Islam Times:
2025-09-18@14:23:25 GMT

کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 12th, June 2025 GMT

کیا امریکہ و اسرائیل ایران پر حملہ کرنیوالے ہیں؟

اسلام ٹائمز: خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کیلئے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں مذاکرات جاری ہیں اور بظاہر بات ڈیڈلاک کا شکار ہوچکی ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے حق سے مکمل طور پر  دستبردار ہو جائے۔ اسی طرح اب تک جو یورینیم افزودہ کرچکا ہے، وہ بھی کسی تیسرے ملک بھجوا دی جائے۔ ایرانی موقف یہ ہے کہ ہم یورینیم افزودگی کے بین الاقوامی قانون کے تحت حاصل حق سے کسی صورت دستبردار نہیں ہوں گے۔ روس نے تجویز دی ہے کہ ایران نے جو یورینیم قانونی حد سے زیادہ افزودہ کر لی ہے، وہ ہم لینے کے لیے تیار ہیں اور اسے انرجی کے سول استعمال کے قابل کرکے ایران کو واپس کر دیں گے۔ امریکہ اور اسرائیل کے غلط خیال کے مطابق اب ایران کمزور ترین پوزیشن پر ہے۔ حزب اللہ دفاعی پوزیشن میں ہے اور لبنان کی حکومت، فوج اور انتہاء پسند فرقہ پرست اس کے خلاف ہیں، ساتھ اسرائیل کا براہ راست دباو بھی ہے۔

شام میں اسرائیل اور امریکی مشترکہ پروجیکٹ حکومت ہے، جو ہر طرح کی خدمت کے لیے آمادہ و تیار ہے۔ یہاں سے حزب اللہ کی سپلائی لائن بھی کٹ چکی ہے۔اسی طرح عراق میں کردوں اور داعش کا خطرہ دکھا کر عراقی ریاست کو حشد الشعبی کے خلاف کارروائی پر اکسایا جا رہا ہے۔ حشد الشعبی اور ریاست کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عراق کے عوام اور ریاست کی یاداشت اتنی کمزور نہیں ہے کہ یہ بھول جائے کہ جب داعش بغداد سے محض کچھ کلومیٹر دور تھی اور کربلا و نجف خطرے میں چلے گئے تھے، ایسے وقت میں مرجعیت کے فتویٰ کے نتیجے میں یہ حشد الشعبی کے جوان تھے، جنہوں نے عراق کے جغرافیے کو بچایا تھا۔

عرب ممالک ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے شدید تحفظات رکھتے ہیں، انہیں ایٹمی اسرائیل قبول ہے، ایٹمی ایران کسی صورت قبول نہیں ہے۔ یہ فرقہ پرستی اور عرب و عجم کی تقسیم کا شکار ہیں۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ ان لوگوں نے جنگ کے خرچے تک امریکہ و اسرائیل کو آفر کر رکھے ہیں۔ یہاں کا ریاستی بندوبست ہی امریکی مدد سے قائم ہے، آج امریکی حمایت ختم ہو تو یہاں قائم بادشاہتوں کا دھڑم تختہ ہو جائے۔ عرب ممالک اسلام کی بنیاد پر قائم کسی بھی حکومت یا تحریک کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں، ان کے خیال میں اسلامی جمہوری ایران کا ایٹمی طاقت بن جانا خطے میں آزادی پسندوں کے لیے مستقل مددگار پیدا ہونے جیسا ہے، یہ بات طے ہے کہ امریکہ ہر صورت میں ایران کو بے دست و پا کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک  ایسا ایران چاہتا ہے، جس کے پاس کسی قسم کی کوئی دفاعی طاقت نہ ہو، جس کی وجہ سے وہ اپنا دفاع بھی نہ کرسکے اور نہ ہی اہل فلسطین کی کوئی مدد کر سکے۔

موجودہ امریکی صدر یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ میں ہیرو بن جائیں، اس لیے ایران پر حملہ کر دیا جائے۔ ان کے لیے حملہ کرنا بالکل بھی آسان نہیں ہوگا۔ میرے خیال میں یہ مذاکرات کے دوران دہشت پیدا کرکے من چاہے نتائج حاصل کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے۔ یہ تو لاس اینجلس میں فسادات شروع ہوگئے، ورنہ آج سارا امریکی میڈیا ایران کے خطرے کو ہی بیان کر رہا ہوتا۔ خطے میں اسرائیلی اور امریکی سرگرمیاں بہت مشکوک ہیں، بغداد سمیت تمام امریکی اڈوں پر غیر معمولی حرکات دیکھی جا رہی ہیں۔ پاسداران انقلاب کے میجر جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ ہم اپنے جدید میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے تیار ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر جناب مسعود پزشکیان نے درست کہا ہے کہ وہ (امریکی) مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہم اپنی (ایٹمی) صلاحیتیں ترک کر دیں، تاکہ "اسرائیل" ہمارے سروں پر بم گرا سکے۔

