میرے سامنے لکڑی کا ایک طویل رِنگ تھا اور لوگ اس کے اوپر چہل قدمی کر رہے تھے‘ یہ دور سے روم کا قدیم کلوژیم دکھائی دیتا تھا‘ میں جوں ہی مین اینٹرنس سے داخل ہوا سامنے رنگوں کی برسات تھی اوراس برسات کے درمیان ہزاروں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر چل رہے تھے‘ یہ کیا تھا؟ میں اس طرف آنے سے پہلے آپ کو کچھ اور بتانا چاہتا ہوں۔
دنیا میں 1851سے ہر پانچ سال بعد یونیورسل ایکسپو لگتی ہے‘ یہ بنیادی طور پرمختلف ملکوں کا ثقافتی شو ہوتا ہے‘ 2025 کی ایکسپو جاپان کے شہر اوساکا میں ہوئی‘یہ 13 اپریل کو شروع ہوئی اور 13 اکتوبر کو ختم ہو جائے گی‘ مجھے جاپانی حکومت کی دعوت پر چار دن ایکسپو میں گزارنے کا موقع ملا‘ یہ ایک منفرد تجربہ تھا‘ ایکسپو کے لیے 2017میں نیویارک میں نیلامی ہوئی تھی‘ فرانس‘ آذربائیجان‘ روس اور جاپان کے درمیان مقابلہ ہوا‘ جاپان نے یہ مقابلہ جیت لیا اور تیاری شروع کر دی یوں اسے تیاری مکمل کرنے میں سات سال لگ گئے۔
اوساکا ہر طرف سے سمندر میں گھرا ہوا ہے‘ حکومت نے ایکسپو کے لیے 488 ایکڑ پر محیط مصنوعی جزیرہ بنایا اور اس پر 383 ایکڑ کی ایکسپو سائیٹ بنا دی‘ اس کے چاروں طرف سمندر ہے‘ مصنوعی جزیرے کا نام یومی شیما رکھا گیا‘ اسے ریل‘ سڑک اور سائیکل ٹریک کے ساتھ جوڑا گیا‘ اس پر مٹی ڈال کر درخت‘ پودے اور پھول لگائے گئے‘ سیوریج پائپ بچھا کر سیوریج کا بندوبست کیا گیا‘ پانی کے پائپ پہنچائے گئے اور بجلی اور گیس کا بندوبست کیا گیا‘ ایکسپو کے گرد 61 ہزار 35 مربع میٹر کا لکڑی کا رِنگ بنایا گیا‘ یہ زمین سے 12سے 20میٹر اونچا اور 30میٹر چوڑا ہے‘ اس کے اوپر دو واک وے ہیں جب کہ نیچے بارش اور دھوپ میں لوگوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔
لوگ برقی سیڑھیوں اور لفٹس کے ذریعے رِنگ کے اوپر چلے آتے ہیں اور بلندی سے نمائش کا معائنہ کرتے ہیں‘ رِنگ جاپانی آرکی ٹیکٹ سوفیوجی موٹو نے بنایا اور یہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو گیا‘ یہ انسانی تاریخ کا پہلا بڑا ووڈن اسٹرکچر ہے‘ جاپان نے اس کے لیے سونامی میں جمع ہونے والی لکڑی استعمال کی‘ یہ بنیادی طور پر لکڑی کے بڑے بڑے تنے ہیں جنھیں اوپر تلے جما اور جوڑ کر انتہائی خوب صورت اور متاثر کن اسٹرکچر بنایا گیا‘ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے جاپان میں جواء خانے نہیں ہیں۔
حکومت نے فیصلہ کیا یہ نمائش کے بعد اس جزیرے میں پہلا اور بڑا کیسینو بنائے گی‘ نمائش کا ٹائٹل ’’فیوچر سوسائٹی فار آور لائیوز‘‘ ہے اور اسے دیکھنے کے لیے روزانہ اڑھائی لاکھ لوگ آتے ہیں‘ ان لوگوں کے لیے اسپیشل ٹرین‘ شٹل بسیں اور ٹیکسیاں چلتی ہیں‘ ائیرپورٹ سے بھی ایکسپو کے لیے خصوصی بسوں کا بندوبست کیا گیا‘ نمائش میں 156 ملکوں کے اسٹالز ہیں‘ اسٹالز کی تین کیٹگریز ہیں‘ اے کیٹگری میں ملکوں کو 900مربع میٹر سے زیادہ زمین الاٹ کی گئی‘ بی کیٹگری میں تین سو میٹر سے زیادہ زمین دی گئی جب کہ سی کیٹگری میں سو میٹر سے کم جگہ ہے اور یہ ہالز کے اندر ہے۔
