دوسری شادی کی اجازت کیوں نہ دی، شوہر کے ہاتھوں بیوی کا قتل
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں واقع کلی لنڈی کی تنگ و تاریک گلیوں میں ایک گھریلو جھگڑا خوفناک سانحے میں بدل گیا۔
پولیس کے مطابق شوہر نے اس وقت بیوی پر فائرنگ کر دی جب اس نے اسے دوسری شادی کی اجازت دینے سے انکار کیا، گولی لگتے ہی خاتون نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بلوچستان: اغواکاروں نے اسسٹنٹ کمشنر زیارت کو بیٹے سمیت قتل کردیا
ایف آئی آر کے مطابق شوہر کافی عرصے سے بیوی پردوسری شادی کے لیے دباؤ ڈال رہا تھا مگر وہ مسلسل انکار کرتی رہی۔
اسی انکار نے پیر کی شام اچانک ایک تلخ بحث کو جان لیوا انجام تک پہنچا دیا، قتل کے اس واقعے کی خبر پھیلتے ہی محلے بھر کی فضا سوگوار ہوگئی۔
پولیس کے مطابق ملزم نے جرم کے بعد بیوی کی لاش کو خاموشی سے بوستان قبرستان میں دفنانے کی کوشش کی، مگر اطلاع ملنے پر پولیس نے موقع پر پہنچ کر تدفین ناکام بناتے ہوئے ملزم شوہر کو گرفتار کر لیا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد میں قتل کی انوکھی واردات میں ملوث جوڑا 3 سال بعد کیسے گرفتار ہوا؟
مقتول خاتون کی لاش سول اسپتال کوئٹہ منتقل کردی گئی، جہاں پوسٹ مارٹم میں خاتون کے جسم پر تشدد کے نشانات کی بھی تصدیق ہوئی۔
کلی لنڈی محلے کے رہائشی قتل کی اس واردات پرغم و غصے کی کیفیت سے دوچار ہیں، پولیس نے ملزم کو مزید تفتیش کے لیے سیریئس کرائم انویسٹی گیشن ونگ کے حوالے کر دیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انویسٹی گیشن بیوی دوسری شادی شوہر قتل کلی لنڈی کوئٹۃ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انویسٹی گیشن بیوی شوہر قتل کلی لنڈی کوئٹۃ
پڑھیں:
بھارت: ’آئی لو محمد‘ تنازعہ کیا ہے اور مسلمان احتجاج کیوں کر رہے ہیں؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 ستمبر 2025ء) بھارت کے شہر کانپور میں اس ماہ کے اوائل میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران ’آئی لو محمد‘ (مجھے پیغمبر اسلام محمد سے محبت ہے) کے نعرے پر پہلی بار تنازعہ شروع ہوا تھا، جو اب ملک کی کئی ریاستوں تک پھیل چکا ہے اور مسلمان پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنے کے ساتھ ہی جلوس بھی نکال رہے ہیں۔
ریاست اتر پردیش میں پولیس نے اس سلسلے میں گزشتہ روز بھی درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے اور اطلاعات کے مطابق کئی علاقوں میں پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے سبب ہی اب اس معاملے پر سیاسی رہنماؤں اور مذہبی تنظیموں کی توجہ مبذول ہوئی ہے۔
آئی لو محمد پر تنازعہ کیوں؟’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘ جیسا نعرہ اچانک پورے ملک میں عوامی تحریک اور بدامنی کا باعث کیسے بن گیا؟
اس تنازعے کا آغاز ستمبر کے پہلے ہفتے میں بارہ ربیع الاول کے جلوس کے دوران کانپور میں ہوا تھا۔
(جاری ہے)
جلوس کے دوران راستے میں ’آئی لو محمد‘ کا بھی ایک بینر لگایا گیا، جس پر مقامی ہندوؤں نے یہ کہہ کر اعتراض کیا کہ ان تقریبات کے لیے روایتی طور پر استعمال ہونے والے مقام پر یہ ایک ''نئی روایت یا اصطلاح‘‘ متعارف کرائی جا رہی ہے۔اس موقع پر ہندوؤں کی جانب سے کی جانے والی شکایت پر پولیس نے فوری طور پر مداخلت کی اور کہا کہ ملکی قوانین مذہبی جلوسوں میں نئی رسم و رواج کو متعارف کرانے کی اجازت نہیں دیتے ہیں اور اسی لیے اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر درج کر لی گئی۔
پولیس حکام کا موقف ہے کا مقدمہ ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینر کے خلاف نہیں بلکہ دو فرقوں کے درمیان اختلاف کے سبب درج کیا گیا تھا۔ تاہم اس کے بعد تنازعہ اس وقت اور شدت اختیار کر گیا جب ہندو اور مسلم دونوں گروپوں نے ایک دوسرے پر متنازعہ پوسٹرز پھاڑنے کا الزام عائد کیا۔ اس موقع پر بتایا گیا ہے کہ پولیس نے ثالثی کی کوشش بھی کی تاہم جو کامیاب نہیں ہو سکی۔
ایک ہفتے بعد کانپور پولیس نے 24 افراد کے خلاف ایک نیا رواج متعارف کرانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے الزام میں مقدمات درج کیے۔ مسلمانوں نے پولیس کی اس کارروائی پر جانب داری کا الزام عائد کیا اور مقامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔
اس پر رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بطور احتجاج ایک پوسٹ شیئر کی اور لکھا کہ ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ کہنا جرم نہیں ہے۔
انہوں نے پولیس کی کارروائی پر بھی تنقید کی، جس سے وسیع تر بحث چھڑ گئی۔پولیس کی کارروائی کے تناظر میں یو پی میں مسلم نوجوانوں نے جلوس نکالے جن میں مظاہرین ’’آئی لو محمد‘‘ کے بینرز بھی اٹھائے ہوئے تھے۔ اس دوران کچھ جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں پولیس نے پھر کئی مقدمات درج کیے اور گرفتاریاں ہوئیں۔
حکومت کی جانب سے سختی برتنے کے خلاف مسلمانوں نے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا جو دیکھتے ہی دیکھتے اتر پردیش کے مختلف اضلاع تک پھیل گیا اور اب یہ سلسلہ مہاراشٹر، اترا کھنڈ اور گجرات سمیت متعدد ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔
مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ تفریقی برتاؤ ہو رہا ہے اور مذہب کے نام پر دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سیاست دانوں اور مذہبی رہنماؤں کا ردعملسماج وادی پارٹی کے ترجمان ابھیشیک باجپئی کا کہنا ہے کہ پولیس کی ناکامی نے اس احتجاج کو جنم دیا ہے اور پارٹی نے اظہار رائے کی آزادی کا دفاع کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ چاہے وہ ’’میں رام سے محبت کرتا ہوں‘‘ ہو یا ’’میں محمد سے محبت کرتا ہوں‘‘ سب کو اس کی آزادی ہونی چاہیے۔
بی جے پی کے ترجمان نے پولیس کی کارروائی کا دفاع کیا ہے اور کہا ہے کہ پولیس کو نشانہ بنانے یا قانون کی خلاف ورزی کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے گا۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد الدین اویسی نے اس معاملے کو مذہبی آزادی اور اظہار رائے کا معاملہ قرار دیا۔
دیگر مذہبی رہنماؤں نے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھتے ہوئے آئینی حقوق کا احترام کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