بچے کھیل کے بانی ہیں، بڑوں نے یہ راز انہی سے سیکھا تھا کہ کھیل تعلق اور قربت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ماہرین بشریات تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بڑوں نے شکار کرنا بھی بچوں کے کھیل سے سیکھا تھا۔ یہ بچے تھے جو کوئی چیز کسی چیز پر پھینک کر اس کا لطف لیتے۔ نشانہ اکثر خطا ہوتا مگر جب ٹارگٹ ہٹ ہوجاتا تو ان کی خوشی آسمان کو چھوتی۔ یہ راز بھی بڑوں نے بچوں سے ہی سیکھا تھا کہ کھیل سے جڑے جھگڑے بس کھیل کے میدان تک ہی رہتے ہیں۔ یہ میدان سے باہر کے تعلقات پر منفی اثر نہیں ڈالتے۔ جو بچے آج کھیلتے ہوئے کسی بات پر الجھے، وہی اگلے دن کھیل کا پھر سے لطف لیتے دیکھے گئے۔
اگر غور کیجیے تو خود بچہ کھیل کسی سے نہیں سیکھتا۔ بالکل ابتدائی سطح پر وہ بس کسی چیز کو پہلے اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کوشش اسے کھیل کے لطف سے یوں آشنا کر دیتی ہے کہ جس شئی کو ابھی دونوں ہاتھوں میں لیا تھا وہ اگلے ہی لمحے چھوٹ گئی۔ پھر سے حصول اور پھر سے چھوٹنا اس کے لیے ایک دلچسپ تجربہ بن گیا۔ اور یوں شروع ہوجاتے ہیں عمر کے ساتھ ساتھ کھیل کے اگلے مراحل سر ہونا۔ مگر قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ جس چیز کا آغاز اس کے لیے عقلی نہیں بلکہ محض فطری بات تھی، وہی اگلے مراحل میں اسے مذاکرات جیسا عقلی عمل سکھانے کے کام آتی ہے۔ ادھر ساتھی بچوں کے ساتھ دوران کھیل کوئی اختلاف ہوا، ادھر ہر بچہ اپنی اپنی دلیل کے ساتھ اپنا مؤقف منوانے کی کوشش میں لگ گیا، اور مذاکرات کار بچے بالآخر مسئلہ حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
یہی سب دیکھ کر بڑوں نے بھی اپنے لیے کچھ کھیل ترتیب دے ڈالے، جن کا معاشرے پر زبردست مثبت اثر پڑا، اور یہی چیز وقت کے ساتھ ساتھ اتنی ترقی کر گئی کہ کھیل کو بین الاقوامی تعلقات میں بھی کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی۔ اس کی مدد سے قوموں کے بیچ بڑھ جانے والے سیاسی درجہ حرارت کو کنٹرول میں لانے کی کامیاب کوششیں ہوئیں۔ ان کوششوں کی اہمیت اس حد تک مسلم رہی کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد جلد ہی 1952 کے ہلسنکی اولمپکس میں جرمنی اور جاپان کو پھر سے شامل کیا گیا۔ جس سے نہ صرف یہ کہ ان ممالک کے اپنے سابق دشمنوں سے تعلقات میں بہتری آنی شروع ہوئی بلکہ جرمن اور جاپانی قوم کا اعتماد بحال ہونے میں بھی زبردست مدد ملی۔
بین الاقوامی تعلقات میں کھیلوں کے مثبت اثر کو دو بڑی مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ’پنگ پانگ ڈپلومیسی‘ کا حوالہ تو سنا ہی ہوگا؟ کوریا کی جنگ کے بعد سے امریکا اور چین کے تعلقات شدید قسم کی سرد مہری کا شکار تھے۔ دونوں ممالک ایک دوسرے سے لاتعلق بیٹھے تھے، جب پاکستان نے ان کے بیچ پل کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا تو دونوں ممالک کے بیچ کسی باضابطہ سیاسی رابطے سے قبل کوئی ایسا قدم اٹھانا ضروری سمجھا گیا جس سے ایسا ماحول بن جائے کہ لگے دونوں قوموں کے بیچ ’کنکشن‘ موجود ہے، اور اگلے مرحلے میں دونوں ہی قوموں کو سیاسی رابطے کی خبر خوشگوار کیفیت سے دوچار کردے۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی ٹیبل ٹینس ٹیم کو دورہ چین کی دعوت دی گئی، اور یہ سب اتنی تیزی سے کیا گیا کہ 6 اپریل 1971 کو امریکی ٹیم کو باضابطہ دعوت نامہ جاری ہوا، اور 10 اپریل کو ٹیم بیجنگ پہنچ گئی۔ 10 روزہ دورے کے دوران امریکی ٹیم مختلف چینی شہروں میں چائنیز ٹیبل ٹینس ٹیم سے کھلی۔ جس سے دونوں ممالک کے بیچ سفارتی رابطے کی راہ ہموار ہوگئی۔
دوسرا واقعہ خود ہماری قومی تاریخ کا ایک یادگار حصہ ہے۔ جنرل ضیا کی 1987 والی ’کرکٹ ڈپلومیسی‘۔ وہ دورہ ایسے ماحول میں ہوا تھا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق ان دنوں جاری انڈین ملٹری کی براس ٹیک مشقیں محض فوجی مشقیں نہ تھیں بلکہ یہ پاکستان پر حملے کی تیاری تھی۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس شدید کشیدگی کے دوران بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا دورہ انڈیا جاری تھا۔ یعنی اس کشیدگی میں بھی اسپورٹس تعلقات معمول کے مطابق قائم تھے۔ انہیں سیاست کی نذر نہ کیا گیا تھا۔ چنانچہ اسی کا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیا جے پور ٹیسٹ دیکھنے پہنچ گئے۔ جنرل ضیا بڑے ’اللہ والے‘ تھے۔ وہ راجیو گاندھی کے کان میں کچھ ایسا دم پھونک آئے جس سے امن قائم ہوگیا۔ اگرچہ سارا کردار جنرل ضیا کے دم کا تھا، مگر دنیا مانتی یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے ’خوشگوار دورہ انڈیا‘ نے برف پگھلائی۔
اس پورے پس منظر میں یہ سوال عین فطری ہے کہ جب کھیل کا خوشگوار بین الاقوامی تعلقات میں کلیدی کردار اس حد تک ثابت ہے تو پھر یہ صورتحال کیسے پیدا ہوگئی کہ خوشگوار تعلقات کے اس اہم ترین ٹول کو ہی غیر مؤثر کردیا گیا؟، اور انڈیا کی جانب سے اب کھیل کو بھی باقاعدہ جنگ کی ہی ایک قسم بنا دیا گیا؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں یہ نکتہ سمجھنا ہوگا کہ کھیل کو بین الاقوامی تعلقات میں کلیدی کردار کس نے دیا تھا؟ یہ اپنے دور عروج میں مغرب کی ہی ایک شاندار اسکیم تھی کہ جدید پالیٹکس اور ڈپلومیسی میں کھیل کو یہ اہم کردار ملا۔ جب تک مغرب کی گرفت مضبوط رہی تب تک کھیل قوموں کے بیچ بہتر تعلقات میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہے۔ یوں ایک لحاظ سے یہ مغرب کا ہی ٹول تھا جس کا سب فائدہ اٹھاتے رہے۔
