اسرائیل کا فریڈم فلوٹیلا پر حملہ، 3 امدادی جہازوں پر قبضہ، لائیو نشریات منقطع کردیں
اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT
اسرائیلی بحریہ نے غزہ کے لیے امداد لے جانے والے فریڈم فلوٹیلا پر حملہ کرتے ہوئے 3 جہازوں پر قبضہ کر لیا ہے۔
غیر ملکی خبر ایجنسیوں کے مطابق یہ حملہ اس مقام پر کیا گیا جو اسرائیلی ناکہ بندی کے زون سے تقریباً 120 ناٹیکل میل دور ہے۔
فلوٹیلا کے منتظمین نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ ’’غزہ سے تقریباً 120 ناٹیکل میل کے فاصلے پر اسرائیل نے ہمارے امدادی قافلے پر حملہ کیا، اور فی الحال کم از کم 3 جہاز اسرائیلی فورسز کے قبضے میں ہیں‘‘۔ ان کے مطابق، اسرائیلی حکام نے لائیو نشریات بھی منقطع کر دی ہیں تاکہ کارروائی کی تفصیلات منظرعام پر نہ آسکیں۔
اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’تمام جہازوں اور ان میں سوار افراد محفوظ ہیں، انہیں اسرائیلی بندرگاہ منتقل کیا جا رہا ہے اور جلد اپنے وطن واپس بھیج دیا جائے گا‘‘۔
یاد رہے چند روز قبل ہی اسرائیل نے گلوبل صمود فلوٹیلا پر بھی حملہ کیا تھا، جس میں 500 سے زائد امدادی کارکنوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ بعد ازاں زیادہ تر کو رہا کر دیا گیا، جن میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد بھی شامل تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل کے یہ حملے انسانی بنیادوں پر امداد پہنچانے والی تنظیموں کے لیے خطرناک مثال ہیں اور عالمی برادری کی خاموشی پر سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل کا صمود فلوٹیلا کے کارکنوں پر بہیمانہ تشدد، مزید 29 کو رہا کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قابض اسرائیل نے بین الاقوامی دباؤ کے بعد غزہ کے لیے امداد لے جانے والے صمود فلوٹیلا کے مزید 29 ارکان کو رہا کر کے ملک بدر کر دیا ہے۔
میڈیا ذرائع کے مطابق یہ وہ رضاکار تھے جو انسانی ہمدردی کے تحت غزہ میں محصور فلسطینیوں تک خوراک اور ادویات پہنچانے کے مشن میں شریک تھے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ اب تک فلوٹیلا کے گرفتار شدہ 450 میں سے 170 رضاکار وطن واپس بھیجے جا چکے ہیں۔
دوسری جانب متعدد کارکنان نے اسرائیلی فوج کی جانب سے بہیمانہ تشدد، بدسلوکی اور قانونی نمائندوں سے رابطہ نہ ملنے کی شکایات درج کرائی ہیں۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جیلوں میں کارکنان کو ادویات دینے سے انکار کیا گیا، طبی سہولیات فراہم نہیں کی گئیں اور ایک مسلمان خاتون کو زبردستی حجاب اتارنے پر مجبور کیا گیا۔ کئی کارکنان جسمانی اور ذہنی اذیت کی حالت میں وطن واپس پہنچے ہیں۔
اُدھر قابض ریاست اسرائیل کے وزارتِ خارجہ نے ایک بار پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے روایتی بیانات کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں وضاحتیں دی جا رہی ہیں کہ گرفتار شدگان کے قانونی حقوق کا احترام کیا جا رہا ہے، بعض کارکنان نے ملک بدری کے احکامات پر دستخط نہیں کیے تھے، جس کے باعث ان کی رہائی میں 72 گھنٹے کی تاخیر ہوئی۔
یاد رہے کہ اسرائیلی بحریہ نے چند روز قبل گلوبل صمود فلوٹیلا کی 43 کشتیوں کو غزہ پہنچنے سے پہلے گھیر لیا تھا، جن پر تقریباً 500 رضاکار سوار تھے۔ یہ کشتیان غزہ کے محصور عوام کے لیے غذائی اجناس، ادویات اور ضروری امداد لے جا رہی تھیں۔
قافلے میں دنیا بھر سے معروف شخصیات شامل تھیں، جن میں سویڈن کی ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، اسپین کی سابق میئر ادا کولو، یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن، اور پاکستان کے سابق سینیٹر مشتاق احمد شامل ہیں۔ علاوہ ازیں برازیل، فرانس، ملائیشیا اور دیگر ممالک کے درجنوں انسانی حقوق کے کارکنان بھی موجود تھے۔
رضاکاروں کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد اسرائیلی ناکا بندی کو توڑنا نہیں بلکہ دنیا کو غزہ کے انسانی المیے کی طرف متوجہ کرنا ہے، تاہم اسرائیل نے اس مشن کو غیر قانونی طریقے سے روکتے ہوئے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔
عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے اسرائیل کے اس اقدام کو انسانی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی عوام نے صمود فلوٹیلا کے کارکنان کی قربانیوں کو سلام پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے انسانیت کے لیے اپنی آزادی قربان کی۔