20 دسمبر 2012 کو برطانوی اخبار ’انڈیپنڈنٹ‘ کی شہ سرخی تھی ’بے کار بے کار بے کار‘ ٹونی بلیئر کی کارکردگی پر فلسطینیوں کا فیصلہ۔

درحقیقت فلسطینی اتھارٹی نے کوآرٹیٹ تنظیم کے خصوصی نمائندہ برائے مشرقِ وسطیٰ ٹونی بلیئر کی قابلیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ٹونی بلیئر اس بات کو ذاتی حیثیت میں محسوس نہ کریں لیکن وہ یروشلم میں کوآرٹیٹ تنظیم کے نمائندہ خصوصی دفتر سے اپنا سامان اُٹھائیں اور گھر جائیں۔ ٹونی بلیئر کی موجودگی اور جس تنظیم کی وہ نمائندگی کرتے ہیں وہ بے کار ہے، بے کار ہے، بےکار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا غزہ کے لیے امن منصوبہ، حماس نے ترمیم کا مطالبہ کردیا

27 جون 2007 کو جب ٹونی بلیئر نے بطور برطانوی رکن پارلیمنٹ اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا اور برطانوی وزیراعظم کا عہدہ چھوڑا اسی روز انہوں نے کوآرٹیٹ تنظیم کے خصوصی نمائندہ برائے مشرقِ وسطیٰ کی پیشکش قبول کی جس کے وہ 2015 تک سربراہ رہے۔

کوآرٹیٹ تنظیم امریکا، روس، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندگان پر مشتمل ایک ایسی تنظیم تھی جس کا مینڈیٹ صدر ٹرمپ کے تجویز کردہ پیس بورڈ جیسا ہی تھا۔

ٹونی بلیئر نے 8 سال اِس تنظیم کی سربراہی کی اور اب صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 20 نکاتی امن منصوبے میں فلسطینی اتھارٹی کے اوپر قائم کردہ پیس بورڈ جس کا کام قیام امن اور معاشی اصلاحات ہوگا اُس کی سربراہی صدر ٹرمپ کریں گے لیکن ٹونی بلیئر مجوزہ طور پر اُس کے رکن ہوں گے۔

بطور نمائندہ خصوصی کوآرٹیٹ ٹونی بلیئر کے کردار پر بے حد تنقید کی گئی اور اِسے ایک مکمل طور پر ناکام ادارہ بتایا گیا۔ لیکن ایک بار پھر فلسطین کے لیے مجوزہ پیس بورڈ میں ٹونی بلیئر کا نام لیا جا رہا ہے۔

مشرقِ وسطیٰ اور فلسطین ایشو کے ساتھ ٹونی بلیئر کے اِس طویل تعلق کی وجوہات کیا ہیں اور اگر کوآرٹیٹ جیسی طاقتور تنظیم امن قائم نہیں کر پائی تو پیس بورڈ کیسے کر پائے گا؟ زیرِ نظر آرٹیکل میں ہم اِس بات کا جائزہ لیں گے لیکن اس سے پہلے فلسطین میں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں اور موجودہ صورتحال پر نظر ڈالتے ہیں۔

صدر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن منصوبہ

صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے کی رو سے فلسطینی علاقوں کے انتظام کے لیے ایک ٹیکنوکریٹ فلسطینی اتھارٹی قائم کی جائے گی جو فلسطینیوں پر مشتمل ہوگی، لیکن اس اتھارٹی کے اوپر ایک ’پیس بورڈ‘ قائم کیے جانے کی تجویز ہے جس کے سربراہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہوں گے اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر اس بورڈ کے رکن ہوں گے۔

ٹونی بلیئر کون ہیں؟

سر انتھونی چارلس لینٹن بلیئر جنہیں عرف عام میں ٹونی بلیئر کہا جاتا ہے 10 سال یعنی 1997 سے لے کر 2007 تک برطانیہ کے وزیراعظم اور لیبر پارٹی کے سربراہ رہے۔ وہ مارگریٹ تھیچر کے بعد سب سے طویل عرصہ وزیراعظم رہنے والے شخص تھے۔

کوآرٹیٹ برائے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی نمائندہ

وزیراعظم کے منصب سے فراغت کے بعد ٹونی بلیئر چار اکائیوں (کوآرٹیٹ) اتحاد برائے مشرقِ وسطیٰ کے خصوصی نمائندے مقرر ہوئے۔ کوآرٹیٹ تنظیم 2002 میں اسپین کے دارالحکومت میڈرڈ میں بنائی گئی۔

