پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم، کے پی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن کیا ہوگی؟
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے مطابق خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی 10 مخصوص خواتین نشستوں کے لیے جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مزید تین، تین خواتین قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گی۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور حکومتی اتحاد کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 77 نشستیں مل گئیں۔ رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلے کے مطابق خیبر پختونخوا سے قومی اسمبلی کی 10 مخصوص خواتین نشستوں کے لیے جے یو آئی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے مزید تین، تین خواتین قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گی۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کی جانب سے سابقہ مشیر برائے صدر مملکت عاصمہ عالمگیر سمیت 2 خواتین قومی اسمبلی جائیں گی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں جے یو آئی کی جانب سے دیگر کے علاوہ پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان کی دوسری صاحبزادی بھی ایم پی اے بن جائیں گی۔
(ن) لیگ کی جانب سے سابقہ ایم پی آمنہ سردار دوبارہ ایم پی اے بنیں گی جبکہ (ن) لیگ کو مزید دو خواتین کے نام الیکشن کمیشن کو دینے پڑیں گے۔ پیپلزپارٹی کی مزید چارخواتین ارکان میں دو سابقہ ایم پی ایز بھی شامل جبکہ پی ٹی آئی پی کی جانب سے بھی سابقہ ایم پی اے نادیہ شیر ایوان کا تیسری بار حصہ بنیں گی۔ اقلیتی ارکان میں عسکر پرویز جے یو آئی کی جانب سے دوبارہ اسمبلی رکن بن جائیں گے۔ قومی اسمبلی کے لیے خیبر پختونخوا سے خواتین کی 10 نشستوں پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شائستہ خان جبکہ جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے شاہدہ اخترعلی ایوان کا حصہ ہیں، دونوں جماعتوں کی جانب سے مزید تین، تین خواتین ایم این ایز بنیں گی۔ ان میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ثوبیہ شاہد، غزالہ انجم اور شہلا بانو شامل ہیں، تاہم ثوبیہ شاہد خیبر پخونخوا اسمبلی کا حصہ ہیں اور اگر وہ صوبائی اسمبلی کی نشست نہیں چھوڑتیں تو اس صورت میں (ن)لیگ کی جانب سے شاہین بھی رکن قومی اسمبلی بن جائیں گی۔
جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے مزید جو تین خواتین قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گی ان میں نعیمہ کشور جو اس سے پہلے بھی ایم این اے اور ایم پی اے رہ چکی ہیں، حنا بی بی اور صدف یاسمین شامل ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے سابقہ مشیر برائے صدر مملکت عاصمہ ارباب عالمگیر اور ناعمہ کنول شامل قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گی۔ خیبر پختونخوا اسمبلی میں جمعیت علما اسلام اور مسلم لیگ(ن)کو مزید سات، سات خواتین کی نشستیں ملیں گی، پیپلزپارٹی کو 4 جبکہ اے این پی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز کو ایک ، ایک نشست ملے گی۔ جے یو آئی کی جانب سے ریحانہ اسماعیل اور عاصمہ عالم پہلے ہی سے اسمبلی کا حصہ ہیں جبکہ جو مزید سات خواتین ایوان کا حصہ بنیں گی ان میں نعیمہ کشور، ستارہ آفرین، ایمن درانی، مدینہ گل آفریدی، رابعہ شاہین، نیلوفر بیگم اور ناہید انور شامل ہیں تاہم نعیمہ کشور کی جانب سے قومی اسمبلی کا حلف اٹھانے کی صورت میں جے یو آئی کی جانب سے نگینہ شاد بطور رکن صوبائی اسمبلی حلف اٹھائیں گی۔
جے یو آئی کی ایمن درانی پارٹی کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات عبدالجلیل جان کی صاحبزادی ہیں جن کی دوسری بیٹی رومانہ جلیل 2013 سے 2018 تک صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانبب سے ثوبیہ شاہد اور شہلا بانو صوبائی اسمبلی کا حصہ ہیں جبکہ مزید 7 خواتین میں ڈاکٹر شائستہ جدون، آمنہ سردار، فائزہ ملک، افشان حسین، شازیہ جدون اور جمیلہ پراچہ شامل ہیں تاہم ڈاکٹر شائستہ جدون پہلے ہی سے رکن قومی اسمبلی ہیں جس کے باعث (ن) لیگ کو مزید دو خواتین کے نام الیکشن کمیشن آف پاکستان کو دینے پڑیں گے، (ن) لیگ کی آمنہ سردار اس سے پہلے بھی صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں اور دوسری مرتبہ رکن اسمبلی بنیں گی۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے نیلوفر بابر پہلے ہی سے صوبائی اسمبلی کی رکن ہیں جبکہ مزید چار خواتین میں شازیہ طہماس، ناعمہ کنول، مہر سلطانہ اور اشبر جدون شامل ہیں تاہم ناعمہ کنول کا نام قومی اسمبلی کی فہرست میں بھی شامل ہے اور ان کے بطور ایم این اے حلف اٹھانے کی صورت میں پیپلزپارٹی کی جانب سے فرزانہ شیرین رکن صوبائی اسمبلی بنیں گی۔
