ایران اور اسرائیل جنگ اور بھارت
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایران اور اسرائیل کے بیچ لڑائی میں بھارت کہاں کھڑا ہے اور یہ جنگ بڑھی تو یہ کہاں کھڑا ہوگا۔ اپنے پچھلے ایک مضمون میں ہم نے اس امر کا جائزہ لیا تھا کہ ایران اور اسرائیل کی جنگ میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور جنگ بڑھی تو پاکستان کہاں کھڑا ہوگا۔ جہاں تک اس سوال کا کہ بھارت کہاں کھڑا ہے اور مستقبل میں جنگ کے شعلے تیز ہونے کی شکل میں کہاں ہوگا اس کا ایک ہی سیدھا سادا سا جواب ہے کہ آج بھی اور کل بھی بھارت ایک ہی پوزیشن پر کھڑا ہے اور کھڑا رہے گا وہ یہ کہ بھارت منافقت کی بلندیوں پر کھڑا ہے نیتن یاہو نے ایران پر حملہ کرنے کے بعد سب سے پہلے جس کو فون کیا وہ نریندر مودی تھے انہوں نے مودی جی کو اپنی کامیاب کارروائی کی روداد سنائی ہوگی ہو سکتا ہے کہ یہ بھی کہا ہو کہ ہم نے پاکستان کے ہاتھوں آپ کو جو شکست ہوئی ہے اس کا بدلہ لے لیا۔ مودی جی نے شکریہ ادا کرنے یا خوش ہونے کے بجائے یہی کہا ہوگا کہ ابھی میرے سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی جب تک آپ ایران کو تہس نہس نہ کردیں۔ ہم اس ملک سے اربوں ڈالر کی سالانہ تجارت کرتے ہیں۔ پاکستان اس سے تیل نہیں خرید سکتا تھا ہم اس سے تیل خریدتے رہے ہیں دنیا بھر کی پابندیوں کے باوجود ہم اس کی معیشت کا سہارا بنے رہے لیکن اس کی بے وفائی دیکھو ہماری پاکستان سے جنگ ہوئی تو پاکستان کے ساتھ جا کر کھڑا ہوگیا اور پاکستان کے وزیر اعظم کو خصوصی طور پر اپنے یہاں بلایا ان کا بھرپور استقبال کیا خیر یہ تو ہم نے اپنی طرف سے چند حقائق لکھے مودی جی نے چاہے کچھ نہ کہا ہو لیکن سوچا تو ضرور ہوگا۔ جب اسرائیل نے حملہ کیا تو پاکستان نے جس پرجوش انداز میں ایران کی ڈپلومیٹک حمایت کی ہے اس کی بنا پر خود ایرانی اسمبلی میں تشکر پاکستان کے نعرے لگے ہیں۔
امریکا کے بعد بھارت وہ ملک ہے جو اس حملے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ بھارت میں تو اسرائیل کے حق میں انتہاپسند ہندوئوں نے جلوس بھی نکالا ہے۔ اسرائیل کے پہلے حملے میں جو اہم شخصیات جس میں فوجی کمانڈر، ایرانی سائنسدان اور دیگر ایجنسیوں کے لوگ شہید کیے گئے وہ انتہائی افسوسناک تو ہے ہی تشویشناک بھی بہت ہے کہ ایرانی حکومت کے سائے تلے ایرانی سرزمین پر منی اسرائیلی ریاست قائم کی گئی جہاں ڈرونز بنانے کی فیکٹری لگی موساد کے ایجنٹوں نے وہیں ڈرون چلانے والے بھی تیار کیے اور اہم شخصیات کے بارے میں جدید معلومات حاصل کی کہ وہ جہاں بھی تھے وہیں ان کو مار دیا گیا۔ پتا نہیں کیوں ایرانی حکومت موساد کی اتنی بڑی اتنی حساس خفیہ سرگرمیوں کو مانیٹر نہ کرسکی اب جو تفصیلات سامنے آئیں ہیں وہ یہ کہ سیکڑوں ہندوستانی را کے ایجنٹس بھی گرفتار ہوئے ہیں جو موساد کے ساتھ مل کر یہ سارے کام میں ان کی مدد کررہے تھے کیا ایرانی حکومت کو پتا نہ ہوگا کہ جو بھارتی شہری کاروبار کے حوالے سے، سیر و سیاحت کے حوالے سے یا اور کسی واسطے سے ایران آئے ہوئے ہیں ان ہی میں سے بہت بڑی تعداد را کے ایجنٹوں کی رہی ہوگی اور یہ وہ لوگ تھے جو بلوچستان میں دہشت گردی کرتے تھے کلبھوشن یادو اس کا پورا نٹ ورک چلاتا تھا۔ ایک برادرانہ شکوہ تو اپنی ایرانی حکومت سے تو بنتا ہے نا کہ انہوں نے ان را کے ایجنٹوں کو کھلی چھوٹ دی ہوئی تھی کہ وہ پاکستان میں جو تخریبی کارروائیاں کرنا چاہیں کرتے رہیں۔ بھارت کا اصل مقصد تو پاکستان کو اندر سے کمزور کرنا ہے اور یہ کام اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو سہولت کار نہ مل جائیں۔ چلیے آپ انڈیا سے اربوں ڈالر کے کاروبار کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں، آپ انہیں تیل فروخت کریں کوئی اعتراض نہیں اس کے بعد آپ نے گوادر کی بندرگاہ کے مقابلے میں چابہار کی بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت کو وسیع سرمایہ کاری کا موقع دیا کوئی بات نہیں۔ پھر آپ دیکھیں کہ ان ہی را کے ایجنٹوں نے موساد کے ساتھ مل کر آپ کی جڑیںکاٹنی شروع کردیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک نے ایران اسرائیل جنگ میں ایران کی حمایت کا اعلان کیا ایک واحد بھارت تھا جس نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا اب تو ایرانی حکومت کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ہندوستان اس کے ساتھ منافقت سے کام لیتا چلا آرہا ہے۔ اسرائیل، انڈیا اور امریکا یہ تینوں ملک ایران کی مخالفت میں ایک ہیں۔ قرآن میں بھی یہ بات مسلمانوں کو سمجھائی گئی ہے کہ یہ یہودی اور عیسائی تمہاری مخالفت میں ایک ہیں ہم جب اپنے پیارے نبی کریمؐ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہی بات سامنے آتی ہے آپ کو پوری زندگی یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکوں کی مخالفت اور مخاصمت کا سامنا کرنا پڑا۔ آج بھی مسلمانوں کے یہی تینوں دشمن ہیں اسرائیل یہودیوں کی نمائندگی کرتا ہے، جبکہ امریکا اور دیگر یورپی ممالک عیسائیوں کی اور بھارت مشرکوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ جہاں یہ تینوں گروہ مسلمانوں کی مخالفت میں ایک ہوگئے ہیں وہیں ہم یہ قدرت کا کرشمہ بھی دیکھ رہے ہیں سعودی عرب بہت پرجوش انداز میں ایران کی حمایت کررہا ہے ورنہ ایک زمانے میں ایران اور سعودی عرب میں تنائو کی کیفیت رہتی تھی۔ اقوام متحدہ میں ایرانی مندوب نے جن چار ممالک کا موجودہ ایران اسرائیل تنازع میں ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا ان میں چین روس اور پاکستان کے ساتھ سعودی عرب بھی شامل ہے۔