لیکن جب دنیا پر مغرب کی گرفت ڈھیلی پڑنی شروع ہوئی تو مغرب کی باقی چیزوں کے ساتھ ساتھ یہ اہم ترین ٹول بھی متاثر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کے شاندار ایتھلیٹس والے ملک روس کو 2016 سے اولمپکس مقابلوں میں کس قدر بدترین سیاسی تعصب کا سامنا ہے۔ کبھی ان کے کھلاڑیوں پر مکمل پابندی لگائی گئی تو کبھی اس شرط کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دی گئی کہ یہ اپنے ملک کی شناخت کے ساتھ شرکت نہیں کرسکتے۔ ایونٹ کے دوران نہ تو یہ کھلاڑی روسی پرچم استعمال کرسکیں گے اور نہ ہی ان کی جیت پر ان کا قومی ترانہ بجے گا۔ یہ سب ہم سب کی نظروں کے سامنے ہوا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے ہم پاکستانی بین الاقوامی تعلقات میں جنگوں کے سوا دلچسپی لیتے کہاں ہیں؟ ہم تو فلسطینیوں کو بھی اس عرصے میں بھول جاتے ہیں جب اسرائیل سے ان کی کوئی جنگ نہ چل رہی ہو۔ نتیجہ دیکھیے کہ ہم یہ تو جانتے ہیں انڈین پلیئرز نے حالیہ کرکٹ مقابلوں کے دوران پاکستانی پلیئرز سے ہاتھ نہیں ملایا۔ مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ عین یہی حرکت یوکرینی پلیئرز بھی اپنے آقاؤں کے اشارے پر روسی پلیئرز کے ساتھ کرچکے۔
سو سمجھنے والی بات یہ ہے کہ کھیلوں کا موجودہ عالمی اسٹرکچر بھی مغرب کے باقی اسٹرکچرز کی طرح زمیں بوس ہو رہا ہے، اب ہم اس دور میں ہیں جہاں کھیل تعلقات بہتر کرنے کا نہیں بلکہ نفرتیں بڑھانے کا ہتھیار بن چکے۔ اس دور میں جو محسن نقوی نے کیا وہی وقت کا تقاضا ہے۔ جب آپ سے کرکٹ کے میدان میں بھی جنگ لڑی جا رہی ہے تو جواب جنگی وار کی طرح ہی آنا چاہیے۔ اور مودی کو دکھانا چاہیے کہ اس کی ٹرافی اب ’ابھینندن‘ بن کر ہماری تحویل میں رہے گی۔ جب تک کھیل جنگ کے ماحول میں چل رہا ہے، چلنے دیجیے مگر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ سب مزید بس چند سال ہی چلے گا۔ جلد ہی ہم نئے عالمی اسٹرکچرز کھڑے ہوتے دیکھیں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح چین نے حال ہی میں عالمی عدالت انصاف کا متبادل ادارہ کھڑا کرنے کی بنیاد ڈال دی ہے۔ جہاں آنے والے وقت میں ممالک کے مابین موجود تنازعات کے تصفیے ہوں گے۔
یہ بات پیرس اولمپکس کے دوران رشین اور چائنیز میڈیا پہلے ہی کہہ چکا کہ دنیا کو کھیلوں کے متبادل پلیٹ فارمز درکار ہیں۔ وہ صاف صاف اس بین الاقوامی اولمپک کمیٹی پر عدم اعتماد کرچکے جو مغربی کٹھ پتلی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آپ نے دیکھا نہیں پیرس اولمپکس کس قدر بے رونق اور اسکینڈلز سے بھرپور رہے؟ عقل دنگ رہ گئی کہ ’کھسرے‘ کے ہاتھوں خاتون کھلاڑی کا جبڑا تڑوا کر معافی بھی ٹوٹے جبڑے والی سے منگوائی گئی۔ مگر زیادہ حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ مغربی نظام شاندار قسم کے گفٹ پیپر میں سلیقے سے پیک کیا گیا گوبر ہے۔ یہ ہمارے لبرل دانشور تھے جو اسے زعفران کے نام سے پیش کیا کرتے۔ اب گفٹ پیپر پھٹ رہا ہے تو حقیقت سامنے آتی چلی جا رہی ہے، اور پیدل عقلیں تسلیم کرنے لگی ہیں کہ جنہیں لازوال سمجھا گیا تھا وہی عقل کے دشمن بن کر زوال آشنا ہوگئے!
