پاک سعودی تعلقات اور تاریخی پس منظر
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کا مختصر دورانیے میں دوسرا دورہ سعودی عرب متوقع ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ کسی ہمہ جہت قسم کی پیشرفت کام چل رہا ہے اور تیزی سے چل رہا ہے۔ کچھ خبروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تجارت و سرمایہ کاری بڑے فروغ کے لیے دونوں ممالک کی مشترکہ ٹیمیں کام کر رہی ہیں۔ کچھ سالوں کے وقفے کے بعد ایک بار پھر دونوں برادر ممالک کے بیچ روابط کی یہ پرجوش سرگرمی دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خطے کے لیے مثبت امکانات رکھتی ہے۔
ہم نے پاک سعودی دفاعی معاہدے پر لکھے اپنے کالم میں لکھا تھا عرب ممالک کا مسلم ممالک میں سے پاکستان کے ساتھ تعلق بہت قربت کا ہے۔ اس طرح کا تعلق دیگر مسلم مالک سے ان کا نہیں ہے۔ تب ہم نے اس کی وجہ ماضی قریب کی اس تاریخی جھلک کی صورت پیش کی تھی جو عرب اسرائیل جنگوں سے جڑی ہے۔ چونکہ معاہدہ دفاعی تھا سو ہم نے تاریخی بیک گراؤنڈ بھی دفاعی پیش کیا تھا۔ اب معاملہ ہمہ جہت اور بالخصوص تجارتی اہمیت کا ہے سو تجارتی بیک گراؤنڈ دیکھنا ہوگا۔ تجارتی بیک گراؤنڈ کے لئے ہمیں ذرا نہیں بہت گہرا غوطہ لگانا پڑے گا۔ یعنی قیام پاکستان سے بہت پیچھے اس دور میں جانا پڑے گا جب یہ خطہ ہند یا بلاد الہند کے نام سے جانا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کھیل سے جنگ
یہ 7ویں صدی تھی جب عرب تاجر ہندوستانی ساحلوں پر اترے تھے۔ اس کی ایک سینہ بسینہ قسم کی روایت خاص طور پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور کا بھی ذکر کرتی ہے کہ پہلا قافلہ تب پہنچا تھا۔ مگر اس کا کوئی دستاویزی ثبوت نہیں۔ وہ چونکہ صحابہ کرام اور تابعین کا دور تھا سو ان تاجروں کا کیرالہ کے ہندو تاجروں پر گہرا اخلاقی اثر ہوا۔ اور یہاں اسلام پھیلنے لگا۔ پھر ایک مسئلہ یہ تھا کہ سفر ہوتے بھی طویل سمندری تھے یوں فوری آنا جانا نہ ہوتا بلکہ عرب تاجروں کو کیرالہ میں کچھ مدت کا قیام بھی کرنا پڑتا۔ اس قیام نے وہاں مستقل مکان اور شادی کا امکان بھی پیدا کردیا۔ چنانچہ عرب تاجروں نے مقامی نومسلم گھرانوں میں شادیاں بھی کرلیں۔ اس سے وہ موپلا مسلم برادری وجود میں آئی جس کا ننیہال ہندوستانی اور ددیال عرب ہے۔ ان رشتوں کا اثر یہ ہے کہ آج بھی سعودی عرب میں کیرالہ کے مسلمانوں کو ذرا اضافی قربت حاصل ہے، کیونکہ عرب انہیں اپنا رشتے دار مانتے ہیں۔
یہ تو ہوا ہمارے خطے کے مسلمانوں سے عربوں کا پہلا ربط۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ بلکہ ایک اور پہلو قیام پاکستان کے آس پاس کی صدیوں کا بھی ہے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب عرب سرزمین پر تیل ابھی دریافت نہ ہوا تھا۔
اس زمانے میں برصغیر میں پھیلی مسلم ریاستوں کے نوابوں و حکمرانوں کا یہ معمول تھا کہ وہ اپنی زکوٰۃ اور چیرٹی ہر سال حج کے موقع پر حجاز بھجواتے۔ جس سے وہاں کے مقامی لوگوں کی بڑی مدد ہوجایا کرتی۔ یہ سلسلہ اتنی پابندی کے ساتھ چلا کہ اہل حجاز ہر سال حج کے موقع ہندوستانی قافلوں کا انتظار کرتے۔
