پاکستان اور افغانستان کی سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گئی ہے، طلحہ محمود
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر طلحہ محمود نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور قطر پاکستان اور افغانستان کے معاملے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ پر رابطہ عالمِ اسلامی کے سربراہ ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ سرحد بھارت کی وجہ سے غیر محفوظ ہو گئی ہے اور پاکستان اور افغانستان کی محبتیں نفرتوں میں بدل گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل عبدالکریم العیسیٰ 9 روزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے
’سعودی عرب اور قطر کشیدگی کے خاتمے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں، لیکن ہمیں افسوس ہے کہ ہماری 40 سال کی قربانیوں کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔‘
اس موقع پر انہوں نے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ وہ امتِ مسلمہ کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں اور پوری امت کے لیے یکجہتی کی علامت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ صدر آصف زرداری نے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی کو نشانِ پاکستان دینے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا ہے اور ہم بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ ڈاکٹر عیسیٰ کو نشانِ پاکستان دیا جائے۔
مزیدپڑھیں: عالمی عدالتِ انصاف کے اسرائیل کو فوجی کارروائی سے روکنے کے حکم کا خیر مقدم کرتے ہیں، رابطہ عالم اسلامی
انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگلی مرتبہ جب ڈاکٹر عیسیٰ کو اگلی مرتبہ پاکستان آمد پر انہیں نشانِ پاکستان سے نوازا جائے گا۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نے کہا کہ رابطہ عالمِ اسلامی دنیا سے اسلاموفوبیا کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
انہوں نے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعمیر و ترقی کے لیے دعا کی اور 3 مرتبہ ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگایا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلاموفوبیا آصف زرداری افغانستان پاکستان پیپلز پارٹی ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی طلحہ محمود نشان پاکستان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسلاموفوبیا افغانستان پاکستان پیپلز پارٹی ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی نشان پاکستان ڈاکٹر محمد بن عبدالکریم العیسی رابطہ عالم انہوں نے کے لیے کہا کہ نے کہا
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ نے افغان بارڈر کی بندش پر نظرثانی کی درخواست کردی، فیصلہ قیادت سے مشاورت کے بعد ہوگا: اسحاق ڈار
نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ نے پاکستان سے افغان بارڈر کی بندش کے فیصلے پر نظرثانی کرنے کی باضابطہ درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر عسکری قیادت اور وزیراعظم سے مشاورت کی جائے گی۔
اسلام آباد میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ روز دفترِ خارجہ کو اقوام متحدہ کی جانب سے خط موصول ہوا ہے جس میں درخواست کی گئی ہے کہ افغانستان کے ساتھ بارڈر بند رکھنے کے فیصلے پر دوبارہ غور کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان لازمی غذائی اشیا کے لیے افغان عوام کو سہولت دینے پر غور کرے گا اور امید ہے کہ اس حوالے سے اجازت جلد دے دی جائے گی۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ وہ اب تک افغانستان کے تین دورے کر چکے ہیں اور واضح کر چکے ہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں ہوتے۔ افغان عبوری حکومت کو سمجھایا ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو مشکلات صرف پاکستان کے لیے نہیں، افغانستان کے لیے بھی بڑھیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں افغانستان سے کچھ نہیں چاہیے، بس اتنی درخواست ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور ’’ضرورت پڑی تو دہشت گردوں کو گھر میں گھس کر ماریں گے‘‘۔ ان کے مطابق قطر کی درخواست پر کلین اپ آپریشن کچھ عرصے کے لیے روکا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ سرحد ہم نے خوشی سے بند نہیں کی، 40 لاکھ سے زائد افغان شہری برسوں سے پاکستان میں مقیم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے وزیر خارجہ نے تجویز دی ہے کہ روس، ایران، قطر، ترکی، پاکستان اور افغانستان مل بیٹھ کر مسائل پر بات کریں۔ یورپی یونین حکام کو بھی پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ افغانستان میں امن چاہتا ہے۔
وزیر خارجہ نے بتایا کہ پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کو ریلوے کے ذریعے جوڑنے کے منصوبے پر بھی کام ہوا تھا اور تینوں ممالک کی موجودگی میں معاہدہ سائن کیا گیا، مگر عملی سطح پر پیش رفت نظر نہیں آئی۔ ‘‘ہم اچھے اقدامات کرتے رہیں اور دوسری طرف رویہ ایسا ہو تو معاملہ مشکل ہوجاتا ہے،’’ انہوں نے کہا۔
اسحاق ڈار نے اپنے دورۂ ماسکو کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ صدر پیوٹن سمیت دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں بہت مثبت رہیں، اور یورپی یونین کے ساتھ بھی کھل کر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ وقت زیادہ دور نہیں جب دنیا—مسلم اور غیر مسلم—دہشتگردی کے خاتمے کے لیے متحد ہو جائے گی، اور پاکستان اس تعاون میں ایک قدم آگے بڑھ کر کردار ادا کرے گا۔