Express News:
2025-10-10@10:44:43 GMT

رابطے کے نئے نئے ذرائع اور تنہائی کا عذاب

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

یہ 1990 کی بات ہے کہ جب متحرک یا موبائل فون پاکستان میں متعارف کرائے گئے تھے۔ ابتدا میں یہ سہولت صرف دو ادارے فراہم کرتے تھے، پاکٹیل اور انسٹافون، بعد میں دیگر ادارے بھی آئے اور سہولیات میں بھی اضافہ ہوا جیسے ایس ایم ایس، ایم ایم ایس اور سی ایل آئی وغیرہ وغیرہ۔

ابتدا میں کال کرنے کے پیسے دینا تو سمجھ آتا ہے مگر اس وقت کال وصول کرنے والے کو بھی پیسے دینے پڑتے تھے۔ اگر میری یادداشت اور معلومات میرا صحیح ساتھ دے رہی ہیں تو اسکائپ وہ پہلی ایپ تھی کہ جس نے تقریباً مفت کال کی سہولت فراہم کی اور اس کے بعد تو چل سو چل۔ 

آج ایسی اَنگنت ایپ موجود ہیں جیسے واٹس اپ، ایمو، میسنجر، بوٹیم وغیرہ کہ جن کے ذریعے فون پر بات چیت مفت ہوچکی ہے لیکن انسان ہے کہ تنہا سے تنہا ہوتا جارہا ہے۔ پہلے بات کرنے کےلیے لوگ ہوتے تھے لیکن سہولیات کا فقدان ہوتا تھا۔ آج سہولیات کی بھرمار ہے لیکن بات کرنے کےلیے لوگ نہیں ہیں اور انسان تنہائی کا عذاب جھیلنے کےلیے مجبور ہوگیا ہے۔

کیا ایک دن میں ایسا ہوگیا؟ نہیں بالکل نہیں! بلکہ ہم میں سے کچھ نے تو باقاعدہ اس کی اَنا کی کھاد سے آبیاری کی ہے اور کچھ نے تو فخر اور غرور کے تالاب سے پانی بھی دیا ہے تب کہیں جاکر یہ تنہائی کا درخت پروان چڑھا ہے اور اب اکیلے پن کے پھل دے رہا ہے۔ کیا یہ یکطرفہ رویے کے نتیجے میں ہوا ہے یا آگ دونوں طرف برابر کی لگی ہوئی ہے؟ ایک بنیادی بات تو یہ سمجھ لیجئے کہ رابطے کی فراوانی نے ہی رابطوں کو مشکل بنادیا ہے۔ 

پہلے ہم نے سوچے سمجھے اور وقت دیکھے بغیر ایک دوسرے کو کال کرنا شروع کردیا اور لوگوں نے کال کو اپنی ضرورت اور فائدے سے مشروط کردیا، نتیجہ اگر فائدہ نظر آیا تو کال وصول ہوگی، ورنہ کال انتظار ہی کرتی رہ گئی بلکہ کبھی کبھی کیا عموماً بے فائدہ کال کا گلہ بھی گھونٹ دیا گیا یعنی چند گھنٹیوں کے بعد ہی کال کاٹ دی گئی۔ 

اگر ہم اس مسئلے کی بالکل بنیادی وجوہات کی طرف آئیں تو حقیقت یہ ہے کہ اب کوئی کسی کی سننا نہیں چاہتا اور سب صرف بولنا چاہتے ہیں۔ اب کوئی کسی کی مشکلات بھری گفتگو کیوں سنے۔ ویسے بھی آج کل ایسی گفتگو کو ٹاکسک (toxic) گفتگو کہتے ہیں۔ اس میں کچھ بولنے والوں کا بھی قصور ہوتا ہے کہ جب وہ ایک بار شروع ہوتے ہیں تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتے، گویا وہ وعظ کررہے ہیں اور آپ کا سننا لازم ہے۔

گفتگو کتنی ہی متنازع کیوں نہ ہو، آپ کے پاس اختلاف رائے کی بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ اختلاف رائے تو ناقابل برداشت ہوگئی ہے اور اختلاف رائے کا مطلب ذاتی دشمنی ہے اور کرنے والا جانی دشمن بن جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جانی دشمن کے دو الفاظ میں سے صرف ایک کا استعمال ہوتا۔ لوگ آج بھی کسی کی روداد چاہے وہ کتنی ہی غیر منطقی اور بے ربط کیوں نہ ہو، سننے کےلیے تیار ہیں بس اس میں ہمارا فائدہ ہونا چاہیے۔ یقین نہ آئے تو شہر میں افراد کی بنائی ہوئی ادبی محافل کو دیکھ لیجئے اور وہاں کی گفتگو سن کر اس تقریب کی حد تک آپ کو انسانیت اور انسان دوستی پر یقین آجائے گا اور اگر آپ اگلی تقریب کے مہمان نہیں ہیں تو یہ یقین تقریب کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور اگلی دعوت پر ہی دوبارہ استوار ہوگا۔

کیا اس مسئلے کا کوئی حل ہے؟ حل بالکل ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ پہلے گھر چھوٹے ہوتے تھے لیکن دل بڑے ہوتے تھے۔ اب گھر بڑے ہوگئے ہیں لیکن دل چھوٹے ہوگئے ہیں۔ اب ہمیں دوبارہ دل بڑے کرنے ہوں گے، طبی علامت کے طور پر نہیں بلکہ رشتوں کی علامت کے طور پر کرنا ہوگا۔ دل کو کشادہ کرنا ہوگا اور وسعت دینی ہوگی تاکہ لوگ اس میں ایک دفعہ پھر سما سکیں۔

