’جلدی آنے کا کہہ کر گیا مگر بھائی ابھی تک نہیں لوٹا‘، بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر اس روز بھی معمول کی گہما گہمی عروج پر تھی، پلیٹ فارم پرٹرین کی آمد کے انتظار میں مسافروں کا ہجوم بڑھ رہا تھا، اسی ہجوم میں محکمہ ریلوے کا کلاس 4 ملازم عمران وکٹر بھی تھا، جو صبح سویرے اپنی ڈیوٹی پر پہنچا تھا، اس حقیقت سے بے خبر کہ یہ اس کی زندگی کی آخری صبح ہوگی۔
ٹرین کی روانگی سے قبل ایک زوردار دھماکا ہوا، سارا پلیٹ فارم گرد و غبار سے اٹ گیا، فضا میں بارود اور خون کی بو بس گئی، معمول کا شور شرابہ دھماکے ساتھ ہی یک لخت خاموشی میں ڈوبا جسے بچ جانیوالے زخمیوں کی چیخوں اورسسکیوں نے دوبارہ سماعت کے قابل بنایا، پلیٹ فارم پر بکھری لاشوں میں عمران وکٹر بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ’اپنی آنکھوں سے قیامت کے مناظر کو دیکھا‘، کوئٹہ دھماکے کے زخمی نے آنکھوں دیکھا حال بتادیا
سنیل وکٹر آج بھی 9 نومبر 2024 کا وہ لمحہ بھلا نہیں پائے، جب انہیں دہشت گردی کے اس واقعہ کی اطلاع ملی، وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ سو کر اٹھے تو کسی نے بتایا کہ ریلوے اسٹیشن پر دھماکا ہوا ہے۔
’تھوڑی دیر بعد اسٹیشن سے فون آیا کہ عمران زخمی ہے، فوراً پہنچو، ہم پہنچے تو معلوم ہوا کہ اسے اسپتال لے گئے ہیں، وہاں پہنچے تو ایمبولینس سے عمران کی لاش اتاری جا رہی تھی، بس اس لمحہ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔‘
مزید پڑھیں: کوئٹہ کے باسی دیگر شہروں کے سفر سے کیوں گریز کر رہے ہیں؟
سنیل وکٹر نے نمناک آنکھوں کے ساتھ بتایا کہ بھائی عمران وکٹر ہمیشہ کہتا تھا کہ وہ جلدی واپس آئے گا، مگر وہ کبھی واپس نہیں آیا۔
سنیل وکٹر نے بتایا کہ ان کے بھائی کی بیوہ اور 3 بچے اب بمشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ ’حکومت بلوچستان نے کچھ نہیں کیا، ریلوے کی پینشن 14 ہزار روپے ہے، اس میں کیا زندگی چلے گی۔‘
یہ صرف ایک خاندان کی کہانی نہیں، بلکہ ان سینکڑوں گھرانوں کی داستان ہے جو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے واقعات کی نذر ہورہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ پھر لہو لہو
رواں برس بلوچستان کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے بدترین سال ثابت ہوا ہے، جس کے دوران، سرکاری ذرائع کے مطابق، ساڑھے 3 سو سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں 280 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 145 عام شہری شامل تھے۔
دوسری جانب ساؤتھ ایشین ٹیررازم پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں 361 دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 297 عام شہری اپنی جان کی بازی ہارگئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق گزشتہ برس 2024 میں دہشت گردی کے 400 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن میں271 افراد جاں بحق ہوئے، یعنی اس سال دہشت گردی میں مزید شدت دیکھنے میں آئی ہے۔
مزید پڑھیں:کوئٹہ کی قدیم درس گاہ جل کر خاکستر، شارٹ سرکٹ یا دہشتگردی؟
تجزیہ کاروں کے مطابق بلوچستان میں دہشت گردی کے نشانے پر صرف سیکیورٹی فورسز ہی نہیں بلکہ عام شہری، مزدور اور سرکاری ملازمین بھی ہیں، صوبے میں شدت پسندی کی نئی لہر سیاسی بے یقینی، معاشی بدحالی، اور سرحد پار نیٹ ورکس سے جڑی ہوئی ہے۔
وی نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کے صدر عامر رانا نے بتایا کہ گزشتہ 2 برس کے دوران بلوچستان میں دہشت گردی کے لہر میں شدت آئی ہے، شدت پسندی کے مختلف واقعات میں جہاں سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا گیا، وہیں عام شہری بالخصوص خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے۔
