شیراز میں خطاب کرتے ہوئے بسیج مستضعفین جہان کے کمانڈر نے کہا کہ مزاحمت کے راستے کو جاری رکھنا امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور عالمی انصاف کے قیام کی راہ ہموار کرے گا، مزاحمت کا راستہ ایرانی قوم اور عالم اسلام کی فتح اور وقار کی کنجی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بسیج مستضعفین جہان کے کمانڈ رجنرل سلیمانی نے دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپ اور امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مزاحمت پھیل رہی ہے۔ جنرل غلام رضا سلیمانی نے شیراز میں شہدائے قدس بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کیا۔ انہوں نے پہلی ایرانی شہیدہ "معصومہ کرباسی" کی شہادت کی پہلی برسی  کے موقع پرلبنان، مقاومتی محاذ  اور 12 روزہ اسرائیل ایران کے شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے شہر شیراز کو حاصل خصوصیات اور اعزازات پربات کرتے ہوئے کہاکہ اس شہر نے ایران سے مزاحمتی محاذ کے پہلی شہید ہ کی پرورش کی ہے، جو صیہونی مجرموں کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔

جنرل سلیمانی نے مقاومتی محاذ کی کامیابیوں اور مزاحمتی ثقافت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کلچرحالیہ برسوں میں انسانی زندگی کے اہم ترین اور بنیادی امور میں سے ایک بن چکاہے اور اس کی جڑیں اسلامی انقلاب میں پیوست ہیں۔انہوں نے حاج قاسم سلیمانی  کومزاحمتی شہداء کا قائد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی قوم نے عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ اور صیہونی حکومت کے خلاف 46 سال کی مزاحمت کرکے دکھا کر ثابت کیا ہے کہ مزاحمت کا نتیجہ ہمیشہ فتح ہی ہے۔ بسیج مستضعفین کے کمانڈر نے دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ یورپ اور امریکہ سمیت مختلف ممالک میں مزاحمت پھیل رہی ہے۔

انہوں نے ایمان اور مزاحمتی نفسیات کو نرم طاقت قرار دیتے ہوئے کہاکہ دشمن جدید ٹیکنالوجی کے باوجود مزاحمت کے مقابلے میں فتح حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں،حزب اللہ لبنان کے خلاف صیہونی حکومت کی شکست اور صیہونی حکومت کی ننگی جارحیت کے خلاف غزہ کے عوام کی مزاحمت جیسی فتوحات اسکی مثالیں ہیں۔ جنرل سلیمانی نے مسئلہ فلسطین اور غزہ کے عوام کی مزاحمت کا حوالہ دیاکہ انہوں نے بمباری اور شدید محاصرے کے باوجود مزاحمت کی۔ انہوں نے مزید کہاکہ غزہ کے عوام نے مسئلہ فلسطین کو زندہ کر کے دوبارہ عالمی ایشو میں تبدیل کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی مزاحمت  فتح کی علامت ہے اور انہوں کر دکھایا ہے کہ مشکل حالات میں بھی عوام کی قوت ارادی اور مزاحمتی عمل کی فتح ہوتی ہے۔ بسیج مستضعفین تنظیم کے کمانڈر نے ٹیکنالوجی اور سائنس کے غلط استعمال میں مغرب کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ مغرب نے علم اور ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرکے عالمی جنگوں اور بڑے بحرانوں کو جنم دیا ہے اور ٹیکنالوجی کوانسانیت،امن ا ور ترقی کے بجائے تسلط اور عالمی جنگوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ جنرل سلیمانی نے اپنے خطاب کو جاری رکھتے ہوئے 12 روزہ جنگ کے دوران ایرانی قوم کی طاقت کا حوالہ دیا۔

انکا کہنا تھا کہ اس جنگ کا نتیجہ لوگوں میں مزاحمت اور وفاداری کے جذبے کی تقویت کی صورت میں نکلاہے اور یہ طاقت ثقافتی اور سائنسی نشاۃ ثانیہ کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ مزاحمت قوموں کی کامیابی اور فتح کا راستہ ہے اور حاج قاسم سلیمانی جیسی نمایاں مثالیں اس مزاحمتی ثقافت کی نشاندہی کرتی ہیں جو عالم اسلام اور اس سے اب اس بھی باہر پروان چڑھ چکی ہے۔" انہوں نے آج کی دنیا میں صیہونیوں کے جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مزید کہاکہ "یہ گروہ نہ صرف فلسطینی علاقوں میں قبضہ کئے ہوئے ہےبلکہ مغرب اور یورپ میں بھی اثر و رسوخ رکھتا ہے اور ایران جیسے مسلم ممالک کو کمزور کرنے کی سازشوں کے درپے ہے۔

