ٹرمپ کا غزہ امن فارمولا: اسرائیل نوازی برقرار، فلسطینی ریاست نظرانداز
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: غزہ پر مسلط اسرائیل کی تباہ کن جنگ کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ان کے پیش کردہ بیس نکاتی امن منصوبے کو قبول کرلیا ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے اس دن کو تاریخی قرار دیا اور کہا کہ اگر حماس بھی اس پر راضی ہوجائے تو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی ممکن ہے اور جنگ بندی فوراً نافذ ہوجائے گی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے فلسطینیوں کو دھمکی دی کہ اگر 3 دن کے اندر حماس نے ان کی شرائط نہ مانیں تو اسرائیل کو طاقت کے استعمال کا حق ہوگا اور امریکا اس میں بھرپور معاونت کرے گا۔
ٹرمپ نے مزید دعویٰ کیا کہ عرب اور مسلم دنیا غزہ کو غیر عسکری زون بنانے پر متفق ہوگئی ہے، جہاں ایک عبوری انتظامی ڈھانچہ قائم کیا جائے گا اور اسرائیلی فوج کے انخلا کے لیے مرحلہ وار ٹائم لائن طے کی جائے گی۔
انہوں نے بورڈ آف پیس کے نام سے ایک بین الاقوامی ادارے کے قیام کا اعلان کیا، جس کے سربراہ وہ خود ہوں گے اور جس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت دیگر مغربی شخصیات شامل ہوں گی۔ یہ ادارہ غزہ کی تعمیر نو اور فنڈنگ کا ذمہ دار ہوگا، جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے اصلاحاتی پروگرام مکمل نہ کرلے۔
اگرچہ ٹرمپ اپنے منصوبے کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، مگر اس حقیقت کو نظر انداز کر گئے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اب بھی فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم کرنے سے صاف انکار کردیا ہے۔
نیتن یاہو پہلے بھی اقوام متحدہ میں فلسطینی ریاست کے تصور کو مغربی ممالک کی پاگل پن کی سوچ قرار دے چکے ہیں۔ اس منصوبے میں بھی فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت اور آزاد ریاست کے مطالبے کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں جوبائیڈن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ہمیشہ سوئے رہنے والے بائیڈن کبھی غزہ کا مسئلہ حل نہیں کر پاتے۔ ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ اس وقت اقتدار میں ہوتے تو یہ جنگ کبھی شروع نہ ہوتی۔ انہوں نے اپنے منصوبے کو خطے کے امن کے لیے بڑی پیش رفت قرار دیا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے فلسطینی عوام کو مزید بے اختیار کیا جا رہا ہے اور اسرائیل کو مزید رعایتیں مل رہی ہیں۔
یہ پیش رفت ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے کہ عالمی طاقتیں امن کے نام پر ایسے معاہدے سامنے لا رہی ہیں جن میں اصل اسٹیک ہولڈر یعنی فلسطینی عوام کی آواز کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم کیے بغیر کسی بھی امن منصوبے کو پائیدار یا قابل قبول قرار نہیں دیا جا سکتا۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
پاکستان کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیرمقدم
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 04 اکتوبر2025ء)پاکستان نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کردہ منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے ہفتے کو جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فوری جنگ بندی کو یقینی بنانے، غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے خون خرابے کو ختم کرنے، یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کو یقینی بنانے اور دیرپا امن کی جانب قابل اعتماد سیاسی عمل کی راہ ہموار کرنے کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل فوری طور پر حملے بند کرے۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان غزہ میں امن کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتا ہے اور امید کرتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پائیدار جنگ بندی اور ایک منصفانہ، جامع اور دیرپا امن قائم ہوگا۔(جاری ہے)
انہوں نے کہا کہ پاکستان اس عمل میں تعمیری اور بامعنی تعاون جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان فلسطینی کاز کے لیے اپنی اصولی حمایت کا اعادہ کرتا ہے، پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ ان کے ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کیلئے ان کی منصفانہ جدوجہد میں مکمل یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے جس کے تحت بین الاقوامی قانونی جواز اور اقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے مطابق 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مبنی ایک خودمختار، قابل عمل اور متصل فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہوگا۔