چیف جسٹس یہ ریمارکس آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن کی ایک سماعت کے دوران کررہے تھے، جس میں سروس کی شرائط، تنخواہ کے پیمانے اور عدالتی افسران کی ترقیوں سے متعلق مسائل اٹھائے گئے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کے چیف جسٹس بی آر گوائی نے سوشل میڈیا پر عدالتی کارروائی کے دوران ججوں کے زبانی ریمارکس کی غلط بیانی پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل دور میں عدلیہ کے ہر تبصرے کی غلط تشریح کی جا سکتی ہے جس سے غیر ضروری تنازعات جنم لیتے ہیں۔ یہ تبصرہ سپریم کورٹ کے احاطے میں پیر کو ایک وکیل کی طرف سے چیف جسٹس  آئی گوائی پر اعتراض کرنے کی کوشش کے بعد آیا۔ وکیل مبینہ طور پر کھجوراہو میں وشنو مجسمہ کی بحالی کے سلسلے میں گزشتہ ماہ دائر کی گئی درخواست پر چیف جسٹس آف انڈیا کے تبصروں سے غیر مطمئن تھا۔ واقعے کے فوری بعد سکیورٹی اہلکاروں نے اس شخص کو حراست میں لے لیا، اس حملے کی ملک بھر میں مذمت کی گئی۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ٹویٹر پر اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے احاطے میں چیف جسٹس پر حملہ ہر ہندوستانی کو غم و غصہ کا باعث ہے۔ اس طرح کی قابل مذمت حرکتوں کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس گوائی نے ایک سماعت کے دوران ایک ہلکا پھلکا واقعہ شیئر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے ساتھی جج جسٹس کے ونود چندرن کو ایک کیس کی سماعت کے دوران عوامی تبصرے کرنے سے روک دیا تھا تاکہ سوشل میڈیا پر کسی غلط تشریح سے بچا جا سکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میرے معزز ساتھی (جسٹس کے.

ونود چندرن) کچھ تبصرے کرنا چاہتے تھے، لیکن میں نے انہیں روک دیا۔ ہم دھیرج موڑ کیس کی سماعت کر رہے تھے، میں نے انہیں اپنے کانوں تک رکھنے کو کہا، کیونکہ یہ نہیں بتایا گیا کہ سوشل میڈیا پر کیا رپورٹ کیا جائے گا۔

چیف جسٹس کے تبصروں کو عدلیہ اور سوشل میڈیا کے درمیان تعلق کے ایک اہم اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ جج اکثر عدالتی کارروائی کے دوران ایسے بیانات دیتے ہیں جو فیصلے کا حصہ نہیں ہوتے لیکن سوشل میڈیا پر اکثر غلط طریقے سے پیش کئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا یہ ریمارکس آل انڈیا ججز ایسوسی ایشن کی ایک سماعت کے دوران کر رہے تھے، جس میں سروس کی شرائط، تنخواہ کے پیمانے اور عدالتی افسران کی ترقیوں سے متعلق مسائل اٹھائے گئے تھے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ نچلی عدالتوں میں جوڈیشل افسران کے کیریئر میں جمود کا مسئلہ پانچ رکنی آئینی بنچ کو بھجوایا جائے۔ پولیس ذرائع کے مطابق حملہ کرنے کی کوشش کرنے والا وکیل گزشتہ ماہ کھجوراہو میں وشنو مجسمہ کی بحالی سے متعلق سماعت کے دوران گوائی کے زبانی ریمارکس سے غیر مطمئن تھا۔ اس شخص سے فی الحال پوچھ گچھ کی جا رہی ہے اور سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: سماعت کے دوران سوشل میڈیا پر ا ف انڈیا چیف جسٹس کہا کہ

پڑھیں:

غزہ پر عمران کی خاموشی، PTI اور جماعتِ اسلامی میں سوشل میڈیا پر شدید جھڑپ

اسلام آباد (نیوز ڈیسک)جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کی جانب سے عمران خان کی اسرائیل کے غزہ میں قتلِ عام پر خاموشی کو تنقید کا نشانہ بنانے پر تحریکِ انصاف اور جماعتِ اسلامی (جے آئی) کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک شدید آن لائن جنگ چھڑ گئی ہے۔

