جنگ بندی؛ حماس کی فتح: ایمان کی طاقت کا اثبات
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ اکبر! وللہ الحمد! غزہ میں جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے۔ یہ کوئی معمولی لمحہ نہیں، بلکہ ایمان و یقین کے اْن مناظر میں سے ہے جو تاریخ میں کبھی کبھار رقم ہوتے ہیں۔ شہر ِ عزیمت — غزہ — آج اللہ اکبر اور الحمدللہ کے نعروں سے گونج رہا ہے۔ اہل ِ غزہ اور اہل ِ ایمان خوشی سے نہال ہیں، دوہری خوشی سے؛ ایک اس لیے کہ اْن کے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو جنگ کی مشقتوں سے کچھ لمحوں کا سکون نصیب ہو رہا ہے، اور دوسرا اس لیے کہ اسلام کے مقابلے میں صہیونیت کی بدترین شکست اور ذلت و رسوائی تاریخ کے صفحات پر ایسی سیاہی سے درج ہوگئی ہے جو قیامت تک مٹ نہیں سکتی۔دو سال سے زائد عرصہ تک دنیا کی بڑی طاقتوں، جدید ترین ٹیکنالوجی، بم و بارود، اسلحہ اور شیطانی حربوں سے آراستہ غاصب قوتیں ایک چھوٹے سے علاقے پر چڑھ دوڑیں مگر نتیجہ؟ ناکامی، شرمندگی اور رسوائی! محمد الضیف، اسماعیل ہنیہ، یحییٰ السنوار، محمد السنوار، استاد ابو عبیدہ اور ان جیسے بہادر قائدین کے وہ الفاظ آج حرف بہ حرف سچ ثابت ہوگئے کہ: ’’ہماری مرضی کے بغیر تم کچھ حاصل نہیں کرسکو گے، ایک قیدی بھی نہیں!‘‘ یہ صرف الفاظ نہیں تھے، بلکہ ایک عہد تھا، عہد ِ صبر، عہد ِ ثبات، عہد اللہ پر توکل کا۔ اور آج وہ عہد ایک حقیقت بن چکا ہے۔ جس دشمن نے خود کو ’’دیوارِ دفاع‘‘ کہا، وہ آج اپنی دیواروں کے اندر بھی محفوظ نہیں۔ جس نے ’’حدید‘‘ (آئرن ڈوم) کو اپنا مذہب بنا لیا تھا، آج اس کے سائے میں بھی اس کے شہری کانپ رہے ہیں۔
اللہ اکبر اور الحمدللہ کے نعروں کے ساتھ شہر ِ عزیمت نے اس معاہدے کا استقبال کیا۔ یہ معاہدہ تحریک ِ مزاحمت کی بھی فتح ہے، مجاہدین کی بھی، اور اْس ایمان و عزیمت کی بھی جو ملبوں کے بیچ سر اٹھا کر کھڑا رہا۔ یہ صرف ایک جنگ بندی نہیں، بلکہ ایک اعتراف ہے کہ صہیونی منصوبہ ناکام ہوگیا، اور ایمان کی قوت نے مادی طاقت کو زیر کردیا۔ اہل ِ غزہ نے یہ معاہدہ اپنے لہو سے لکھوایا ہے، اپنی قربانیوں سے، اپنے عزم سے، اپنے بچوں کی شہادت سے۔ اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ تمام شرائط مجاہدین کی مرضی سے طے پائیں: مستقل جنگ بندی۔ دشمن کا مکمل انخلا۔ قیدیوں کی مطلوبہ واپسی۔ عالمی ضمانت۔ تحریک اور قیادت کی مکمل حفاظت۔ یہ وہ معاہدہ نہیں جو ٹرمپ نے پیش کیا تھا، نہ وہ جس پر غاصب نے خود حامی بھری تھی، نہ وہ جسے خلیجی ریاستوں نے اپنی سفارتی ’’دانائی‘‘ کے نام پر تھوپنے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر ’’جیالوں نے دستخط کیے‘‘ اور جس کا اعلان اْس وقت تک ممکن نہ تھا جب تک مجاہدین ِ عزیمت نے حامی نہ بھر لی۔ یہ جنگ بندی دراصل صہیونیت کی شکست کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکست محض عسکری نہیں بلکہ نظریاتی، نفسیاتی اور سیاسی سطح پر بھی مکمل ہے۔ غاصب طاقت جو خود کو ’’ناقابل ِ شکست‘‘ کہتی تھی، آج اپنی ساکھ، اپنی عسکری برتری، حتیٰ کہ اپنے اخلاقی جواز سے بھی محروم ہوچکی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی فوج، سب سے زیادہ فی کس فوجی بجٹ، سب سے جدید ہتھیار، سب کچھ ہونے کے باوجود، ایک چھوٹے سے علاقے کے خلاف اس کی ناکامی صرف ایک فوجی ناکامی نہیں، بلکہ ایک آئیڈیولوجیکل کرائسس ہے۔ صہیونیت کا بنیادی دعویٰ یہ تھا کہ ’’یہودی قوم کو دنیا کے خلاف ایک مضبوط قلعہ چاہیے‘‘، مگر آج وہ قلعہ ہی گھیرے میں ہے۔ اس کے شہری خوفزدہ ہیں، اس کی فوج مایوس ہے، اور اس کے حامی مغربی ممالک بھی اب اس کے خلاف اخلاقی موقف اپنانے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ غزہ نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ طاقت توپ و تفنگ سے نہیں، ایمان کے یقین اور مقصد کی پاکیزگی سے پیدا ہوتی ہے۔ غزہ کے لوگ محاصرہ، بھوک، بمباری، ظلم اور تنہائی کے باوجود ثابت قدم رہے، کیونکہ اْن کا یقین رب العالمین پر تھا، کسی سپر پاور پر نہیں۔ جب دنیا کے تمام دروازے بند ہو جائیں، تو اللہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ جب تمام راستے بند ہو جائیں، تو اللہ کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ غزہ نے یہی سبق دیا: اللہ کی مدد اْس وقت آتی ہے جب انسان اپنی آخری سانس تک جدوجہد کرتا ہے۔
قرآنِ کریم کہتا ہے: ’’سلام ہو تم پر تمہارے صبر کے بدلے، کیا ہی خوب ہے آخرت کا انجام!‘‘۔ اہل ِ غزہ نے اس آیت کو اپنے کردار سے زندہ کردیا۔ انہوں نے صبر کو شکایت نہیں بننے دیا، بلکہ اسے ایمان کا استعارہ بنایا۔ وہ جانتے تھے کہ ظلم جتنا بڑھتا ہے، اللہ کی نصرت اْتنی قریب آتی ہے۔ اور آج پوری دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ نصرت اْنہی کے لیے ہے جو اللہ پر توکل کرتے ہیں۔غزہ کی فتح محض اہل ِ فلسطین کی نہیں، یہ پوری امت ِ مسلمہ کی فتح ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ جب ایمان پر یقین اور مقصد پر خلوص ہو تو طاقتور سے طاقتور دشمن بھی جھکنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ لمحہ صرف فخر کا نہیں، بلکہ یاددہانی کا بھی ہے۔ کیا ہم نے غزہ کے لیے کچھ کیا؟ کیا ہم نے اْن کے خون کو اپنا خون سمجھا؟ کیا ہم نے اْن کی آواز کو اپنی آواز بنا لیا؟ یا ہم صرف سوشل میڈیا پر ’’ری ایکشن‘‘ لگا کر اپنا فرض ادا سمجھ بیٹھے؟
غزہ کی فتح ہمارے لیے ایک آئینہ ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ اگر ہم ایمان کی طاقت کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں غزہ کی طرح عمل کرنا ہوگا، قربانی دینی ہوگی، اور اللہ پر بھروسا کرنا ہوگا۔ نہ کہ صرف دعائیں مانگنا۔ یہ معرکہ اْس وقت مکمل ہوگا جب بیت المقدس آزاد ہوگا، اور امت ِ مسلمہ اپنے زخم خوردہ جسم میں ایک روح بن کر اٹھ کھڑی ہوگی۔ جنگ بندی صرف ایک مرحلہ ہے، فتح کا آغاز ہے، نہ کہ اختتام۔ ابھی تک فلسطین کے ہزاروں قیدی جیلوں میں ہیں۔ ابھی تک مغربی کنارے پر ظلم جاری ہے۔ ابھی تک قدس کی مساجد پر قبضہ ہے۔ ابھی تک امت ِ مسلمہ تقسیم ہے، اور اس کی آواز کمزور ہے۔ لیکن غزہ کی فتح نے ہمیں یہ یقین دلایا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے، اور جو اْس کی راہ میں جدوجہد کرتا ہے، اْس کی مدد ضرور آتی ہے۔
اللم ثبت اقدامہم، اللم انصرہم علی اعدائھم، اللم کن لہم عونا و نصیراً، آمین یا رب العالمین۔ اے اللہ! تو نے اپنے بندوں کی لاج رکھی، تو نے اہل ِ غزہ کو عزت بخشی، تو نے صہیونیت کے تکبر کو مٹی میں ملا دیا۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں مگر تیرا شکر پورا ادا نہیں کر سکتے۔ تو نے سچ فرمایا: ’’اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں‘‘۔ غزہ کے مجاہدین کو سلام وہ جو مٹی میں دفن نہیں ہوئے، بلکہ مٹی کو زندہ کر گئے۔ وہ جنہوں نے اپنی غیرت، اپنے ایمان، اور اپنے خون سے دنیا کو یاد دلایا کہ: اسلام آج بھی زندہ ہے، اور اللہ کا وعدہ آج بھی سچا ہے۔
اللہ اکبر! وللہ الحمد!
