امریکی محکمہ خارجہ نے بحرین اور کویت سے بھی غیر ضروری عملے اور ان کے اہلِ خانہ کے انخلا کی اجازت دی ہے، جس سے انہیں ملک چھوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے مشرق وسطیٰ کے مختلف مقامات سے فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ کی رضاکارانہ روانگی کی منظوری دے دی ہے، ایک اور اہلکار نے کہا کہ یہ فیصلہ زیادہ تر ان خاندانوں کے لیے اہم ہے جو بحرین میں مقیم ہیں، کیونکہ وہاں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی میڈیا نے خبر دی ہے کہ اسرائیل کسی بھی وقت ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کرسکتا ہے۔ امریکی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں اسرائیل کے ایران پر ممکنہ حملے کے پیش نظر ہائی الرٹ ہے اور اسی تناظر میں امریکی محکمہ خارجہ نے مشرق وسطیٰ سے اپنے سفارتی مشنز کے عملے میں کمی کرنا شروع کردی ہے۔ بحرین، کویت کے بعد عراق سے بھی کچھ عملے کے انخلا کی اجازت دے دی گئی ہے، جب کہ پینٹاگون نے مشرق وسطیٰ کے مختلف علاقوں سے فوجی اہلکاروں کے اہل خانہ کے انخلا کی منظوری دے دی ہے۔ سیکیورٹی کی اس بڑھتی ہوئی صورتحال کا پس منظر یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ ایسے کسی معاہدے کے امکانات کو کم ہوتا دیکھ رہے ہیں، جس کے تحت ایران کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کی جاتیں اور مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تباہ کن فوجی تصادم کو روکا جا سکتا۔

ٹرمپ نے ’نیویارک پوسٹ‘ کو بتایا تھا کہ ’میں اب اس معاہدے کے بارے میں اتنا پُرامید نہیں ہوں، جتنا کچھ مہینے پہلے تھا، ان کے ساتھ کچھ ہوا ہے، لیکن میں معاہدے کے ہونے کے بارے میں بہت کم پُرامید ہوں‘۔ حالیہ مہینوں میں امریکی انٹیلی جنس حکام کو اس بات پر شدید تشویش ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکا کی منظوری کے بغیر حملہ کر سکتا ہے، ایسا اقدام نہ صرف ٹرمپ انتظامیہ کی نازک جوہری سفارت کاری کو سبوتاژ کر دے گا بلکہ ایران کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں امریکی اثاثوں پر جوابی کارروائی کو بھی جنم دے گا۔ تہران طویل عرصے سے یہ کہتا آیا ہے کہ اسرائیل کے سب سے بڑے فوجی اور سیاسی حامی کے طور پر امریکا کو ایران پر کسی بھی اسرائیلی حملے کی صورت میں نتائج بھگتنا ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ نے حال ہی میں ان تمام سفارت خانوں کو (جو ایرانی حملے کی زد میں آسکتے ہیں، جن میں مشرق وسطیٰ، مشرقی یورپ اور شمالی افریقہ کے مشن شامل ہیں) ہدایت دی ہے کہ وہ ایمرجنسی ایکشن کمیٹیاں قائم کریں، اور واشنگٹن کو حفاظتی اقدامات سے متعلق رپورٹیں بھیجیں۔ اسی عمل کے نتیجے میں بدھ کے روز وزیر خارجہ مارکو روبیو نے عراق سے غیر ضروری عملے کے انخلا کی اجازت دی تھی۔ محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ہم ہر وقت اپنی سفارت خانوں کی افرادی قوت کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، ہماری تازہ ترین تجزیے کی بنیاد پر ہم نے عراق میں اپنے مشن کا دائرہ محدود کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری جانب ’ٹائمز آف اسرائیل‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافے کے بعد امریکا، مشرق وسطیٰ میں اپنے آپریشنز کے لیے غیر ضروری عملے اور فوجی اڈوں سے اہلکاروں کو واپس بلا رہا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اہلکار نے ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کو بتایا کہ صدر ٹرمپ امریکیوں کو گھر اور بیرون ملک دونوں جگہ محفوظ رکھنے کے لیے پرعزم ہیں، اسی عزم کے تحت ہم مسلسل اپنے سفارت خانوں میں مناسب عملے کی تعیناتی کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، تازہ ترین تجزیے کی بنیاد پر ہم نے عراق میں اپنے مشن کی موجودگی کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رپورٹرز سے گفتگو میں تصدیق کی کہ کچھ امریکی اہلکاروں کو مشرق وسطیٰ سے نکالا جا رہا ہے، کیونکہ یہ ایک خطرناک جگہ ہو سکتی ہے۔

واشنگٹن میں کینیڈی سینٹر میں ’Les Miserables‘ دیکھنے سے پہلے انہوں نے کہا کہ ’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، ہم نے اطلاع دے دی ہے، ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہیں ہونے چاہئیں‘۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بحرین اور کویت سے بھی غیر ضروری عملے اور ان کے اہلِ خانہ کے انخلا کی اجازت دی ہے، جس سے انہیں ملک چھوڑنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے مشرق وسطیٰ کے مختلف مقامات سے فوجی اہلکاروں کے اہلِ خانہ کی رضاکارانہ روانگی کی منظوری دے دی ہے، ایک اور اہلکار نے کہا کہ یہ فیصلہ زیادہ تر ان خاندانوں کے لیے اہم ہے جو بحرین میں مقیم ہیں، کیونکہ وہاں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

