ٹیکسٹائل برآمدات کیلیے عالمی معیار پرعملدر آمد ناگزیر، مائیکل آریٹز
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
کراچی:
پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات کو عالمی مارکیٹوں کی ترجیحات میں شامل کرنے کیلیے ایل کے ایس جی،کارپوریٹ سسٹین ایبلٹی رپورٹنگ ڈائریکٹیو اور ای سی جی معیارات پر مکمل عملدرآمد ناگزیر ہوگیا ہے۔
یہ بات گرین پاکستان پراجیکٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مائیکل آریٹز نے "ٹیکسٹائل مینوفیکچرنگ میں پانی کے استعمال میں کمی کے عملی طریقے" کے موضوع پر ٹاول مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن میں سیکوااور جرمن درآمدکنندگان کی تنظیم سازی وی ایف آئی کے اشتراک سے گرین پاکستان پراجیکٹ کے تحت منعقدہ تیکنیکی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
وی ایف آئی کے لیڈ ٹرینر اور واٹر فْٹ پرنٹ کنسلٹنٹ ڈاکٹر آچم اے آر فیہن نے ورکشاپ میں ٹیکسٹائل پیداوار،خاص طور پر ٹیری تولیوں میں پانی کے استعمال کے رحجانات کا تفصیلی جائزہ پیش کیا۔
انہوں نے مختلف پلانٹس میں پانی کے استعمال میں واضح فرق کی نشاندہی کی اور مؤثر حکمتِ عملیوں اور ٹیکنالوجیزکو اپنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ٹاول مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اطہر باری نے پائیداری کے اصولوں کو اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بتایاکہ پاکستان گزشتہ چند دہائیوں میں تقریباً 80 فیصد تازہ پانی کھو چکا ہے۔
گرین پاکستان پراجیکٹ ایک نازک وقت پر آیا ہے تاکہ صنعتوں کو اخلاقی پانی کے انتظام، دریائے سندھ کے نظام کے تحفظ اور پاکستان کو اخلاقی سورسنگ حب کے طور پر اجاگر کرنے میں مدد دی جاسکے، ٹی ایم اے حکومتی اقدام کے تحت تولیہ سازی کی صنعت میں پائیداری کوفروغ دینے کے پرعزم ہے ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پانی کے
پڑھیں:
نئی شوگر ملز کے قیام کی اجازت، ٹیکسٹائل برآمدات و خوردنی تیل کی درآمدات پر خدشات بڑھ گئے
کراچی:وفاقی حکومت نے ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہونے کے باوجود ملک بھر میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس اقدام سے گنے کی کاشت میں مزید اضافے سے اربوں ڈالر مالیت کی معیاری روئی اور خوردنی تیل کی درآمدات بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وفاقی وزارت غذائی تحفظ آئندہ روز میں ایک سمری بھی وزیر اعظم کو ارسال کر دے گی جس میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کی تجویز دی جائے گی۔
احسان الحق نے بتایا کہ حکومت کے اس مجوزہ فیصلے سے گنے کی کاشت میں اضافہ ریکارڈ سطح پر آجائے گا جبکہ کپاس کی کاشت میں مزید نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر دوستانہ حکومتی پالیسیوں کے باعث پہلے ہی 300 سے زائد جننگ فیکٹریاں اور 150 سے زائد ٹیکسٹائل ملز غیر فعال ہو چکی ہیں جن میں بڑے بڑے ٹیکسٹائل گروپس کی ملز بھی شامل ہیں۔ ان عوامل کے باعث کپاس کی کھپت میں مزید کمی کے خطرات سامنے آرہے ہیں۔
احسان الحق نے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 15نومبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں ایک فیصد کی کمی سے مجموعی طور پر 48لاکھ 57ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت میں پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 3فیصد کی کمی سے 21لاکھ 68ہزار جبکہ سندھ میں 2 فیصد کے اضافے سے 26لاکھ 89ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، اس عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 39لاکھ 92ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ برآمد کنندگان نے ایک لاکھ 67ہزار گانٹھیں خریدی ہیں۔
احسان الحق نے بتایا کہ 31 اکتوبر 2025 تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے 35لاکھ 90ہزار گانٹھوں کی خریداری کی تھی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55ہزار گانٹھ زائد تھیں جبکہ 15 نومبر تک یہ خریداری گزشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت ایک لاکھ 48ہزار گانٹھ کم ہیں جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جاری معاشی بحران کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار 21 لاکھ 68ہزار گانٹھ رہی ہے جبکہ کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے مطابق 17نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار کا حجم 38لاکھ 10ہزار گانٹھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی اداروں کی پاکستان کے لیے برآمد ہونے والی امریکی روئی کو فیومیگیشن سے مستثنا قرار دینے کی درخواست پر وزارت فوڈ سیکیورٹی نے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں ایک 6رکنی کمیٹی قائم کی جس نے 7یوم میں اپنی سفارشات پیش کرنی تھی لیکن تاحال کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