ماہرین کے مطابق ریاست اور دہشت گردوں کے درمیان جنگ میں ضمنی نقصان کے نتیجے میں خوتین اور بچے بھی نشانہ بنتے ہیں لیکن یہ عمل قابل مذمت ہے۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کی کوئٹہ خودکش دھماکے کی مذمت، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ
’اگر ہم نے دہشت گردی کی روک تھام کرنی ہے تو اس کے لیے یا تو بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی تنظیموں سے مذاکرات کرنا ہوں گے یا کوئی جامع آپریشن کی ضرورت ہے لیکن بعد قسمتی سے یہ دونوں اقدام حکومت کی جانب سے نظر نہیں آرہے۔‘
دوسری جانب دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت نے حال ہی میں انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کی ہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی، انتظامی اور قانونی ہر محاذ پر جنگ لڑ ی جارہی ہے، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو کسی صورت رعایت نہیں دی جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بی ایل اے پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز پلیٹ فارم ٹرین ٹی ٹی پی دہشت گردی دہشت گردی ایکٹ ریلوے اسٹیشن عامر رانا عمران وکٹر کوئٹہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بی ایل اے پلیٹ فارم ٹی ٹی پی دہشت گردی ایکٹ ریلوے اسٹیشن عمران وکٹر کوئٹہ گردی کے واقعات بلوچستان میں دہشت گردی کے نے بتایا کہ مزید پڑھیں عمران وکٹر پلیٹ فارم کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
دہشت گردی: ابہام کا خاتمہ ضروری ہے
پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جمعے کو اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا اورصحافیوں کے سوالات کے جوابات دیے ہیں ۔اپنے خطاب اور صحافیوں کے سوالات میں انھوں نے پاکستان کو درپیش دہشت گردی کے چیلنج کے حوالے سے انتہائی اہم اور فیصلہ کن باتیں کی ہیں۔
انھوں نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے جسے مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی۔
پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی نے جہاں غیر ملکی عناصراور سرمایہ کار فرما ہے وہاں داخلی طور پر بھی ایسے طبقے موجود ہیں جو انتہائی چالاکی اور عیاری کے ساتھ دہشت گردوںکی پشت پناہی بھی کرتے ہیں اور انھیں گلوریفائی بھی کراتے ہیں‘اس حوالے سے بڑی عیاری کے ساتھ ایسا بیانیہ تشکیل دیا گیا ہے جس کے ذریعے چوں کہ چنانچہ اور اگر مگر کے ذریعے دہشت گردوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے جب کہ اپنے ملک اور اس کے سیکیورٹی اداروں کو معطون کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں دائیں بازوکی سیاسی جماعتوں خصوصاً مذہبی سیاسی جماعتوں کی قیادت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے حوالے سے ہمیشہ مبہم اور غیر واضح موقف اختیار کیا اور ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جیسے یہ کوئی بہت بڑا یا سنگین مسئلہ نہیں ہے۔
آج بھی مخصوص مائنڈ سیٹ کے حامل سیاسی گروہ ‘مذہبی طبقے ‘نام نہاد دانشور اسی راہ پر گامزن ہیں۔جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا بیانیہ فروغ پاتا رہا ہے۔ داخلی طور پر دہشت گردوں کی فنانشل لائف لائن کو بھی برقرار رکھنے میں مخصوص مائنڈ سیٹ جو سیاست میں داخل ہوا ‘نے اہم رول ادا کیا ہے۔
