اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سامنے سپر ٹیکس کیس کی سماعت کے دوران مختلف کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیے جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے اہم سوالات بھی اٹھا دیے۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 1922ء اور 1976ء میں ٹیکس کی لینگویج مختلف تھی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ ایک سسٹم جس پر ٹیکس ہوتا ہے، اس پر سپر ٹیکس کیسے نافذ کرتے ہیں؟وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ انکم کا اندازہ ہوگا تو سپر ٹیکس یا سر چارج لگے گا، جنوری 2021ء میں ایک اکاؤنٹ کھلتا ہے اور 31 دسمبر 2021ء کو بند کر دیا جاتا ہے لیکن اس پر بھی چھ ماہ بعد ٹیکس لگ جاتا ہے جو وہ پہلے دے چکا ہے۔وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ سپر ٹیکس انکم پر لاگو ہوگا کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ اضافی ٹیکس ہے، 4 سی میں اضافی ٹیکس کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا، ٹیکس پیئر 4 اور 4 سی میں ایکٹ کے مطابق ٹیکس دے سکتا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ یہ قانون یا آپشن کہاں سے آیا؟وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ یہ ایک جنرل پرنسپل ہے کہ ٹیکس دینے والا اپنی مرضی سے دو ایک جیسے قانون میں سے ایک کے تحت ٹیکس دے سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جیسے ایک جرم میں دو سیکشن لگے ہوں تو ایک سیکشن سے سزا ہوگی اور اس کے تحت سزا ہوگی جس میں سزا کم ہو۔وکیل فروغ نسیم نے بتایا کہ جی اسی طرح یہاں بھی اسی پرنسپل پر عمل درآمد ہوگا اور ڈبل ٹیکس نہیں لگ سکتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ رکن پارلیمنٹ رہ چکے ہیں، آپ بتائیں یہ ڈرافٹ کون تیار کرتا ہے؟ وکیل فروغ نسیم جواب دیا کہ 4 سی میں نے ڈرافٹ نہیں کیا۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے کیس کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔ مختلف ٹیکس پیئر کمپنیوں کے وکیل فروغ نسیم دلائل جاری رکھیں گے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: وکیل فروغ نسیم نے مندوخیل نے جسٹس جمال سپر ٹیکس پر ٹیکس ٹیکس کی

پڑھیں:

27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیلِ نو کر دی گئی ہے۔ان تبدیلیوں کے تحت عدالت عظمیٰ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنایا گیا ہے جبکہ وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) کے جج جسٹس عامر فاروق کو جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) میں شامل کر لیا گیا ہے۔تین اہم قانونی اداروں میں سپریم جوڈیشل کونسل ججوں کے احتساب کا سب سے بڑا فورم ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچز بنانے اور مقدمات مقرر کرنے کی ذمے دار ہے جب کہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کرتی ہے۔ان اداروں کی تشکیل نو 27ویں ترمیم کے مطابق ضروری تھی۔عدالت عظمیٰ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا کہ آئینی ڈھانچے میں تبدیلی کے بعد ان اداروں کو نئے قواعد کے مطابق دوبارہ تشکیل دیا گیا ہے۔ پریس ریلیز کے مطابق عدالت عظمیٰ کے دوسرے سینئر ترین جج جسٹس جمال مندوخیل کو چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی اور وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان نے مشترکہ طور پر سپریم جوڈیشل کونسل کا رکن نامزد کیا ہے۔اب سپریم جوڈیشل کونسل کے اراکین میں چیف جسٹس آف پاکستان، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، لاہور ہائی کورٹ کی چیف جسٹس عالیہ نیلم، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل ہوں گے۔ترمیم کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان یا وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس میں سے سینئر ترین جج کرے گا، اور اس صورت میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی ہی اس کے سربراہ رہیں گے۔مزید یہ کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں بھی جسٹس جمال مندوخیل کو شامل کر لیا گیا ہے اب یہ کمیٹی چیف جسٹس، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل پر مشتمل ہو گی۔اسی طرح وفاقی آئینی عدالت کے دوسرے سینئر جج جسٹس عامر فاروق کو چیف جسٹس پاکستان اور چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت نے مشترکہ طور پر جوڈیشل کمیشن کا رکن نامزد کیا ہے۔ اب جوڈیشل کمیشن آف پاکستان میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی، وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس امین الدین خان، جسٹس منیب اختر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق، اٹارنی جنرل، وفاقی وزیر قانون، پاکستان بار کونسل کے نمائندے احسن بھون، قومی اسمبلی کے 2 ارکان، سینیٹ کے 2 ارکان اور ایک خاتون یا غیر مسلم رکن (جسے اسپیکر نامزد کریں گے) شامل ہوں گے۔پریس ریلیز کے مطابق یہ ادارے اب نئے آئینی ڈھانچے کے تحت احتساب، عدالتی تعیناتیوں اور عدالتی انتظامی امور میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔یہ تبدیلیاں اس پس منظر میں سامنے آئی ہیں کہ 27ویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کا بڑا ڈھانچہ تبدیل کر دیا گیا ہے، اس ترمیم کے نتیجے میں وفاقی آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا ہے، جس پر اپوزیشن اور کئی قانونی ماہرین نے تنقید کی ہے۔بین الاقوامی تنظیم انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (آئی سی جے) نے بھی ترمیم، خصوصاً وفاقی آئینی عدالت کی تشکیل، ججوں کے تقرر، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی نئی ترتیب، ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے اور صدر اور عسکری قیادت کو دیے گئے استثنا پر اپنی تشویش ظاہر کی ہے۔آئی سی جے کے مطابق اس ترمیم کے بعد عدالت عظمیٰ بنیادی طور پر اپیل کا فورم رہ جائے گی اور آئینی تشریح کا اختیار وفاقی آئینی عدالت کو منتقل ہو جائے گا۔
آئی سی جے نے مزید کہا کہ وفاقی آئینی عدالت کے پہلے جج کو وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر مقرر کریں گے جبکہ مستقبل کی تعیناتیاں جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کی سفارش پر ہوں گی، لیکن ترمیم میں تعیناتی کے معیار یا اصول واضح نہیں کیے گئے۔

نمائندہ جسارت گلزار

متعلقہ مضامین

  • 27ویں آئینی ترمیم کے بعد 3 اہم آئینی اور عدالتی اداروں کی تشکیل نو
  • جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس عامر فاروق سپریم جوڈیشل کونسل کے رکن نامزد
  • عظمیٰ بخاری کی فیک نازیبا ویڈیو اپ لوڈ کرنے کے مقدمے میں ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • وفاقی آئینی عدالت نے پہلے دن کام کا آغاز کس طرح سے کیا؟
  • عوامی پارکس معاملہ، سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے پر آئینی عدالت کا حکم امتناع
  • پنچاب ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے ملازمین کی مستقلی کی درخواست، ملازمین کو وکیل کرنے کی مہلت
  • طالبان نے افغانستان میں منشیات فیکٹریاں بند کیں تو یہاں شروع ہوگئیں، جج سپریم کورٹ
  • سپریم کورٹ کے جسٹس جمال مندوخیل نے ضیاالحق کا تحفہ کسے قرار دیا؟
  • منشیات شہروں تک آخر پہنچتی کیسے ہے؟بارڈر پر کیوں نہیں روکا جاتا؟جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار 
  • بارڈر پر منشیات کو کیوں نہیں روکا جاتا؟ ضیاء الحق کا دیا تحفہ بھگتیں: جسٹس جمال مندوخیل