ابھی جلد از جلد ایٹمی معاملے پر فیصلہ کرنے کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے اسرائیل کے ایٹمی پروگرام سے متعلق جو دستاویزات محفوظ کی ہیں، وہ بہت سے خطرناک رازوں سے پردہ ہٹانے والی ہیں۔ کچھ یورپی ممالک کے نام بھی اس لسٹ میں آرہے ہیں۔ ان دستاویزات کے اسلامی جمہوریہ ایران کے ہاتھ لگنے کی خبروں نے خطے کے ممالک اور بہت سے یورپی ممالک کے دارالحکومتوں میں تہلکہ مچایا ہوا ہے۔ اس سے جہاں اسرائیل کی سکیورٹی کے فول پروف ہونے کا بیانیہ تہس نہس ہوا ہے، اسی طرح دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی آسکتی کہ کون کون سے ممالک اسرائیل کو ایٹمی ٹیکنالوجی دینے میں ملوث ہیں۔ یورپ اور امریکہ خود تو مشرق وسطی میں اسرائیل کو ایٹمی صلاحیتیں ریوڑیوں کی طرح بانٹ رہے تھے اور دوسرے ممالک کے لیے اقوام متحدہ کی جائز قانونی حد میں بھی یورینیم کی افزودگی کے قائل نہیں ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات کے بارے میں کہا کہ اگر توجہ ایران کے خلاف غیر قانونی پابندیوں کے خاتمے پر مرکوز ہو اور مقصد ایران کے جوہری پروگرام کی پُرامن نوعیت کو یقینی بنانا ہو تو یقیناً معاہدہ نہ صرف قابلِ حصول ہے بلکہ بہت جلد ممکن ہوسکتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے قانونی حق سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ ایک اور نقطہ بھی قابل توجہ ہے، کچھ عرصے سے جنگ کا مرکز یوکرین بن گیا ہے، یورپ کا ارادہ یہ ہے کہ کسی بھی طرح اسے دوبارہ مسلمان خطوں میں لے جایا جائے۔ اس حوالے سے فی الحال ایران کے لیے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی انڈیا کے مقابل میں اتنی تعریفیں سن کا ڈر لگتا ہے، کیونکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ دوستی نقصان دہ ہوتی ہے اور ہمیں تو اکہتر کا تجربہ بھی ہے، جب ہم بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے اور بنگلہ دیش بن گیا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران کے میں اسرائیل افزودگی کے کہا ہے کہ کے لیے

پڑھیں:

امریکی انخلا ایک دھوکہ

اسلام ٹائمز: العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔ انٹرویو: معصومہ فروزان

عراق سے امریکی افواج کی تعداد میں کمی یا انخلاء کے بارہا اعلانات کے باوجود زمینی حقیقت یہ ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ اب بھی اپنی فوجی موجودگی جاری رکھنے کے وسیع منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ عراقی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ میڈیا جسے "جزوی انخلاء" کے طور پر پیش کرتا ہے، وہ دراصل ایک طرح کی حکمت عملی ہے، جس سے محفوظ علاقوں میں دوبارہ تعیناتی اور منتقلی۔ اس انخلا کے اعلان سے وہ عوامی دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی طرف سے ممکنہ خطرات کو کم کرنا چاہتا ہے۔ عین الاسد اور اربیل کے علاقوں جیسے اڈوں کا نہ صرف فوجی کردار ہے، بلکہ ایک وسیع لاجسٹک اور اسٹریٹجک کردار بھی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ مغربی ایشیاء اور شمالی افریقہ کے علاقے میں اپنی موجودگی کو مستحکم کرنے اور عراق کے اہم وسائل کو کنٹرول کرنے کے لئے عراق میں بدستور رہنا چاہتا ہے۔ ایک عراقی یونیورسٹی کے تجزیہ کار اور پروفیسر "صلاح العمشانی" کے خیالات کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں، جو عراق میں امریکی موجودگی پر تنقیدی اور دستاویزی نظر رکھتے ہیں۔

امریکہ عراق سے اپنی افواج کے "بتدریج انخلاء" کی بات کرتا ہے، اس عمل کی نوعیت کے بارے میں بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً کیا واشنگٹن واقعی عراق چھوڑنے کا ارادہ رکھتا ہے یا یہ صرف محفوظ اور کم مہنگے علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ ترتیب کا خواہشمند ہے۔؟ "اسلام ٹائمز" کے ساتھ انٹرویو میں سیاسی تجزیہ کار اور عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر، صلاح العمشانی نے وضاحت کی ہے کہ کسی کو سرکاری امریکی پروپیگنڈہ سے بے وقوف نہیں بننا چاہیئے، کیونکہ امریکہ کا عراق سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ جو اعلان کیا گیا ہے، وہ صرف ان علاقوں میں افواج کی منتقلی اور دوبارہ تعیناتی ہے، جو خطے میں امریکی مفادات کے مطابق ہیں۔ امریکی عراق میں موجودگی کو تربیت اور فوجی مشاورت کا نام دیتے ہیں۔