عرب چونکہ ایک بڑی قوم ہے۔ وہ قوم جہاں اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنے محبوب ﷺ کو مبعوث فرمایا تھا۔ سو اس کی اقدار بھی عالی ہیں۔ تیل دریافت ہونے کے بعد عربوں نے سب بھلا نہ دیا بلکہ یہاں کے مسلمانوں کی نیکی کو یاد رکھا۔ چنانچہ جب تیل کی آمدنی شروع ہوئی تو ہندوستان کے مسلمان دو حصوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک حصہ پاکستان کے نام سے مستقل مملکت کی صورت اختیار کرگیا تھا۔ جبکہ دوسرا حصہ ہندوستان میں ہی رہ گیا تھا۔ عربوں نے دونوں کا ہی خیال رکھنا شروع کردیا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مودی کی آؤ بھگت مودی سے کسی محبت کا اظہار ہوتا ہے تو یہ غلط فہمی رفع کر لینی چاہیے۔ مودی 24 کروڑ مسلمانوں کا بھی وزیر اعظم ہے۔ اسے ابوجہل کی نظر سے دیکھا متاثر ہندوستانی مسلمان ہوں گے۔ پاک و ہند کے مسلمانوں کو غیر معمولی تعداد میں ملازمتیں بھی عرب ممالک نے اسی تعلق و تاریخ کی نسبت سے دے رکھی ہیں۔
مزید پڑھیے: بگرام کا ٹرک
یہ پورا تاریخی پس منظر یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ عربوں کا پاک و ہند سے رشتہ لگ بھگ اٹوٹ نوعیت کا ہے۔ اس میں وقتی اونچ نیچ تو آ سکتی ہے مگر یہ قربت ٹوٹ نہیں سکتی۔ کیونکہ قیام پاکستان کے بعد تو یہ قربت مورچے کے تعلق میں بھی بدل چکی۔ ہم دو عرب اسرائیل جنگوں میں ان کے شانہ بشانہ لڑ چکے اور کسی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے اب بڑی سطح کا بلکہ آخری سطح کا معاہدہ بھی کرچکے۔ مورچے کی دوستی سے بڑی دوستی کوئی نہیں ہوتی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کا متوقع دورہ اگر کسی بڑے تجارتی معاہدے کے ثمرات لایا تو یہ 7ویں صدی والے عرب تاجروں کا ہی تسلسل ہوگا۔ اس ضمن میں اچھی بات یہ ہے کہ تاریخ کے اس اہم ترین موڑ پر پاکستان میں شریف خاندان ہی اقتدار میں ہے۔ پلیز ہمیں پٹواری نہ سمجھ بیٹھیے گا۔ ہم بس اس حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں جو پچھلے 40 سال سے شریف خاندان کی سعودی شاہی خاندان کے ساتھ ذاتی، سیاسی و قومی دوستی کی صورت موجود ہے۔ اور جس کا پاکستان اور سعودی عرب دونوں کو اس پورے عرصے میں بہت غیر معمولی فائدہ ہوا ہے۔ اگر اس وقت پاکستان میں زرداری صاحب کی حکومت ہوتی تو ہم شاید ایرانی پیٹرول کی اسمگلنگ میں اضافے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہوتے۔
مزید پڑھیں: دفاعی معاہدہ، سیاسی امکانات
ان کی ترجیحات تو اسی سمت اور اسی نوع کی ہیں بھائی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کے ہر دور میں سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا آیا ہے کہ سعودی عرب سے ہمارے تعلقات اگر کسی نقصان سے دوچار نہیں بھی ہوئے تو جمود کا شکار لازما ہوئے ہیں۔ بلکہ سچ پوچھیے تو کوئی بعید نہیں کہ شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد والی شرلی سے پیپلز پارٹی سعودی عرب کو ہی کوئی منفی سگنل دینے کی کوشش کر رہی ہو۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاک سعودی تعلقات پاک سعودی معاہدہ صدر ا صف علی زرداری وزیراعظم شہباز شریف کے مسلمانوں شہباز شریف پاکستان کے پاک سعودی کے ساتھ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
سعودی عرب کا پاکستان میں 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ برقرار ہے: وزیر خزانہ