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ایشیا کپ پاکستان بھارت تعلقات چیئرمین پی سی بی کھیل محسن نقوی وی نیوز بین الاقوامی تعلقات میں ممالک کے کے دوران جنرل ضیا یہ ہے کہ کے ساتھ کھیل کے مغرب کی بڑوں نے میں بھی کہ کھیل کیا گیا کھیل کو پھر سے کے بیچ کے لیے گئی کہ
پڑھیں:
سیاست کے کندھوں پر ایشیا کپ کا جنازہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
کہتے ہیں کہ کھسیانی بِلّی کَھمبا نوچے مودی کا بھی یہی حال ہے ۔ہندوتوا سوچ نے کھیلوں کو زہر آلود کر دیا ہے ۔مودی اور وہاں کے گودی میڈیا نے ایشیا کپ کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ تماشہ کرنا تھا تو ایشیا کپ کھیلنے ہی کیوں آئے ۔اس کی وجہ اسپانسر شپ جس کے پس پردہ بھارت کے بڑے بڑے ٹائیکون ہیں جنہوں نے بے تحاشہ اس ایشیا کپ سے پیسے کمائے ۔بعض مبصرین مکیش امبانی کا نام لے رہے ہیں اس نے مودی پر دباؤ ڈال کر بھارتی ٹیم کو ایشیا کپ کھیلنے پر مجبور کیا جبکہ وہاں کے انتہا پسند ہندو تنظیموں اور پہلگام واقعہ کی ودھواؤں نے سخت احتجاج کیا لیکن پیسہ جیت گیا کھیل ہار گیا ۔مکیش امبانی بی جے پی کا سب سے بڑا ڈونر ہے جو کہ مالی مدد کرتا ہے ۔جب کہ کرکٹ محض ایک کھیل نہیں بلکہ برصغیر میں یہ جذبوں، رشتوں اور قوموں کے مزاج کا عکس بن چکا ہے ۔
ایشیا کپ 2025بھی کروڑوں شائقین کی توجہ کا مرکز تھا مگر افسوس یہ ایونٹ کرکٹ کے حسن کے بجائے بدمزگی، تنازع اور سیاست کے سائے میں اختتام پذیر ہوا۔ سب سے زیادہ حیران کن اور افسوسناک لمحہ وہ تھا جب بھارتی ٹیم نے فائنل کے بعد ایشیا کونسل کے چیئرمین محسن نقوی سے ٹرافی لینے سے انکار کر دیا۔ یہ حرکت نہ صرف اسپورٹس مین اسپرٹ کے خلاف تھی بلکہ عالمی سطح پر بھارت کے چھوٹے ذہن اور غیر پیشہ ورانہ رویے کی قلعی کھولنے کے لیے کافی تھی۔کھیل کی دنیا میں روایت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فتح یا شکست سے بالاتر ہو کر حریف کو عزت دی جائے ، اور ایوارڈ یا ٹرافی سیاسی وابستگیوں سے ہٹ کر قبول کی جائے ۔ مگر بھارتی ٹیم نے یہ بنیادی اصول بھی پامال کر دیا۔ اس موقع پر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک قدم آگے بڑھ کر اس جیت کو ”آپریشن سندور” سے جوڑ دیا۔ انہوں نے اپنی تقریروں اور میڈیا بیانات میں اس کامیابی کو فوجی مہمات کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کی، جو کھیل کے میدان میں سیاست اور عسکریت کو داخل کرنے کی کھلی مثال ہے ۔ دنیا کے معتبر اسپورٹس تجزیہ کاروں اور عالمی خبر رساں اداروں نے اس طرزِ عمل پر سخت تنقید کی اور کہا کہ بھارت نے کھیل کے تقدس کو پامال کر کے خود اپنی جگ ہنسائی کروائی ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے کھیل کو سیاست کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کی۔ ماضی قریب میں بھی بھارتی بورڈ اور حکومت نے کئی بار پاکستان کے ساتھ سیریز کھیلنے سے انکار کیا، مشترکہ ایونٹس میں رکاوٹیں ڈالیں اور حتیٰ کہ آئی سی سی کے بعض فیصلوں پر بھی سیاسی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ بھارتی کرکٹ بورڈ دنیا کا سب سے بڑا مالیاتی اثر رکھنے والا بورڈ ضرور ہے مگر اس طاقت کو کھیل کی ترقی اور فروغ کے بجائے سیاسی اور سفارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنا عالمی کرکٹ کے لیے نقصان دہ ہے ۔