بسیج مستضعفین جہان کے کمانڈر نے کہا کہ"مغرب کا ہدف اسلام کی حامی طاقتوں کو کمزور کرنا ہے تاکہ وہ دنیا پر اپناغلبہ حاصل کر سکیں، اور اس مقصد کے لیے مغرب نے دنیا کے ثقافتی اور فوجی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کے وسیع منصوبے بنارکھے ہیں، جس میں امریکی فوج میں صیہونی نظریات کو داخل کرنا اور جنگ کے ذریعے دوسری اقوام میں عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دینے کی کوشش بھی شامل ہے۔" جنرل سلیمانی نے قوموں کی بیداری اور بصیرت کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر قومیں ان عوامل سے غافل رہیں تو مستقبل میں انہیں سنگین بحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے دشمنوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزاحمتی ثقافت کے کردار اور اس پر بھروسہ کرنے پر تاکید کی اور کہا کہ اس راستے کو جاری رکھنا امام مہدی علیہ السلام کے ظہور اور عالمی انصاف کے قیام کی راہ ہموار کرے گا۔ جنرل سلیمانی نے مزاحمتی ثقافت کے تحفظ اور تقویت کی اہمیت پر تاکید کی اور کہا کہ مزاحمت کا راستہ ایرانی قوم اور عالم اسلام کی فتح اور وقار کی کنجی ہے۔ واضح رہے کہ شہیدہ معصومہ کرباسی لبنان میں خدمات کے دوران صیہونی غاصب افواج کی بمباری کے نتیجے میں شہید ہو گئی تھیں۔  

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل سلیمانی نے بسیج مستضعفین مزاحمتی ثقافت کرتے ہوئے کہا کے کمانڈر نے ایرانی قوم کہ مزاحمت مزاحمت کا کی مزاحمت انہوں نے ہے اور کہا کہ اور اس

پڑھیں:

جرائم اور طاقت کی دنیا عام انسان کو اتنی پرکشش کیوں لگتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2025ء) سینما ہال میں خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ پردے پر ایک گینگسٹر پولیس کو للکارتا ہے اور ہال تالیوں سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ گینگسٹر دیسی فلموں کا سلطان راہی، بالی وڈ فلم کا سردار یا ہالی وڈ کے گاڈ فادر گینگ کا کوئی بھی کردار ہو سکتا ہے۔ اس کی طاقت کو سراہنے والے تماشائی وہ لوگ ہیں جو روز اپنے دفتر، دکان یا رکشہ چلاتے ہوئے معمولی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

سماجی ماہرین اور نفسیات دانوں کے مطابق یہ تضاد حیران کن اور دلچسپ ہے۔ آخر ہم ان لوگوں سے اتنے متاثر کیوں ہوتے ہیں جو قانون توڑتے ہیں، جو طاقت اور خطرے کی سرحد پر جیتے ہیں؟

یہ سوال محض فلموں یا فرضی کرداروں تک محدود نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا پشاور کا ملک آدم خان ہو یا لاہور کا طیفی بٹ، سوشل میڈیا پر لاکھوں کی فالوئنگ رکھنے والے ایسے افراد کی جرائم پیشہ زندگی لوگوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی ، مگر لوگوں کا رویہ نفرت سے زیادہ دلچسپی اور تجسس پر مبنی ہوتا ہے۔

طاقت، خطرہ اور بغاوت: انسانی کشش کی جڑیں کہاں ہیں؟

2011 میں شائع ہونے والی تحقیق ''اٹریکٹڈ ٹو کرائم: یورپ کے تین شہروں میں مجرمانہ رجحان کی جانچ‘‘ جرائم سے دلچسپی کو غربت، محرومی اور غیر مساوی مواقع سے جوڑنے والے روایتی نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔

امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود اس تحقیق کے مطابق سنسنی، بغاوت اور طاقت کے احساس سے جڑی سرگرمیاں عام انسان کے لیے ایک خاص قسم کی کشش اور گرمجوشی رکھتی ہیں، یہ الگ بات کہ وہ حقیقی زندگی میں موقع ملنے پر ایسا قدم نہ اٹھا سکے، مگر عام شخص اپنے اندر اس کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ، ”جرم اور طاقت کی دنیا کی کشش محض سماجی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی فطرت میں موجود خطرے، غلبے اور پابندیوں سے آزادی کی خواہش کا مظہر ہے۔ سماجی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کی حدود پار کرنے سے حاصل ہونے والا یہ لذت گیر احساس ہمیں بار بارجرائم پیشہ افراد یا باغی کرداروں کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔

"

اس نفسیاتی احساس کی وضاحت کرتے ہوئے نفسیات دان ڈاکٹر اسامہ بن زبیر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”یہ تسکین بقا کی جبلت سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانی دماغ کا نظام آج بھی قبائلی طرز زندگی کے زیر اثر ہے جہاں بقا کی ضمانت طاقت تھی۔ جرائم پیشہ افراد یا گینگسٹرز کا خطرہ مول لینا، اصول توڑنا اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنا ہمیں کسی پرانی فطری یاد کی طرح مسحور کرتا ہے۔

" کیا طاقت کی کشش ارتقاء سے جڑی ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی میں کرمنالوجی شعبے کے بانی اور ماہر سماجیات ڈاکٹر محمد زمان اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”انسانی دماغ ہمیشہ سے طاقت کو تحفظ کے ساتھ جوڑتا آیا ہے۔ ارتقائی طور پر وہی زندہ رہا جو زیادہ طاقتور تھا، اسی لیے دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش انسان کی گہری جبلتوں میں رچ بس گئی۔