میں تین اکتوبر کو ایکسپو پہنچا‘ ووڈن رِنگ نے دور سے میری توجہ کھینچ لی لیکن میں بدقسمتی سے پہلے دن بارش کی وجہ سے اس پر واک نہیں کر سکا‘ یہ نیک کام میں نے دوسرے دن کیا اور جی بھر کر کیا‘ ہم رومانیہ کے پویلین کے سامنے سے اندر داخل ہوئے‘ سامنے مین اسٹریٹ تھی اور پیچھے ووڈن رِنگ کی برقی سیڑھیاں‘ میں سب سے پہلے پاکستان پویلین دیکھنے گیا‘ جاپان میں مشہور پاکستانی صحافی عرفان صدیقی میرے ساتھ تھے‘ یہ بہت شان دار انسان اور بااثر صحافی ہیں‘ صحافت کے ساتھ ساتھ اپنا کاروبار بھی کرتے ہیں اور خاصے خوش حال ہیں‘ جاپان کو اچھی طرح سمجھتے ہیں‘ میرا حکومت کو مشورہ ہے یہ انھیں جاپان میں خصوصی نمایندہ یا کمرشل قونصلر بنا دے‘ یہ پاکستان اور جاپان کے درمیان کاروباری تعلقات میں اضافہ کر دیں گے۔
پاکستانی پویلین ہال میں ہے‘ جگہ بہت تنگ ہے لیکن اس کے باوجود وہاں بہت رش تھا‘ لوگ اندر داخلے کے لیے لائین میں لگے تھے‘ اس کی وجہ پویلین کا تھیم اور ڈیکوریشن ہے‘ پویلین کا نام ہیلنگ گارڈن ہے اور اسے ملک کی مشہور انٹیریئر ڈیکوریٹر نور جہان بلگرامی نے ڈیزائن کیا ‘ ڈیزائین حقیقتاًحیران کن اور پرکشش ہے‘ اندر کھیوڑا کان کے مختلف رنگ کے نمک کے پتھرا سٹیل کی بارز پر باربی کیو کی طرح پروئے ہوئے ہیں‘ ان پر جب روشنی پڑتی ہے تو یہ ہیرے کی طرح چمکنے لگتے ہیں‘ درمیان میں چھوٹی سی سٹنگ سپیس ہے‘ لوگ اس پر بیٹھ کر تصویریں بنوا رہے تھے جب کہ دیوار سے نمک کا دھواں نکلتا تھا اور یہ فضا کو بادل بنا دیتا تھا‘ دیواریں سیاہ تھیں اور ان پر سفید حروف میں نمک کی تاریخ لکھی تھی‘ لوگ اندر داخل ہوتے تھے۔
تاریخ پڑھتے تھے‘ نمک کی چٹانوں کے درمیان بیٹھتے تھے‘ تصویریں بنواتے تھے اور طواف کر کے نکل جاتے تھے‘ ساتھ ہی پاکستانی ہینڈی کرافٹس کا اسٹال تھا‘ اس میں ملتان کی نیلی ٹائلز‘ گجرات کی مٹی کے کاغذی پیالے‘ پشاور کے تانبے کے برتن‘ کشمیر کی شالیں اورچترال کے کیلی گرافی کے پتھریلے نمونے تھے‘ لوگ انھیں بھی حیرت سے سے دیکھ رہے تھے‘ ان کے ساتھ پاکستانی زیورات کا اسٹال تھا جس سے جاپانی خواتین قطار میں لگ کر کانوں کے جھمکے اور بریسلٹ خرید رہی تھیں‘ پاکستانی پویلین کی دیوار پر تانبے کی چھوٹی چھوٹی ٹائلز لگی تھیں‘ یہ پشاور میں ہاتھ سے بنائی جاتی ہیں اور دنیا بھر میں مقبول ہیں‘ لوگ ان پر ہاتھ پھر کر پاکستانی ہنر مندوں کی تعریف کر رہے تھے۔