فائنل میچ کے بعد کی اس متنازع صورتحال پر بین الاقوامی میڈیا کا ردعمل بہت واضح تھا۔ برطانیہ، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور خلیجی ممالک کے بڑے اسپورٹس چینلز نے کھلے الفاظ میں کہا کہ بھارت نے اسپورٹس مین اسپرٹ کی دھجیاں اڑا دیں۔ بی بی سی، الجزیرہ، اسکائی اسپورٹس اور کرک انفو جیسے پلیٹ فارمز پر بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ کھیل کو سیاست میں گھسیٹنے سے اس کے عالمی تشخص کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے ۔ دنیا بھر کے ناظرین نے سوشل میڈیا پر بھارتی ٹیم کے اس رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور لاکھوں پیغامات میں یہ واضح کہا گیا کہ اس طرح کی حرکت سے بھارت نے اپنی اخلاقی برتری کھو دی ہے ۔
بھارت کی اس بوکھلاہٹ کو اس کے ماضی کے فوجی اور سفارتی ناکامیوں کے تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے ۔ جب سے پاکستان نے بھارت کے چھے جنگی طیارے گرا کر اسے منہ توڑ جواب دیا تھا، بھارتی قیادت میں ایک مستقل بے چینی پائی جاتی ہے ۔ وہ ہر موقع پر اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے کبھی کھیل کو، کبھی میڈیا کو اور کبھی سفارت کاری کو استعمال کرتے ہیں۔ نریندر مودی کے ”آپریشن سندور” جیسے بیانات اسی بوکھلاہٹ کا شاخسانہ ہیں۔ مگر دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ کھیل کا میدان فوجی کاروائیوں کی توسیع نہیں بلکہ انسانوں کو جوڑنے کا ذریعہ ہے ۔
ایشیا کپ 2025 کا فائنل لاکھوں کرکٹ شائقین کے لیے خوشی، جوش اور اتحاد کا لمحہ ہونا چاہیے تھا مگر بھارتی رویے نے اسے تلخی میں بدل دیا۔ پاکستان نے اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پورے ٹورنامنٹ میں کھیل کی اعلیٰ اقدار کو مقدم رکھا۔ یہاں تک کہ فائنل کے بعد بھی پاکستانی کھلاڑیوں نے حریف کو مبارکباد دی، مگر جواب میں بھارتی ٹیم نے سرد مہری اور تکبر کا مظاہرہ کیا۔ یہ فرق واضح کر گیا کہ کھیل کے میدان میں اصل عظمت اس قوم کی ہے جو رواداری اور بڑے پن کا مظاہرہ کرے ، نہ کہ اس قوم کی جو اپنی جیت کو سیاسی پروپیگنڈے کا ذریعہ بنائے ۔یہ واقعہ دنیا کے کرکٹ بورڈز اور عالمی تنظیموں کے لیے بھی لمحئہ فکریہ ہے ۔ اگر بھارت جیسی بڑی ٹیم بار بار کھیل میں سیاست کو استعمال کرے گی تو یہ صرف ایشیائی کرکٹ کو نہیں بلکہ عالمی کرکٹ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔ ایشیا کپ کے بعد پیدا ہونے والی بدمزگی نے یہ سوال ضرور اٹھا دیا ہے کہ کیا کھیل واقعی سیاست سے آزاد رہ پائے گا یا پھر بڑی طاقتیں اسے بھی اپنی خواہشات کے مطابق استعمال کرتی رہیں گی؟کھیل کا بنیادی مقصد قوموں کو قریب لانا، تعلقات میں بہتری پیدا کرنا اور نوجوانوں کے اندر مثبت سوچ اجاگر کرنا ہے ۔ مگر جب میدان میں سیاسی انا، تعصب اور حکومتی پالیسیوں کی مداخلت بڑھ جائے تو کھیل کا مقصد فوت ہو جاتا ہے ۔ بھارت نے اس رویے سے نہ صرف اپنی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ اپنے نوجوان کھلاڑیوں کو بھی ایک غلط پیغام دیا کہ کھیل جیتنے کے بعد رواداری اور عاجزی کی ضرورت نہیں بلکہ تکبر اور سیاست کا سہارا لینا چاہیے ۔ یہ رجحان کسی بھی صحت مند معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے ۔