جب سنہ 2000 میں فلسطین میں دوسرا انتفادہ یعنی آزادی کی تحریک شروع ہوئی تو جنگ بندی کی کوششوں کے باوجود جب جنگ نہ رک سکی تو اکتوبر 2001 میں یورپی یونین، امریکا، اقوامِ متحدہ اور روسی حکومتوں کے نمائندے فلسطینی رہنما یاسر عرفات سے ملے جس میں قیامِ امن کے لیے یاسر عرفات کی تجاویز سے اتفاق کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: غزہ میں عبوری انتظامیہ کے لیے ٹونی بلیئر کا ممکنہ کردار، امریکی منصوبہ کیا ہے؟

جب اپریل 2002 میں اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا تو مذکورہ بالا چار طاقتوں نے مل کر امریکا کی جانب سے پہلے سے اتفاق کردہ امن فارمولا پر عملدرآمد کی بات کی اور وہیں یہ فیصلہ بھی کیا کہ اِس چہار فریقی تعاون کو ایک مستقل فورم کی شکل دی جائے جو اسرائیل اور فلسطین کے مابین قیام امن کا ذمہ دار ہو۔

اس کے بعد 2002 میں مشرقی یروشلم میں کوآرٹیٹ کا دفتر قائم کیا گیا جس کے پہلے سربراہ ایک ڈچ ڈپلومیٹ کیٹو ڈی بور جبکہ دوسرے سربراہ ٹونی بلیئر تھے۔

ٹونی بلیئر بطور نمائندہ خصوصی کوآرٹیٹ

ٹونی بلیئر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ جس دِن یعنی 27 جون 2007 کو اُنہوں نے برطانوی رکنِ پارلیمنٹ اور برطانوی وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا اسی دن انہوں نے کوآرٹیٹ تنظیم کے خصوصی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ کی پیشکش قبول کر لی تھی۔ ابتدائی طور پر روس نے ان کے بطور خصوصی نمائندہ مقرر کیے جانے پر اعتراض کیا تھا لیکن بعد میں دور ہو گیا۔

ٹونی بلیئر وقتاً فوقتاً مشرقِ وسطیٰ کا سفر کیا کرتے تھے۔ مارچ 2008 میں وہ اسرائیلی قیادت سے ملے اور ان کے ساتھ قیامِ امن کے سلسلے میں بات چیت کی کیونکہ اُنہی دنوں فلسطین اور اسرائیلی فوجوں میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ٹونی بلیئر کا امن منصوبہ ویلی آف پیس امن منصوبے سے متاثر تھا جس کے تحت بحیرہ احمر سے نہر نکال کر پانی بحیرہ مردار میں جمع کیا جانا تھا جس سے فلسطین، اُردن اور اسرائیل مستفید ہوتے۔

یہ بھی پڑھیے: اٹلی: غزہ کے حق میں لاکھوں افراد کا مظاہرہ، پولیس سے جھڑپیں

ٹونی بلیئر کے بطور کوآرٹیٹ نمائندہ خصوصی کردار پر بے حد تنقید ہوئی۔ فروری 2012 میں معروف تھنک ٹینک بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے زیرِ سایہ قائم ادارے سینٹر فار مڈل ایسٹ پالیسی نے کہا کہ اتنے سالوں کے بعد بھی امن عمل کے نام پر کوآرٹیٹ کے پاس دِکھانے کو کچھ بھی نہیں۔

کیا فلسطین کے ساتھ وابستگی کے پیچھے ٹونی بلیئر کے مذہبی رُجحان کا عمل دخل ہے؟

یروشلم سے 10 کلومیٹر جنوب میں واقع بیت اللحم حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی جائے پیدائش ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی زندگی اِسی شہر میں گزری۔

ٹونی بلیئر ایک بہت زیادہ عقیدت مند طرز کے کیتھولک مسیحی ہیں۔ گوکہ برطانوی وزیراعظم کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق چرچ آف انگلینڈ سے ہو گا لیکن 2007 میں ٹونی بلیئر نے جونہی وزارتِ عظمٰی کا عہدہ چھوڑا اُنہوں نے فوراً کیتھولک عقیدے میں شمولیت اختیار کی۔

2008 میں انہوں نے ’ٹونی بلیئر فیتھ فاؤنڈیشن‘ قائم کی جس کا مقصد بین المذاہب ہم آہنگی، برداشت اور مختلف مذاہب کے درمیان مکالمے کو فروغ دینا تھا۔ یہ تنظیم خاص طور پر عیسائیت، اسلام، یہودیت، ہندو مت اور دیگر مذاہب کے درمیان تعاون پر کام کرتی رہی۔ اس کے عالمی دفاتر لندن، نیویارک اور بعض مشرق وسطیٰ ممالک میں رہے۔