حافظ نعیم کے اس بیان نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کر دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا تھا کہ عمران خان جو اڈیالہ جیل سے باقاعدگی سے بیان دیتے ہیں، انہوں نے اسرائیل کے مظالم پر خاموشی کیوں اختیار کر رکھی ہے؟

اس پر پی ٹی آئی کا سخت ردعمل سامنے آیا اور جماعتِ اسلامی کے رہنما پر منافقت اور اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر بولنے کے الزامات لگائے گئے۔ دونوں جماعتوں کے کارکنوں نے ایک دوسرے کے خلاف سوشل میڈیا پر بیانات چلائے۔

جماعتِ اسلامی کے کارکنوں نے کہا بات کیوں نہیں کرتے جب کہ پی ٹی آئی کے حامیوں نے کہا منافقت کیوں کرتے ہو کے عنوان سے مہم شروع کر دی۔ دونوں ٹرینڈز چند گھنٹوں میں سرِفہرست آ گئے اور ایک دوسرے کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی۔

جھڑپ شدت اختیار کر گئی تو پہلے پی ٹی آئی اور بعد میں جماعتِ اسلامی نے باضابطہ بیانات جاری کیے۔ دونوں جماعتوں نے اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو مکمل طور پر متحرک کردیا۔

پی ٹی آئی کے ترجمان نے حافظ نعیم کے تبصروں کو احمقانہ، بدنیتی پر مبنی اور اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنے کی کوشش قرار دیا۔پی ٹی آئی میڈیا سیل کے بیان میں کہا گیا ریمورٹ کنٹرول سیاست دانوں کی عقل پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔

حافظ نعیم ایک مقبول مگر لیڈر کے ایمان، عزت اور فلسطین سے وابستگی پر تبصرے کر رہے ہیں — یہ سیاسی بغض اور فکری غلامی کی انتہا ہے۔پی ٹی آئی نے یاد دلایا کہ کچھ عرصہ قبل خود حافظ نعیم نے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان سے ملاقات کی درخواست کی تھی تاکہ فلسطین کی حمایت میں مارچ میں اشتراک کیا جا سکے اور پی ٹی آئی نے اس کی غیر مشروط حمایت کی تھی۔

بیان میں کہا گیا عمران خان ہی وہ واحد پاکستانی لیڈر ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسرائیل اور اس کے مقامی حواریوں کے خلاف واضح اور جرات مندانہ مؤقف اپنایا۔ پی ٹی آئی نے جماعتِ اسلامی پر منتخب سرگرمی کا الزام لگاتے ہوئے سوال اٹھایا کہ حافظ نعیم نے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان — جو غزہ امدادی فلوٹیلا مشن کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں گرفتار ہوئے — کے بارے میں حالیہ خطاب میں کیوں بات نہیں کی؟

کیا آپ کو اس پر بولنے کی اجازت نہیں ملی؟ عمران خان کے خلاف زبان چلتی ہے، مگر اپنے سینیٹر کے لیے کیوں خاموشی؟ جتنا واضح اور جرات مندانہ مؤقف عمران خان کا فلسطین پر ہے، اتنا کسی اور سیاستدان کا نہیں رہا۔

تحریکِ انصاف کے جاری بیانات دراصل عمران خان ہی کے مؤقف کی ترجمانی کرتے ہیں۔ نواز شریف کی خاموشی پر بھی کبھی سوال کر لیجیے، یا وہ موضوع اجازت نامے سے باہر ہے؟قوم جانتی ہے کہ ریموٹ کنٹرول سیاستدان کب، کہاں اور کس کے اشارے پر بولتے ہیں۔

لہٰذا حافظ نعیم اداروں کی خدمت جاری رکھیں، مگر اُس رہنما پر زبان نہ چلائیں جو قوم کے ضمیر، حریت اور خودداری کی علامت بن چکا ہے۔جواب میں جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی پر حافظ نعیم کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگایا۔