شاید اسی فطری یادداشت کے باعث آج بھی انسان طاقتور کرداروں سے خوف نہیں بلکہ ایک عجیب سا اطمینان اور اعتماد محسوس کرتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”جو معاشرے ابھی تک قدیم رویے اور طاقت کے روایتی تصور سے جڑے ہیں وہاں طاقت کی گلوریفیکشن زیادہ ہے، جہاں ادارے اور سسٹم مضبوط ہیں وہاں ایسا کم ہے۔ ہمارا سماج روایتی طرز زندگی اور موثر سسٹم نہ ہونے کے سبب طاقتور اور باغی کرداروں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

" جرم کی ثقافتی فینٹسی: فلم کے پردے سے سوشل میڈیا پوسٹ تک

بہت سے ناقدین کی رائے ہے کہ گاڈ فادر اور سکارفیس جیسی فلموں نے جرم کی دنیا کو خوفناک سے زیادہ دلکش بنا کر پیش کیا اور ان کے اثرات دنیا بھر کے سینما اور سماج پر مرتب ہوئے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ثقافتی نقاد زیف سید کہتے ہیں، ”سوٹ، سگریٹ اور فلسفیانہ جملوں سے سجی گینگسٹر فلمیں شاید براہِ راست ذمہ دار نہ ہوں، مگر تشدد کو دلکش بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہم اور وسیع ہے۔

سینما نے جرم کو ایک 'ڈرامیٹک رومانس‘ کی شکل دی، جہاں بندوق سے زیادہ کشش کردار کے اعتماد، انداز اور خود مختاری میں ہوتی ہے۔"

وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”سکارفیس میں تقریباً چالیس افراد کی موت دکھائی جاتی ہے لیکن فلم دیکھنے کے بعد ہمارے ذہنوں میں بے دردی سے مارے جانے والے مناظر کی بجائے ٹونی مونٹانا (فلم کا مرکزی کردار، ڈان) کی شان و شوکت اور طاقت کا نقش زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

"

ڈیجیٹل کلچر کی محقق اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ اسکالر زنیرہ چوہدری سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے جرائم کی دنیا کے بارے میں انسانی تجسس کو ایک نئی جہت دی ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اب جرم صرف کہانی کا موضوع نہیں، وائرل مواد ہے۔ ہر شہر اور گاؤں کی ایک سوشل میڈیا کمیونٹی ہے جہاں ایسے لوگ ہیرو کی طرح راج کرتے ہیں۔

اگر طاقت اور پیسہ زیادہ ہے، جرائم کا دائرہ وسیع ہے تو ایسا ڈان پورے ملک میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ اور طیفی بٹ کی لڑائی کے قصے محض لاہور تک محدود نہیں رہے بلکہ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک کے زریعے پورے ملک میں پھیلے ہیں۔" سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی مقبولیت عام افراد کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟

زنیرہ چودھری کہتی ہیں، ”سوشل میڈیا نے اپنی ایک الگ زبان پیدا کی، جہاں طاقت، خطرہ، جارحیت اور بغاوت اکثر دلچسپ مواد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

لوگ بندوق، گاڑی، یا گینگ لائف کی ویڈیوز محض تشدد یا کسی کو اکسانے کے لیے نہیں بلکہ طاقت کی علامت کے طور پر پوسٹ کرتے ہیں۔"

ان کے نزدیک سوشل میڈیا نے تشدد کو خوبصورت بنانے کے رجحان کو بے حد فروغ دیا ہے کیونکہ، ”یہاں جارحیت کو لائکس، ویوز اور فالوورز کی شکل میں انعام ملتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جہاں پہلے فلموں یا خبروں میں تشدد دکھایا جاتا تھا، اب عام لوگ خود اس کا حصہ بن کر تشدد کو تفریح بنا رہے ہیں۔ طاقت کا اظہار ثقافتی فینٹسی ہے جسے نوجوان بسر کرتے ہیں۔"

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے ناقابلِ قبول ہیں، رانا تنویر حسین
  • مزاحمتی ثقافت یورپ اور امریکہ تک پھیل چکی ہے، جنرل سلیمانی
  • امریکہ و فرانس کے سامنے "سفارتی آہ و زاری" بیکار ہے، حزب اللہ لبنان
  • مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں، نرسوں کے استحصال کے خلاف احتجاجی مظاہرے
  • یمن: یو این عملے کے خلاف حوثیوں کے الزامات مسترد
  • وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی امریکہ میں فچ ریٹنگز کے حکام سے ملاقات
  • جرائم اور طاقت کی دنیا عام انسان کو اتنی پرکشش کیوں لگتی ہے؟
  • جیکب آباد ،دھان کی فصل کے نرخ میں کمی کیخلاف ایس ٹی پی کا احتجاج
  • مقاومت نے آزادی، عزت اور وقار کا نیا باب کھول دیا، حماس رہنماء