دہشت گردوں کے سرپرستوں اور ہینڈلرز نے غیر قانونی دولت اکٹھی کرنے کے لیے مجرمانہ سرگرمیوں کو سپورٹ کیا۔ یوں پاکستان کا انتظامی ڈھانچے اور سیاست میں کرپشن کا وائرس داخل ہوا جس نے پورے ملک کے نظام کو بوسیدہ کر دیا ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں دہشت گردی میں اضافے کی مختلف وجوہات ہیں جس میں نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل نہ ہونا بھی شامل ہے۔
2014 میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد سیاسی و عسکری لیڈر شپ نے ایک مشترکہ نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا لیکن آج تک اس پر پوری طرح عمل نہیں کیا گیا بلکہ دہشت گردوں سے مذاکرات کی بات کی جاتی ہے۔انھوں نے سوال اٹھایا کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی ہے؟اگر دہشت گردوں سے مذاکرات ہی کرنا ہوتے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہ ہوتیں۔
دہشت گردوں کے ساتھ بات چیت کے بیانیے کا جہاں تک تعلق ہے تو اس بیانیے کو بھی کئی دہائیوں سے مسلسل پھیلایا جا رہا ہے۔ آج بھی اس بیانیے کی وکالت کی جاتی ہے۔ لیکن حقائق کو دیکھا جائے تو یہ بیانیہ اپنی اہمیت برسوں پہلے کھو چکا ہے۔
پاکستان میں جو گروہ دہشت گردی کر رہا ہے اور دہشت گردوں کے ہینڈلرز کا مائنڈ سیٹ مذاکرات والا ہے ہی نہیں ‘یہ انتہائی مکارانہ اور دغا بازی پر مبنی ایک حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایک آرگنائزڈ اسٹیٹ اور اس کی آرگنائزڈ مشینری کو مذاکرات میں الجھا کر رکھنا ہے تاکہ دہشت گردوں کو سانس لینے کا موقع ملتا رہے۔
یہ حکمت عملی کئی دہائیوں سے جاری ہے ۔اس معاملے میں افغانستان کے طالبان نے بھیعیارانہ سفارتکاری کر کے ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنزکوبچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج دہشت گردوں کے سارے گروہ افغانستان کی سرزمین میں آزادانہ طور پر نقل و حرکت کر رہے ہیں اور افغانستان میں اپنے کاروبار کر رہے ہیں۔
بڑی ہی چالاکی کے ساتھ یہ تاثر گہرا کیا گیا جیسے ٹی ٹی پی کے لوگ پاکستان کے شہری ہیںحالانکہ اس حوالے سے بھی کئی شکوک و شبہات موجود ہیں۔ٹی ٹی پی کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے سارے لوگ افغانستان کے باشندے ہیں جو جعلی شناختی کارڈ حاصل کر کے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں رہتے رہے ہیں۔
ان کا پاکستان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے ۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب معاملات بہت واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے اقتدار پر قابض طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان کے چہرے سے نقاب اتر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں موجود وہ مخصوص گروہ بھی بے نقاب ہو رہا ہے جو ریاست پاکستان اور اس کے عوام کے اجتماعی مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
یہ ایسا گروہ اور طبقہ ہے جو ریاست پاکستان کے وسائل کو استعمال کر رہا ہے۔پاکستان میں کاروبار کر کے پیسے کما رہا ہے۔سرکاری عہدے بھی لے رکھے ہیں‘ملک کا انفرااسٹرکچر بھی استعمال کر رہا ہے۔لیکن پاکستان کے عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہا ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں خبر دار کیا ہے کہ کسی کو بھی ریاست پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ہم دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں نہ کریں تو کیا کریں جو لوگ اس کے خلاف بیانیہ بنارہے ہیں دراصل وہ ریاست کے خلاف بیانیہ بنانے میں مصروف ہیں، اگر کسی کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ قراردیاجاتاہے تو اسٹیبلشمنٹ توریاست کا نام ہے اور کیا کوئی ریاست کے خلاف ہوتو وہ چل سکتاہے؟
