پاکستان سے تنازع پر افغان تاجر پریشان، ٹرکوں پر لدے سبزیاں اور پھل خراب ہونے لگے
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
افغان طالبان اور پاکستان کے درمیان جاری کشیدگی نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان اس وقت افغان تاجروں کو ہو رہا ہے۔ سرحد پر پاکستان میں داخلے کے منتظر افغان ٹرکوں پر لدے تازہ پھل اور سبزیاں شدید خراب ہو رہی ہیں، جس کے باعث افغان تاجروں کو نہ صرف مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں اپنا قیمتی مال مقامی مارکیٹوں میں اونے پونے داموں فروخت کرنے پر بھی مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق، خاص طور پر ٹنوں کے حساب سے انگور خراب ہونے کی اطلاعات ہیں، جو افغانستان کے لیے ایک اہم برآمدی جنس سمجھی جاتی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ وقت پر سرحد نہ کھلنے اور پاکستان میں داخلے کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے وہ زبردست مالی نقصان کا سامنا کر رہے ہیں، جو ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔
اس صورتحال نے افغانستان کے تجارتی حلقوں میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے، جہاں پاکستان سے تعلقات کی بہتری اور تجارتی راستوں کی فوری بحالی کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں۔ تاجر برادری کا کہنا ہے کہ تجارت کو سیاست کی نذر کرنا دونوں ممالک کے عوام کے لیے نقصان دہ ہے اور اس سے نہ صرف روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں بلکہ خطے میں عدم استحکام بھی بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی ٹرانسپورٹیشن کو کراچی پورٹس سے روکنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔ ان احکامات کے بعد سرحدی علاقوں میں سینکڑوں کنٹینرز پھنس کر رہ گئے ہیں۔ کوئٹہ اور پشاور کے راستوں پر بھی بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں جبکہ ڈرائیور بارڈر کھلنے کا انتظار کر رہے ہیں۔
موجودہ صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان فوری مذاکرات اور تجارتی روابط کی بحالی وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے تاکہ تاجروں کا نقصان روکا جا سکے اور خطے میں اقتصادی استحکام بحال ہو۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
سکھر ،ڈکیتیوں اورموٹرسائیکل چھیننے کی وارداتوں میںاضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر (نمائندہ جسارت) سکھر میں ڈکیتیوں اور موٹر سائیکل چھیننے کی وارداتوں میں اضافہ، کاروباری سرگرمیاں متاثر، شہرِ سکھر میں ڈکیتیوں، راہزنی اور موٹر سائیکل چھیننے کے بڑھتے ہوئے واقعات نے شہریوں اور تاجروں کو شدید عدم تحفظ کے احساس میں مبتلا کر دیا ہے۔ جرائم کی اس لہر نے نہ صرف کاروباری سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے بلکہ پولیس کی کارکردگی پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ موجودہ ایس ایس پی سکھر اظہر مغل کے دورِ تعیناتی میں امن و امان کی صورتحال بدترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ مختصر عرصے میں ڈکیتیوں کے متعدد واقعات کے باعث تاجروں کو کروڑوں روپے کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس سے شہر بھر میں خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔گزشتہ رات پیش آنے والا واقعہ بھی اسی سنگین صورتحال کی عکاسی کرتا ہے، جب تاجر حاجی عبدالغفار عباسی، جو سکھر کے معروف تاجر رہنما حاجی شفیع عباسی کے نواسے ہیں، سے ساڑھے تین ملین روپے کی رقم لوٹ لی گئی۔ یہ افسوسناک واردات بی سیکشن تھانے کے عین سامنے پیش آئی، جس سے پولیس کی گشت، نگرانی اور ردعمل کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ عین اسی وقت سی سیکشن تھانے کی حدود سے ایک نوجوان سے اسلحے کے زور پر اس کی نئی 125 موٹر سائیکل چھین کر لے جاتے ہیں۔جو کہ اب یہ روز کا معمول بن چکا ہے آئے روز کوئی نقدی تو کوئی موبائل اور اپنی موٹر سائیکل سے محروم ہو جاتا ہے۔تاجر برادری کا کہنا ہے کہ سکھر میں بڑھتے ہوئے جرائم کی ایک بڑی وجہ تاجروں کی تنظیموں کے مابین اختلافات ہیں۔ ماضی میں جب تاجر برادری متحد تھی اور تمام مارکیٹیں مشترکہ پلیٹ فارم سے آواز بلند کرتی تھیں، تب انتظامیہ اور پولیس مسائل کے حل میں سنجیدہ کردار ادا کرتی تھی۔تاجروں کے مطابق، جب حاجی ہارون میمن سکھر کے تاجروں کی قیادت کر رہے تھے، اْس وقت شہر میں امن و امان کی صورتحال قابو میں تھی اور انتظامیہ تاجروں کے ساتھ بھرپور رابطے میں رہتی تھی۔ تاہم بعد ازاں مختلف مارکیٹوں میں متعدد تنظیمیں بن گئیں جن کے بیشتر رہنما انتظامی معاملات سے نابلد ہیں اور صرف پولیس افسران کی خوشامد، تصویری تقاریب اور نمائشی سرگرمیوں تک محدود ہیں۔۔تاجر رہنماؤں نے وزیرِاعلیٰ سندھ، آئی جی سندھ اور ڈی آئی جی سکھر رینج سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سکھر میں بگڑتی ہوئی امن و امان کی صورتحال کا فوری نوٹس لیں، مجرموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کریں اور پولیس کی کارکردگی کو مؤثر بنایا جائے ۔