شازیہ طہماس اور مہر سلطانہ ایڈوکیٹ 13-2008 کے دوران بھی ایم پی ایز رہ چکی ہیں۔ اے این پی کو ملنے والی ایک نشست پر خدیجہ سردار اور پی ٹی آئی پی کی جانب سے نادیہ شیر رکن اسمبلی بنیں گی جو اس سے پہلے دو مرتبہ پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کی چار اقلیتی نشستوں میں سے (ن) لیگ اور جے یو آئی کو دو، دو نشستیں ملیں گی جن میں جے یو آئی کی جانب سے عسکر پرویز اور گورپال سنگھ رکن اسمبلی بنیں گے، عسکر پرویز اس سے پہلے بھی رکن رہ چکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سریش کمار رکن بنیں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی کا حصہ بنیں گی پیپلزپارٹی کی جانب سے جے یو ا ئی کی جانب سے خواتین قومی اسمبلی صوبائی اسمبلی کی کی جانب سے مزید خیبر پختونخوا اسمبلی کی رکن اسمبلی بنیں تین خواتین کا حصہ ہیں اس سے پہلے رہ چکی ہیں پی ٹی ا ئی ایم پی اے شامل ہیں مسلم لیگ ہیں جبکہ ایم پی ا
پڑھیں:
فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا ہے ہے کہ فریق بنے بغیر پی ٹی آئی کو ریلیف ملا جو برقرار نہیں رہ سکتا پی ٹی آئی چاہتی تو فریق بن سکتی تھی مگر جان بوجھ کر نہیں بنی، سپریم کورٹ نے کبھی حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جو کہ 47 صفحات پر مشتمل ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر نے وجوہات تحریر کی ہیں، تفصیلی فیصلے میں جسٹس عائشہ اے ملک اور جسٹس عقیل عباسی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہیں، جسٹس صلاح الدین پنہور کی سماعت سے الگ ہونے کی وجوہات پر الگ نوٹ بھی شامل ہے۔
لاہور میں میڈیکل سٹور سے گن پوائنٹ پر لاکھوں روپے مالیت کی ادویات لوٹ کر فرار ہونے والے ملزمان گرفتار،ادویات سے لدا رکشہ برآمد
سپریم کورٹ نے نظر ثانی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے 27 جون کو فیصلہ سنایا تھا تاہم تفصیلی فیصلہ آج آیا ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریویو پٹیشنز صرف آئینی بینچ ہی سن سکتا ہے، 13 رکنی آئینی بینچ کے سامنے نظر ثانی درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی گئیں، آئینی بینچ کے 11 ججوں نے فریقین اور اٹارنی جنرل ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس جاری کرنے کا حکم دیا، بینچ کے دو ارکان نے مختلف رائے دی اور ریویو پٹیشنز مسترد کر دیں، دو ججز نے حتمی فیصلہ سنا کر مزید کارروائی میں حصہ نہیں لیا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں سات غیر متنازع حقائق ہیں، سنی اتحاد کونسل کی حد تک مرکزی فیصلے میں اپیلیں متفقہ طور پر خارج ہوئیں کہ وہ مخصوص نشستوں کی حق دار نہیں، مرکزی فیصلے میں پی ٹی آئی کو ریلیف دے دیا گیا جبکہ وہ فریق ہی نہیں تھی، پی ٹی آئی اگر چاہتی تو بطور فریق شامل ہو سکتی تھی مگر جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا گیا، پی ٹی آئی کیس میں کسی بھی فورم پر فریق نہیں تھی، جو ریلیف مرکزی فیصلے میں ملا برقرار نہیں رہ سکتا۔
پی ڈی ایم اے پنجاب نے بارشوں کے باعث دریاؤں کے بہاؤ میں اضافے کا الرٹ جاری کردیا
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں لڑ سکتی، 80 آزاد امیدواروں میں سے کسی نے بھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں یا مخصوص نشستیں انہیں ملنی چاہئیں، الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں کو دیں، مرکزی فیصلے میں ان جماعتوں کو بغیر سنے ڈی سیٹ کر دیا گیا، جو قانون اور انصاف کے تقاضوں کے خلاف تھا، مکمل انصاف کا اختیار استعمال کر کے پی ٹی آئی کو ریلیف نہیں دیا جاسکتا تھا، آرٹیکل 187 کا استعمال اس کیس میں نہیں ہوسکتا تھا۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاتارڑ نے نیشنل پریس کلب میں پولیس داخلے کو افسوسناک قرار دےدیا
مزید :