وزارت داخلہ کے افسران کو غیر ملکی شخصیات سے ملاقات سے قبل پیشگی منظوری لینا لازمی قرار
اشاعت کی تاریخ: 7th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارتِ داخلہ نے اپنے تمام ماتحت افسران کے لیے غیر ملکی شخصیات سے ملاقات سے قبل پیشگی منظوری لازمی قرار دے دی۔
میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ سرکلر کے مطابق کوئی بھی افسر سرکاری یا ذاتی دعوت قبول کرنے سے قبل سیکرٹری داخلہ کی منظوری حاصل کرے گا۔ اسی طرح غیر ملکی مشن، سفارت کاروں یا بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقات سے قبل بھی اجازت لینا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے، اے این ایف اور اسلام آباد پولیس سمیت دیگر اداروں کو باضابطہ ہدایت نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پیشگی منظوری کے بغیر کسی غیر ملکی سے ملاقات یا بات چیت کو گورنمنٹ سرونٹ رولز کی خلاف ورزی تصور کیا جائے گا۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق کسی بھی افسر کو ازخود غیر ملکی شخصیات سے رابطہ یا بات چیت کرنے کی اجازت نہیں۔ تمام متعلقہ محکموں اور افسران کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ان احکامات پر مکمل عملدرآمد یقینی بنائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
طوفان الاقصیٰ آپریشن کیسے ایک پیشگی حملہ تھا!
اسلام ٹائمز: یہ آپریشن فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
7 اکتوبر 2023 کو حماس کے رہنما شہید یحییٰ سنوار کی رہنمائی، سرپرستی اور قیادت میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کی خبر دنیا نے سنی، اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر چڑھائی شروع کی، حزب اللہ نے فلسطینی مجاہدین حمایت میں اپنا سب کچھ داو پر لگا دیا، آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے فرمایا کہ میں ان لوگوں کی دست بوسی کرتا ہوں جو اسرائیل کیخلاف نبردآزما ہیں۔ لیکن سعودی عرب، اردن اور مصر سمیت عربی اور اسلامی ممالک نے اسے حماس کی غلطی قرار دیا۔ اس کامیاب آپریشن کو دوسرا سال مکمل ہونے پر اس دوران سیاسی و عسکری پیشرفت کے بعد اس آپریشن کے بارے میں بحث ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔
اس کے علاوہ ٹرمپ امن منصوبے کیصورت میں مذاکراتی عمل کی نئی شرائط اور ٹرمپ پلان کے ساتھ حماس کے ابتدائی معاہدے نے یہ سوال مزید شدت سے ابھارا ہے کہ کیا آپریشن طوفان الاقصیٰ فلسطین اور اس سے آگے مزاحمتی محاذ کے مفاد کے لیے نتیجہ خیز اور مفید تھا یا نہیں؟۔ یہ سوال اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دو سال کی جنگ کے بعد غزہ کے 70000 سے زیادہ شہری شہید، 200000 سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور غزہ کا 90% سے زیادہ علاقہ تباہ ہو چکا ہے اور صیہونی حکومت نے عملی طور پر اس شہر کے اہم حصوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ، ایک اور زاویے سے، حزب اللہ، جو حماس کی حمایت میں اس جنگ میں شامل ہوئی تھی، ستمبر 2024 میں شدید ترین حملوں کا نشانہ بنی، جس کی انتہا حزب اللہ لبنان کے سیکرٹری جنرل سید حسن نصر اللہ کی شہادت تھی۔ یہاں تک کہ آپریشن طوفان الاقصی کے بعض ناقدین کا دعویٰ ہے کہ 18 دسمبر 2024 کو بشار الاسد حکومت کا زوال بھی اسی آپریشن کا نتیجہ تھا اور دمشق کا سقوط، حزب اللہ کیخلاف اسرائیلی امریکی حملوں کا نتیجہ تھا۔ لیکن 7 اکتوبر کے متعلق یہ سب غلط اندازے ہیں، ان کو دو زاویوں سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ایک مختلف زاویے سے دیکھا جا سکتا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ کارروائی صیہونی حکومت اور خطے کے عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کا ردعمل تھی اور حماس نے یہ اقدام خود کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لئے انجام دیا۔ یہ بات مزاحمت اسلامی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے نتیجے میں مزاحمت اسلامی کو صیہونی حکومت اور عالمی شیطانی طاقتوں کی طرف سے کس پیمانے پر اور کس قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمتی لڑائیوں کا تجربہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مشکل حالات درپیش ہونگے۔
اسی لئے حماس نے دو دہائیوں کی جنگ اور اقتصادی ناکہ بندی اور محاصرے برداشت کرنے کے بعد مکمل طور پر خاتمے کی بجائے ایک جرات مندانہ اقدام کے ساتھ کھیل کے اصولوں کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا اور کم از کم اب تک تمام تر مصائب کے باوجود مسئلہ فلسطین کو دوبارہ توجہ کے مرکز بنانے کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب نہ صرف سماجی سطح پر، شمالی امریکہ سے لے کر مشرقی ایشیا تک دنیا کے مختلف ممالک کی سڑکیں فلسطین کی حمایت میں مظاہروں کے لیے میدان بن چکی ہیں، بلکہ بہت سی حکومتیں، حتیٰ کہ یورپ میں، جو صیہونی حکومت کے روایتی حلیف ہیں، وہ بھی ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں۔
7 اکتوبر سے پہلے زیادہ تر ممالک صیہونی حکومت اور امریکہ کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کی وجہ سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔ دوسرا، فوجی اور سیکورٹی کے نقطہ نظر سے، طوفان الاقصیٰ فلسطین کی جغرافیائی سیاسی حیثیت کو بچانے کے لیے محض ایک خودکش کارروائی نہیں تھی، بلکہ طاقت کے نشے اور کامیابیوں کے گمان میں ڈوبے دشمن پر ایک کارگر وار تھا۔ کیونکہ صیہونی حکومت آپریشن سے پہلے ہی حماس کی ساری قیادت کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتی تھی اور اس سازش کو غزہ کے اندر فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں نے سمجھ لیا تھا، لیکن اب یہ معاملہ غزہ اور حماس سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
طوفان الاقصیٰ سے پہلے صیہونی حکومت نہ صرف غزہ میں حماس کے تمام رہنماؤں کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی تھی بلکہ لبنان میں حزب اللہ کو ایک مہلک دھچکے کیساتھ نمٹانے کے لیے صفر لمحے کا انتظار کر رہی تھی۔ صہیونی چینل 12 پر پیجر آپریشن کے حوالے سے نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق، مہلک آلات ستمبر 2023 میں آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے کم از کم ایک ماہ قبل لبنان میں بھیجے گئے تھے اور یہ سارا آپریشن مہینوں سے صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر تھا۔ دوسرے لفظوں میں، اگر حزب اللہ غزہ کے حمایتی محاذ میں داخل نہ ہوتی تب بھی یہ مجرم اسرائیلی حکومت کے حملے سے محفوظ نہ رہتی۔
مہلک وائرلیس آلات کی موجودگی کے پیش نظر زخمیوں اور شہیدوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی تھی جو واقعہ طوفان الاقصیٰ کے بعد پیش آنے سے سامنے آئی۔ ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے کہ صیہونی حکومت کے ساتھ مزاحمت پر مبنی جنگ برسوں پہلے شروع ہو چکی تھی اور طوفان الاقصیٰ اس جنگ کی چنگاری تھی، لیکن اس کا انتخاب مزاحمت نے خود کیا۔ فرق یہ تھا کہ اگر طوفان الاقصیٰ نہ ہوتا تو مزاحمت کا محور مکمل طور پر اچانک حملوں کا شکار ہوتا اور اسے پچھلے دو سالوں سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ لڑائی جاری ہے اور مزاحمت کا محور ابھی تک صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں مصروف ہے، جس نے انہیں ایک لمحہ بھی سکون نہیں دیا۔