دنیا میں دماغی بیماریاں بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایک سروے کے مطابق جو2021 ء میں ہوا دنیا میں 3.4ارب لوگ دماغی بیماریوں کا شکار ہیں۔ جو دنیا کی کل آبادی کا 43فیصد بنتا ہے ۔ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کسی نے کسی دماغی بیماری میں مبتلا ہے۔
اس بات کی تصدیق برطانوی اخبار گارجین نے بھی کی ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ دنیا کا ہر تیسرا بندہ کسی نہ کسی دماغی خرابی کا شکار ہے ۔ دماغی بیماریاں دوسری بیماریوں سے مختلف ہوتی ہیں ۔ وہ اس طرح کہ دماغی بیماری آہستہ آہستہ سے اس طرح اثر انداز ہوتی ہے کہ انسان کو اس کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ایک اور اسٹڈی بتاتی ہے کہ الزائمر بیماری 40سال کی عمر سے شروع ہو جاتی ہے جس کا پتہ انسان کو 70سال کی عمر میں چلتا ہے ۔ وجہ اس کی ہمارا ماڈرن لائف اسٹائل ہے جو ہمارے دماغ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
اب اس میں ایک ہوشربا ٹیکنالوجی کا اضافہ ہو گیا ہے جسے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کہتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ ٹیکنالوجی انتہائی آہستگی سے ہمارے دماغ کو ہلاک کررہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خطرے سے بچاؤ کس طرح ممکن ہے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم AIکا اس طرح استعمال کریں کہ ہمارا دماغ محفوظ رہ سکے ۔اس سلسلے میں ایک ریسرچ MITنے 56افراد پر کی اس ریسرچ کے شاکنگ اثرات پوری دنیا میں محسوس کیے گئے۔
اس ریسرچ میں تین گروپس بنائے گئے ۔ پہلے گروپ کو چیٹ GPT دیا گیا۔ دوسرے کو گوگل ۔ تیسرے کو کہا گیا کہ آپ نے خود ہی ریسرچ کرنی ہے ۔ مضمون لکھنے کے لیے 4مہینے کا عرصہ دیا گیا اس کے دوران ان کے دماغ پر الیکٹروڈز لگائے گئے ۔ دیکھا گیا کہ دماغ کی ایکٹیوٹی کیا ہے۔
دماغ کے 32مختلف حصوں کو مانیٹر کیا گیا اس کے بعد جو رزلٹ آئے اس سے یہ انکشاف ہوا کہ جن لوگوں نے چیٹ GPTکی مدد لی۔اور وہ لوگ جنھوں نے خود ریسرچ کی وہ چیٹ GPTکی مدد حاصل کرنے والوں کے مقابلے میں 47فیصد زیادہ بہتر پائے گئے۔ دماغ کی ایک اسٹڈی بتاتی ہے کہ انسانوں میں اس کی مثال ایک کمسن بچے کی ہے جو کم ذہین ہوتا ہے جو اپنی ماں کو اس طرح کنٹرول کرتا ہے کہ ماں اس کی ہر وقت دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہے ۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر ڈینئل ایمن قابل ذکر ہیں۔یہ پہلے سائیکاٹرسٹ ہیں جنھوںنے 2,70,000لوگوں کا دماغ سکین کیا ۔ انھوں نے بتایا کہ چیٹGPTکا استعمال اور اس طرح کے باقی سافٹ وئیر کا استعمال ہمیں ڈائی مینشیا بیماری کی طرف بڑی تیزی سے لے کر جارہا ہے ۔ نیورو سائنس کا اصول ہے کہ Use it or Lose it یعنی دماغ کے جن حصوں کا استعمال کم ہوتو دماغ کا وہ حصہ آہستہ آہستہ ناپید ہونا شروع ہو جاتاہے ۔
اس کے بعد ہم دماغی بیماریوں کا شکار ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ٹیری ڈیپ لرننگ کے اور بائیلوجیکل اسٹڈی کے پروفیسر اور مختلف علوم کے ماہر ہیں۔ان کا ایک کورس 2013میں آیا تھا جو دنیا کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کورس تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ چیٹ GPTکو ہمیں ایک استاد یا کوچ کی طرح دیکھنا چاہیے ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم چیٹ GPTسے ہر طرح کے سوال کریں ، بحث ومباحثہ کریں اس طرح ہماری دماغی صلاحیت میں اضافہ ہو گا نہ کہ چیٹGPTہمیں بغیر کسی دماغی مشقت کے سب کچھ بنا کر پیش کردے اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم دماغی کمزوری کا شکار ہو جائیں گے ۔
