لاہور آلودہ ترین شہروں میں پہلے نمبر پر آ گیا
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (صباح نیوز+آن لائن) لاہور کی فضا شدید آلودہ ہوگئی، اسموگ کے باعث شہریوں کو غیر ضروری طور پر گھروں سے باہر نہ جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لاہور فضائی آلودگی میں دنیا میں پہلے نمبر پر آگیا، اسموگ مانیٹرنگ سینٹر کے مطابق مشرق سے آنے والی ہوائوں کی زد میں اوسط اے کیو آئی 292 تک پہنچ گیا ہے۔ صبح کم درجہ حرارت کے باعث آلودہ ذرات زیادہ دیر فضا میں معلق رہیں گے، زیادہ فضائی آلودگی کی زد میں آنے والے علاقوں میں اینٹی اسموگ گنز استعمال کی جائیں گی۔محکمہ موسمیات کے مطابق تاحال لاہور میں بارش کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔علاوہ ازیں پنجاب کے مختلف شہروں میں اسموگ کے مضر اثرات انسانی صحت پر نمایاں ہونے لگے ہیں۔ اسموگ کے باعث شہری بخار، نزلہ، زکام اور سانس کی تکالیف میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ ڈی جی ماحولیات عمران حامد شیخ کا کہنا ہے کہ اسموگ کے تدارک کے لیے حکومت کی جانب سے جامع اقدامات جاری ہیں۔اسپتالوں میں آنکھ، گلے اور پھیپھڑوں کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر مریضوں کو سر درد، آنکھوں میں خارش، سانس میں دشواری اور تھکن جیسی علامات لاحق ہیں۔انہوں نے کہا کہ ا سموگ کوئی قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی سرگرمیوں کا نتیجہ ہے۔ اس کے تدارک کے لیے حکومت، عوام اور صنعتی اداروں کو مل کر موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔ماہر امراض صحت ڈاکٹر مسلم شمعون نے شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ماسک پہننے کی عادت اپنائیں، پانی کا زیادہ استعمال کریں، رات کے وقت پارکوں میں جانے سے گریز کریں اور احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی سطح پر اسموگ سے بچاؤ کے لیے عوامی آگاہی مہم کو فروغ دینا ضروری ہے۔ماہرین کے مطابق اسموگ کے اثرات انسانی زندگی پر خطرناک حد تک بڑھ چکے ہیں، جلدی امراض، پھیپھڑوں کی بیماریوں اور آنکھوں میں موتیا کے کیسز میں اضافہ تشویشناک ہے۔ شہریوں کو اپنی اور دوسروں کی صحت کے تحفظ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا لازمی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
دنیا میں سب سے زیادہ قرض امریکا پر، بھارت کا نمبر ساتواں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کی معیشت پر قرضوں کا بوجھ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور اس حوالے سے ایک تازہ رپورٹ میں حیران کن حقائق انکشافات ہوئے ہیں۔
امریکی تحقیقی ادارے ورلڈ پاپولیشن ریویو کی رپورٹ کے مطابق امریکا اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، جس پر مجموعی طور پر 32.9 ٹریلین ڈالر کا قرضہ چڑھا ہوا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق ہر امریکی شہری پر اوسطاً 76 ہزار ڈالر کا قرض بنتا ہے، جو عالمی معیشت کی نازک صورتحال کو ظاہر کرتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ قرضوں کی اس فہرست میں چین 15 ٹریلین ڈالر کے ساتھ دوسرے، جاپان 10.9 ٹریلین ڈالر کے ساتھ تیسرے، جب کہ برطانیہ اور فرانس 3.4 ٹریلین ڈالر کے قرضوں کے ساتھ بالترتیب چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ اٹلی 3.1 ٹریلین ڈالر کے ساتھ چھٹے اور بھارت 3 ٹریلین ڈالر کے قومی قرض کے ساتھ ساتویں نمبر پر ہے۔
بھارتی معیشت کے بارے میں رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بھارت پر 3 ہزار ارب ڈالر سے زائد قومی قرض ہے اور ہر بھارتی شہری اوسطاً 504 ڈالر کا مقروض ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت میں حکومت ہر سال اربوں ڈالر صرف قرض کے سود کی ادائیگی پر خرچ کر رہی ہے جب کہ ملک کی بڑی آبادی اب بھی بنیادی ضروریاتِ زندگی ، تعلیم، صحت، روزگار اور صاف پانی سے محروم ہے۔
یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت کی تیز رفتار ترقی کے دعوے زمینی حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔
پاکستان کا اس فہرست میں 33واں نمبر بتایا گیا ہے، جس پر مجموعی طور پر 260.8 ارب ڈالر کا قومی قرض ہے۔ فی کس کے لحاظ سے ہر پاکستانی تقریباً 543 ڈالر کا مقروض ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو قرضوں کے ساتھ ساتھ سود کی ادائیگیوں کا دباؤ بھی درپیش ہے، جس سے معیشت پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
بنگلا دیش کا قومی قرض 177.6 ارب ڈالر ہے اور ہر شہری 611 ڈالر کا مقروض ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ بنگلا دیش کا کل قرض پاکستان سے کم ہے، مگر فی کس قرض کی شرح قدرے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بڑے ممالک میں افغانستان سب سے کم مقروض ملک ہے، جس پر صرف 1.6 ارب ڈالر کا قرض ہے اور فی افغان شہری پر صرف 30 ڈالر کا بوجھ ہے۔ اسی طرح اگر فی کس قرض کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آئرلینڈ دنیا میں سرفہرست ہے، جہاں ہر شہری پر حیران کن طور پر 6 لاکھ 14 ہزار ڈالر کا قرض ہے۔
عالمِ اسلام کے تناظر میں رپورٹ نے یہ انکشاف کیا کہ مسلم دنیا کے کئی بڑے ممالک بھی قرض کے دائرے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان میں انڈونیشیا 543 ارب ڈالر کے ساتھ مقروض ترین مسلم ملک ہے، اس کے بعد مصر 377 ارب، ترکی 330 ارب، سعودی عرب 280 ارب اور ملائیشیا 278 ارب ڈالر کے قومی قرض کے ساتھ فہرست میں شامل ہیں۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بڑھتے قرضوں کی یہ صورتحال اس بات کی علامت ہے کہ عالمی مالیاتی نظام تیزی سے غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ بلند شرح سود، بجٹ خسارے، اور حکومتی اخراجات میں بے احتیاطی نے کئی ملکوں کو قرض کے جال میں پھنسا دیا ہے۔
اگر یہی رجحان جاری رہا تو آنے والے برسوں میں نہ صرف ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی شدید مالی بحرانوں کا سامنا کر سکتے ہیں۔ عالمی سطح پر معیشت کے توازن کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ ممالک اپنے قرضوں کے ڈھانچے پر نظرثانی کریں اور پائیدار معاشی پالیسیاں اپنائیں۔