امریکی افواج کو مشیر یا ٹرینر کہنا سراسر جھوٹ ہے۔ عراقی فوج میں ایسے افسران اور کمانڈر موجود ہیں، جن کا تجربہ بہت سے امریکی مشیروں کی عمروں سے بھی زیادہ ہے۔ ایک ٹینک ڈرائیور یا ایک عام سپاہی راتوں رات مشیر کیسے بن سکتا ہے۔؟ ہمیں بنیادی طور پر ایسی تربیت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ عراقی فوج کی مدد کے لیے نہیں بلکہ اپنی افواج تیار کرنا چاہتے ہیں۔ خود داعش کا تجربہ اس دعوے کا بہترین ثبوت ہے۔ "العمشانی" کے خیال میں شمالی عراق میں افواج کی منتقلی کا مطلب نہ صرف انخلا کے معاہدے کی پاسداری نہيں ہے، بلکہ یہ ایک قسم کا سیاسی فریب بھی ہے۔ امریکہ 2020ء سے عوام کی رائے اور عراقی پارلیمنٹ کی قرارداد کے انخلاء کے دباؤ کا شکار ہے۔ آج اربیل یا شمالی عراق میں افواج کی منتقلی بھی معاہدوں کی بظاہر پاسداری کا مظاہرہ کرنے کی کوشش ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہے۔

عراقی یونیورسٹی کے پروفیسر نے  "عین الاسد" بیس کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اڈہ عراق میں سب سے بڑا امریکی اڈہ ہے اور بدقسمتی سے سنی علاقوں میں واقع ہے۔ جہاں کچھ مقامی سیاست دان امریکی موجودگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنے ایجنڈوں میں امریکہ سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ تاہم رائے عامہ کے دباؤ اور مزاحمتی گروپوں کی دھمکیوں نے امریکہ کو اپنی افواج کو محفوظ علاقوں میں منتقل کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اربیل کو اب بھی ایک خاص حیثیت کیوں حاصل ہے۔؟ جس پر "العمشانی" نے جواب دیتے ہوئے کہا: اربیل امریکی جاسوسی مراکز کی پناہ گاہ اور عراق اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف مشتبہ سرگرمیوں کا اڈہ بن چکا ہے۔ اسی علاقے میں صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کانفرنسیں منعقد کی گئیں، مقامی حکام کی نظروں کے سامنے جنہوں نے نہ صرف ردعمل ظاہر نہیں کیا، بلکہ خود ایسی ملاقاتوں کی میزبانی بھی کی۔

وہ اس واقعے کی مقبول جہت پر بھی زور دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عراقی رائے عامہ امریکی موجودگی کے سخت مخالف ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اس موجودگی نے ملک کے رہنماؤں اور مہمانوں کے قتل و غارت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اس موجودگی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے ہیں اور عوام حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ اسے ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے۔ "صلاح العمشانی" نے مزید کہا: جسے امریکہ "جزوی انخلاء" کہتا ہے، وہ درحقیقت ایک سیاسی شو ہے۔ امریکہ اپنے وعدوں اور معاہدوں پر کبھی قائم نہیں رہا۔ جیسا کہ وہ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں سے دستبردار ہوگیا ہے۔، کیا یہ یقین کیا جا سکتا ہے کہ وہ عراق کے ساتھ معاہدے پر قائم رہے گا؟ وہ دن آئے گا، جب آزاد عراقی مزاحمت کریں گے اور امریکیوں کو 2011ء کی طرح ملک سے نکال باہر کریں گے۔

آخر میں، العمشانی مایوسی اور بدبینی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے کہ حقیقی امریکی انخلاء کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ نے ابھی عرب اور اسلامی اقوام کو رسوا کرنے اور صیہونی حکومت کو مضبوط کرنے کا اپنا مشن مکمل نہیں کیا ہے۔ عراقی تیل کی اسمگلنگ جاری ہے اور ان راستوں سے ہوتی ہے، جن پر مرکزی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ یہ سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ واشنگٹن اپنی موجودگی کو جاری رکھنا چاہتا ہے، چاہے اس کا نام اور کور بدل جائے۔

متعلقہ مضامین

  • آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • قطرمیں اسرائیلی حملہ امریکہ کی مرضی سے ہوا،خواجہ آصف
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • اسرائیل قطر میں دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: ٹرمپ
  • قطر ہمارا اتحادی، اسرائیل دوحہ پر دوبارہ حملہ نہیں کرے گا: امریکی صدر کی یقین دہانی
  • قطر ہمارا اتحادی ملک ہے، اسرائیل دوبارہ اس پر حملہ نہیں کریگا، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