بھارت افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کر رہا ہے جب کہ دوحہ معاہدے میں طے کیا گیا تھا کہ افغانستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ا سے اب روکنا ہوگا کیونکہ آخر کب تک اسے برداشت کیاجائے گا۔
امریکا 7.2ارب ڈالر کے ہتھیار افغانستان میں چھوڑ گیا جو دہشت گردوں کے ہاتھ لگے اور یہی اسلحہ پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے اپنی سیاست کو دہشت گردی پر مقدم کر دیا ہے،سیاسی مافیا کے لیے ہزاروں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں اہم ہیں ،بنیادی طور پر پولیس کا کام بھی فوج کو کرنا پڑا رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے سی ٹی ڈی کی تعداد ہی 3200 رکھی ہوئی ہے تو پھر نتائج کیسے برآمد ہوں گے۔
اگر اسمگلنگ ہوتی رہے گی تو اس کے ساتھ دہشت گردی اور دھماکا خیز مواد بھی آئے گا، یہاں ہونے والی اسمگلنگ کا الزام بھی فوج پر لگا دیا جاتا ہے۔صوبے کی گورنس سے متعلق کوئی بات نہیں کی جاتی۔
کیا فوج کے جوان اپنے سینوں پر اس لیے گولیاں کھا رہے ہیں کہ ان کی سیاست چلتی رہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا، آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیجنا؟
انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے لیے زمین تنگ کر دی جائے گی، جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح کیا کہ سہولت کاروں کے پاس صرف تین چوائس ہیں۔
سہولت کار خود خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دیں۔سہولت کار خارجیوں کے خلاف ریاست کے ساتھ مل کر لڑیں۔اگر ایسا نہیں کرنا تو سہولت کار پاک فوج کے ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔ جو خارجیوں کی سہولت کاری کرے گا وہ انجام کو پہنچے گا۔
لہٰذا خارجیوں کے ناسور کو انجام تک پہنچانے کے لیے عوام ساتھ دیں۔لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سعودی عرب سمیت دیگر ممالک نے افغانستان کو سمجھانے کی کوشش کی، افغانستان میں ہر دہشت گرد گروہ کی کوئی نہ کوئی شاخ موجود ہے۔
یہاں دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کی گئی اور معاملے کو الجھایا گیا،دہشت گردی کے 70فیصد واقعات کے پی میں ہوئے ہیں، لوگوں کو الجھایا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کا حل آپریشن نہیں ہے۔
پاکستان کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کا کردار بہت بڑھ گیا ہے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے ملک کی مین اسٹریم سیاسی قیادت کو دو ٹوک اور واضح الفاظ میں سیاسی موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔لیکن اگر کوئی ہمسایہ حدود سے تجاوز کر جائے تو اس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے ۔پاکستان میں سیاست کرنے والوں کو یہ حقیقت مد نظر رکھنی چاہیے کہ ان کے قول و فعل کا تضاد ‘نظریاتی کنفیوژن اور کم علمی ملک کو بہت بھاری پڑ رہی ہے۔
افغانستان سے کسی قسم کا کوئی گلہ یا شکوہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس ملک کی قیادت کی پالیسی اور ذہنیت قیام پاکستان سے لے کر اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔اس لیے اس حوالے سے پاکستانی پالیسی میں ابہام نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان کا کاروباری طبقہ ہو ‘مذہبی سیاست کرنے والے ہوں ‘مین اسٹریم سیاستدان ہوں یا اہل علم ہوں ‘ان کی پہچان پاکستان ہے ‘اگر کوئی گروہ ‘طبقہ یا شخص پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے برعکس کام کرتا ہے تو اس سے ایسا کرنے کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہے اور نہ ہی ملکی سلامتی اور اس کا اقتدار اعلیٰ اس کی اجازت دیتا ہے۔