اسرائیل کا ایرانی سرکاری ٹی وی پر براہِ راست نشریات کے دوران میزائل حملہ
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی ہے۔ اسرائیل نے ایرانی سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشریات کے دوران میزائل حملہ کر دیا، جس کے باعث خاتون اینکر سحر امامی کی جان بال بال بچی۔ حملے کے فوراً بعد نشریات بند ہو گئیں، تاہم کچھ دیر بعد دوبارہ بحال کردی گئیں۔
عالمی نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی چینل پر خاتون اینکر خبریں پڑھ رہی تھیں کہ اچانک نشریات کے دوران زور دار دھماکا ہوا۔
#BREAKING
Video shows the moment the studio of IRIB News Channel hit by an Israeli strike.
— Tehran Times (@TehranTimes79) June 16, 2025
عینی شاہدین کے مطابق حملے سے عمارت لرز اٹھی اور کیمرہ بری طرح ہل گیا، تاہم اینکر سحر امامی فوری طور پر محفوظ جگہ منتقل ہوگئیں۔
’اسرائیلی وزیر دفاع کی دھمکی کے بعد حملہ‘یہ حملہ اسرائیلی وزیر دفاع کی جانب سے ایران کے سرکاری نشریاتی اداروں کو ’پروپیگنڈا مراکز‘ قرار دے کر دھمکی دینے کے چند گھنٹوں بعد کیا گیا۔
اس سے قبل اسرائیلی وزیر دفاع نے اعلان کیا تھا کہ ایرانی پروپیگنڈا کا مرکز ختم ہونے والا ہے، ہم نشریاتی اداروں کو بند کرنے کی مکمل تیاری کر چکے ہیں۔ اور اسی اعلان کے بعد تہران میں سرکاری ریڈیو و ٹی وی کی مرکزی عمارت پر میزائل حملہ کیا گیا۔
رہائشی علاقے بھی متاثر، انخلا شروعحملے کے بعد ایرانی خبررساں ادارے مہر نیوز نے اطلاع دی کہ ٹی وی کی عمارت کے نزدیک رہنے والے شہریوں نے علاقہ خالی کرنا شروع کر دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل مزید نشریاتی اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
نشریات کچھ دیر بعد بحال، اینکر پھر واپس آگئیںایرانی سرکاری خبر رساں ایجنسی اسنا کے مطابق حملے سے نشریاتی نظام کچھ دیر کے لیے متاثر ہوا، لیکن ٹیکنیکل ٹیم نے فوری طور پر بیک اپ سسٹم سے سروس بحال کردی۔ کچھ دیر بعد سحر امامی دوبارہ اسکرین پر واپس آئیں اور نشریات جاری رکھیں، جو کہ ایرانی عوام کے لیے حوصلہ افزا منظر تھا۔
’اسرائیل کا میڈیا اداروں پر حملہ نئی بات نہیں‘الجزیرہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا میڈیا اداروں پر حملہ نئی بات نہیں۔ اس سے قبل لبنان میں حزب اللہ کے المنار ٹی وی، غزہ میں الجزیرہ، پریس ٹی وی اور دیگر مقامی دفاتر کو بھی نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں اسرائیلی وزیراعظم کا آیت اللہ خامنہ ای پر حملے کا اشارہ، عالمی سطح پر نئی کشیدگی کا خدشہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی ریاست کا سرکاری میڈیا مرکز بین الاقوامی قانون کے تحت محفوظ سمجھا جاتا ہے، لیکن اسرائیل کی جانب سے میڈیا کو ٹارگٹ کرنا پریشان کن رجحان ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews ایران اسرائیل کشیدگی ایرانی ٹی وی اینکر محفوظ حملہ نشریاتی بحال وی نیوزذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل کشیدگی ایرانی ٹی وی اینکر محفوظ حملہ نشریاتی بحال وی نیوز کچھ دیر
پڑھیں:
روس کا دنیا کے جدید ترین اور تباہ کن کروز میزائل کا تجربہ
روس نے ایک بار پھر دنیا کو اپنی عسکری طاقت کا احساس دلاتے ہوئے جدید ترین کروز میزائل کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔
یہ تجربہ شمالی سمندری حدود میں واقع بحیرہ برینٹس میں اس وقت کیا گیا جب روسی نیوی کی نیوکلیئر آبدوز ’’اوریل‘‘ کو میدان میں اتارا گیا۔
یہ آبدوز نائن فورنائن اے اینتے کلاس سے تعلق رکھتی ہے، جو روس کے جدید ترین جنگی بحری بیڑے کا حصہ ہے اور اپنے اندر تباہ کن صلاحیتیں سمیٹے ہوئے ہے۔
اوریل آبدوز کو گرانیٹ کروز میزائلوں سے لیس کیا گیا ہے، جن کے بارے میں دفاعی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ روایتی بحری کروز میزائلوں سے چار گنا بڑے اور کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ ہر اینتے کلاس آبدوز میں 24 گرانیٹ میزائل نصب کیے گئے ہیں، جو انتہائی محفوظ سمجھے جانے والے ’’کیرئیر اسٹرائیک گروپس‘‘ کو بھی پانچ سو کلومیٹر کے فاصلے سے نشانہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
یہ آبدوز نہ صرف سمندر میں جنگی جہازوں کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ کثیر المقاصد کردار ادا کرتے ہوئے ساحلی علاقوں اور فضا میں بھی دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ مشقوں کے دوران اوریل آبدوز نے فرضی دشمن کے جنگی طیاروں، ڈرونز، اور ریموٹ کنٹرول کشتیوں کو کامیابی سے تباہ کیا، جب کہ دور دراز سمندری اور ساحلی اہداف پر بھی میزائلوں سے بھرپور حملے کیے گئے۔
دفاعی تجزیہ کار اس تجربے کو روس کی بحری قوت میں ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں، جو نہ صرف اس کے تکنیکی برتری کی علامت ہے بلکہ عالمی سطح پر طاقت کے توازن کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ سوویت یونین کے بعد سے اب تک اینتے کلاس آبدوز کو بحری جنگ کے سب سے مؤثر ہتھیاروں میں شمار کیا جا رہا ہے، اور حالیہ تجربہ اسی مؤثریت کا عملی مظاہرہ ہے۔