کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر اس روز بھی معمول کی گہما گہمی عروج پر تھی، پلیٹ فارم پرٹرین کی آمد کے انتظار میں مسافروں کا ہجوم بڑھ رہا تھا، اسی ہجوم میں محکمہ ریلوے کا کلاس 4 ملازم عمران وکٹر بھی تھا، جو صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر پہنچا تھا، اس حقیقت سے بے خبر کہ یہ اس کی زندگی کی آخری صبح ہوگی۔

ٹرین کی روانگی سے قبل ایک زوردار دھماکا ہوا، سارا پلیٹ فارم گرد و غبار سے اٹ گیا، فضا میں بارود اور خون کی بو بس گئی، معمول کا شور شرابہ دھماکے ساتھ ہی یک لخت خاموشی میں ڈوبا جسے بچ جانیوالے زخمیوں کی چیخوں اورسسکیوں نے دوبارہ سماعت کے قابل بنایا، پلیٹ فارم پر بکھری لاشوں میں عمران وکٹر بھی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’اپنی آنکھوں سے قیامت کے مناظر کو دیکھا‘، کوئٹہ دھماکے کے زخمی نے آنکھوں دیکھا حال بتادیا

سنیل وکٹر آج بھی 9 نومبر 2024 کا وہ لمحہ بھلا نہیں پائے، جب انہیں دہشت گردی کے اس واقعہ کی اطلاع ملی، وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ سو کر اٹھے تو کسی نے بتایا کہ ریلوے اسٹیشن پر دھماکا ہوا ہے۔

’تھوڑی دیر بعد اسٹیشن سے فون آیا کہ عمران زخمی ہے، فوراً پہنچو، ہم پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسے اسپتال لے گئے ہیں، وہاں پہنچے تو ایمبولینس سے عمران کی لاش اتاری جا رہی تھی، بس اس لمحہ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔‘

مزید پڑھیں: کوئٹہ کے باسی دیگر شہروں کے سفر سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟

سنیل وکٹر نے نمناک آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ بھائی عمران وکٹر ہمیشہ کہتا تھا کہ وہ جلدی واپس آئے گا، مگر وہ کبھی واپس نہیں آیا۔

سنیل وکٹر نے بتایا کہ ان کے بھائی کی بیوہ اور 3 بچے اب بمشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ’حکومت بلوچستان نے کچھ نہیں کیا، ریلوے کی پینشن 14 ہزار روپے ہے، اس میں کیا زندگی چلے گی۔‘

یہ صرف ایک خاندان  کی کہانی نہیں، بلکہ ان سینکڑوں گھرانوں کی داستان ہے جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات کی نذر ہورہے ہیں۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ پھر لہو لہو

رواں برس بلوچستان کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا ہے، جس کے دوران، سرکاری ذرائع کے مطابق، ساڑھے 3 سو سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں 280 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 145 عام شہری شامل تھے۔

 دوسری جانب ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 361 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 297 عام شہری اپنی جان کی بازی ہارگئے۔

سرکاری ذرائع کے مطابق  گزشتہ برس 2024 میں دہشت گردی کے 400 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں271 افراد جاں بحق ہوئے، یعنی اس سال دہشت گردی میں مزید شدت دیکھنے میں آئی ہے۔

مزید پڑھیں:کوئٹہ کی قدیم درس گاہ جل کر خاکستر، شارٹ سرکٹ یا دہشتگردی؟

تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے نشانے پر صرف سیکیورٹی فورسز ہی نہیں بلکہ عام شہری، مزدور اور سرکاری ملازمین بھی ہیں، صوبے میں شدت پسندی کی نئی لہر سیاسی بے یقینی، معاشی بدحالی، اور سرحد پار نیٹ ورکس سے جڑی ہوئی ہے۔

وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے صدر عامر رانا نے بتایا کہ گزشتہ 2 برس کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے لہر میں شدت آئی ہے، شدت پسندی کے مختلف واقعات میں جہاں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا، وہیں عام شہری بالخصوص خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔

ماہرین کے مطابق ریاست اور دہشت گردوں کے درمیان جنگ میں ضمنی نقصان کے نتیجے میں خوتین اور بچے بھی نشانہ بنتے ہیں لیکن یہ عمل قابل مذمت ہے۔

مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی کوئٹہ خودکش دھماکے کی مذمت، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ

’اگر ہم نے دہشت گردی کی روک تھام کرنی ہے تو اس کے لیے یا تو بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے مذاکرات کرنا ہوں گے یا کوئی جامع آپریشن کی ضرورت ہے لیکن بعد قسمتی سے یہ دونوں اقدام حکومت کی جانب سے نظر نہیں آرہے۔‘

دوسری جانب دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کی ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی، انتظامی اور قانونی ہر محاذ پر جنگ لڑ ی جارہی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جائے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بلوچستان بی ایل اے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز پلیٹ فارم ٹرین ٹی ٹی پی دہشت گردی دہشت گردی ایکٹ ریلوے اسٹیشن عامر رانا عمران وکٹر کوئٹہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلوچستان بی ایل اے پلیٹ فارم ٹی ٹی پی دہشت گردی ایکٹ ریلوے اسٹیشن عمران وکٹر کوئٹہ گردی کے واقعات بلوچستان میں دہشت گردی کے نے بتایا کہ مزید پڑھیں عمران وکٹر پلیٹ فارم کے مطابق کے لیے

پڑھیں:

سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان

ویب ڈیسک :کوئٹہ سے تعلق رکھنے والی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

اس سلسلے میں جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے کئی عہدیدار مسلم لیگ (ق) میں شامل ہو گئے ہیں۔
مسلم لیگ (ق) نے کوئٹہ کے بلدیاتی انتخابات میں پارٹی امیدواروں کو ٹکٹ بھی جاری کر دیئے ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے مرکزی ترجمان مصطفیٰ ملک کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ چوہدری شجاعت حسین کی قیادت پر بھرپور اعتماد کا اظہار کرتی ہے،بلوچستان کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔

لاہور فضائی آلودگی کے اعتبار سے پانچویں نمبر پرآگیا

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں بے روزگاری کا خاتمہ اور امن کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، پاکستان دشمن بلوچستان میں عدم استحکام چاہتے ہیں۔

ترجمان ق لیگ کامزید کہنا ہے کہ بھارت بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہے، مذاکرات کے حامی ہیں، مگر ملک دشمنوں کو کسی رعایت کا مستحق نہیں سمجھتے۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ
  • گیس پریشر بحال نہ ہوا تو سوئی گیس دفتر کا گھیراؤ کرینگے، بی اے پی کوئٹہ
  • دہشت گردی: اسباب اور سہ رخی حل
  • 4 اکتوبر کیس: عمر ایوب اشتہاری قرار، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا حکم
  • سیاسی رہنماؤں کا مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان
  • بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارت ملوث ہے، نوجوانوں کو روزگار دیں گے: غلام مصطفیٰ ملک
  • فیض حمید کا کورٹ مارشل قانونی اور عدالتی عمل ہے ،قیاس آرائیوں سے گریزکریں ،ترجمان پاک فوج
  • دہشت گردوں کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی
  • خیبرپختونخوا حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ
  • ایف سی ہیڈکوارٹر پر خودکش حملے کی تحقیقات میں پیش رفت، اہم انکشافات