WE News:
2025-11-19@04:38:58 GMT

سیاسی میدان کے چیتن شرما اور جاوید میانداد

اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT

سیاسی میدان کے چیتن شرما اور جاوید میانداد

عمران خان پاکستانی سیاست کے میدان میں کم و بیش ویسے ہی وارد ہوئے جیسے میچ کے دوران گراؤنڈ میں کہیں سے کوئی کٹی پتنگ اچانک آجائے اور تماشائی کھیل دیکھنے کے بجائے اسی کے پیچھے بھاگ لیں۔

دوسری طرف شہباز شریف کا کرکٹ کے میدانوں سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں، اور ان کا اس بارے میں شاید مبلغ علم انہی واقعات پر مبنی ہو جو نواز شریف نے جناح باغ میں کرکٹ کھیلنے کے بعد شام کی چائے پر مرچ مصالحہ لگا کر انہیں سنائے ہوں۔

آمنے سامنے آنے کے بعد دونوں میں سے کس نے کیا کس کو بولڈ، اور کس نے لگایا کس کو چھکا، آئیے دیکھتے ہیں۔

سیاست عمران خان کی ایسی ہے نہ ہی شہباز شریف کی کہ آنکھیں بند کرکے یقین کیا جا سکے، دونوں میں ہی کہیں نہ کہیں کافی ’اندھیرا‘ موجود ہے اور فرق اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے، جبکہ شہباز شریف کا انداز بتاتا ہے کہ کھیل کر نکالیں گے۔

ذرا ’سیم پیج‘ والے دور پر نگاہ ڈالیے کوئی سوچ سکتا تھا کہ طاقت کے اس مُڈھ کو اگلے کم سے کم 10 سال تک ہلایا بھی جا سکے گا۔

پھر صورت حال بدلی اور بدلتی چلی گئی ہے بمع سیم پیج کے، بلکہ اب تو صورت حال ٹچ بٹنوں کی جوڑی والی ہے۔

تقریباً ڈھائی سال سے کپتان جیل میں ہیں لیکن بہرحال ان کی پارٹی بطور اپوزیشن پارلیمنٹ میں موجود رہی جبکہ کے پی میں ان کے حکومت بھی ہے بارہ سال سے۔

پچھلے دنوں صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت آئی جب ان کی ہمشیرہ نے افسوس سے کہا کہ ’وہ مائنس ہو گئے ہیں‘ اور اب تو مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا ہے اور کے پی میں جے یو آئی اور ن کی مخلوط حکومت کی چہ میگوئیاں ہی نہیں ہو رہیں راہ بھی ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔

یعنی تقریباً ویسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے جیسی 1986 میں ایشیا کپ کے فائنل میں شارجہ میں تھی۔ انڈین بولر چیتن شرما بال کرا رہے تھے اور کریز پر جاوید میانداد موجود تھے۔ آخری گیند تھی اور چار سکور چاہیے تھے۔

اس کے بعد میچ میں کیا ہوا بتانے کی ضرورت نہیں اور جاوید میانداد نے اچھے خاصے ٹیلنٹڈ بولر کا بوریا بستر گول کر دیا۔

اگرچہ اس کے بعد بھی چیتن شرما کرکٹ کھیلتے رہے اور ایک موقع پر ہیٹ ٹرک بھی کی تاہم شارجہ والا واقعہ ان کے کیریئر کو کسی لہسوڑے کی طرح چمٹ گیا اور وہ کب ختم ہوا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔

اب اس صورت حال کو ذرا سیاست کے تناظر میں دیکھیے تو کچھ ایسی تصویر ابھرتی ہے کہ عمران خان آپ کو اسی انڈین بولر کی طرح دکھائی دیں گے جس کا تجربہ پاکستانی بلے باز سے کم تھا، کچھ ایسا ہی معاملہ عمران خان اور شہباز شریف کے ساتھ بھی ہے۔

چیتن شرما بھی شروع میں جلدی مہشور نہ ہو سکے تھے مگر پھر آگے بڑھتے گئے بالکل اسی طرح عمران خان بھی اگرچہ 90 کی دہائی کے وسط میں سیاست میں قدم رکھ چکے تھے تاہم زیادہ مقبول نہ ہو سکے اس دوران انہوں نے پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیا۔

بہرحال بے نظیر بھٹو شہادت کے بعد 2008 میں جب پی پی کو حکومت ملی تو یکدم ان کی مقبولیت بڑھنے لگی اور کچھ برس بعد لاہور مینار پاکستان کا وہ مشہور جلسہ ہوا جس نے ملکی سیاست کا رخ بدل دیا۔

 2013 کے الیکشن میں وہ مرکز میں تو حکومت میں نہ آ سکے، تاہم کے پی ضرور حاصل کر لیا۔ اس دوران وہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت پر مسلسل احتجاج کے تازیانے برساتے رہے اور ’سیاسی کزن‘ کی معیت میں 126 روز والا مشہور دھرنا بھی دیا۔