اسرائیل کا ایک شہر حیفہ ہے جہاں پر ایران نے میزائل مارے ہیں اور اس سے حیفہ کی بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچا ہے کہتے ہیں یہ نقصان براہ راست بھارت کو پہنچا ہے کہ اس بندرگاہ کے کاروبار میں 70 فی صد شیئر بھارت کے وزیر اعظم مودی کے دوست اڈانی کے ہیں۔ اسرائیل اور بھارت کے گٹھ جوڑ کی ایک نشانی یہ ہے کہ پاکستان ہندوستان کی چار روزہ جنگ کے دوران جو اسرائیلی ڈرون پاکستان کی طرف آرہے تھے اس کو آپریٹ کرنے والے آپریٹر بھی اسرائیل سے آئے تھے ایک تجزیہ کار یہ بھی بتارہے تھے کہ پاکستان کی طرف سے اس ائر بیس پر جہاں سے یہ ڈرون چلائے جارہے تھے میزائل سے حملہ کیا گیا تو اس میں کچھ اسرائیلی بھی زخمی ہوئے اور مزید یہ بھی معلوم ہوا کہ مقبوضہ کشمیر کے ایک صحافی نے اس واقع کی تحقیقات شروع کی تو اس صحافی ہی کسی نے اغوا کرلیا جس کا تاحال کچھ پتانہیں کہ وہ کہاں ہے۔ ان تمام واقعات سے تو یہی پتا چلتا ہے کہ ایران اسرائیل یہ کی یہ جنگ بڑھی تو بھارت کی ہمدردیاں اسرائیل کے ساتھ ہوں گی۔
یہ مضمون ہم نے 19جون کو لکھا تھا اور 20 جون کو اخبار میں بھیجنا تھا کہ اچانک کمپیوٹر خراب ہوگیا ایک ہفتہ اس کی درستی میں لگ گیا اس درمیان میں ایران اسرائیل جنگ میں بڑی ڈرامائی تبدیلیاں ہوئیں ہمارے فیلڈ مارشل عاصم منیر سے جو تاریخی ملاقات ہوئی وہ خود ایک موضوع ہے لیکن بعد میں ٹرمپ کے بیان سے کچھ ایسا لگا کہ ہمارے چیف نے کچھ مفید مشورے دیے ہوں گے ٹرمپ نے کہا کہ عاصم منیر ایران کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ہم دو ہفتے کا وقت دے رہے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ یہی بات کہی ہوگی کہ آپ (امریکا) اس جنگ میں نہ کودیں ورنہ یہ جنگ پھیل جائے گی اسی لیے دو ہفتے کا وقت دراصل اسرائیل کو دیا گیا تم جتنا ایران کا بھرکس نکال سکتے ہو نکال دو پھر وہ (ایران) سرنڈر کرنے یعنی ہتھیار ڈالنے پر تیار ہو جائے گا لیکن ساری تدبیریں الٹی ہوگئیں ایران نے تو اسرائیل کا بھرکس نکال دیا پھر نیتن یاہو اور امریکا میں صہیونی لابی کا ٹرمپ پر دبائو بڑھ گیا اور اسرائیل کو مکمل شکست سے بچانے یا اس کی فیس سیونگ کے لیے امریکا نے ایران پر حملہ کردیا جس کی خوشی اسرائیل سے زیادہ انڈین میڈیا اور نریندر مودی کو ہوئی۔ امریکا کا ایران پر حملے کے بعد اس حملے کا متنازع ہوجانا خود ایک دلچسپ موضوع ہے جس پر الگ سے بات ہوگی۔ لیکن ہماری یہ بات تو سچ ثابت ہوگئی کہ بھارت آخر تک ایران کے مقابلے میں اسرائیل اور امریکا کے ساتھ کھڑا رہا اور ابھی جو چین میں شنگھائی کانفرنس اسے منہ کی کھانی پڑی کہ بھارتی وزیر دفاع اعلامیہ پر دستخط کیے بغیر اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے کہ اس میں پہل گام واقع پر پاکستان کی مذمت کا جملہ ڈلونا چاہتے تھے بقیہ 9 ارکان اس پر راضی نہیں ہوئے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایران اسرائیل ایرانی حکومت اور اسرائیل کھڑا ہے اور پاکستان کے اسرائیل کے تو پاکستان کے ایجنٹوں ایران اور میں ایران کہاں کھڑا کہ بھارت ایران کی رہے تھے ایران ا کے ساتھ ہے کہ ا کے بعد اور اس ایک ہی