کرکٹ ہمیشہ سے برصغیر کی عوام کو جوڑنے والا کھیل رہا ہے ۔ لاکھوں لوگ اس کھیل کو دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں، دوستیاں بڑھتی ہیں اور دشمنیاں کم ہوتی ہیں۔ مگر بھارتی رویے نے ایک بار پھر اس خواب کو توڑ دیا ہے ۔ اس سے نہ صرف پاکستان اور بھارت کے عوام میں دوریاں بڑھیں گی بلکہ عالمی سطح پر بھی بھارت پر عدم اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ کھیل کے میدان میں ایسی مثالیں قائم کرنا کسی بھی قوم کے لیے باعثِ فخر نہیں بلکہ باعثِ شرمندگی ہے ۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور ایشین کرکٹ کونسل کھیل کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے سخت قوانین بنائیں۔ کسی بھی ٹیم یا ملک کو اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ سیاسی بنیاد پر کھیل کے اصولوں کو پامال کرے ۔ ساتھ ہی پاکستان سمیت تمام کھیل دوست ممالک کو چاہیے کہ وہ اس معاملے کو عالمی اسپورٹس فورمز پر اٹھائیں تاکہ آئندہ کسی ٹیم کو یہ جرات نہ ہو کہ وہ کھیل کے تقدس کو پامال کرے ۔
پاکستانی قوم اور کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی پالیسی مزید مضبوط کرنی ہوگی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے کھلاڑیوں کو ہمیشہ اسپورٹس مین اسپرٹ کی تعلیم دیں تاکہ دنیا کو یہ پیغام جائے کہ پاکستان کھیل کے میدان میں سیاست نہیں بلکہ خلوص اور کھیل کے فروغ پر یقین رکھتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور عوام کو بھی چاہیے کہ وہ ایسے مواقع پر جذباتیت میں آنے کے بجائے عالمی سطح پر مثبت اور دلیل پر مبنی موقف پیش کریں۔
اب یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔ پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ عالمی کرکٹ ادارے کھیل کو سیاست سے الگ رکھنے کے لیے ضابطہ اخلاق مزید سخت کریں۔ دوسرا یہ کہ بھارت جیسی ٹیموں پر جرمانے یا پابندیاں عائد کی جائیں تاکہ دنیا بھر کو سبق ملے کہ کھیل کے میدان میں سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ تیسرا یہ کہ پاکستان اپنی سفارت کاری اور کھیلوں کے ذریعے امن اور بھائی چارے کا پیغام جاری رکھے تاکہ دنیا دیکھے کہ اصل فاتح وہی ہے جو جیتنے کے بعد بھی عاجزی اور رواداری دکھائے ۔ اگر یہ اقدامات بروقت کر لیے جائیں تو ایشیا کپ 2025 کا تلخ تجربہ مستقبل میں کسی اور ایونٹ میں نہ دہرایا جائے گا۔یہ حقیقت اب واضح ہو چکی ہے کہ بھارت نے اس ایونٹ کو سیاست کی نذر کر کے اپنی ساکھ برباد کی ہے ۔ مگر کرکٹ اور کھیل کے چاہنے والوں کے لیے امید اب بھی باقی ہے کہ اگر عالمی سطح پر انصاف اور کھیل کے اصولوں کو مقدم رکھا جائے تو کھیل ایک بار پھر وہی جذبہ، خوشی اور محبت واپس لا سکتا ہے جو اس کا اصل مقصد ہے ۔ یہی وقت ہے کہ کھیل کو کھیل رہنے دیا جائے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