جماعت کے بیان میں کہا گیا جو کوئی ان کی پوری 20 منٹ کی تقریر سن لے گا، اسے معلوم ہوجائے گا کہ پی ٹی آئی کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ غزہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا موضوع نہیں، حافظ نعیم پر تنقید کے بجائے ٹرمپ و اسرائیلی پالیسیوں کیخلاف آواز اٹھائی جائے۔

جے آئی نے کہا کہ وہ حقائق پر بات کرتی ہے، دشمنی پر نہیں۔ اس نے نشاندہی کی کہ جب دنیا بھر میں اسرائیل مخالف مظاہرے ہو رہے ہیں، پاکستان کی بڑی جماعتوں — پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی — نے نہ کوئی بڑا احتجاج کیا اور نہ غزہ کو اپنی سیاسی ترجیحات میں شامل کیا۔

جماعتِ اسلامی نے یہ بھی واضح کیا کہ حافظ نعیم نے متعدد مواقع پر عمران خان کو سیاسی قیدی قرار دیا اور انتخابی دھاندلی کے خلاف اسمبلی سیٹ چھوڑ کر احتجاج بھی کیا۔ تاہم جماعت کے مطابق غزہ میں انسانی المیہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا موضوع نہیں ہونا چاہیے۔

جے آئی نے سوال اٹھایا کہ عمران خان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مبارکباد کے بیانات تو دیے ، مگر اسرائیلی مظالم پر خاموش کیوں رہے؟مزید برآں جماعتِ اسلامی نے کراچی کے میئر کے انتخاب میں پی ٹی آئی کے 32 نمائندوں کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پیپلز پارٹی کو موقع ملا — جسے حافظ نعیم نے منصوبہ بند غیر حاضری قرار دیا۔

مشتاق احمد خان کے معاملے پر جماعتِ اسلامی نے کہا کہ حافظ نعیم نے ان کی گرفتاری کو کئی بار عوامی سطح اور اعلیٰ فورمز پر اٹھایا اور پی ٹی آئی کے الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں۔جماعت نے ایک بار پھر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا مگر ساتھ ہی پی ٹی آئی، ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے سوال کیا کہ وہ اسرائیل مخالف مظاہرے کیوں نہیں کرتے اور حماس کی حمایت سے کیوں گریزاں ہیں۔

جماعت کے بیان کا اختتام اسی جملے پر ہواکہ پی ٹی آئی کو حافظ نعیم کے خلاف بیانات دینے کے بجائے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف بولنا چاہیے، جو اسرائیل کا اصل سرپرست ہے۔

(انصار عباسی)

متعلقہ مضامین

  • لاہور ہائیکورٹ کا دوران سماعت عدالت کی ویڈیو بنانے پر سخت کارروائی کا حکم
  • غزہ پر عمران کی خاموشی، PTI اور جماعتِ اسلامی میں سوشل میڈیا پر شدید جھڑپ
  • چیف جسٹس آف انڈیا پر حملہ زہریلا نظریہ ہے جسے روکنا ہوگا، بی آر گوئی کی بہن
  • فرانسیسی سوشل میڈیا اسٹار کو لوگوں کو سرنجیں گھونپتے پھرنے پر جیل کی ہوا کھانی پڑگئی
  • ناران میں اب غیر شادی شدہ جوڑے نہیں جاسکتے؟ ’نکاح نامہ چیکنگ‘ کی حقیقت سامنے آگئی
  • چیف جسٹس آف انڈیا پر جوتا پھینکنے کی کوشش، ملزم گرفتار
  • سوشل میڈیا انفلواینسرز کو اسرائیل کی جانب سے ہزاروں ڈالرز دینے پر ایران کا ردعمل
  • وکیل نے دوران سماعت بھارتی چیف جسٹس پر جوتا پھینک دیا 
  • میری قید کے دوران فیملی اور بہنوں کے خلاف مہم تکلیف دہ ہے، عمران خان کا جیل سے پیغام