پڑھیں:
متنازعہ سر کریک پر بھارت کی پاکستان کو دھمکی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات کے روز پڑوسی ملک پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس نے سر کریک کے علاقے میں کسی بھی طرح کی جارحیت کا مظاہرہ کیا تو اس کے خلاف ایسی "جوابی کارروائی" کی جائے گی کہ وہ خطے کی "تاریخ اور جغرافیہ" کو بھی بدل سکتی ہے۔
بھارتی وزیر دفاع نے یہ باتیں گجرات کے سرحدی شہر بھج کے قریب ایک فوجی اڈے پر سینیئر فوجیوں سے خطاب کے دوران کہیں۔
انہوں نے فوجیوں کے ساتھ دسہرہ منایا اور اس موقع پر 'شستر پوجا' (ہتھیاروں کی پوجا) بھی کی۔ راج ناتھ سنگھ نے مزید کیا کہا؟بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گجرات کی سرحد پر فوجی انفراسٹرکچر کے حوالے سے پاکستان پر شدید تنقید کی اور اس حوالے سے ان کے دھمکی آمیز بیانات کو بھارتی نیوز ایجنسیوں اور ٹی وی چینلز نے تفصیل سے نشر کیا ہے۔
(جاری ہے)
واضح رہے کہ پاکستان کی جانب سے سر کریک کے علاقے میں تازہ ملٹری انفراسٹرکچر کھڑا کیا گیا ہے، جس سے بھارت برہم ہے اور اسی حوالے سے بھارتی وزیر دفاع نے پاکستان کو تازہ دھمکی دی ہے۔
واضح رہے کہ آزادی کی سات دہائیوں کے بعد بھی گجرات کی سرحد سے متصل سر کریک کا علاقہ تنازعات کا شکار ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے کہا، "سر کریک کے علاقے میں پاکستان کی طرف سے کسی بھی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جائے گا، کہ جو تاریخ اور جغرافیہ دونوں کو بدل دے گا۔
"انہوں نے مزید کہا کہ "یاد رکھنا چاہیے کہ سن 1965 کی جنگ میں بھارتی فوج لاہور تک پہنچ گئی تھی۔ آج 2025 میں پاکستان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کراچی جانے والا ایک راستہ سر کریک سے گزرتا ہے۔"
سر کریک گجرات کے رن آف کچھ اور پاکستان کے درمیان 96 کلومیٹر طویل ایک سمندری راستہ ہے۔ دونوں ملکوں کی جانب سے سمندری حدود کی مختلف تشریحات کی وجہ سے یہ ایک متنازعہ علاقہ سمجھا جاتا ہے۔
بھارتی وزیر نے دعوی کیا کہ "آزادی کے اتنے سالوں کے بعد بھی، سر کریک کے حوالے سے بھی ایک سرحدی مسئلہ اٹھایا جاتا ہے، بھارت نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کئی بار سفارت کاری کی کوشش کی، لیکن پاکستان کی نیت میں کھوٹ ہے۔ پاکستان نے جس طرح سے سر کریک کے علاقے میں ملٹری انفراسٹرکچر قائم کیا ہے اس سے اس کی نیت ظاہر ہوتی ہے۔"
انہوں نے کہا، "آرمڈ فورسز اور بارڈر سکیورٹی فورس (بی ایس ایف) بھارت کی سرحدوں کی بہت اچھی طرح سے حفاظت کر رہی ہے، اگر پاکستان نے سر کریک کے علاقے میں کوئی مہم جوئی کی، تو اسے اتنا سخت جواب ملے گا کہ تاریخ اور جغرافیہ دونوں ہی بدل جائیں گے۔
