سندھ بلڈنگ ،ماڈل کالونی کی سسکتی ہوئی سڑکیں، انتظامیہ بے حس
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
شہری سہولیات کا جنازہ، غیر قانونی تعمیرات کی بھرمار سے بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا
ذوالفقار بلیدی کی سوئٹ ہوم سوسائٹی کے رہائشی پلاٹ نمبر 8پر دکانوں کی تعمیر ات
ضلع کورنگی کی رگوں میں دوڑتا خون اب رک رہا ہے ۔ شہر کے اس حصے کی شہ رگ کہلانے والی سعود آباد ماڈل کالونی کی سڑکیں، جو کبھی منصوبہ بندی کی شاہکار تھیں، آج غیر قانونی تعمیرات کے بے رحم ہاتھوں سسکیاں لے رہی ہیں۔ یہ کوئی عام سی شکایت نہیں، بلکہ بنیادی ڈھانچے کا ایک استغاثہ ہے ، جسے سننے والا کوئی نہیں۔ سانس لینا مشکل ہو گیا ہے، سڑکیں، جو کسی علاقے کے پھیپھڑے ہوتی ہیں، آہستہ آہستہ اپنی سانس گھٹتی محسوس کر رہی ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ کوئی نئی دکان، کوئی نئی کوٹھی، ان کی چوڑائی پر قابض ہوتی جا رہی ہے ۔ پارکس اور کھلی جگہیں، جو کبھی بچوں کی کلیاں تھیں، اب اینٹوں کے انبار میں بدل چکی ہیں۔یہ کوئی راتوں رات نہیں ہوا،جرأت سروے ٹیم سے بات کرتے ہوئے یہ احمد رضا کا کہنا ہے ، جو 20سال سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ "یہ ایک سست زہر ہے ، جو ہمارے علاقے کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہا ہے ۔ پانی کی لائنیں دب گئی ہیں، سیوریج کا نظام بیٹھ گیا ہے ، اور باہر نکلنا ایک عذاب بن گیا ہے۔ کیا کسی نے کبھی ہماری آواز سننے کی کوشش کی ؟علاقے کے مرکزی چوراہے پر، جہاں کبھی گاڑیوں کا بہاؤ آسان تھا، آج ایک ہی وقت میں دو گاڑیوں کا گزرنا مشکل ہے ۔ نئی بننے والی عمارتوں نے سڑک کے کندھوں کو نگل لیا ہے ،جس نے ٹریفک کو ایک مستقل دھچکے میں مبتلا کر دیا ہے ۔ایک ٹریفک پولیس اہلکار، نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ’’یہ علاقہ اب ہماری مرضی سے باہر ہے ۔ہر مہینے ایک نیا تعمیری مواد کا ڈھیر سڑک پر آ جاتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ ہو کیسے رہا ہے ؟ کیا متعلقہ بلدیاتی اور زمینی ادارے اس قدر خوابیدہ ہیں کہ انہیں عمارتوں کے اگنے کا پتہ ہی نہیں چلتا؟ یا پھر یہ سب ‘نظر اندازی’کی اس سے بڑی سازش کا حصہ ہے ، جس کی جڑیں کہیں گہری ہیں؟ مقامی رہائشی خواتین کا کہنا ہے ، ’’ہم نے کئی بار شکایات درج کرائی ہیں۔ کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی کو پرواہ ہی نہیں۔ کیا ہم شہر کے اس حصے کے شہری نہیں ہیں‘‘؟اگر یہی سلسلہ رہا، تو ماڈل کالونی کا مستقبل ایک ایسی تاریک سرنگ نظر آتا ہے جس کا کوئی سرا نہیں ہوگا۔ بنیادی سہولیات کا مکمل خاتمہ، گنجان آبادی اور زندگی کے لیے بگڑتے ہوئے حالات۔۔یہ وہ ’ترقی‘ ہے جس کی قیمت رہائشیوں کو چکانی پڑ رہی ہے ۔زمینی حقائق کے مطابق سویٹ ہوم سوسائٹی کے رہائشی پلاٹ نمبر 8پر دکانوں کی تعمیر کی چھوٹ اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار بلیدی نے خطیر رقم بٹورنے کے بعد دے دی ہے ۔جرأت سروے ٹیم کی جانب سے موقف لینے کے لئے ڈی جی ہاؤس رابطے کی کوشش کی گئی مگر رابطہ ممکن نہ ہو سکا ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
لاہور، 5 ماڈل سڑکوں پر چنگچی رکشوں پر مکمل پابندی عائد
لاہور: ( نیوزڈیسک) وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے سفر محفوظ اور آسان بنانے کے لیے پنجاب میں ٹریفک مینجمنٹ میں 60 سال بعد پہلی بار 20 بڑے اصلاحی اقدامات کا اعلان کر دیا۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی زیرصدارت ٹریفک کے جدید نظام کی منصوبہ بندی، روڈ سیفٹی اور نظم و نسق پر تفصیلی اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں کسی بھی گاڑی کا بار بار چالان ہوگا تو گاڑی نیلام ہوگی ، سرکاری گاڑی قانون سے بالاتر نہیں، قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی سرکاری گاڑیوں کو بھاری جرمانہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے پنجاب میں ون وے کی خلاف ورزی ختم کرنے کے لیے 30 دن کی مہلت دے دی، یوٹرن کی ری ماڈلنگ سے سڑکیں محفوظ اور منظم بنانے کی ہدایت کی، حادثات میں جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو دیت فوری طور پر فراہم کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
فیصلہ کیا گیا کہ مناسب پارکنگ نہیں ہوگی تو میرج ہال بھی نہیں ہوگا،میرج ہال کو پارکنگ کا انتظام کرنا ہوگا، پنجاب میں کم عمر بچوں کی ڈرائیونگ ختم کرنے کے لیے سخت فیصلہ کن کریک ڈوان ہوگا، انڈر ایج ڈرائیونگ کی صورت میں گاڑی مالک کو 6ماہ تک قید بھی ہوسکتی ہے
وزیراعلیٰ نے پنجاب بھر میں بس کی چھت پر سواریاں ختم،کریک ڈاؤن کا حکم دے دیا اور لاہور کی پانچ ماڈل سڑکوں پر چنگ چی رکشوں پر مکمل پابندی عائد کر دی، لاہور میں ٹریفک کی صورتحال میں بہتری کے لیے 30 دن کی فیصلہ کن ڈیڈ لائن مقرر کر دی۔
اجلاس میں ہیلمٹ، چھتوں پر سواریاں بیٹھانے اوردیگرخلاف ورزیوں پرچالان کی رپورٹ پیش کی گئی۔
مریم نواز شریف نے کہا کہ دوسرے شہر جانے والی گاڑی کو تیز رفتاری سے جلد پہنچنے پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا، لاہورسمیت تمام شہروں میں ٹریفک کے معاملات کو بہتر کرنا پڑے گا،کوئی امتیاز نہ رکھاجائے، خلاف ورزی پر ہر شخص کو جرمانہ دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ٹریفک پولیس کو آخری چانس دے رہی ہوں،اگلا موقع نہیں ملے گا، نہ کرسکے تو نیا ڈیپارٹمنٹ بنانا پڑے گا، ہر چیز ٹھیک کردی مگر ٹریفک کا برا حاصل ہے، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اورمسلسل بے ہنگم ٹریفک ریاستی رٹ کمزور ہونے کے مترادف ہے۔