قصہ مختصر 2018 کے الیکشن میں وہ مرکز، پنجاب، خیبرپختونخوا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اونچی اڑان میں رہے۔

اب پھر پلٹیے میچ کی طرف، جاوید میانداد کے ساتھ سپن بولر توصیف احمد کریز پر موجود تھے اور سیکنڈ لاسٹ گیند کا سامنا بھی وہی کر رہے تھے، اس سے قبل جاوید میانداد نے ان کے قریب جا کر کان میں کچھ کہا تھا جو سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ کسی طرح ایک رن لے کر مجھے سامنے آنے دو۔ ایسا ہی ہوا اور پھر آئے جاوید میانداد چیتن شرما کے مقابل۔

جب آخری گیند ہو اور چار سکور چاہیے ہوں تو صرف بلے باز ہی نہیں بولر پر بھی کافی پریشر ہوتا ہے اور وہ بھی کسی ایسے ملک کے خلاف جس کو صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے میدانوں میں بھی حریف سمجھا جاتا ہو۔

جاوید میانداد کئی بار انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ بات چوکے سے بھی نہیں بننی تھی اور صرف چھکے کی آپشن تھی اس لیے یہی سوچا تھا کہ کسی طرح بال کو باؤنڈری کے باہر پھینکا جائے۔

دوسری جانب چیتن شرما کو بھی اس بات کا احساس تھا اس لیے انہوں نے تیز ترین گیند کرانے کا نہ صرف سوچا بلکہ اس پر عمل بھی کیا اور اس کوشش میں فل ٹاس کرا دی جو جاوید میانداد جیسے بلے باز کے مقابل ایسی غلطی تھی کہ خمیازہ رکنے والا نہیں تھا۔

اس میچ کی صورت حال کا سیاسی میدان سے موازنہ کرنے پر کچھ لوگ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ چیتن شرما نے تو لوز گیند پھینکی تھی، سیاست میں عمران خان نے ایسا موقع کب دیا تو عرض ہے کہ انہوں نے ایک نہیں دو، دو پھینکیں۔

جب ان کو عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں کرسی سے اتارا گیا اور بقول ان کے حامی یوٹیوبرز کے ’وہ صرف ڈائری اٹھا کر چلتے بنے‘ تو اس کے بعد ہی انہوں نے وہ فل ٹاس پھینک دی تھی جس پر چھکے جیسی صورت حال بنی۔

ذرا یاد کیجیے کہ جب مرکز میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں ان کی حکومتیں موجود تھیں، جن کو انہوں نے خود ہی تحلیل کیا اور یہی تھی پہلی حلوہ بال۔

اب ذرا یہ خیال ذہن میں لائیے کہ مرکز سے نکلنے کے بعد بھی وہ ان حکومتوں کو برقرار رکھتے تو کیا صورت بنتی، یہی کہ ان کی پوزیشن مستحکم ہوتی۔ وہ اپنی ساری توجہ ان حکومتوں پر مرکوز کرتے اور ایسا کچھ کر کے دکھاتے کہ مرکز میں ان کی کمی محسوس کی جاتی اور کے پی میں بیٹھ کر شاید گرفتاری سے بھی بچے رہتے۔

اس طرح شاید ان کو وہ لانگ مارچ بھی نہ کرنا پڑتا جس میں مبینہ طور پر گولی کھانے کے باوجود بھی وہ ہمدردی نہ سمیٹ سکے جو ایسے لیڈرز کے حصے میں آیا کرتی ہے۔

ان کا یہ داؤ بھی رائیگاں چلا گیا کہ 3 مہینے کے اندر الیکشن ہو جائیں گے اور مجموعی طور پر پوری سیاسی فضا ان کے خلاف بنتی چلی گئی یہ اور بات کہ وہ سیاسی طور پر مقبول رہے اور الیکشن میں بلے کے نشان کے بغیر بھی خیبرپختونخوا میں کلین سویپ کرنے میں کامیاب رہے۔

مگر تیسری دنیا کے ممالک میں صرف مقبولیت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، بلکہ فل ٹاس ٹائپ گیندوں سے بھی گریز کرنا پڑتا ہے، جن میں سے ایک تو وہ کرا چکے تھے دوسری ’نو مئی‘ کی شکل میں کرا دی۔

پس ثابت ہوا کہ عمران خان سیاست کے چیتن شرما ہیں اور شہباز شریف جاوید میانداد، چھکا وہاں بھی لگا اور یہاں بھی، فرق اگر کچھ ہے تو شاید امپائرز کا ہو۔

نوٹ: جو دوست عمران خان کو ایک انڈین بولر سے تشبیہہ دینے پر معترض ہوں وہ 87 کے ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں سلیم جعفر اور شہباز شریف کو رچرڈ بھی سمجھ سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جاوید خان

جاوید میانداد سابق وزیر اعظم نواز شریف عمران خان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: جاوید میانداد سابق وزیر اعظم نواز شریف جاوید میانداد شہباز شریف چیتن شرما صورت حال انہوں نے ہی نہیں ہے اور کے بعد

پڑھیں:

عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان

سٹی 42: بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے کہا ہے کہ  عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے، 27ویں ترمیم کے ذریعے آپ سے انصاف کا حق لے لیاگیا،صرف پی ٹی آئی نہیں پوری پاکستانی عوام پر ظلم ہے۔

 اولپنڈی فیکٹری ناکے کے قریب گفتگو کرتے ہوئے علیمہ خان کا کہنا تھاکہ ہم احتجاج بانی پی ٹی آئی کے حقوق کے لیے کر رہے ہیں،بانی پی ٹی آئی کا حق ہے فیملی اور وکلا سے ملاقات کریں۔  ان کا کہنا تھا کہ دو ہفتوں سے نورین خانم کی ملاقات ہورہی،میری ملاقات نہیں ہونے دی جارہی،یہ لوگ ڈرے ہیں،بانی کا پیغام نہ باہر آجائے۔ 

صوبہ بھر میں ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کا سلسلہ تیزی سے جاری

 27 ترمیم کے بعد حالات بدل گئے  لگتا ہے 28 ترمیم کے بعد بلڈنگ ختم ہو جائے گئی،جہاں سے فیصلہ آنا ہوگا آجائے گا۔بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کا کہنا ہے پاکستان میں ایک ظالم نظام رائج کیا جارہا ہے  عوام کی آواز کو بند کیا جارہا ہے، 27ویں ترمیم جس کے ذریعے آپ سے انصاف کا حق لے لیا جائے صرف پی ٹی آئی نہیں پوری پاکستانی عوام پر ظلم ہے  اگر اس کے خلاف قوم کھڑی نہ ہوئی تو پھر بھیڑ بکریاں بنا دی جائے گی،عمران خان نے یہ بارہا کہا ہے کہ اپنے حقوق کے لیے آپ کو کھڑے ہونا پڑے گا آپ مانگے گے تو ہی حق ملے گا۔

دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لئے پر عزم ہیں،پوری قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے:وزیراعظم

 اگر پچھلا دور ہوتا اور کورٹ کے حکم عدولی ہوتی تو یہاں پولیس اور آئی جی کی لائن لگی ہوتی،پہلے توہین عدالت کا ایک ڈر ہوا کرتا تھا، آج کل لوگ مذاق سمجھتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے لوگ قانون کے مطابق چلے ہیں،اسی امید میں پی ٹی آئی ہائیکورٹ اور اب سپریم کورٹ میں بھی پٹیشن داخل کر رہی ہے ۔

 علیمہ خان کا مزید کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے ،بانی پی ٹی آئی اس وقت قید میں ہیں ہم نے انہیں رہا کروانا ہے انہوں نے ہمیں نہیں بتانا کس طرح کرنا ہے،انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر ہماری جکہ پی پی پی یا ن لیگ کے لوگ ہوتے تو کیا ان کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہوتا؟؟اور ان کو روکا جاتا 
علیمہ خان  نے دعویٰ کیاکہ بانی پی ٹی آئی کی جماعت پر امن ہے ہم یہاں آتے ہیں اور انتظارِ کرتے اور واپس چلے جاتے ہیں،آج ہم نے کہا ہے کہ بے شک پرچے دو یا ہم سب کو جیل میں ڈال دو ہم نہیں گھبراتے آج ہم کو اگر ملاقات کی اجازت نہ ملی تو یہاں سے نہیں اٹھیں گے،عمران خان کو قید تنہائی میں رکھنا غیر قانونی ہے۔

 مودی سرکار کو بڑا دھچکا,بھارتی شہریوں پر بغیر ویزا ایران میں داخلے پر پابندی عائد

متعلقہ مضامین

  • عمران خان اپنی منصوبہ بندی پارٹی کو دے چکے،اب پارٹی نے فیصلہ کرنا ہے؛ علیمہ خان
  • لسانیات کا چورن بیچنے والے ہمیشہ روتے ہی رہیں گے‘سعدیہ جاوید
  • عمران خان کی وجہ سے 27ویں ترمیم کی گئی‘رہائی ممکن ہے بھی اور نہیں بھی
  • ابو ظہبی میں کرکٹ کا میدان سج گیا
  • ابوظہبی میں کرکٹ کا میدان سج گیا، کل سے ٹی 10 لیگ کا شاندار آغاز
  • لسانیات کا چورن بیچنے والے ہمیشہ روتے ہی رہیں گے، سعدیہ جاوید
  • لسانیات کا چورن بیچنے والے ہمیشہ روتے ہی رہیں گے: سعدیہ جاوید کا مصطفیٰ کمال کی پریس کانفرنس پر ردِعمل
  • وی ایکسکلوسیو، حکومت سیاسی درجہ حرارت میں کمی پر متفق، پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ جلد ہوگا، فواد چوہدری
  • جنات، سیاست اور ریاست
  • عمران خان اتنے ننھے کاکے نہیں کہ گھر میں سب کچھ ہورہا ہو اور اسکا علم نہ ہو: سابق گورنر سندھ