پاکستان اور افغانستان کی سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گئی ہے، طلحہ محمود
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور قطر پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر رابطہ عالمِ اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گئی ہے اور پاکستان اور افغانستان کی محبتیں نفرتوں میں بدل گئی ہیں۔
’سعودی عرب اور قطر کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہماری 40 سال کی قربانیوں کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔‘
اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ امتِ مسلمہ کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور پوری امت کے لیے یکجہتی کی علامت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کو نشانِ پاکستان دینے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عیسیٰ کو نشانِ پاکستان دیا جائے۔
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلی مرتبہ جب ڈاکٹر عیسیٰ کو اگلی مرتبہ پاکستان آمد پر انہیں نشانِ پاکستان سے نوازا جائے گا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے کہا کہ رابطہ عالمِ اسلامی دنیا سے اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعمیر و ترقی کے لیے دعا کی اور 3 مرتبہ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی انہوں نے کے لیے نے کہا کہا کہ
پڑھیں:
جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا، مولانا محمود مدنی
جمعیت علماء ہند کے صدر نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے اور اسطرح کے کئی دیگر فیصلوں کے بعد یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ عدالتیں حکومتوں کے دباؤ میں کام کررہی ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی ریاست بہار کے گورنر عارف محمد خان نے جمعیت علماء ہند کے صدر مولانا محمود مدنی کے جہاد سے متعلق بیان پر ردعمل دیتے ہوئے دار العلوم دیوبند کو نشانہ بنایا۔ عارف محمد خان نے کہا کہ مولانا محمود مدنی کے بیان سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا اور قرآن بھی وہی کہہ رہا ہے جو مولانا محمود مدنی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا لیکن انہیں کے یہاں دار العلوم دیوبند میں ان کے بیان کے برعکس جہاد کی کچھ اور تعلیم دی جا رہی ہے۔ عارف محمد خان نے کہا کہ جیسا کہ مولانا محمود مدنی نے کہا اور قرآن کے بھی مطابق جہاد کا مطلب کمزوروں، غریبوں یا مظلوموں کی حمایت میں کھڑا ہونا اور آواز اٹھانا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا ہی حقیقی جہاد ہے۔ تاہم اسی کے ساتھ انہوں نے کہا کہ در العلوم دیوبند کی کتاب میں جہاد کی تشریح یہ کی گئی ہے کہ شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے، اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں۔
عارف محمد خان نے سنگین الزام لگایا کہ مدارس اور بہت سے اسلامی تعلیمی ادارے بچوں کو جہاد کا صحیح مفہوم نہیں سکھا رہے ہیں۔ بہار کے گورنر نے کہا کہ مولانا محمود مدنی ایک بڑے تعلیمی ادارے سے منسلک ہیں، انہیں دیکھنا چاہیئے کہ وہاں بچوں کو کیا پڑھایا جا رہا ہے، جب تک ظلم رہے گا، تب تک جہاد ہوگا، اس سے اختلاف کرنا بڑا مشکل کام ہے کہ ظلم کہیں بھی ہوگا، جو قرآنی اصطلاح ہے وہ یہ ہے کہ صرف آپ ظلم نہیں بلکہ اگر کسی کمزور یا غریب پر ظلم ہو رہا ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اس کے لئے آواز اٹھائیے اور اس کی مدد کیجیے، لیکن مسئلہ یہاں آتا ہے کہ عوام کے بیچ میں تو وہ یہ بیان دیتے ہیں لیکن جس تعلیمی ادارے سے ان کا تعلق ہے وہاں پر وہ پڑھا کیا رہے ہیں کہ جہاد کیا ہے، ذرا اس پر غور کر لیجیئے۔ انہیں کے یہاں پڑھائی جا رہی ایک کتاب کی سطر نقل کرتا ہوں، اس کے مطابق شریعت میں جہاد دین حق کی طرف بلانے اور جو اسے قبول نہ کرے، اس سے جنگ کرنے کو کہتے ہیں۔
دراصل مولانا محمود مدنی نے حال ہی میں مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں منعقدہ جمعیت علماء ہند کی مجلس منتظمہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں نے اسلام کی مقدس اصطلاحات مثلاً جہاد کے لفظ کو ایک گالی، فساد اور تشدد کا ہم نام بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لو جہاد، لین جہاد، تعلیم جہاد، تھوک جہاد وغیرہ جیسے جملے استعمال کر کے مسلمانوں کی سخت دل آزاری اور ان کے مذہب کی توہین کی جا رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ افسوس کا مقام ہے کہ حکومت اور میڈیا میں بیٹھے ذمہ دار افراد بھی اس طرح کے الفاظ استعمال کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے اور نہ ایک کمیونٹی کی دل آزاری کی پرواہ کرتے ہیں، بلکہ پرواہ کیا کریں گے یہ تو ایسا اس کمیونٹی کی دشمنی میں کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو پرانے دور سے چلا آ رہا ہے کہ کہیں بھی دہشت گردانہ واقعہ پیش آ جائے تو اس کو جہاد کا نام دے کر اسلام اور مسلمانوں پر طعنے، تہمتیں اور ناحق الزام عائد کئے جاتے ہیں۔
مولانا محمود مدنی نے آگے کہا کہ یہ واضح ہونا چاہے کہ اسلام میں جہاد ایک مقدس دینی فریضہ ہے۔ جہاد قرآن میں کئی معنوں کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن جس معنیٰ لئے بھی استعمال ہوا ہے، فرض سے لے کر سماج و انسانیت کی بھلائی، ان کی سر بلندی اور ان کے عزت و وقار کے قیام کے لئے ہوا ہے۔ جہاں جنگ و قتال کے معنی میں استعمال ہوا ہے، وہ بھی ظلم و فساد کے خاتمے اور انسانیت کی بقاء کے لئے استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے جب جب ظلم ہوگا، تب تب جہاد ہوگا۔ انہوں نے کہا "میں اس کو دوبارہ کہتا ہوں، جب جب ظلم ہوگا تب تب جہاد ہوگا"۔ اسی کے ساتھ انہوں نے عدالتوں پر حکومت کے زیر اثر کام کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کے فیصلے اور اس طرح کے کئی دیگر فیصلوں کے بعد یہ تاثر بڑھ رہا ہے کہ عدالتیں حکومتوں کے دباؤ میں کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر سپریم کورٹ اپنا فرض ادا نہیں کرتی تو وہ سپریم کورٹ کہلانے کی مستحق نہیں ہے۔