ہم بدقسمتی سے من حیث القوم منفی ہیں‘ ہم مر جائیں گے لیکن کسی کی تعریف نہیں کریں گے‘ میں بھی نوے فیصد پاکستانی ذہنیت کا شکار ہوں لیکن آپ یقین کریں اس کے باوجود میں پاکستانی پویلین کی تعریف پر مجبور ہو گیا‘ یہ ہمارے پروفائل سے چھوٹا تھا لیکن اس کے باوجود دیدہ زیب اور پر اثر تھا‘ بڑے بڑے ملکوں کے وزراء اور سفیر پاکستانی پویلین کی تعریف کر رہے تھے‘ اس کا سارا کریڈٹ نورجہان بلگرامی اور ٹی ڈی اے پی کے ڈی جی نصیر صاحب کو جاتا ہے‘ بلگرامی اور نصیر صاحب نے واقعی نمک میں جان ڈال دی ‘ مجھے وہاں جا کر پہلی مرتبہ معلوم ہوا کھیوڑا کی کان سے سفید‘ پنک‘ ڈارک پنک اور براؤن رنگ کا نمک نکلتا ہے اور اس پر اگر ذرا سی پالش کر دی جائے تو یہ ہیرے اور گرینائیٹ کی طرح چمکتا اور دمکتا ہے۔
پاکستانی پویلین پر میری تین لوگوں سے ملاقات ہوئی‘ محمد نصیر گریڈ 21 کے آفیسر ہیں اور ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان کے ڈی جی ہیں‘ یہ بہت نفیس اور متحرک آفیسر نکلے‘ انھوں نے بہت کم وقت میں دائیں بائیں تمام پویلین کی اتھارٹیز کے ساتھ تعلقات بنا لیے ہیں‘ یہ مجھے ساتھ لے کر سعودی عرب اور بنگلہ دیش کے پویلین پر گئے‘ سعودی عرب کے جاپان میں سفیر نے باہر آ کر ہمارا استقبال کیا جب کہ بنگلہ دیش کے ڈی جی بڑی دیر تک ہمارے ساتھ بیٹھے رہے‘ یہ باریش ہیں اور تبلیغی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔
رائے ونڈ آنا چاہتے ہیں لیکن سرکاری مصروفیات کی وجہ سے وقت نہیں مل رہا‘ دوسرا ان کے کلاس فیلوز فوج میں بھرتی ہو گئے اور وہ اس وقت میجر جنرل ہیں‘ انھیں فوج میں نہ جانے کا قلق تھا‘ میں نے انھیں مشورہ دیا آپ اپنا نام بدل کر جنرل رکھ لیں‘ آپ کو پورا بنگلہ دیش مرنے کے بعد بھی جنرل کہے گا‘ وہ یہ سن کر دیر تک ہنستے رہے‘ نصیر صاحب نے ان سب کو دوست بنا لیا ہے‘ میں نے انھیں شان دار پویلین پر مبارک باد پیش کی‘ انھوں نے عاجزی سے ہاتھ جوڑ کر اپنا کریڈٹ بھی نور جہان بلگرامی کو دے دیا‘ دوسرے صاحب عادل مختار چوہدری ہیں‘ یہ نصیر صاحب کے جونیئر ہیں‘ کامرس منسٹری سے تعلق ہے‘ اوکاڑہ کے رہنے والے ہیں اور سی ایس ایس کر کے سروس جوائن کر لی‘ ای کامرس اور ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے ایکسپرٹ ہیں‘ یہ بھی بے انتہا متحرک ہیں اور تیسرے صاحب سید سجاد شاہ ہیں‘ یہ ٹورازم کے بزنس سے منسلک ہیں‘ ان کی کمپنی جاپان اور پاکستان میں کام کرتی ہے‘ ان کے پاس گراؤنڈ سروسز کا ٹھیکا تھا‘یہ بہت دل چسپ انسان ہیں‘ دنیا دیکھ رکھی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں جاپان آئے‘ یہاں شادی کی اور سیاحت کا بزنس شروع کر دیا‘یہ دل چسپ کمپنی ہیں‘ بور نہیں ہونے دیتے‘ پاکستان نے پی آر کا ٹھیکا کراچی کی کسی کمپنی کو دیا لیکن یہ اپنا ٹھیکا کسی بھارتی کمپنی کے حوالے کر کے غائب ہو گئی اور اس نے یہ ٹھیکا آگے قزاقستان کی ایک خاتون کو دے دیا‘ میری اس سے ملاقات ہوئی لیکن اس بے چاری کے پاس کیمرہ اور پراپر مائیک تک نہیں تھا‘ وہ موبائل فون سے ریکارڈنگ کر رہی تھی‘ مجھے شاہ صاحب نے بتایا یہ خاتون پاکستان کو ہاف ملین ڈالر میں پڑی‘ یہ اتنہائی افسوس ناک تھا‘ اس سے زیادہ کوریج عرفان صدیقی نے پاکستانی پویلین کی فری کر دی تھی‘ میرا خیال ہے کراچی کی کمپنی سے آدھی رقم واپس لے کر عرفان صدیقی کو دے دینی چاہیے‘ یہ اس سے زیادہ حق دار ہیں۔
ایکسپو کے فوڈ کورٹ میں ایک پاکستانی ریستوران بھی تھا‘ اس کے مالک اظہر صاحب ہیں‘ یہ لاہور اور سندھ دونوں کے شہری ہیں‘ جوانی میں جاپان آئے اور یہاں ریستوران کے کاروبار سے منسلک ہو گئے‘ ان کی بریانی پوری ایکسپو میں مشہور ہے‘ جاپانی بھی اسے بے انتہا پسند کرتے ہیں اور باقاعدہ قطاروں میں کھڑے ہو کر خریدتے ہیں‘ اظہر صاحب وہاںبریانی بوائے کے نام سے مشہور ہیں‘ ان سے بھی ملاقات ہوئی اور پورے ریستوران میں جاپانی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی پویلین کی جاپان میں ایکسپو کے کے درمیان سے زیادہ کی تعریف ہیں اور رہے تھے کے ساتھ کے لیے ہے اور لوگ ان اور اس اور یہ
پڑھیں:
بلومبرگ کی رپورٹ اہم سنگ میل ہے، پاکستان کی ترقی کا سفر اب رکے گا نہیں؛ وزیراعظم
ویب ڈیسک : وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے بلومبرگ کی رپورٹ کو اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کا یہ سفر اب رکے گا نہیں۔
وزیراعظم نے پاکستانی معیشت کے حوالے سے بلوم برگ کی حالیہ مثبت رپورٹ کا خیر مقدم کیا۔ شہبازشریف نے کہا کہ عالمی جریدے کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کریڈٹ ڈیفالٹ سواپ میں مضمر ڈیفالٹ امکانات میں 2200 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سی ڈی ایس کی قیمت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے، یہ اس بات کا عکاس ہے کہ پاکستانی معیشت میں عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کوئٹہ اور گردونواح میں زلزلے کے جھٹکے
وزیراعظم نے کہا کہ عالمی درجہ بندی میں ابھرتی معیشتوں میں اس وقت ترکیہ کے بعد پاکستان دوسرا ملک ہے، یہ ہماری معیشت کے لیے اچھی خبر ہے۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ حکومت کے اختتام پر ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر کھڑا تھا، بلوم برگ کی یہ رپورٹ ہمارے لیے ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے اور ہماری ترقی کے سفر کی مظہر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی کوششوں، پاکستانی اور عالمی کاروباری برادری کے تعاون سے ترقی کا وعدہ پورا ہوتا نظر آرہا ہے، اب یہ ترقی کا سفر ہرگز نہیں رکے گا۔
شہیدوں کی قربانیوں پر ہزاروں حکومتیں قربان ہیں؛ حنیف عباسی