غزہ کی فتح، ایمان کی فتح ہے۔
اور ایمان کبھی ہارتا نہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غزہ کی فتح اللہ اکبر ایمان کی اللہ کا ابھی تک
پڑھیں:
اسلام آباد کچہری حملہ افغانستان میں منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا، نورولی محسود ماسٹر مائنڈ قرار
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا تارڑ نے انکشاف کیا ہے کہ اسلام آباد کچہری کے باہر ہونے والے خودکش حملے کی منصوبہ بندی کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود نے افغانستان میں بیٹھ کر کی تھی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عطا تارڑ نے بتایا کہ 11 نومبر کو وفاقی دارالحکومت میں بڑا سانحہ رونما ہونے کی کوشش کی گئی، اور تحقیقات سے ثابت ہوا کہ اس حملے کے تمام روابط افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ ان کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیاں، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور پاک فوج مکمل طور پر الرٹ ہیں۔
وزیر اطلاعات نے بتایا کہ حملے کی تحقیقات میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ خودکش حملہ آور کے پہلے ٹارگٹ کی نشاندہی اسلام آباد کے مضافات سے ہوئی۔ آئی بی اور سی ٹی ڈی نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ساجد اللہ عرف شینا، کامران خان، محمد ذالی اور شاہ منیر سمیت چار دہشت گردوں کو گرفتار کرلیا۔
عطا تارڑ کے مطابق گرفتار ہینڈلر ساجد اللہ عرف شینا خودکش حملہ آور اور جیکٹ کو اسلام آباد لایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ حملہ آور افغانستان کا رہائشی تھا اور گرفتار ملزمان مختلف انداز میں اس نیٹ ورک کا حصہ تھے۔
پریس کانفرنس کے دوران ساجد اللہ عرف شینا کا اعترافی ویڈیو بیان بھی دکھایا گیا۔ وزیر اطلاعات نے بتایا کہ شینا پاکستان آنے کے بعد خودکش حملہ آور عثمان شنواری سے ملا، جو ننگرہار افغانستان کا رہنے والا تھا، اور اسی نے جی الیون میں حملہ کیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ساجد اللہ اور محمد ذالی نے 2025 میں افغانستان جا کر داد اللہ سے ملاقات کی۔ دہشت گرد عبداللہ جان عرف ابوحمزہ سے بھی ان کی ملاقات ہوئی، جس کے بعد وہ کابل پہنچے جہاں داد اللہ نے نورولی محسود کے حملے سے متعلق احکامات پہنچائے۔
عطا تارڑ کے مطابق ساجد اللہ 2015 میں تحریک طالبان افغانستان میں شامل ہوا اور مختلف ٹریننگ کیمپس میں تربیت حاصل کی۔ دہشت گردوں کا ٹارگٹ راولپنڈی اور اسلام آباد تھے جبکہ پورا نیٹ ورک ایک خفیہ ایپ کے ذریعے رابطے میں تھا۔
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ اس خودکش حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں موجود نورولی محسود نے اپنے کمانڈر داد اللہ کے ذریعے کی، جو ابھی بھی افغانستان میں سرگرم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان کی گرفتاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی پیشرفت ہے۔