جماعت اسلامی قومی سطح پر لاہور میں جلسہ عام کررہی ہے
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر (نمائندہ جسارت) جماعت اسلامی پاکستان 21، 22، 23 نومبر میں قومی سطح پر جلسہ عام کا انعقاد کر رہی ہے۔ یہ بات جماعت اسلامی ضلع گھوٹکی کے رہنما اور سندھی اردو ادب کے کالم نگار سردار احمد تبسم گڈانی نے ایک بیان میں اہل وطن کو شرکت کی دعوت دی ہے، جماعت اسلامی پاکستان کے تمام ممبران ہمدردوں، ممبران اور جماعت اسلامی پاکستان کے ہر کارکن کو لاہور میں ہونے والے جلسہ عام میں بھرپور شرکت کی دعوت دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ میں جماعت اسلامی کے نظریاتی مخالفین، دوستوں اور عمائدین کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ جلسہ عام میں شرکت کریں۔ اپنی آنکھوں سے دیکھیں، کانوں سے گفتگو، تقریریں سنیں۔ سردار احمد تبسم گڈانی نے مزید کہا کہ نہ صرف پاکستانی علما کرام، مذہبی مفکرین، اسلامی مفتیان کرام اور دانشور خطاب کریں گے بلکہ بیرونی ممالک سے بڑے بڑے علما، دانشور اور اسلامی مفکرین شرکت کریں گے۔ سردار احمد تبسم گڈانی نے کہا کہ میں سیکولر اور لبرل دوستوں کو بھی دعوت دیتا ہوں مینار پاکستان لاہور میں ہونے والے جلسہ عام میں ضرور شرکت کریں۔ جماعت کا وژن سنیں۔ اس جلسہ عام میں خواتین اور مردوں کو شرکت ضرورکرنی چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
تبدیلی آئے گی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251109-03-3
غزالہ عزیز
بدل دو نظام کے نعرہ کے ساتھ جماعت اسلامی 11 سال بعد مینار پاکستان پر اجتماع عام منعقد کر رہی ہے جماعت اسلامی کے رہنما اس بارے میں یقین رکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی اس اجتماع کے بعد ملکی سیاست میں تبدیلی لانے کا سبب بنے گی اور اس گلے سڑے نظام کے چھٹکارے کے لیے نئی تحریک کا آغاز کیا جائے گا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ عوام مایوس ہیں وہ اس نظام کے خلاف کھڑے ہونے کی سکت اپنے اندر محسوس نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ فرسودہ گل سڑا نظام ان کی قسمت میں لکھ دیا گیا ہے جہاں کرپشن اور بددیانتی ہنر ہے، انصاف مال دار کے لیے اور قانون غریبوں کے لیے۔ جمہوریت کی صورت میں موروثی آمریت مسلط ہے۔ یوں تو پاکستان کی ساری سیاسی جماعتیں جمہوریت کی دلدادہ ہیں اور جمہوریت کے نام لیتی ہیں لیکن دیکھا جائے تو ان میں سے کسی بھی جماعت کے اندر منظم جمہوریت موجود نہیں ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان کی واحد بہترین منظم سیاسی جماعت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر مضبوط جمہوری روایات رکھتی ہے۔ جماعت اسلامی کے تمام ذمے دار اور شوریٰ کا چناؤ انتخاب کے ذریعے کیا جاتا ہے اور اس انتخاب میں دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے برعکس کسی قسم کی شخصی خاندانی گروہی یا موروثی سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے، جماعت اپنے اندر نظم و ضبط اخلاص جمہوری اقدار اور بدعنوانیوں سے پاک ہونے کی شہرت رکھتی ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصے سے دنیا بھر میں اسلامی احیاء کے لیے پرامن عالمی اسلامی تحریکوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اب جماعت اسلامی نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اسی نظام کے تحت ملکی سیاست کا رُخ تبدیل کرنا ہوگا۔
کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے اگر سو 100 شعبے ہیں تو 99 شعبے میں وہ کامیاب ہے اور ایک شعبہ جس کو ملکی سیاست کہا جاتا ہے ناکام ہے لیکن امیر جماعت اسلامی آج کہہ رہے ہیں کہ انہیں یقین ہے کہ جماعت اسلامی باقی شعبوں کی طرح اب انتخابی سیاست میں بھی کامیاب ہو گی اور بدل دو نظام کے نعرے کے تحت مینار پاکستان پر ہونے والے عظیم الشان اجتماع عام دراصل انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ جماعت اسلامی بر صغیر کی وہ پہلی جماعت ہے جس نے اسلام کو بطور جدید سیاسی نظام کے متعارف کروایا مسلمانان ہند کو دو قومی نظریے کی بنیاد فراہم کی اور لادین پاکستان بننے کی مخالفت کی جماعت اسلامی نے مغربیت سے متاثر جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کو عقلی اور علمی استدلال کے ذریعے اسلام سے متاثر کیا اور جدید مسائل کا حل اسلام کی روشنی میں پیش کیا پاکستان بننے کے بعد اسلامی تشخص کو اُجاگر کرنے کے لیے جدوجہد کی اسی جدوجہد کے نتیجے میں لادین یعنی سیکولر حلقوں کو منہ کی کھانی پڑی۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے خواب کو تعبیر دینے اور قرارداد مقاصد میں ریاست کو اصولی طور پر اسلامی قرار دینے کے لیے تحریک چلائی اور اس میں کامیابی حاصل کی۔
جماعت اسلامی کے بانی سید ابو الاعلیٰ مودودی کو قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے پر اس وقت کی حکومت نے جو ایوب خان کی تھی جیل میں ڈال دیا اور پھانسی کی سزا دی تقریباً تین سال تک ان کو قید میں رکھا اس دوران ان کو یہ پیشکش بھی کی کہ پھانسی کی سزا ختم ہو سکتی ہے اگر وہ قادیانیوں سے متعلق اپنے موقف سے دستبردار ہو جائیں مگر بانی جماعت نے ایسا کرنے سے انکار کیا بعد میں حکومت کو ملکی اور غیر ملکی دباؤ کے باعث ملکی اور عالمی دباؤ کے باعث سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرنے کرنا پڑا۔ ایوب خان کے دور آمریت میں ایک ایسا طبقہ بھی سامنے آیا جس نے اسلام میں حدیث کی حیثیت سے انکار کیا یہاں تک کہ ایک جج نے حدیث کو سند ماننے سے انکار کر دیا اس موقع پہ مولانا مودودی نے اسلام میں حدیث کی بنیادی حیثیت کو شرعی اور عقلی دلائل سے ثابت کیا انہوں نے فتنہ انکار حدیث کے خلاف ترجمان القران کا منصب رسالت نمبر بھی شائع کیا۔
1964 میں ایوب خان نے تنگ آ کر جماعت اسلامی کو خلاف قانون قرار دے دیا اور سید ابو الاعلیٰ سمیت جماعت اسلامی کے پینسٹھ (65) نمایاں رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا مولانا سمیت جماعت اسلامی کے راہ نما قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرتے رہے بالآخر ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا، 1973 کے آئین میں اسلامی دفعات اور دیگر رہنما اصول شامل کرنے کے لیے جماعت اسلامی نے بھرپور کردار ادا کیا اور قادیانیوں کے خلاف مذہبی جماعتوں کو ساتھ ملا کر عوامی مہم چلائی اور قادیانیوں کو اقلیت قرار دلوایا۔ یہ جماعت اسلامی کا ایک طویل نظریاتی سفر ہے جہاں وہ کامیاب رہی ہے اور اب عوام کی حمایت سے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرے گی۔