حالیہ دنوں میں مشرق وسطیٰ کے خطے میں کشیدگی اس وقت مزید بڑھ گئی تھی جب امریکا اور ایران کے درمیان اس کے تیزی سے ہونے والے جوہری پروگرام پر مذاکرات تعطل کا شکار ہوگئے۔ 2 امریکی اہلکاروں نے بتایا کہ کشیدگی کے پیش نظر امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کوریلا (جو مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی نگرانی کرتے ہیں) نے جمعرات کو امریکی قانون سازوں کے سامنے اپنی پیشی ملتوی کر دی۔ جنرل مائیکل کوریلا کو سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے پیش ہونا تھا، تاہم امریکی سینٹرل کمانڈ نے اس پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ مذاکرات ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں امریکا کی طرف سے عائد کی گئی سخت اقتصادی پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں ہو رہے ہیں، ایران اصرار کرتا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے۔

مذاکرات کے چھٹے دور کا عارضی طور پر اس ہفتے کے آخر میں عمان میں طے تھا، تاہم اس حوالے سے واقف امریکی اہلکاروں نے بدھ کو کہا کہ مذاکرات کے انعقاد کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک امریکی اہلکار نے ’رائٹرز‘ کو بعد میں بتایا کہ خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اتوار کو عمان میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی سے ملاقات کریں گے، اور حالیہ امریکی جوہری معاہدے کی تجویز پر ایران کے جواب پر بات کریں گے۔ صدر ٹرمپ اس سے پہلے کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو وہ ایران کے خلاف فوجی طاقت استعمال کر سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: امریکی محکمہ خارجہ نے کے انخلا کی اجازت غیر ضروری عملے جوہری پروگرام امریکی اہلکار نے بتایا کہ میں امریکی کی منظوری اہلکار نے کی جوہری ایران کی جوہری پر دے دی ہے ہے کہ اس کے اہل کے لیے کہا کہ

پڑھیں:

اسرائیل کا ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ، کن مقامات کو ہدف بنایا گیا؟

اسرائیل نے اعلان کیا ہے کہ اُس نے ایران کی جوہری تنصیبات اور عسکری مراکز پر فضائی حملے کیے ہیں تاکہ تہران کو مبینہ جوہری ہتھیار بنانے سے روکا جا سکے۔ حملوں میں ایرانی کمانڈروں اور میزائل فیکٹریوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اس کارروائی کو ملکی تاریخ کا فیصلہ کن لمحہ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج نے اس آپریشن کو ’رائزنگ لائن‘ (اُبھرتا ہوا شیر) کا نام دیا ہے۔

ایرانی سرکاری میڈیا اور عینی شاہدین کے مطابق دارالحکومت تہران سمیت مختلف شہروں میں زوردار دھماکے سنے گئے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق متعدد ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں بچے بھی شامل ہیں۔ ایران کی پریس ٹی وی نے تصدیق کی ہے کہ نطنز (Natanz) میں واقع مرکزی جوہری افزودگی کا مرکز اسرائیلی حملے کا ہدف بنا ہے۔

مزید پڑھیں: تہران پر حملے کے بعد ایران کا سخت ردعمل: ’قیمت چکانا پڑے گی’

ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق امام خمینی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں، تاہم تاحال ائیرپورٹ کو براہ راست کوئی نقصان نہیں پہنچا۔

ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق گزشتہ چند گھنٹوں کے دوران کم از کم 2 مرتبہ فضائی حملوں کی لہریں دیکھی گئی ہیں، جبکہ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق تیسری لہر بھی جاری ہے۔

حملوں کے مقامات

ابتدائی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے ایران کے 6 مختلف علاقوں میں حملے کیے ہیں:

تہران اور مضافات – جہاں عسکری مراکز کو نشانہ بنایا گیا۔

نطنز – ایران کا مرکزی یورینیم افزودگی پلانٹ۔

تبریز – جوہری تحقیقاتی مرکز اور 2 فوجی اڈے نشانے پر۔

مزید پڑھیں: اسرائیلی میں شہید ہونے والے ایرانی ملٹری چیف جنرل باقری کون تھے؟

اصفہان – تہران کے جنوب میں واقع اہم صنعتی و دفاعی شہر۔

اراک – جوہری سرگرمیوں کے لیے معروف شہر، جو تہران کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔

کرمانشاہ – مغربی ایران کا اہم فوجی مرکز۔

امریکی ردعمل

امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اسرائیلی حملے کو یکطرفہ کارروائی قرار دیا ہے اور واضح کیا ہے کہ واشنگٹن اس حملے میں شریک نہیں تھا۔ تاہم انہوں نے ایران کو خبردار کیا کہ وہ امریکی مفادات یا خطے میں امریکی اہلکاروں کو نشانہ نہ بنائے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتا ہے( امریکی میڈیا ) جھکیں گے نہ ہی ایٹمی تحقیق ختم کرینگے (ایرانی صدر)
  • اسرائیل کا ایران کی جوہری تنصیبات پر فضائی حملہ، کن مقامات کو ہدف بنایا گیا؟
  • مشرق وسطیٰ میں فوجی کشیدگی پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی شدید تشویش، تحمل سے کام لینے کی اپیل
  • اسرائیل اتوار تک ایران پر حملہ کرسکتا ہے، امریکی اخبار کا دعویٰ
  • اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتا ہے، امریکی میڈیا
  • مشرق وسطیٰ سے امریکی عملے کے انخلا کی وجوہات کیا ہیں؟
  • اسرائیل ایران پر کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے: امریکی میڈیا
  • اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتا ہے، واشنگٹن کو پیشگی باخبر کردیا
  • اسرائیل کسی بھی وقت ایران پر حملہ کرسکتا ہے، واشنگٹن کو پیشگی اطلاع دیدی گئی: امریکی میڈیا