" بھارت پاک کشیدگیبھارت اور پاکستان کے درمیاں مئی میں ایک مختصر سی جنگ کے بعد سے تعلقات کشیدہ ہیں اور اس ماحول میں بھارت میں حکومت کی جانب پاکستان کے خلاف کوئی نہ کوئی بیان آتا ہی رہتا ہے۔
اس حوالے سے راج ناتھ سنگھ نے مزید دعوی کیا کہ پاکستان نے آپریشن سیندور کے دوران بھارت کے دفاعی نظام میں گھسنے کی ناکام کوشش کی لیکن بھارتی فوج نے پاکستانی فضائی دفاعی آلات کو ''بے نقاب‘‘ کر کے دنیا کو پیغام دیا کہ وہ دشمن کو بھاری نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ان کا دعوی ہے کہ "آپریشن سیندور کے دوران، پاکستان نے لیہہ سے سر کریک تک بھارتی دفاعی نظام میں گھسنے کی ناکام کوشش کی۔ تاہم، جوابی کارروائی میں، بھارتی افواج نے پاکستانی فضائی دفاعی نظام کو مکمل طور پر بے نقاب کیا اور دنیا کو پیغام دیا کہ بھارتی افواج جب اور جہاں چاہیں پاکستان کو بھاری نقصان پہنچا سکتی ہیں۔"
سر کریک تنازعہ کیا ہے؟بھارتی وزیر کے دورہ گجرات کے دوران سر کریک پر پاکستان کے خلاف دھمکی آمیز بیان کے سبب ایک بار پھر تنازعہ سر کریک سرخیوں میں ہے۔
سر کریک بھارتی ریاست گجرات اور سندھ کے درمیان 96 کلومیٹر کے کیچڑ سے بھرے، غیر آباد دلدلی علاقہ ہے اور یہ تنگ راستہ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کے درمیان سب سے پیچیدہ تنازعات میں سے ایک رہا ہے۔
یہ زمین کی ایک ویران پٹی دکھائی دیتی ہے، تاہم اس میں تیل اور گیس کے ذخائر پر کنٹرول سے لے کر بحیرہ عرب میں سمندری حدود تک بہت سے امور شامل ہیں۔
تنازعہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سمندری حدود کی تشریح میں مضمر ہے۔ آزادی سے پہلے یہ علاقہ برطانوی بھارت کا حصہ تھا اور 1947 میں آزادی کے بعد سندھ پاکستان کا حصہ بنا جبکہ گجرات بھارت کا حصہ ہے۔
سر کریک تنازعہ بھارت اور پاکستان کے درمیان سمندری حدود سے متعلق ہے۔ 1947 میں تقسیم کے بعد سندھ پاکستان کا حصہ بن گیا اور گجرات بھارت کے ساتھ رہا۔
بھارت چاہتا ہے کہ پہلے سمندری حدود کی حد بندی کی جائے اور پھر اس علاقے کا تفصیہ ہو جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ پہلے تنازعے کا حل کیا جائے اور سمندر کی حد بندی ہو۔
پاکستان 1914 کی ایک قرارداد کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ پوری کریک سندھ سے تعلق رکھتی ہے، جبکہ بھارت اپنی پوزیشن کی حمایت کے لیے 1925 کے نقشے کو پیش کرتا ہے۔
اس تنازعہ میں وقت کے ساتھ ساتھ کریک کے دھارے میں تبدیلیاں بھی شامل ہیں، جس سے دونوں ممالک کی زمینی اور سمندری حدود کی تبدیلی کے ساتھ ہی سمندری علاقوں کے متاثر ہونے کا امکان ہے۔ ظاہر ہے اسی لیے کوئی بھی فریق ایک دوسرے کے موقف کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے۔
ادارت: جاوید اختر