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی، این این آئی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ سعودی عرب کا پاکستان میں 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ مکمل طورپر برقرار اور اس حوالے سے پیش رفت جاری ہے تاہم یہ امداد نہیں، ٹریڈ اور انویسٹمنٹ سے آگے بڑھنا ہے۔ عرب نیوز کو دئیے گئے انٹرویو میں وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ سعودی عرب مکمل طور پر تیار ہے، اب بال پاکستان کے کورٹ میں ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ یہ امداد نہیں بلکہ تجارت اور سرمایہ کاری کا نیا فریم ورک ہے، جس کے تحت پاکستان معیشت کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنا چاہتا ہے۔محمد اورنگزیب نے بتایا کہ حکومت بینک ایبل پرائیویٹ سیکٹر منصوبے تیار کررہی ہے، جنہیں سعودی سرمایہ کاری فنڈ کے سامنے رکھا جائے گا، معدنیات، آئی ٹی، فوڈ پروسیسنگ، زراعت اور ٹورازم وہ شعبے ہیں جن میں سعودی عرب سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ معاشی استحکام کے واضح آثار سامنے آ رہے ہیں، افراطِ زر اور ڈالر دونوں مستحکم ہو رہے ہیں جبکہ عالمی ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستان کی آئوٹ لک میں بہتری کردی ہے۔انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے دوسرے ریویو کے بعد بورڈ کا فیصلہ دسمبر کے اوائل میں متوقع ہے۔ریکو ڈک منصوبے پر بات کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ فنانشل کلوز قریب ہے اور یہ منصوبہ پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہوگا، آئی ایف سی کی قیادت میں 3.5 ارب ڈالر کا قرضہ پیکیج تیار ہے جبکہ ایک امریکی بینک کی شمولیت کا عمل بھی دوبارہ شروع ہونے والا ہے، ریکوڈک پہلے سال میں 2.8 ارب ڈالر تک کی برآمدات لاسکتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کے ساتھ کریکٹیکل منرلز کے شعبے میں بڑے معاہدوں پر پیش رفت جاری ہے۔سعودی عرب میں 2034 فٹبال ورلڈ کپ کے انعقاد کے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے محمد اورنگزیب نے کہا کہ یہ پاکستان کی اسپورٹس مینوفیکچرنگ انڈسٹری کے لیے بڑا موقع ہے اور سیالکوٹ کی کمپنی فارورڈ اسپورٹس نے سعودی حکام سے شراکت داری کے سلسلے میں گفتگو کی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ معیشت کا اگلا فیز مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر لیڈ ہوگا اور ہر چیز کو ٹریڈ اور انویسٹمنٹ ماڈل میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ پاکستان اور نائیجیریا نے مالیاتی و ریونیو تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے ۔وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی نائیجیرین ریونیو وفد سے ملاقات ہوئی جس میں دونوں ممالک کے درمیان مالیاتی، ٹیکس اور گورننس کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا گیا۔ملاقات کے دوران ریونیو اصلاحات، ٹیکس سسٹم کی مضبوطی اور ادارہ جاتی تعاون کے امکانات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔وزیرِ خزانہ نے کہا ہے کہ پاکستان کا اصلاحاتی ایجنڈا مضبوطی سے آگے بڑھ رہا ہے اور بیرونی کھاتے میں استحکام اور افراطِ زر میں کمی آئی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں مکمل اینڈ ٹو اینڈ ڈیجیٹل تبدیلی جاری ہے، کسٹمز آٹومیشن اور کمپلائنس کو مضبوط بنایا جا رہا ہے جبکہ توانائی، سرکلر ڈیٹ اور ٹیرف اصلاحات پر بھی کام جاری ہے۔نائیجیرین وفد نے پاکستان کے ریونیو شیئرنگ ماڈل اور تجربات کا جائزہ لیا اور کہا کہ پاکستان کے تجربات ہمارے لیے اہم ہیں۔وفاقی وزیر خزانہ نے کہا ہے کہ کان کنی، توانائی اور صنعت کے شعبوں میں بی ٹو بی تعاون کے امکانات موجود ہیں او دونوں ممالک کی جانب سے مزید اقتصادی شراکت داری کے مواقع تلاش کیے جا رہے ہیں۔