1990میں ڈنمارک میں 943000لوگوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے مانیٹر کیا گیا جس میں پتہ چلا کہ ان بچوں میں نیوروڈس آرڈر 55فیصد تک کم پایا گیا ۔ جہاں بچے جو روز کسی نے کسی گارڈن یا سبزے سے گذر کر جاتے تھے یا جہاں ہریالی ہوتی تھی وہاں نیوروڈس آرڈر کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں ۔ کیونکہ ہریالی ہمارے بچوں کی دماغی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ ہمارے بچوں کے دماغ کو دوبارہ سے جوان بنا سکتی ہے۔ مستقبل میں ذہنی بیماریوں سے بچنے کا یہی ایک طریقہ ہے ورنہ بچے جوانی ہی میں ذہنی بیماریوں کا شکار ہو سکتے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلمانوں کا مستقبل
اب دوسرا سوال جو میں نے آپ کے سامنے چھیڑا ہے، اس کا جواب میں چند الفاظ میں دوں گا۔ سوال یہ تھا کہ اسلام اس زمانے میں دنیا میں غالب آسکتا ہے یا نہیں؟ دنیا کی قومیں اس کو قبول کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرسکتی ہیں تو کیسے؟ اور اسلام اس زمانے میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ یہ سوال آج کل بڑی کثرت سے چھیڑا جاتا ہے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی زمانے میں بھی زمانے نے خود آگے بڑھ کر نہیں کہا تھا کہ میں اسلام کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ رسول کریمؐؐ نے جب عرب کی جاہلی سوسائٹی میں اسلام کی دعوت دی تھی تو کب زمانے نے اُٹھ کر، پکار کے یہ کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تمھاری اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل انحصار تو اس طاقتور اور مضبوط داعی پر ہوتا ہے جو یہ کہے کہ ’’اے زمانے! اگر تو مجھ سے موافقت نہیں کرتا تو میں تجھے موافق بنا کر چھوڑوں گا‘‘۔
اسی طرح یہ سوال بھی بالکل لغو ہے کہ اسلام آج قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک قابلِ عمل رہے گا۔ اصل سوال جس پر انحصار ہے وہ یہ ہے کہ کیا کوئی قوم دنیا میں ایسی موجود ہے کہ جو پورے کے پورے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہو؟ جیسا کہ میں نے آغاز میں بتایا تھا کہ ہماری تاریخ کا آغاز ہی اس چیز سے ہوا تھا کہ عرب کی پوری کی پوری قوم اس بات کے لیے تیار ہوگئی تھی کہ اپنے پورے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی نظام کو اسلام پر قائم کرے، اپنی انفرادی سیرتوں اور اجتماعی احوال کو اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس نے عہد کیا تھا کہ دنیا میں اسلام کی علَم بردار بن کر اُٹھے گی، اسی کے لیے جیے گی اور اسی کے لیے مرے گی۔
جب ایک ایسی قوم دنیا میں پیدا ہوگئی تو دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ دنیا پر بم کی طرح پھٹی! اور کس طرح دنیا پر اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اگر اس طرح سے کوئی قوم پوری طرح سے اسلام کو اپنائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اس کے مطابق چلائے اور اسی کے لیے جینے اور مرنے کو تیار ہو، تو میرا خیال ہے کہ آج دنیا اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
لوگوں کے لیے ناممکن ہے کہ چلتے پھرتے اسلام کو دیکھیں اور اس کو قبول نہ کریں۔ البتہ اگر آپ زبانی تقریروں اور کتابوں کے ذریعے سے اسلام پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو قیامت تک آپ یہ ’شغل‘ جاری رکھیے، دنیا کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہوگا کہ اسلام قابلِ عمل بھی ہے۔
٭—٭—٭
اب آخر میں دل کی بات بھی آپ سے عرض کیے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ مجھے اس قوم میں پیدا کیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ قوم، یہی قوم ہی ہو۔ میری سیاست ہے تو یہی ہے، میرا مذہب ہے تو یہی ہے، میری ساری کوششوں کا مدعا یہی ہے کہ یہ قوم جس کے اندر میں پیدا ہوا ہوں، پوری طرح سے اسلام کو اپنا لے اور اپنی زندگی میں چلتا پھرتا اسلام دکھا دے۔ (اسلام عصرِحاضر میں)