کشتی حنظلہ پر حملہ، 21 سماجی کارکن، عملہ اغوا
  • حماس نے ٹرمپ کے غزہ مذاکرات ناکامی سے متعلق بیان کو مسترد کر دیا
  • ایران میں عدالت پر حملہ: چھ افراد ہلاک، بیس زخمی
  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات؟ رہبرِ معظم کا سخت انتباہ!
  • ایران کے شہر زاہدان میں عدالت پر دہشت گردوں کا حملہ