لوگوں کی خوشیوں میں خوش ہونا ہوگا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہونا ہوگا۔ چیزوں کو چھوڑ کر لوگوں کو اپنانا ہوگا۔ مادی فوائد کو پس پشت ڈال کر روحانی فوائد کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔

آخر میں حسب روایت ایک کہانی کے بجائے ایک سچا واقعہ اور یہ میرا اپنا واقعہ ہے۔ بہت پرانی بات ہے کہ سر راہ میری ایک پرانے دوست سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے نہ ملنے کا گلہ کیا۔ میں نے حسب روایت مصروفیت کا بہانہ بنایا۔ اس نے ایک گہری سانس لی اور کہا کہ کیا اس دوران میں نے کوئی سماجی طور پر ملاقات نہیں کی؟ کیا میں کسی کے گھر دعوت پر نہیں گیا؟ یا کیا کوئی میرے گھر دعوت پر نہیں آیا؟ میں نے تینوں سوالات کا اثبات میں جواب دیا۔

اس پر دوست نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ دیکھو دوست میں تمھاری ترجیحات میں نہیں ہوں، اس لیے ہم نہیں ملے۔ جس دن میں تمھاری ترجیح بن جاؤں گا تمھارے پاس وقت بھی آجائے گا اور وسائل بھی۔ اس نے مجھے مکمل طور پر کلین بولڈ کردیا تھا۔ مجھے یہ ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں اتنے سچ کےلیے تیار نہیں تھا لیکن اتنا ظرف ضرور رکھتا تھا کہ اپنی کوتاہی تسلیم کرلوں اور میں نے تسلیم کرلی۔ 

اگر ہم آج بھی مادی فوائد اور چیزوں کو چھوڑ کر لوگوں کو اپنی ترجیحات میں شامل کرلیں تو شاید وہ سنہرا وقت واپس آجائے اور یہ تنہائی کا عذاب گھٹ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تنہائی کا ہیں تو ہے اور گا اور

پڑھیں:

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس

مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔ اسلام ٹائمز۔ فلسطینی مزاحمت حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے جنگ روکنے کے اپنے وعدے توڑ دیے ہیں اور جارحیت کے مکمل خاتمے کے لیے حقیقی ضمانت دی جانی چاہیے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ خلیل الحیا نے مصری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے قاہرہ کے شرم الشیخ میں جاری غزہ جنگ بندی مذاکرات میں فلسطینی مذاکراتی ٹیم کے تازہ ترین موقف اور نقطہ نظر کے بارے میں بتایا۔

انہوں نے اشارہ کیا کہ صیہونی حکومت دو سال سے غزہ کے خلاف ایک احمقانہ جنگ لڑ رہی ہے، ہم استحکام، آزاد ریاست اور اپنی قوم کے اہداف اور امنگوں کو لے کر چلتے ہیں، ہم اسلامی اور عرب ممالک کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں کو سراہتے ہیں، ہمارا مقصد جنگ کو ختم کرنا، قیدیوں کا تبادلہ کرنا اور اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرنا ہے، انتہائی ذمہ داری کے ساتھ، ہم جنگ روکنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کرتے ہیں، لیکن قابض حکومت قتل و غارت اور نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے، اس حکومت نے جنگ کو روکنے کے اپنے وعدوں کو توڑ دیا ہے، اور جارحیت کے مکمل خاتمے کی حقیقی ضمانتیں ہونی چاہئیں۔

اس سے قبل حماس تحریک کے ایک ذریعے نے الجزیرہ کو بتایا تھا کہ مصری شہر شرم الشیخ میں ہونے والے اجلاس کے دوسرے روز ثالثوں اور حماس کی مذاکراتی ٹیم کے درمیان مذاکرات ختم ہو گئے تھے۔ حماس کی مذاکراتی ٹیم نے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کے انخلاء پر زور دیا ہے۔ حماس کے وفد نے اس بات پر زور دیا کہ آخری اسرائیلی قیدی کی رہائی غزہ سے آخری صہیونی فوج کے انخلاء کے ساتھ ہی ہونی چاہیے۔ 

متعلقہ مضامین

  • بھیک لیا کرو بھیک دیا کرو
  • نیا ٹریفک آرڈیننس کراچی کے شہریوں کے لیے نیا عذاب
  • سندھ حکومت کا ٹریفک آرڈیننس؛ اہل ِ کراچی کے لیے نیا عذاب
  • طوفان الاقصی، فلسطین سے ماوراء حقیقت
  • امریکا اور کینیڈا کے درمیان تجارتی مذاکرات ’پیچیدہ‘ لیکن کینیڈا خوش ہوگا، صدر ٹرمپ
  • مایوسی نا انصافیوں کا لازمی نتیجہ ہوتی ہے!
  • صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس
  • پیپلزپارٹی کا کھیل
  • فخر کو 10 سال ہوگئے ٹی ٹوئنٹی میں کب چلے گا؟ احمد شہزاد اوپننگ بیٹر پر بھڑک گئے