افغان حکومت کی درخواست ، عارضی جنگ بندی میں توسیع
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان سیزفائر میں توسیع پر اتفاق، درخواست قطر حکومت کے ذریعے کی گئی، پاکستان نے مزید 48 گھنٹوں کیلئے منظور کرلی،سفارتی ذرائع
عارضی جنگ بندی کو دوحا میں جاری پاک افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے اختتام تک بڑھا گیا ہے،دونوں فریقین تعمیری گفتگو کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں گے، رائٹرز
پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان سیزفائر میں توسیع پر اتفاق ہوگیا، پاکستان نے افغان طالبان کی درخواست آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کیلئے منظور کرلی ہے۔پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان عارضی جنگ بندی کو دوحہ میں جاری مذاکرات کے اختتام تک بڑھا دیا گیا ہے۔ اعلی سطح کے مذاکرات ہفتے کو شروع ہونے کی توقع ہے۔ غیرملکی خبر ایجنسی رائٹرزکے مطابق پاکستان اور افغان طالبان رجیم کے درمیان دوحہ مذاکرات کی تکمیل تک جنگ بندی میں توسیع کردی گئی ہے۔پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان 48 گھنٹوں کا سیز فائر آج شام 6 بجے ختم ہوگیا تھا۔آج افغان طالبان رجیم نے پاکستان سے جنگ بندی میں توسیع کی درخواست قطر حکومت کے ذریعے کی۔ افغان طالبان رجیم کی درخواست پر پاکستان نے جنگ بندی میں مزید 48 گھنٹوں کیلئے توسیع کردی ہے۔ یاد رہے اس سے قبل15اکتوبر کو بھی پاکستان نے قابض افغان طالبان کی درخواست پر 48 گھنٹوں کیلئے سیز فائر کیا تھا، کہا گیا تھا کہ جنگ بندی کے وقت کے دوران مسئلے کا تعمیری حل تلاش کیا جائے گا۔ وزارت خارجہ کے مطابق 48 گھنٹوں میں دونوں فریقین تعمیری گفتگو کے ذریعے مسئلے کا حل نکالیں گے، گفتگو سے پیچیدہ مگر مسئلے کا مثبت راستہ تلاش کرنے کی مخلصانہ کوشش ہوگی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغان طالبان افغان طالبان رجیم گھنٹوں کیلئے پاکستان نے کی درخواست کے درمیان میں توسیع مسئلے کا کے ذریعے
پڑھیں:
خواتین کی تعلیم: افغان طالبان کی پابندیاں شدت پسندی کو بڑھا رہی ہیں! تشویشناک رپورٹ جاری
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کابل میں انسانی حقوق کے کارکنان نے افغان طالبان کی جانب سے تعلیم، اظہارِ رائے اور فکری آزادی پر سخت پابندیوں کو دہشت گردی کے فروغ کے لیے خطرناک بنیاد قرار دیا ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق کارکنان انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ طالبان ایک خاموش، خوف زدہ اور فکری طور پر محروم معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں افغانستان شدید تعلیمی و فکری دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق طالبان نے خواتین کی تعلیم پر سخت پابندیاں عائد کر کے نہ صرف لڑکیوں کے تعلیمی مستقبل کو تاریک بنا دیا ہے بلکہ خواتین اساتذہ کی بڑی تعداد بھی بے روزگار ہو چکی ہے۔
یونیورسکو اور یونیسیف کی تازہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اساتذہ کی کمی، تعلیمی وسائل کی قلت اور اہم علمی شعبہ جات کے خاتمے نے افغانستان کے تعلیمی معیار کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ طالبان کے دورِ حکومت میں سماجی علوم، قانون اور میڈیا اسٹڈیز جیسے شعبے بند کیے جا رہے ہیں، جو فکری سوچ کے خاتمے کا حصہ ہیں۔
کئی یونیورسٹیاں بند ہونے سے ملک میں علمی سرگرمیاں تقریباً ختم ہو چکی ہیں اور نوجوانوں کا مستقبل غیر یقینی صورتحال کی لپیٹ میں ہے۔
ماہرین کے مطابق طالبان رجیم آزادی اظہار، تنقیدی سوچ اور تخلیقی فضا کو مکمل طور پر ختم کر کے ایسا معاشرہ تشکیل دے رہی ہے جو خوف، جبر اور خاموشی میں جکڑا ہوا ہو۔ عالمی سطح پر افغان طالبان کی پالیسیوں کو باعثِ شرم اور شدت پسندی کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا جا رہا ہے۔