2016 میں اس تنظیم کو ’ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ فار گلوبل چینج‘ میں ضم کر دیا گیا۔ ٹونی بلیئر ایک بہت راسخ العقیدہ مسیحی ہیں، وہ باقاعدگی سے چرچ جاتے ہیں اور اُن کی بیوی چیری بلیئر بھی راسخ العقیدہ مسیحی ہیں۔

خصوصی نمائندہ برائے کوآرٹینٹ کے بعد ٹونی بلیئر مسئلہ فلسطین سے کس طرح وابستہ رہے؟

مئی 2015 میں ٹونی بلیئر نے نمائندہ خصوصی برائے کوآرٹیٹ کے عہدے سے استعفیٰ دینے کے بعد بھی مشرقِ وسطیٰ کے امن عمل میں اپنی دلچسپی جاری رکھی۔ انہوں نے ایک غیر رسمی ثالث کے طور پر فلسطینی اتھارٹی، خصوصاً محمود عباس اور اسرائیلی حکومت کے درمیان اعتماد بحال کرنے کی کوششیں کیں اور یہ کردار اپنے ذاتی نیٹ ورک، خصوصاً مصر، اردن اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ قریبی روابط کے ذریعے نبھایا۔

2016 میں انہوں نے اپنی ’فیتھ فاؤنڈیشن‘ تنظیم کو ٹونی بلیئر انسنٹیٹیوٹ فار گلوبل چینج میں ضم کردیا جس نے فلسطینی علاقوں میں گورننس، معاشی اصلاحات اور نجی شعبے کے فروغ کے منصوبے شروع کیے، مغربی کنارے میں انفراسٹرکچر اور کاروباری مواقع پر پالیسی رپورٹس شائع کیں، اور نوجوانوں کے لیے تعلیم و قیادت کی تربیت کے پروگرام چلائے۔

2016 سے 2018 کے دوران ٹونی بلیئر نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور فلسطینی صدر محمود عباس سے کئی غیر اعلانیہ ملاقاتیں کیں اور قطر و مصر کے درمیان غزہ کی معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رابطہ کاری میں مدد دی، ساتھ ہی اسرائیل کو انسانی امداد کے راستے کھولنے پر قائل کرنے کی کوشش بھی کی۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل، غزہ سے جزوی انخلا اور حملوں میں کمی پر رضامند، جنگ کے خاتمے کی راہ ہموار ہوگئی، صدر ٹرمپ

ان کی یہ سرگرمیاں باضابطہ نہیں تھیں لیکن بین الاقوامی حلقوں میں اُنہیں ’مشرقِ وسطیٰ کا غیر رسمی سفیر‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کے حکام سے مسلسل مشاورت رکھی تاکہ عرب ممالک فلسطین کی اقتصادی تعمیرِ نو اور ادارہ جاتی استحکام میں سرمایہ کاری کریں، اور کچھ خلیجی ریاستوں نے ان کے انسٹیٹیوٹ کے ساتھ پالیسی پارٹنرشپ کے تحت فلسطینی علاقوں کے لیے ترقیاتی خاکے بھی تیار کیے۔

غزہ امن معاہدے کی موجودہ صورتحال

غزہ میں قیامِ اَمن کے لیے فلسطینی مسلح تنظیم حماس نے جزوی آمادگی ظاہر کردی ہے۔ حماس جنگ بندی اور یرغمالیوں کے رہائی کے لیے متفق ہے لیکن اسلحہ کی واپسی اور غزہ انتظامیہ میں حماس کا کوئی کردار نہ ہو اِس حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب میں گزشتہ روز بہت بڑا مظاہرہ ہوا جس میں مظاہرین نے فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

اِس سارے تناظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ مجوزہ 20 نکاتی امن منصوبہ شاید مکمل ہونے کے قریب ہے۔ صد ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں سے انخلا کی منظوری دے دی ہے جسے انہوں نے حماس کے ساتھ شیئر بھی کیا ہے۔ جیسے ہی حماس اس کی تصدیق کرے گا یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے کا عمل شروع ہو جائےگا۔

حماس کا اتفاق اور پاکستان کا خیر مقدم

پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے آج ایک بیان جاری کیا گیا جس میں پاکستان نے حماس کی جانب سے غزہ کا انتظام ماہر ٹیکنوکریٹس کی عبوری فلسطینی انتظامی کمیٹی کے سپرد کرنے کی پیشکش کا خیر مقدم کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’صدر ٹرمپ غزہ منصوبے پر حماس کے لیے وقت کا تعین خود کریں گے‘

ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکیہ، سعودی عرب، قطر اور مصر کے وزرائے خارجہ کی جانب سے مشترکہ بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ جنگ کے خاتمے سے متعلق تجویز پر حماس کے مثبت ردعمل کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews حکومت پاکستان حماس ڈونلڈ ٹرمپ غزہ امن منصوبہ فلسطینی اتھارٹی مسلم ممالک وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: حکومت پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی اتھارٹی مسلم ممالک وی نیوز برطانوی وزیراعظم کے خصوصی نمائندہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینی علاقوں میں ٹونی بلیئر ٹونی بلیئر کے ٹونی بلیئر نے اور فلسطین کی جانب سے کے درمیان انہوں نے پیس بورڈ کے ساتھ قائم کی کیا گیا کیا ہے بے کار کے بعد یہ بھی کے لیے

پڑھیں:

  ٹرمپ کی حماس کو غزہ منصوبے پر جواب کیلئے اتوار کی ڈیڈ لائن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کو دھمکی دیتے ہوئے غزہ منصوبے کا جواب دینے کے لیے اتوار کی ڈیڈ لائن دے دی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ فلسطینی گروپ کے پاس اپنے 20 نکاتی غزہ منصوبے کا جواب دینے کے لیے واشنگٹن ڈی سی میں اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام 6 بجے تک کا وقت ہے۔
ٹرمپ نے اپنے ٹرتھ سوشل پلیٹ فارم پر ایک طویل پوسٹ میں لکھا کہ اگر اس آخری موقع پر معاہدہ نہیں ہوا تو جہنم، جسے پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھا، حماس کے خلاف برپا ہو گا۔
ٹرمپ نے پوسٹ میں حماس کو کئی بار دھمکی دی اور دعویٰ کیا کہ اس کے ارکان گھیرے ہوئے ہیں اور عسکری طور پر پھنسے ہوئے ہیں، بس انتظار کر رہے ہیں کہ میں ‘گو’ کہوں تاکہ ان کی جانیں جلد بجھ جائیں ۔

باقیوں کے بارے میں، ہم جانتے ہیں کہ آپ کہاں اور کون ہیں؟ اور آپ کو تلاش کیا جائے گا، اور مار دیا جائے گا، میں تمام بے گناہ فلسطینیوں سے فوری طور پر غزہ کے محفوظ حصوں کے لیے ممکنہ طور پر مستقبل کی موت کے اس علاقے کو چھوڑنے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ ہر ایک کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے گی جو مدد کے منتظر ہیں۔

ادھرحماس کے سیاسی بیورو کے رکن محمد نزال نے گزشتہ روز الجزیرہ عربی میں ہمارے ساتھیوں کو بتایا کہ فلسطینی گروپ جلد ہی امریکی تجویز پر اپنے موقف کا اعلان کرے گا۔   نزال نے کہا کہ حماس، فلسطینی مزاحمت کے نمائندے کے طور پر، فلسطینی عوام کے “مفادات کے لیے” اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق رکھتی ہے۔
محمد نزال کا کہنا تھا کہ گردن پر وقت کی تلوار کیساتھ منصوبے کو نہیں دیکھ سکتے، فلسطینی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق رکھتے ہیں جبکہ مصر کے وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی کا کہنا ہے حماس کو قائل کرنے کے لیے قطر اور ترکیہ کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، ہم ان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مجوزہ غزہ امن منصوبے پر حماس کے باضابطہ جواب کا انتظار کر رہے ہیں۔  اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے رواں ہفتے دورہ امریکا کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے کو قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ وزیر اعظم کے دفتر کا کہنا ہے کہ ہمیں اس بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہے کہ حماس کا جواب کیا ہوگا۔

متعلقہ مضامین

  • پتا نہیں تم اتنی منفی سوچ کیوں رکھتے ہو؟ صدر ٹرمپ اسرائیلی وزیراعظم پر برس پڑے
  • پاکستان کا ٹرمپ کے امن منصوبے پر حماس کے جواب کا خیر مقدم
  • الحمدللہ ! غزہ میں جنگ بندی کے قریب ہیں، وزیراعظم شہباز شریف
  • پاکستان کیجانب سے امن منصوبے پر حماس کے ردعمل کا خیر مقدم کیا
  • پاکستان ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، وزیراعظم
  • حماس کا ٹرمپ کے غزہ پلان پر جزوی اتفاق، مزید مذاکرات کی ضرورت پر زور
  • جنگ بندی یا سیاسی ماتحتی؟ ٹرمپ کا غزہ پلان اور اس کے نتائج
  • ٹرمپ نے غزہ امن منصوبے پر رضامندی کے لیے حماس کو اتوار تک کی ڈیڈلائن دے دی
  •   ٹرمپ کی حماس کو غزہ منصوبے پر جواب کیلئے اتوار کی ڈیڈ لائن